سعودی عرب اور مصر کے درمیان پل کی تعمیر کا اعلان حقیقت کیا ہے ؟
کون سے دو اہم جزیرے اسرائیلی قبضے میں ہیں ؟اسرائیلی شرائط کیا ہیں ؟ سعودی عرب کے بادشاہ نے اپنے دورہ مصر کے دوران ایک ایسے پل کی تعمیر کی بات کی ہے جو مصر اور سعودی عرب کو زمینی اعتبار سے باہم متصل کردے جیسا کہ اس وقت بحرین اور سعودی عرب کے درمیان اس قسم کا ایک پل موجود ہے
یہاں سوال یہ ہے کہ اس قسم کا پل کہاں اور کیسے تعمیر ہوگا ؟اوراس کی کس قدر اہمیت ہے ؟ مصر ،سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان’’ تيران اورصنافير‘‘نامی دو جزیرے واقع ہیں جس پر دونوں کا دعوا ہے کہ یہ جزیرے ان کے ہیںلیکن اسرائیل عرب جنگ سے پہلے سعودی عرب اور مصر میں طے پائے جانے والے ایک معاہدے کے بعد ان جزیروں پر مصری افواج موجود رہتی تھیں لیکن سن 1967کی جنگ کے دوران اسرائیل ان جزیروں پر قابض ہواہے جبکہ 1990 میں کیپ ڈیویڈجیسے شرم آور و متنازعہ معاہدے کے بعد سے ان دوجزیروں میں اقوامتحدہ کی افواج کا قیام ہے۔
دلچسب بات یہ ہے کہ اکثر عرب دنیا اور مسلم دنیا ان دو جزیروں کی موجودگی سے واقف ہی نہیں جس کی اہم اور بڑی وجہ عالمی و علاقائی سطح پر میڈیا میں اس موضوع کو مکمل بلیک آوٹ رکھنا ہے کیونکہ سعودی عرب یہ نہیں چاہتا ہے کہ ان جزیروں کو لیکر اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کا کوئی مسئلہ کھڑا ہوجائے اور عرب عوام ان جزیروں کی واپسی کا شور مچائیں ۔
حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ سن 1967میں عرب ملکوں پر اسرائیلی جارحیت کے دوران اسرائیل نے ان دو سعودی جزیروں پر قبضہ کرلیا تھالیکن حجاز پر حاکم خاندان آل سعود نے اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا کوئی ردعمل نہ صرف نہیں دیکھایا بلکہ اس مسئلے کے ساتھ اس طرح پیش آئے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔
اسرائیل کے لئے یہ دو جزیرے جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اسٹراٹیجکل حثیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ اسرائیل کے لئے بحر احمر تک رسائی کا واحد راستہ ہے، اگر یہ دو جزیرے اسرائیلی ہاتھ سے نکل جاتے ہیں تو اسرائیلی ’’ایلات ‘‘پورٹ مکمل طور پر بے فائدہ ہوکر رہ جاتا ہے یہی وجہ تھی کہ جب تک کیمپ ڈیویڈ معاہدہ نہیں ہوا اسرائیل نے ان دو سعودی عرب کے جزیروں سے اپنی فوجیں ہٹانے سے انکارکردیا لیکن معاہدے کے بعد اسرائیلی قابض افواج کی جگہ اقوام متحدہ کے زیرسرپرستی ملٹی نیشنل افواج نے لیں اور ظاہر کہ یہ افواج اسرائیلی مفادات کی پاسدار ہی ہیں ۔
ان جزیروں کی متنازعہ ملکیت اور عملی طور پر کنٹرول نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جانب سے عدم رضائیت اور اس قسم کے کسی اقدام کی صورت میں جنگ کی دھمکی کے سبب سعودی عرب اور مصر اب تک پل کی تعمیر کا صرف خواب ہی دیکھتے رہ گئے ہیں
