سورن سنگھ خوش نصیب تھا – ضیاالدین یوسف زئی
شہید سردار سورن سنگھ کے قتل کی خبر آتے ہی کسی خراسانی نے نامعلوم مقام سے بیان دیا کہ سورن سنگھ کو طالبان نے قتل کیا ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ’’سورن سنگھ حکومت کا اعلیٰ عہدیدار تھا اور کچھ دیگر وجوہات بھی تھیں جن کے بارے میں بعض ادارے، جہاں وہ کام کرتا تھا، ان کو علم ہے۔‘‘ ہم نے بھی فوراً یقین کرلیا کیوں کہ پچھلے چو دہ سالوں سے یہی روایت چلی آ رہی ہے۔ قتل و قتال کا یہی معمول رہا ہے کہ وادئ سوات (بونیر، شانگلہ اور موجودہ سوات) کے طول و عرض میں جب بھی کوئی سرکردہ آدمی، کام کا آدمی اور بولتی زبان کا آدمی مارا جاتا ہے تو دفعتاً کوئی احسان اللہ احسان، کوئی شاہد اللہ شاہد اور اب کوئی خراسانی ذمہ داری قبول کرلیتا ہے۔
میڈیا پر طالبان کی ذمہ داری کی خبر سن کر میرا بھی خون کھول اٹھا۔ قہر درویش برجانِ درویش اور کر بھی کیا سکتا تھا، بس جلد ہی ایک ٹویٹ داغ دی۔
طالبان ہر بولتی زبان کو خاموش کرنا چاہتے ہیں اور ہر اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہیں جو امن کے لیے کام کرتا ہو۔ ہے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں ہمت ہے کہ طالبان کا نام لے کر ان کی مذمت کریں؟ )
جماعت اسلامی نے تو خیر چپ سادھ لی، البتہ محترم عمران خان نے پاناما پیپرز پر اپنے اس دن کی پریس کانفرنس کی تمہید سورن سنگھ سے باندھی۔ انھوں نے حسب معمول انتہائی پارلیمانی لہجے میں لفظوں کو چن چن کر واقعے پر گہرے افسوس کا اظہار کیا اور طالبان کا نام تو درکنار لفظ مذمت پر بھی لب کشائی نہ فرمائی۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ عمران خان نے ٹھیک ہی کیا کیوں کہ اگلے دن ڈی آئی جی ملاکنڈ آزاد خان نے سورن سنگھ کے قتل سے بھی بڑی خبر سنائی۔ انھوں نے پورے وثوق کے ساتھ معہ جملہ ثبوت جعلی طالبانی دعوے کو جھوٹا قرار دیا اور اس گھناؤنے قتل میں ملوث تمام کرداروں سے پردہ اٹھایا۔ قاتل اپنا ہی ایک بد بخت بال دیو کمار نکلا۔
دیکھا جو کھا کے تیر کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
سورن سنگھ کے اصل قاتلوں کے بارے میں جاننے کے بعد سب سے پہلے تو مجھے اپنی اس ٹویٹ پر افسوس اور شرمندگی ہوئی جس میں مَیں نے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو بے محل چیلنج کردیا تھا۔ پھر اس بات پر دُکھ ہوا کہ سیاست تو صبر، احترام اور محبت سے عبارت ہوتی ہے۔ سیاست اور دہشت گردی دو متضاد عوامل ہیں۔ سیاست میں دہشت کہاں سے در آئی کہ آپ اپنے سیاسی مخالف کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں لیکن ساتھ ساتھ ایک عجیب سا اطمینان بھی ہوا کہ چلیں سردار صاحب اتنے تو خوش نصیب تھے کہ ایک معلوم قاتل کے ہاتھوں مارے گئے ورنہ اپنے سوات میں تو آج تک درجنوں کے حساب سے وی ڈی سی ممبران، جرگوں کے مشران اور سیاسی کارکنان کو قتل کردیا گیا ہے لیکن کسی کے قاتل یا واردات میں ملوث کرداروں کا کبھی کوئی پتا نہیں چل سکا۔ بس پچھلے چودہ برس سے ٹارگٹ کلنگ کی ایک سٹیریو ٹائپ کہانی چل رہی ہے۔
وی ڈی سی ممبر ہو، کسی گاؤں کا کوئی معتبر شخص ہو، یا کوئی متحرک سیاسی ورکر ہو، اسے صبح کی نماز کے لیے جاتے ہوئے یا عشاء کی نماز سے آتے ہوئے کبھی علی الصبح گھر سے نکلتے وقت، کہیں سر بازار چلتے وقت اور کبھی دن دیہاڑے سڑک کے کنارے مارا جاتا ہے۔ بسا اوقات طالبان ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں اور کبھی ذمہ داری کے حوالے سے خاموشی چھائی رہتی ہے اور یوں نئی ٹارگٹ کلنگ تک پرانے ٹارگٹ کلنگ پر ہونے والی دھیمی دھیمی، دبی دبی چہ میگوئیاں دھیرے دھیرے دَم توڑ دیتی ہیں۔ مقتول چلا جاتا ہے اور اس کے لواحقین صبر کا کڑوا گھونٹ پی کر سرد آہ بھرتے ہیں اور انصافِ خداوندی کے لیے بے بس نظروں سے آسمان کی بے پناہ وسعتوں کی طرف نگاہ اٹھا لیتے ہیں۔
