مسلم بنیاد پرستی اور انتہاپسند رجعتی مثالیت پسندی – عامر حسینی

12891110_10209332465857008_179849650716646511_o

پاکستان کے اندر دہشت گردی کے خلاف حکمران اشرافیہ کا بیانیہ ، اس کے ردعمل میں ابھرنے والا مسلم بنیادپرستوں کا بیانیہ اور اس کے تناظر میں ابھرنے والے احتجاجوں کی لہر پر بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری و ساری ہے –پاکستان کا غالب لبرل کیمپ اس ساری صورت حال میں ایک مرتبہ پھر اپنے سطحی ، اے ہسٹاریکل تجزیوں اور اسلام کے بطور سیاسی ہتھیار استعمال کئے جانے کی مختلف اشکال بارے خیالات کا اظہار ہر ایک شکل کے پیچھے کارفرما سیاسی و سماجی حالات کو نظر اںداز کرکے کررہا ہے
جبکہ لبرل لبادہ اوڑھے فرقہ پرست حال ہی میں بریلوی تںطیموں کے اسلام آباد دھرنے اور اس دھرنے کے دوران نظر آنے والے مناظر کی انتہائی بھدی اور بھونڈے پن کو ان کو انجام دینے والوں کی طبقاتی بنیادوں کو یکسر نظر انداز کرکے اسے بریلوی فرقے کو رگیدنے کے نادر موقع کے طور پر استعمال کررہا ہے اور جو ان فرقہ پرستوں کا لبرل لبادہ نوچ کر انہیں بے نقاب کرنے میں لگے ہيں ان کو ” مذھبی جنونیوں ” کا ساتھی کہنے کی پریکٹس بھی جاری و ساری ہے میں نے اس صورت حال پہ اپنا تفصیلی تجزیہ ایک دو آرٹیکلز میں تفصیل سے بیان کردیا ہے لیکن یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ” بنیاد پرستی کے فیکٹر ” بارے لبرل کیمپ کی تنقید اور مارکسی کیمپ کی تنقید میں فرق کو واضح کیا جائے اور یہ بھی دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ کیا وجہ ہے کہ مسلم معاشروں میں جو مسلم بنیاد پرستی کا کیمپ ہے وہ غالب ہے اور لیفٹ کیمپ اس کے مقابلے میں کمزور نظر آرہا ہے یا لیفٹ کیمپ کی جگہ پر بھی لبرل کیمپ ہی اپنے تمام تر ماورائے تاريخ تجزیوں کے ساتھ غالب ہے –
میں کوئی بڑا اکیڈمک مارکسی تجزیہ کار نہیں ہوں اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ غم دنیا کے جھمیلے اتنے زیادہ ہیں کہ ٹک کر یکسوئی کے ساتھ اس موضوع پر تحقیق کا نہ تو وقت ہے اور نہ ہی وسائل کی دستیابی ہے ، ایسے میں مستعار لینے کا آپشن باقی بچتا ہے جسے میں نے اختیار کیا ہوا ہے – مسلم بنیاد پرستی اور اس کے الٹراآرتھوڈوکس رجعتی یوٹوپیا کے ساتھ تعلق اور جڑت کا جائزہ لینے کا کام جنوبی ایشیا میں کس مارکسی / سماج واد دانشور نے مستقل بنیادوں پہ کیا ہے اس بارے میری معلومات محدود ہیں لیکن مڈل ایسٹ میں خاص طور پر مصر ، لبنان اور شام میں اس پر کافی کام ہوا ہے
لبنانی عرب نژاد مارکسی دانشور جلبیر اشقر ، مصری مارکسی دانشور سمیر امین نے اس موضوع پر کافی علمی اور تجزیاتی کام کیا ہے – 2015ء میں ان کا ایک آرٹیکل
Banners of Protest
فرانسیسی جریدے لی ماند ڈپلومیٹک میں شایع ہوا تھا ، یہ مضمون ہمارے زیر بحث موضوع کے لئے بہت مفید ہے ، میں نے اسی کو بنیاد بناتے ہوئے اپنے اس آرٹیکل کو ترتیب دیا ہے – اگرچہ مجھے بہت کم امید ہے کہ غیر سنجیدگی اور بھد اڑائے جانے کے وائرل کلچر میں اس پر بحث آگے بڑھے گی لیکن پھر ہمیں نامساعد حالات میں اپنا کام کرتے جانا ہے
لبنانی نژاد عرب مارکسی دانشور جلبیر اشقر کا کہنا ہے کہ اسلام پسند ہوں کہ کرسچن لبریشن تھیالوجسٹ ان سب کے ہاں سماجی اور سیاسی حالات کو چیلنج کرنے کے لئے ناقابل انکار طور پہ کامیاب اور مسابقت میں تیز آئیڈیالوجیز ، نظریات کو پیدا کرنے کا سلسلہ تھما نہیں ہے اور یہ دونوں طرح کے رجحانات یعنی بنیاد پرست اور کرسچن لبریشن تھیالوجسٹ جو ہیں حال ہی میں ان کو زیادہ توجہ ملنے لگی ہے –
مارکسی دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ یہ خیال پیش کرتا ہے کہ دونوں کی ساخت بارے ایک کلیو ان کا جن معاشروں میں ابھار ہوا ہے وہان لیفٹ کے ابھار اور زوال میں ملتا ہے – لبریشن تھیالوجی کا ابھار ہمین لاطینی امریکہ میں نظر آتا ہے جہان پہ یہ لیفٹ کے ایک جزو کے طور پہ دیکھی جاتی ہے اور واں پہ لبریشن تھیالوجی لیفٹ ابھار کے ساتھ ساتھ نظر آئی – جبکہ مسلم بنیاد پرستی اگرچہ مسلم اکثریت کے ملکوں میں نمو پائی لیکن یہ لیفٹ کی حلیف کی بجائے اس کی حریف بنکر ابھری اور پھر یوں ہوا کہ لیفٹ جس کے ہاں سامراجیت ، سرمایہ داریت کے خلاف احتجاج کا علم اس کا امتیاز ہوا کرتا تھا یہ علم ہمیں مسلم بنیاد پرستوں کے ہاتھ میں نظر آیا اور انہوں نے بری سماجی و سیاسی حالات پہ بات کرتے ہوئے اپنے آپ کو بڑا سماج واد اور سیاست دان ثابت کرنے کی کوششش بھی اس صورت حال کو کارل مارکس نے
Real Misery
کا نام دیا تھا اور اس کے لئے ریاست اور سماج کو ‍‍ذمہ وار ٹھہرایا تھا-یہ جو دو مخالف تناسب ہیں یہ ان دو تحریکوں کے درمیان فرق کی تشریح کرتے ہیں –لبریشن تھیالوجی اصل میں مائیکل لیوی کے الفاظ میں مسیحیت اور سوشلزم کے درمیان ایک انتخابی الحاق کا نتیجہ ہے اور ان دونوں کا باہمی میلاپ اصل مسحیت اور کمیونسٹ یوٹوپین ازم کے درمیان اشتراک سے ہوا تھا 1524-25 میں عیسائی تھیالوجسٹ تھامس منذر نے جرمن کسان تحریک کے لئے مسیحی اصلاحات سے کام لیتے ہوئے ایک سیاسی پروگرام بھی اسی اشتراک کے نتیجے میں ترتیب دے لیا تھا جسے فریڈرک اینگلس نے 1850ء مییں بیان کرتے ہوئے کمیونزم کی فنتاسی میں مل جانا کہا تھا اور اسی وجہ سے 1960ء میں جن علاقوں میں کرسچن زیادہ تعداد میں غریب تھے اور کمزور تھے وہاں پہ اٹھنے والی انقلابی سماجی تبدیلی کی تحریکیں کرسچن جہت کی جانب مڑ گئیں تھیں