اس وقت ان جزیروں سے صرف اسرائیل ہی مکمل فائدہ اٹھارہا ہے، جہاں دنیا بھر سے مخصوص ٹورسٹ آتے اور جاتے ہیں جبکہ اسرائیلی شہر ایلات کا پورٹ بھی مکمل طور پر اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے ۔
سعودی بادشاہ کا حالیہ دورہ مصر اور پھر دونوں ملکوں کے درمیان پل کی تعمیر کے اعلان نے ایک بار پھر ان جزیروں کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔
سعودی عرب کے شاہی محلوں کے اندر تک رسائی رکھنے والے مشہور ٹیوٹر ہینڈل کے مالک ’’مجتہد‘‘یا سعودی لیکس نے اس سلسلے میں ایک مختصر مگر اہم ٹیویٹ کی ہے وہ لکھتے ہیں ’’سعودی عرب اور مصر کے درمیان پل کی تعمیر ایک پرانا منصوبہ ہے جسےاب تک اسرائیل کی جانب سے شرائط کے سبب تعمیر نہیں
کیا جاسکااسرائیل چاہتا ہے کہ وہ
الف:تعمیر کے تمام مراحل کی نگرانی کرے
ب:اس کے انتظامی امور میں شراکت دار رہے
نئی بات یہ ہے کہ اب اسرائیلی شرائط کو تسلیم کیا گیا ہے
یہاں دلچسب بات یہ ہے کہ ان دو جزیروں میں عملی طور پر اس وقت نہ سعودی عرب کی کسی قسم کی عمل داری ہے اور نہ ہی مصر کی یہاں تک کہ ان جزیروں پر ان دونوں ملکوں میں سے کسی ایک بھی جھنڈہ تک موجود نہیں ہے اور کیمپ ڈیویڈ معاہدے سے لیکر اب تک کبھی بھی ان دونوں ملکوں کی جانب سے اس قسم کی کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ جس سے کم ازکم ان کی ملکیت ہی ظاہر ہو ۔
مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب خطے میں اس قسم کا کوئی بھی قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے کہ جس سے اسرائیل ناراض ہو۔
معروف فلسطینی دانشور اور صحافی عبدالباری عطوان کہتا ہے کہ ’’کیا آپ نے کبھی سعودی وزیر خارجہ یا ولی عہد یا وزیر دفاع کی زبان سے ’’لفظ فلسطین ‘‘کو نکلتے سناہے ؟یہ لوگ اُس لفظ اور اصطلاح سے بھی پرہیز کرتے ہیں جس سے اسرائیل ناراض ہوسکتا ہے یا اسے برا لگتاہے
عالمی شہرت یافتہ مصری دانشور اور یونیورسٹی کے استاد نادر فرجاني اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ ’’ آل سعود خاندان کی سلطنت تیس ویںصدی میں اپنی بادشاہت کے آغاز سے لیکر اب تک کےبدترین دور سے گذررہی ہے ،مصر میں جرنیل سیسی کے زریعے جمہوری حکومت کا خاتمہ کرانے کے بعد اب اس کی کوشش ہے کہ مصر نہ صرف سیاسی اقتصادی طور پر بلکہ فکری طور پر بھی شدت پسند وھابی سوچ کو اپنائے ،لیکن مصری معاشرہ کبھی بھی اس سوچ کو نہیں اپنائے گا ،پل کی تعمیر کے مفروضے پر مصری عوام کو زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیےسعودی عرب تازہ ہوا کی خاطر اس پل کو تعمیر کرنا چاہتا ہے جو اس پل کی تعمیر کے مقاصد کو سمجھنا چاہتا ہے وہ بحرین پر نظر ڈالے اور عبرت حاصل کرے
تجزیہ کاروں اور مبصرین کاخیال ہے کہ سعودی عرب اور مصر کے درمیان پل کی تعمیر کا منصوبہ اسرائیلی حمایت اور کنٹرول کے بغیر ممکن نہیں لیکن کیا اسرائیل اس قسم کے پل کی تعمیر کی حمایت کرے گا ؟
اس کی تازہ ترین شرائط کیا ہونگیں ؟یہ وہ سوالات ہیں جس کا جواب آنے والا وقت ہی ہمیں دے سکتا ہے