سوچتا ہوں کہ زہے نصیب اگر مرحوم افضل خان لالا کے ڈرائیور شیر عالم خان اور سکیورٹی گارڈ محمد خالق کے قاتلوں سے لے کر تازہ ترین مقتولین جمشید علی خان منگلور اور محمد الیاس شانگلہ تک سب کے قاتلوں کا پتا چل جائے۔ کاش سورن سنگھ کے قاتلوں کی طرح یہ بھی معلوم ہوجائے کہ شکر درہ کے مظفر علی خان، مختیار خان اور ان کے اہل خانہ کے دس پہاڑ جیسی قد و قامت والے توانا ترو تازہ نوجوانوں، چارباغ کے سجاد خان، قمبر کے فضل حیات چٹان اور ان کے بھائی سید علی خان، دمغار کے افضل خان، مینگورہ کے محمد فاروق خان، شاہ ڈھیرئی کے وقار خان کے بھائیوں، شاہی خاندان کے چشم و چراغ اسفندیار امیر زیب، برہ بانڈئی کے شیر خان اور خلیل خان، ڈھیرئی کے ڈاکٹر شمشیر علی خان (ایم پی اے) اور سوات رکشہ ایسوسی ایشن کے صدر حاجی سردار علی اور ان جیسے بیسیوں نامی گرامی مشران کے قاتلوں کا پتا چل سکے۔ کاش ان کو بھی کوئی اپنا ہی بال دیو کمار مارچکا ہوتا۔شاید آپ کو میری یہ گفت گو بہت عجیب و غریب لگے لیکن آپ خود جاکر کسی مقتول کے بیٹے یا بیوہ سے پوچھئے تو وہ بتادیں گے کہ قاتل اور حملہ آور کے معلوم ہونے اور گرفتار ہونے سے پس ماندگان کو ایک گونہ تسلی ہوجاتی ہے۔ تاریک راہوں میں مارے جانا قتل ہونے سے بھی بڑا دکھ اور ستم بالائے ستم ہے۔
کسی بھی قتل کے واقعے میں مقتول تو دارِ فانی سے کوچ کرجاتا ہے لیکن پس ماندگان کے تین سوالات بہت اہم ہوتے ہیں۔ نمبر ایک، قتل کس نے کیا؟ نمبر دو کیا قاتل پکڑا جائے گا؟ نمبر تین کیا اسے سزا مل سکے گی؟ یہ انسانی مزاج اور فطرت ہے کہ قاتل معلوم ہوجائے تو پس ماندگان کی کسی حد تک تسلی ہوجاتی ہے۔ پکڑا جائے تو ان کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور اگر اسے قرار واقعی سزا بھی ملے تو وہ سکھ کا سانس بھی لیتے ہیں۔ کیوں کہ ریاست جب بروقت انصاف فراہم کرتی ہے تو اس سے معاشرے کو امن اور فرد کو اطمینان مل جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر قاتل نامعلوم افراد ہوں یا طالبان کا ترجمان کوئی ’’خراسانی‘‘ ہو تو سمجھیں کہ خونِ حق، ناحق بہ گیا۔ کیوں کہ نامعلوم افراد کب معلوم ہوتے ہیں اور رہی بات طالبان کی، وہ تو سند یافتہ قاتل ہیں۔ کسی بھی وقت کہیں بھی کسی کو مارسکتے ہیں۔
سوات کے مجموعی حالات 2007ء سے 2009ء تک کے مقابلہ میں آج بہتر ہیں۔ اب خودکش حملوں میں بہ یک وقت درجنوں افراد لقمۂ اجل نہیں بنتے لیکن یہ اَمر بھی افسوس ناک ہے کہ بہ ظاہر نظر آنے والے امن نے اندر ہی اندر کتنے دانا مشران، بہادر وی ڈی سی ممبران اور سیاسی کارکنان کو نگل لیا۔ اس کا کوئی حساب رکھا جاتا ہے اور نہ اسے غیرمعمولی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ قصۂ مختصر سورن سنگھ شاید واحد مقتول ہیں جن کے پس ماندگان خوش نصیب ہیں کہ پولیس نے بروقت موثر کارروائی کرکے نہ صرف مجرموں کا کھوج لگایا بلکہ انھیں گرفتار بھی کرلیا۔ امید واثق ہے عدالت انھیں کیفر کردار تک بھی پہنچائے گی۔
بدنصیب ہیں وہ سارے پس ماندگان جن کے پیارے تاریک راہوں میں مارے گئے۔ جن کو ’’خراسانی‘‘ نامی بلا نے نگل لیا ہے۔ جب تک ’’خراسانی‘‘ زندہ ہے، بولتی زبانیں سفاکی سے خاموش کی جاتی رہیں گی اور اٹھنے والے سر بے دردی سے گرائے جاتے رہیں گے۔
شاید آپ کو نہیں معلوم کہ سوات میں جب کسی نامی گرامی شخصیت کی موت کی خبر آتی ہے تو انا للہ و انا الیہ راجعون سے پہلے لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ’’کیا مرحوم اپنی طبعی موت مرا ہے؟‘‘ اگر جواب ہاں میں ہو تو پوچھنے والے وفات پر افسوس کی بجائے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔
Source: