عالمی خلافت کے خواہاں اسلامسٹ اور عامر ہاشم خاکوانی کے خیالات – عدنان خان کاکڑ

adnan-khan-kakar-mukalima-3

 

برادر عامر خاکوانی بھی نہایت دلچسپ طرز تحریر کے مالک ہیں۔ قلم کے دھنی ہیں۔ ان کی کئی تشبیہات کمال کی ہوتی ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ

’جو گلوبل ایجنڈا رکھنے والے گروپ سرحدوں کو بے معنی سمجھتے اور پاسپورٹ، ویزوں سمیت جمہوری سیاسی نظام کو کفریہ نظام کہتے ہیں ، یہ اصل میں ان مویشیوں کی طرح ہیں، جن کی دم کو آگ لگا کر قدیم زمانے میں دشمن لشکر کی طرف ہانک دیا جاتا تھا کہ ہر جگہ آگ لگا کر افراتفری پھیلائیں۔ ان سب سے رائٹسٹوں کو کھل کر اعلانِ لاتعلقی کرنا ہوگا‘۔

درست فرمایا جناب۔ لیکن پہلے یہ تو دیکھ لیں کہ سرحدوں کو بے معنی سمجھنے والے کون ہیں؟ یہ وہ افراد ہیں جو کہ دور حاضر کے نیشنل سٹیٹس کے دور میں بھی ایک عالمی خلافت کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس عاجز کے محدود علم کے مطابق انہی کو اصطلاح میں اسلامسٹ کہا جاتا ہے۔ جہاں تک خاکسار کو علم ہے، پولیٹیکل اسلام ہے ہی ایک عالمی خلافت کے نظام کی خواہش۔ اگر آپ کی رائے میں اسلامسٹ کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے بلکہ اسلامسٹ کا مطلب ہے ‘مسلمان’، تو حضرت، پھر آپ کی سوچ تکفیری ہے کیونکہ اس صورت میں آپ محض اپنے ساتھ کھڑے ہونے والے تصدیق شدہ دائیں بازو کے لوگوں کو اسلامسٹ، یعنی مسلمان، قرار دیتے ہیں اور بقیہ آپ کی نظر میں مسلمان نہیں ہیں۔ دم کو لگی آگی والی اس شعلہ بداماں صف شکن آتشی مخلوق کا کچھ اثر تو آپ کی سوچ پر بھی ہے جناب۔

کیا ہی خوب ہو کہ آپ یہ وضاحت فرما دیں کہ آپ کس کو اسلامسٹ کہتے ہیں؟ اسلامسٹ کے نظریات کیا ہوتے ہیں؟ اسلامسٹ کے مذہبی عقائد کیا ہوتے ہیں؟ اسلامسٹ کے سیاسی اور معاشی عقائد کیا ہوتے ہیں۔ اسلامسٹ کا ان لوگوں کے بارے میں کیا نظریہ ہے جو کہ اسلامسٹ نہیں ہوتے ہیں؟ وضاحت کر دیں کہ اگر آپ کی اسلامسٹ حکومت آ جائے تو وہ معاشرے میں کیا کیا تبدیلیاں لائے گی؟

آپ کی یہ وضاحت کافی نہیں ہے کہ ’سب سے پہلے یہ وضاحت کہ چونکہ ہمارا تناظر پاکستان ہے، اس لئے یہاں رائٹ ونگ سے مراد پاکستانی رائٹسٹ یعنی اسلامسٹ یا مذہبی طبقہ ہی ہے۔ آسان الفاظ میں وہ لوگ جو مذہب کو صرف انفرادی معاملہ نہیں سمجھتے، جن کے خیال میں اسلام کو ریاست اور اجتماعی معاملات کا بنیادی محور ہونا چاہیے‘۔ جناب کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے تناظر میں رائٹسٹ کا مطلب اسلامسٹ یا مذہبی طبقہ ہوتا ہے؟ کیا آپ کا یہ خیال ہے کہ قائداعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کے اس فقرے کے مطابق جناح بھی آپ کے اسلامسٹ رائٹ ونگر نہیں ہیں، جس میں وہ کہہ گئے ہیں کہ ’آپ کا کسی بھی مذہب، ذات یا عقیدے سے تعلق ہو سکتا ہے، اس کا ریاست کے امور سے ہرگز بھی کوئی تعلق نہیں ہے‘۔ قائد اعظم تو یہاں کہہ رہے ہیں کہ مذہب ایک انفرادی معاملہ ہے۔ یہ بھی سوال ہے کہ کیا قدامت پرست لازمی طور پر دیندار لوگ ہوتے ہیں، یا پھر کچھ قدامت پرست، یعنی رائٹ والے، ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے کلچر اور روایت میں تبدیلی کے تو مخالف ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی زندگی میں مذہب سے دور ہوتے ہیں۔

ابھی تک تو عراق، افغانستان، شام، صومالیہ، تیونس، الجزائر، مالی وغیرہ میں جو پولیٹیکل اسلام والے اسلامسٹ نظر آتے ہیں، وہ تو وہی ہیں جن کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے کہ ’یہ اصل میں ان مویشیوں کی طرح ہیں، جن کی دم کو آگ لگا کر قدیم زمانے میں دشمن لشکر کی طرف ہانک دیا جاتا تھا کہ ہر جگہ آگ لگا کر افراتفری پھیلائیں‘۔ ان ممالک میں ان ہی حضرات کی سعی سے افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ ’ناعاقبت اندیش مولوی صاحبان مضحکہ خیز فتوے دے کر دوسروں کی زندگی اجیرن بنا دیں، ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کوئی گروہ سڑکوں پر قابض ہوکر لاءاینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کر دے، مذ ہبی، سیاسی تقریبات کے لئے گلیوں، سڑکوں پر قبضہ کر کے راستے بند کردے، کسی کو اعتراض نہیں۔ یہ سب انتظامی اور حکومتی کمزوری کی علامات ہیں۔ آج ریاست طے کر لے کہ ملکی قانون پر عملدر آمد کرنا ہے تو چند ہفتوں میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا‘۔ حضرت قانون ان میں سے مذہبی لوگوں پر ہاتھ ڈالتے ہوئے کیوں گھبراتا ہے؟ کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ اس پر کفر کا فتوی لگا دیا جائے گا۔ بہت سی صورتوں میں مذہب کے نام پر ہی یہ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کیا جاتا ہے جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں۔

ایک طرف آپ یہ فرماتے ہیں کہ ’مختلف نقطہ نظر سننے اور برداشت کرنے کی صلاحیت میں کمی آئی ہے‘، اور دوسری طرف آپ یہ کہتے ہیں کہ ’آج کے پاکستان میں چند چیزیں مسلمات یا طے شدہ حیثیت اختیار کر چکی ہیں، ان پر اتفاق رائے ہے، جنہیں برقرار رہنا چاہیے۔ ان مسلمات میں ریاست کا اسلامی ہونا، ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہونا، قرارداد مقاصد کو آئین کا دیباچہ بنانا اور بانیان پاکستان خاص طور پر قائداعظم اور علامہ اقبال کا احترام شامل ہے‘۔

حضرت قرارداد مقاصد اب جنرل ضیا کی مہربانی سے آئین کا دیباچہ نہیں ہے۔ کیا اس ’مسمات‘ کو دوبارہ آئین کا دیباچہ بنانے پر آپ راضی ہیں یا اس پر بات کرنا دائرے کا سفر ہے؟ اور یہ اتفاق رائے آپ کو کہاں سے نظر آیا ہے؟ کیا آپ نے قرارداد مقاصد کے پیش کیے جانے پر اپوزیشن کی طرف سے اس کی مخالفت نہیں دیکھی تھی، اور یہ نہیں دیکھا تھا کہ اپوزیشن کو بلڈوز کر کے یہ قرارداد پاس کی گئی تھی؟ آپ اپنی من پسند چیزوں کو تو طے شدہ اور ناقابل مکالمہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’لبرل ، سیکولر حلقے کے دانشوروں اور لکھاریوں سے یہی درخواست ہے کہ وہ موقعہ کی نزاکت کو سمجھیں اور ملک کو آگے کی طرف لے جانے والا بامقصد مکالمہ شروع کریں‘، لیکن بدقسمتی سے بامقصد صرف اسی مکالمے کو سمجھتے ہیں جو آپ کے نظریات کے مطابق ہو۔ ورنہ آپ کو ہر وہ چیز خطرے میں دکھائی دینے لگتی ہے جو کہ مکالمے سے قطعی خطرے میں نہیں پڑتی ہے۔

آپ معاشرے میں عدم برداشت کے بڑھنے پر شاکی ہیں۔ کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ یہ عدم برداشت بڑھنے کی بنیادی وجہ مکالمے کی کمی ہے؟ کیا لوگ اب اس وجہ سے بھی اپنی رائے پیش کرنے سے نہیں ڈرتے ہیں کہ ان پر کفر کے فتوے لگیں گے؟ کیا آپ نے ماروی میمن صاحبہ کا چائلڈ میرج قانون کا بل واپس لینے کا معاملہ نہیں دیکھا ہے جن کو اشارہ کیا گیا تھا کہ اس پر بلاسفیمی لگائی جا سکتی ہے؟

آپ فرماتے ہیں کہ ‘کسی فرد یا گروہ کو یہ حق نہیں ملنا چاہیے کہ وہ اپنی من پسند مذہبی تعبیر کی بنا پر ازخود کوئی فیصلہ کرے اور پھرخود ہی اس پر عمل درآمد کرنے نکل کھڑا ہو’۔ لیکن دوسری طرف آپ ان لوگوں کو مسلمان ہی ماننے پر راضی نہیں ہوتے ہیں جو آپ کی من پسند مذہبی تعبیر کے خلاف بات کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ سیکولرازم کی اسلام میں گنجائش ہے۔ آپ کے بیان کے رو سے تو پھر جمعیت علمائے ہند والے مسلمان ہی نہیں ہیں کہ وہ سیکولرازم کی حفاظت کے لیے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اگر آپ کہیں کہ غیر مسلم ملک میں سیکولرازم کی اسلام اجازت دیتا ہے مگر مسلم ملک میں نہیں، تو جناب کیا اب اسلام کے بنیادی عقائد بھی لوگوں کی تعداد کو گن کر طے کیے جانے لگے ہیں؟ جس وقت پاکستان بن رہا تھا، اس وقت بھی یہ حضرات متحدہ ہندوستان کے حامی تھے۔ کیا ان کو یہ علم نہیں تھا کہ وہاں غیرمسلم اکثریت ہو گی؟ وہ کیوں اپنے اسے ‘بنیادی عقیدے’ کے تحفظ کے لیے پاکستان کے ساتھ نہیں تھے؟

آپ مزید فرماتے ہیں کہ ’ایک سائیڈ جو کسی زمانے میں پاکستانی لیفٹ پر مشتمل تھی، اب وہاں لبرل ،سیکولر حلقہِ فکر ہتھیار سنبھالے صف آرا ہے۔ تعداد ان کی کم ہے، مگر چونکہ یہ بہت منظم، یکسو اور ڈسپلنڈ ہیں، وسائل کی کمی نہیں، حالات موافق ، بیرونی عوامل سازگار اور تاریخ پشت پر کھڑی ہے، اس لئے ان کی طاقت جتنی نظر آ تی ہے، اس سے کئی گنا زیادہ ہو چکی‘۔ ساتھ ہی آپ اس سنہرے زمانے کا ذکر خیر کرتے ہوئے یہ بھی بتاتے ہیں کہ ’وزیراعظم بھٹو ایک لبرل، سیکولر شخص تھے، جنہیں کسی بھی اعتبار سے روایتی مذہبی یا رائٹسٹ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کی پارٹی میں اس زمانے کے کئی معروف لیفٹسٹ رہنماﺅں کے ساتھ بابائے سوشلزم شیخ رشد جیسے لوگ شامل تھے۔ نیپ کے پلیٹ فارم سے خان عبدالولی خان سے لے کر میر غوث بخش بزنجو تک جیسے لیفٹسٹ اور قوم پرست رہنما اس عمل میں شریک ہوئے‘۔

حضرت یہ ’ایک سائیڈ جو کسی زمانے میں پاکستانی لیفٹ پر مشتمل تھی، اب وہاں لبرل ،سیکولر حلقہِ فکر ہتھیار سنبھالے صف آرا ہے‘ سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ بھٹو کو آپ خود ہی لبرل سیکولر شخص قرار دیتے ہیں اور ان کے ہمنواؤں کے نام بھی گنواتے ہیں۔ ان کے علاوہ کیا فیض، فراز، حمید اختر وغیرہ لیفٹسٹ نہیں تھے یا پھر پاکستانی نہیں تھے یا لبرل اور سیکولر نہیں تھے؟ اور پھر یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ اب ’پاکستانی لیفٹ‘ کی بجائے اب وہاں لبرل سیکولر حلقہ فکر ہتھیار سنبھالے صف آرا ہے۔

اور یہ جو آپ وسائل کا ذکر کر رہے ہیں، ملک کے گوشے گوشے میں جو گزشتہ تیس سالوں میں ریالوں اور تومانوں سے مدارس کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، تو کیا یہ ریال اور تومان کم پڑ رہے ہیں جو آپ کو ادھر اسلامسٹوں کو لاحق وسائل کی کمی کا شکوہ ہے؟ کیا لیفٹ کو اس مقدار میں اندرون ملک
اور غیر ملکوں سے پیسہ ملتا ہے جتنا رائٹ کو ملتا ہے؟ اس کے باوجود اگر رائٹ کے بارے میں آپ یہ کہتے ہیں کہ

’مشکلات کا سامنا رائٹ ونگ کو کرنا پڑ رہا ہے۔ تعداد ان کی بہت زیادہ ہے، خاموش اکثریت تو ہے ہی، لاکھوں کی تعداد میں پرجوش، خود کو منوانے کے خواہاں نوجوانوں کی حمایت انہیں حاصل ہے۔ مسئلہ قیادت کا ہے، جو انہیں میسر نہیں۔ سب سے بڑا ایشو ترجمانی کا ہے، ان کا مقدمہ لڑنے والا، دلیل سے موقف پیش کرنے اور نئی نسل کے سوالات کا جواب پیش کرنے والا کوئی نہیں۔ رائٹ کا پرانا بیانیہ گھسا پٹا ہے، نیا بیانیہ اس لئے سامنے نہیں آ سکا کہ نئی رائٹسٹ انٹیلی جنشیا ہی تیار نہیں ہوسکی‘۔

جناب رائٹ کو اگر لیفٹ سے سینکڑوں گنا زیادہ وسائل دستیاب ہیں اور پھر بھی اس کے پاس مبینہ طور پر قیادت نہیں ہے، وہ نئی نسل سے اس حد تک مختلف ہے کہ نئی نسل کے سوالات کا جواب پیش کرنے سے قاصر ہے، گھسا پٹا بیانیہ رکھتی ہے اور وہ تمام وسائل رکھنے کے باوجود نئی رائٹسٹ انٹیلی جنشیا ہی تیار نہیں کر سکا ہے، تو پھر آپ درست ہی فرماتے ہیں کہ بس اب یہ وہی ڈھور ڈنگر ہیں جن کی دم کو آگ لگا کر دشمنوں کی طرف بھیجا جاتا ہے اور یہ کسی دوسرے کام کے قابل نہیں ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہ ’پورس کے ڈھور ڈنگر‘ ثابت ہو رہے ہیں اور اپنی ہی صفوں کو تباہ و برباد کر رہے ہیں، مخالفین بجا طور پر ان کی حرکتوں پر خندہ زن ہیں۔

آپ کا کہنا ہے کہ ’کچھ ایسے بھی ہیں، جن کی فکر میں تبدیلی آ گئی اور اب وہ روایتی رائٹ کے بجائے سنٹرمیں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی جگہ جن کو لینا چاہیے تھی، وہ صف تشکیل ہی نہ پا سکی۔ اکثر کا نئی نسل کے ساتھ رابطہ ہی منقطع ہوگیا۔ جدید میڈیا کے اپنے تقاضے ہیں، سوشل میڈیا کو نظر انداز کر کے صرف مین سٹریم میڈیا کے ذریعے اب کوئی لڑائی نہیں لڑی جا سکتی۔ اس کا ادراک رائٹ ونگ سے زیادہ ان کے مخالفین کو ہے، رائٹسٹ جماعتیں ابھی کچھ کرنے کا سوچ رہی ہیں ، دوسری طرف والے بہتر جگہ پر قابض ہوکر مورچہ بند ہوچکے‘۔

سب سے پہلے تو اس سینٹر والی بات ہی آپ کی سوچ کی اسلام کے بارے میں کنفیوزن کی شاہد ہے کہ آپ سینٹر کی بجائے روایتی رائٹ کو ترجیح دے رہے ہیں۔ کیا قرآن کی رو سے ہم امت وسط نہیں ہیں؟ تو پھر آپ خوارج کی مانند رائٹ پر جھکنے والوں کو کیوں معتبر اور برتر جانتے ہیں سرکار؟ آپ کو تو سینٹر میں رہنے کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن رائٹ کے جو لوگ سینٹر میں چلے گئے ہیں وہ آپ کی نظر میں قابل نفرت ٹھہرے ہیں۔ یہ نئی نسل سے رابطہ کہیں اس وجہ سے منقطع تو نہیں ہوا ہے کہ وہ اسلامسٹ انتہا پسندوں کے ہاتھوں ساٹھ ہزار سے زاید پاکستانیوں کا خون ہوتا دیکھ چکی ہے اور اب حالیہ دھرنے میں میٹھے والے اسلامسٹوں کی اول درجے کی قیادت سے اول درجے ہی کی غلیظ مغلظات سن کر ان کے اعلی اخلاق دیکھ چکی ہے؟

حضرت اگر آپ اپنے ان حامیوں کی دم کو آگ لگا کر اپنے ’پاکستانی دشمنوں‘ کی طرف ہانکنا جاری رکھیں گے تو نئی نسل ان اپنی ہی صفوں کو الٹنے والے آتش بداماں ڈھور ڈنگروں کے راستے پر کیوں چلے گی؟ خاص طور پر سوشل میڈیا پر جب پڑھی لکھی نئی نسل آپ کی شعلہ بداماں آتشی مخلوق کو دیکھتی ہے تو اس کو دور سے ہی سلام کر دیتی ہے اور تمیز سے اور دلیل سے بات کرنے والے کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔ اگر رائٹ کے پاس تمام تر ریال اور تومان ہونے کے باوجود، اور اردو پریس اور نصاب تعلیم پر مکمل گرفت رکھتے ہوئے بھی آپ کی رائے میں ’دوسری طرف‘ والے بہتر جگہ پر قابض ہو چکے ہیں تو پھر جناب، یہ نااہلی آپ کے اسلامسٹوں کی ہے۔