لاطینی امریکہ جہاں 1960ء کے انقلاب کیوبا نے عوام کے اندر انقلابی لہر پیدا کی تھی – جرمن کسانوں کی انقلابی تحریک جس کا تجزیہ فریڈرک انگلس نے کیا تھا اس میں کمیونسٹ یوٹوپین ازم ماضی کی کمیونل اشکال سے جڑا ہوا تھا جبکہ لاطینی امریکہ میں جدید اشتراکی آرزؤں سے لیس مارکسی انقلابیوں نے جو جدوجہد شروع کی تھی اس میں ایسا نہیں تھا
مسلم بنیاد پرستی نے کرسچن لبریشن تھیالوجسٹ تحریک کے برعکس ترقی پسند تحریک میں خرابی سے فائدہ اٹھایا – 1970ء کے شروع میں جتنے مسلم ممالک تھے جہاں پہ ریڈیکل مڈل کلاس نیشنل ازم نے اپنی جگہ بنائی تھی وہ زوال پذیر ہوگیا – مصر میں 1967ء کی جنگ میں شکست کے بعد ، 77ء میں بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک چلنے سے مسلم بنیاد پرست ، رجعتی عناصر کو بنیاد پرستی کو پھیلانے کا موقع مل گیا –
لیفٹ کے زوال سے جو خلا پیدا ہوا اسے مسلم بنیاد پرستوں نے بھرا اور انہوں نے اپنے آپ کو سب سے موثر مغربی غلبے کے خلاف سب سے طاقتور کیمپ بناکر پیش کیا تھا لیکن جب مڈل ایسٹ ، شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیاء میں مسلم اکثریت ممالک میں سیکولر نیشنلسٹ سوشلسٹ حکومتیں آئیں جیسے عراق ، لبنان ، شام ، تیونس ، الجیریا ، انڈونیشیاء ،پاکستان ، بنگلہ دیش وغیرہ میں سیکولر نیشنلسٹ سوشلسٹ حکومتیں آگئیں تو اس زمانے میں مسلم بنیاد پرستی نے ” غرب زدگی ” ، مغربی سامراجیت کے خلاف بلند آہنگی کے ساتھ واویلا کرنا کم کردیا اور اپنی ساری توانائیاں اور وسائل سودیت یونین ، کمیونزم ، سوشلزم کے خلاف جھونک دئے اور سیکولر نیشنلسٹ سوشلسٹ حکومتوں کے خلاف ہر سازش اور رجعت پرست تحریک کم ساتھ دینا شروع کردیا –
اگر ہم شیعہ اسلام کے علمبرداروں کی تحریک اس زمانے میں دیکھیں جیسے بعث رجیم کے خلاف عراق میں باقر الصدر کی تحریک تھی اس کا زور بھی مغرب مخالف کم اور سوویت یونین ، سوشلزم ، کمیونزم کی جانب زیادہ تھا اور ان کی دو کتب فلاسفتنا – ہمارا فلسفہ ، اور معشیتنا – ہماری معشیت دونوں میں کمیونزم ، سوشلزم کی سیاسی و معاشی جہتوں کے رد پر سارا زور صرف کیا گیا تھا ، مصر میں اخوان المسلمون ، اور پاکستان میں جماعت اسلامی بھی یہی کام کررہی تھیں –لیکن 80ء کی دہائی میں شیعہ مسلم بنیاد پرست تحریک نے ایرانی انقلاب کے بعد اپنی لائن بدلی اور وہاں پہ مغرب مخالفت ، سامراجیت ( جس کے لئے استعمار کا لفظ استعمال کرنا مرغوب تھا )مخالفت پھر سے غالب ہوگئی اور 90ء کی دہائی میں سنّی مسلم بنیاد پرستوں کے ہاں بھی یہ عنصر دوبارہ غالب ہوا ،
اس وقت جب افغانستان سے سوویت یونین کی افواج رخصت ہوگئیں اور عراق کے کویت پہ حملے کے بعد مغربی افواج نے مڈل ایسٹ کا رخ کیا اور اس طرح سے مسلم بنیاد پرست نام نہاد جہادی تحریکوں کا رشتہ مغربی سامراجی طاقتوں سے ٹوٹ گیا اور یہیں سے وہ وہابی ازم اور دیوبندی ازم جسے مغرب اور اس کے اتحادی سعودی عرب سمیت دیگر مسلم ممالک کی عسکری اسٹبلشمنٹ نے ملکر ایک تباہ کن مشین میں بدلا تھا نے اپنا رخ مغربی سامراجیت کی طرف کیا اور انہوں نے اپنے طور پہ ایک نام نہاد عالمگیر خلافت کے قیام کا خواب دیکھنا شروع کردیا جس کی انتہا آج ہم ” تکفیری فاشزم ” کی شکل میں دیکھ رہے ہیں –
آج ہمارے سامنے مسلم اکثریت کے ممالک میں مسلم بنیاد پرستی کے دو بڑے برانڈ ہیں جو مسلم معاشروں میں ساتھ ساتھ ہیں – ایک برانڈ تو وہ ہے جس کا اشتراک مغربی مفادات کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور دوسرا وہ ہے جس کا رویہ مغربی مفادات کے خلاف ہے – مغربی مفادات سے گٹھ جوڑ کرنے والا مسلم بنیاد پرست برانڈ کا سب سے بڑا اور مضبوط علمبردار وہابی سعودی ریاست ہے جو کہ سب سے بڑی بنیاد پرست اور جنونی مسلم وہابی ریاست ہے –
حال میں سب سے بڑی مغرب مخالف مسلم بنیاد پرست برانڈ تنظیمیں القاعدہ ، داعش وغیرہ ہیں جبکہ افغان طالبان اس کے دھڑے ، لشکر جھنگوی ، سپاہ صحابہ وغیرہ ان کے رویے بین بین ہیں –گلبیر اشقر کا کہنا ہے کہ مسلم بنیاد پرستی کے یہ دونوں برکںد قرون وسطی کے رجعتی یوٹوپیا کے ساتھ وابستہ ہیں – ایک ایسے سماج کا تصوراتی و افسانوی منصوبہ جس کا رخ ماضی کی طرف ہے – یہ دونوں برانڈ مسلم تاریخ کے ابتدائی ادوار پر مشتمل تصوراتی ریاست اور سماج کو دوبارہ سے قائم کرنا چاہتے ہیں – لیکن یہ واضح رہے کہ ان مسلم بنیاد پرستوں کا جو سیاسی پروگرام ہے اس کی بنیاد مثالی اشتراکی محبت کے اصولوں پہ قائم نہیں ہے جوکہ محکوم و مجبور حاشیے پہ رہنے والی کمیونٹی کی حالت زار سے اخذ کئے جاتے ہیں جس کا پیشواء اپنے زمانے کی بادشاہت کے ہاتھوں سولی چڑھ گیا ہو اور نہ ہی اس کی بنیاد کمیونل پراپرٹی کی کسی قدیم شکل پہ رکھی گئی ہوتی ہے جیسے ہم نے 16 ویں صدی کی جرمن کسان بغاوت تحریک میں دیکھا تھا
مسلم بنیاد پرستی قرون وسطی کے ایک طبقاتی حکمرانی کے ماڈل کی میتھڈولوجی کے اطلاق کے لئے خود کو وقف کرتی ہے جس ماڈل کے قوت محرکہ تاجر کم جنگجو زیادہ اور اسی طرح سے ایک ریاست یا سلطنت تشکیل کرنے والے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ جب بھی قرون وسطی کے کسی طبقاتی سماج یا معاشرے کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو وہ کوشش ایک رجعتی یوٹوپیا کے احیاء کی کوشش بن جاتی ہے ، مسلم بنیاد پرستی کا پروجیکٹ بھی ایسا ہی رجعتی یوٹوپیا بن گیا ہے
مسلم بنیاد پرستی کے پروجیکٹ نے اپنے آپ کو اسلام کی انتہائی قدامت پرستانہ اور انتہائی رجعت پرستانہ تنگ نظر تشریح کے ساتھ جوڑ رکھا ہے اور اس الٹرا آرتھوڈوکس مسلم آئیڈیالوجی نے معاصر مسلم دنیا پر اپنا تسلط جمایا ہوا ہے جسے سعودی عرب کی حمایت و پشت پناہی حاصل ہے
نوٹ : اس الٹرا آرتھوڈوکس بنیاد پرست اسلام کو ہم ” وہابیت یا ریڈیکل دیوبندیت ” بھی کہہ سکتے ہیں اور جلبیر اشقر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی پشت پناہی سے جو الٹرا آرتھوڈوکس اسلام ( وہابیت ) مسلم سماج میں اسلام کا غالب اظہار بن چکا ہے وہ اسلام کو انتہائی سخت ظاہریت پسندی کے ساتھ غیر لچکدار بناچکا ہے اور وہ اس غیر لچکداری سے کی گئی لفظی ظاہری تعبیر اور تشریح کو اللہ کا حتمی فرمان تصور کرتا ہے اور یہ جلبیر اشقر کہتا ہے کہ دوسرے مذاہب میں بنیاد پرستی کی جو شکل ہے وہ ان کے اقلیت میں ہے لیکن اسلام کے مین سٹریم دھارے میں مذھب کی بنیاد پرستانہ تعبیر اہم اور بنیادی کردار ادا کررہی ہے –
یہ بات درست ہے مثال کے طور پر یہ بات ٹھیک ہے کہ غیر وہابی اور دیوبندی مین سٹریم مسلم بنیاد پرست اگرچہ اب بھی مسلم بنیاد پرستوں میں اکثریت میں ہیں اور وہ وہابی ازم یا ریڈیکل دیوبندی ازم کی مخالفت کررہے ہیں لیکن عورتوں کے حقوق ، مذھبی اقلیتوں کے بارے میں اور ریاست کے مذھب سے علحیدگی کے سوال پر ، مذھبی آزادی کے معاملے پر ، سیکولر ازم پر ان کی رائے وہی ہے جو وہابي ازم کی ہے یا دیوبندی ازم کی ہے –
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ غیرت کے نام پہ عورت کے قتل یا عورت پہ کسی مرد کے تشدد کے خلاف ریاستی قانون سازی پہ مسلم بنیاد پرستی کا مرکزی دھارا وہی وچار رکھتا ہے جو وہابیت اور دیوبندیت کا ہے ، اسی طرح بلاسفیمی لاز ، حدود آڑڈیننس ، قانون شہادت و دیت وغیرہ کا معاملہ ہو اس میں ہمیں کسی کا نکتہ نظر وہابی سعودی آرتھوڈوکس ملائیت سے مختلف نظر نہیں آتا
مسلم تاریخ کے خاص واقعات اور متون کے خاص تاریخی تناظر کی وجہ سے الٹرا آرتھوڈوکس مسلم فکر اپنے آپ کو اس ڈاکٹرائن کے ساتھ نتھی اور محدود کرلیتی ہے جس کا بنیادی نعرہ اسلامی حکومت کا قیام ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہی بنیادی مقصد ہے مذھب کا – اور اس نکتہ کو سید قطب اور ابوالاعلی مودودی نے تو باقاعدہ ایک آئیڈیالوجی میں ڈھال کر رکھدیا تھا اور اسی نکتہ کے تحت دوسرے مذاہب اور جہآن غیر مسلموں کی اکثریت ہو کے خلاف جنگ کا جواز نکالا جاتا ہے اور جہاد بالقتال کا نکتہ بھی یہیں سے پیدا کیا جاتا ہے
جلبیر اشقر ہماری توجہ ایک اور اہم چیز کی طرف بھی مبذول کراتا ہے وہ کہتا ہے کہ اگرچہ مسلم بنیاد پرستوں کی الٹرا آرتھوڈوکس تعبیر اسلام اور قرون وسطی کی رجعتی مثالیت پسندی کے درمیان گہری جڑت ہے جیسے حقیقی عیسائیت کا کمیونسٹ پوٹوپیا کے ساتھ لاینفک رشتہ بنتا ہے لیکن یہ بات ان دونوں رجحانات میں سماجی مادی حالات کے بدلاؤ کی وجہ سے اس سے مخالف رجحانات کے پیدا ہونے کے راستے میں حائل نہیں ہے – جیسے مسحیت میں ہم بنیاد پرستانہ نظریات کی موجودگی کی ایک لمبی تاريخ پاتے ہیں ، اسی طرح ہم مسلم تاريخ کے اندر ایسے متون بھی دیکھتے ہیں جو کہ عوامیت و جمہوریت پسندی سے بھرے ہیں اور ان کے ہاں اسلام کا سوشلسٹ ورژن بھی ملتا ہے اور یہ زیادہ تر اس وقت پیدا ہوا جب مسلمان محکوم ، مجبور اور بہت زیادہ پسی ہوئی کمیونٹی کے طور پر موجود تھے
اسلام کو الٹراآرتھوڈوکس تشریح کے ساتھ جوڑنے ، اور مسحیت کو کمیونسٹ یوٹوپیا کے ساتھ جوڑنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا تاریخی ارتقاء اور ان کا بہاؤ ان دو خاص رجحانات کے ساتھ ہی ہوا بلکہ ان میں سے ہر ایک مذھب جس میں سماج کے اندر گیا تو اس نے خود کو اس سماج کی طبقاتی بنت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالا بھی اور مسیحیت تو بہت زیادہ بدلی جبکہ اسلام اس سے تھوڑا مگر بدلا وہ بھی
تاریخی طور سے دیکھا جائے تو کئی صدیوں تک عیسائیت اسلام کے مقابلے کہیں کم ترقی پسند رہی کئی معاملوں میں – کتھولک چرچ کے اندر کافی عرصے غالب رجعتی رجحان جس کی نمائندگی جوزف رازینگر سابق پوپ شش دہ کرتا تھا اور لبریشن تھیالوجی کے علمبرداروں -جن کو نئی طاقت لاطینی امریکہ میں حال ہی میں ملی- کے درمیان لڑائی چلتی رہی ہے – مصر ، شام ، عراق ، لبنان میں بعث قوم پرستوں کا اتحاد ایسے اسلام پسندوں کے ساتھ بنا جو اسلام کی سرمایہ دارانہ تعبیر کے خلاف تھے – پاکستان کے اندر ایک زمانے میں پی پی پی اور نیپ کے سوشلسٹ منشور کو جمعیت علمائے اسلام ، تحریک شاہ ولی اللہ وغیرہ کی حمایت حاصل رہی ، ایران میں تودہ پارٹی نے مجاہدین خلق وغیرہ اور ڈاکٹر علی شریعتی کے ماننے والوں سے اشتراک کیا ، اسی طرح کا اشتراک اور اتحاد ہمیں انڈویشیا میں سوئیکارنو اور الجزائر میں حبیب بورقیبیہ کے ساتھ نظر آیا تھا
جلبیر اشقر ، سمیر امین ، غیاث نسائی ، کرس ہرمن ، ٹونی کلف ، عرفان حبیب ، سبط حسن ، صفدر میر سمیت مسلم معاشروں اور اسلام کی سماجی بنیادوں کا تجزیہ کرنے والے مارکسی دانشوروں کا خیال ہے کہ جیسے عیسائیت اور سوشلزم کے درمیان قدرے غیر لچکدار الحاق کا مطلب تاریخی طور پہ عیسائیت کا سوشلسٹ ہونا نہیں ہے تو اسی طرح مسلم بنیاد پرستی کے موجودہ قرون وسطی رجعتی یوٹوپیا اور ماضی کی رجعتی بنیاد پرستانہ تحریکوں کے درمیان رشتہ داری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام تاريخی طور پر بنیاد پرست ہے —- یہ نہیں تھا —- یا اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ جو بھی تاریخی حالات رہے ہوں مسلمان بنیاد پرست ہی ہوں گے- متحدہ ہندوستان میں ہم نے عبیداللہ سندھی سمیت کئی دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں کو جو اسلام پسند تھے اشتراکیت کے ساتھ جڑے دیکھے
حتی کہ جو حقیقی عیسائیت تھی اور اسلام کی ظاہریت پسندانہ تعبیر کی حاامی شکل ہے اس میں یہ باخبری اور بیداری مذہب احتجاج کے طور پر ان میں سے ہر ایک مذھب کے مختلف تاريخی استعمال کے سمجھنے میں ایک کلیو ہے – یہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ لیفٹ کے لیے لاطینی امریکہ میں لبریشن تھیالوجی کیوں اس قدر اہمیت اختیار کرجاتی ہے جبکہ اس طرح کا ایک اسلامی ورژن پیدا کرنے کی کوششیں مارجنل اور کم توجہ کی حامل کیوں رہتی ہیں ؟یہ ہمیں یہ سمجھنے میں بھی مدد دیتا ہے کہ مسلم کمیونیٹز میں مسلم بنیاد پرستی اس قدر اہمیت کی حامل ہوجانے میں کیوں کامیاب رہی اور کیوں اس نے مغربی غلبے کو مسترد کرنے کے نعرے کے ساتھ لیفٹ کو کامیابی سے چت کردیا اگرچہ یہ سماجی معنوں میں ایک رجعت پسند رجحان تھی
سطحی معمولی مستشرقانہ ( اورئنٹلسٹ ) تاثر جوکہ اب بہت بڑے پیمانے پہ پایا جاتا ہے اسلامی بنیاد پرستی کو مسلمانوں میں فطری ، ماورائے تاریخ ( اے ہسٹاریکل ) جھکاؤ و رجحان خیال کرتا ہے احمقانہ تاثر ہے – یہ تاریخی حقائق سے صرف نظر کرتی ہے – ایک عشرے پہلے تک دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی اس مسلم ملک میں تھی جہاں دنیا کی سب سے زیادہ مسلم آبادی پائی جاتی ہے یعنی انڈویشیا – اس پارٹی کو امریکی حمایت یافتہ فوج نے مسلم بنیاد پرست رجعتی اخوان المسلمون جیسی تنطیم جماعت الاسلامیہ کے ڈیتھ اسکواڈ کی مدد سے 1965ء کے بعد کچل دیا گیا- 1950ء اور 1960ء کی دھائیوں میں جنوبی عراق میں جو سب سے پڑی سیاسی پارٹیاں تھیں ان کو کوئی شیعہ مولوی نہیں چلارہا تھا بلکہ یہ عراقی کمیونسٹ پارٹی تھی جو ان کے کی قوت متحرکہ تھی – جمال عبدالناصر جس نے 1961ء میں سوشلسٹ مصر کی قیادت شروع کی ایک باعمل پختہ مسلمان تھا اگرچہ وہ بنیاد پرست وہابی اور اخوانیوں کا شدید دشمن بن گیا تھا –
عرب ممالک اور اس سے باہر کی مسلم دنیا پر اس کے اثر کا کوئی مقابلہ نہیں بنتا اور یہاں تک کہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان میں ، جمعیت علمائے ہند سعودی عرب میں جمال عبدالناصر کو اپنا ہیرو قرار دیا کرتی تھیں ، اس زمانے میں جماعت اسلام نے مفتی محمود ، غلام غوث ہزاروی اور عبداللہ درخواستی جیسے دیوبندی رہنماؤں پر یہ الزام لگایا تھا کہ وہ مارکس ، لینن اور ماؤ کی کتابوں سے فتوے سوشلزم کے حق میں دے رہے ہیں – دلچسپ بات یہ ہے کہ مفتی محمود اکیڈیمی کراچی نے ابوالحسن ندوی علی میاں پر ایک کتاب شایع کی اور اس کے دیباچے میں انہوں نے لکھا کہ مفتی محمود سمیت اکابرین جمعیت کو مصر سے اٹھنے والے ناصر ازم یا پین عرب ازم کے بارے میں ندوہ والوں اور علی میاں کے خیالات سے اتفاق نہیں تھا اگرچہ مرے دوست فاروق قریشی ڈائریکٹر مفتی محمود اکیڈیمی یہ بات بتانے سے قاصر رہے کہ آج اکابرین جمعیت کیوں سعودی اسلام کے اسقدر حامی ہوگئے ہیں اور الٹرا آرتھوڈوکس بنیاد پرستی کے دلدادہ ہیں اور کیوں ان کو ابوالحسن ندوی علی میاں کی شان میں ایک کتاب مرتب کرنے کا خیال آگیا ؟ سعودی ریال ہیں جنھوں نے مفتی محمود اکیڈیمی کو اب آل سعود کے کرتوت بے نقاب کرنے سے روک دیا ہے