ہم ایک طرف جماعتی صالحین کو دیکھ چکے ہیں جو کہ ایک عالمی خلافت کے داعی ہیں اور چین و عرب کے درد کو اپنا سمجھتے ہیں، یعنی سنکیانگ سے لے کر قاہرہ تک سے شکایت آتی ہے کہ یہ وہاں کے امور میں ’دلچسپی‘ لے رہے ہیں، اور دوسری طرف طالبانی دیوبندیوں کی جنگ بھی  آپ ملاحظہ کر چکے ہیں، تیسری طرف اب دھرنے والے صوفیا و مشائخ کے منہ سے برستے پھول بھی نظر آ رہے ہیں۔ تو کیا واقعی ریاستی امور میں ان میں سے کسی کی پیروی کرنا بہتر ہے؟

ایک طرف آپ اپنے جیسی سوچ رکھنے والوں کو دائیں بازو کا کہتے ہیں، اور مخالفین کو بائیں بازو کا، اور معترض ان پر بھی ہیں جو سینٹر میں ہیں، تو جناب یہ سوچیں کہ اس بدن کی کیا حالت ہو گی جس کا صرف دایاں بازو ہی ہو، اور نہ اس کا دھڑ ہو اور نہ ہی بایاں بازو۔ حضرت ایک مکمل بدن کو دونوں بازو اور ان کے سینٹر میں دھڑ کا ہونا ہی ایک متوازن زندگی بخشتا ہے۔ جناب آپ توازن کھو چکے ہیں اور بدن میں بس ایک بازو رکھنے کے ہی کے قائل ہو کر اپنے وطن کو معذور کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ وہی آتشیں حرکت نہیں ہے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے؟ کیا یہ آتش بداماں صف شکن ڈھور ڈنگروں کا رویہ ہی نہیں ہے جن سے آپ شاکی ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ’ان سب سے رائٹسٹوں کو کھل کر اعلانِ لاتعلقی کرنا ہوگا‘۔

ہم ترقی پسندوں نے بھی کیا قسمت پائی ہے۔ بھلے وقتوں میں تو لوگوں کو محبوب تک ’غنچہ دہن سیمیں بدن جان من‘ قسم کے ملا کرتے تھے، ہمیں تو سیاسی مخالفین بھی وہ نصیب ہوئے ہیں جو ’انگارہ دہن شعلہ بدن جان حزن‘ ہیں اور مخالفین کی صفیں الٹنے کی بجائے خود اپنی صفوں کو ہی تہس نہس کرنے کے شائق ہیں۔

چلیں چھوڑیں رائٹ لیفٹ کی سیاست کو۔ ایک تاریخی لطیفے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ روایت ہے کہ کانگریس کے ایک بہت ہی بڑے ہندو لیڈر نے ایک جلسے میں شکوہ کیا کہ مسلمان بہت زیادہ بچے پیدا کر رہے ہیں اور ان کی آبادی زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے، لیکن ہندو گھریلو محاذ پر خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا پا رہے ہیں۔ اس شکوے پر ایک بہت بڑے مسلمان لیڈر آبدیدہ ہو گئے۔ ہمدردانہ لہجے میں کانگریسی لیڈر کو مخاطب کر کے کہنے لگے کہ اس سلسلے میں ہم مسلمان آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟

آپ کے اس شکوے پر کہ لیفٹ والے بہتر جگہوں پر قابض ہو چکے ہیں، اور نئی نسل آپ کی بجائے ان کی بات سن رہی ہے اور اسلامسٹوں کو نظرانداز کر رہی ہے، ہم بھی آبدیدہ ہو کر آپ کے صف شکن آتش بداماں ’ساتھیوں‘ سے یہی قدیم سوال پوچھتے ہیں کہ، اگر آپ کارکردگی نہیں دکھا پا رہے ہیں تو ہم لیفٹ والے اس سلسلے میں آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟ کیا آپ کی طرف سے اب ہم ہی فکر، مضامین اور دلائل دے دیا کریں تاکہ نئی نسل میں سے کوئی اس ’گھسے پٹے بیانیے‘ کو سن تو لے۔

Source:

http://humsub.com.pk/10872/adnan-khan-kakar-74/#comment-4284%D8%B9%D8%AF%D9%86%D8%A7%D9%86

Comments

comments