اسلام کے سیاسی ہتھیار کے استعمال بارے بات کرتے ہوئے لبرل کیمپ کا یہ وتیرہ ہے کہ وہ اس استعمال کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے سطحی اور ردی مستشرقیت کی طرح ان سماجی اور سیاسی حالات کو نظر انداز کردیتا ہے جس کے اندر اسلام کا سیاسی طور پر استعمال ہوا ہوتا ہے جبکہ لبرل کیمپ اسلام کے بطور ایک طبقہ اور جینڈر تغلب کے نظریاتی ہتھیار کے طور پر اور بطور ایک مجبور ، محکوم اقلیت کے شناختی نشان کے درمیان فرق اور امتیاز کو بھی نظر انداز کردیتا ہے جبکہ کسی سماج واد مارکسی دانشور سے ایسی غلطیوں کی توقع نہیں کی جاسکتی –
لبرل کیمپ کے پاکستانی کیمپ کے بڑے بڑے نام یہی وتیرہ اختیار کئے ہوئے ہیں جیسے میں لبرل مغربی کیمپ کے سب سے زیادہ سنجیدہ اور وقیع خیالات کو اپنی تحریروں میں پیش کرنے والے دانشور ، کالم نگار ، صحافی وجاہت مسعود کا نام دوں گا ، اسی طرح زرا لبرل اسلامسٹ کیمپ سے آنے والے کالم نگار عطاء الحق قاسمی کے بیٹے سلمان پیرزادہ کی مثال پیش کروں گا یہ کالم نگار جہاں وہابیانہ ، دیوبندیانہ ریڈیکل رجحان کی تردید کرتے ہیں وہیں پہ یہ مظلوم کمیونٹی کے شناختی اظہار کو بھی اسی صف میں کھڑے کردیتے ہیں اور غلط بائنریوں کو تشکیل دینے کا سبب بنتے ہیں اور ان جیسے سنجیدہ لکھاریوں کو فالو کرنے والے کئی ایک نوآموز لکھت کار بھی اسی گمراہی کا شکار ہوتے ہیں اور ہمارے ہآں تو المیہ یہ ہے کہ وہ دانشور یا ہیومن رائٹس ایکٹوسٹ جو خود کو لیفٹ روایت کے وارث کہتے ہیں جیسے بینا سرور ہیں وہ بھی اس طرح کی غلطیوں کو بار بار دوھراتے ہیں –
مسلم بنیاد پرستی کے خلاف فکری لڑائی یعنی اس کے سیاسی ، اخلاقی اور سیاسی خیالات کے خلاف مسلم کمیونٹیز کے اندر لڑائی ترقی پسندوں کی ترجیح ہونی چاہئیے نہ کہ اسلام کے بطور مذھب جو بنیادی اجزاء ہیں ان کے خلاف جنگ کی جائے – لبرل کیمپ اکثروبیشتر اسی تباہ کن غلطی کا ارتکاب کرتا ہے
میں چاہتا ہوں کہ لبرل کیمپ جس کی جانب سے بار بار یہ دعوی سامنا آتا ہے کہ وہ مدلل اور گہری بصیرت کے ساته چیزوں پہ بحث کرتے ہیں اور ان میں سے کچه تو ایسے ہیں جو دائیں ، بائیں کی تقسیم کو فضول کہنے لگے ہیں اور لفظ مارکس ازم جن کو اپنی چهیڑ لگتا ہے وہ ہمارے نکتہ نظر کو اپنے عظیم دلائل کی روشنی میں غلط ثابت کریں ، ان کے نزدیک مکالمے کی بڑی بات کی جاتی ہے اور وہ کٹر پنتهی رویوں کے خلاف مجاہد بنے نظر آتے ہیں وہ آئیں اور ہم سے بات کریں نا  –
اس سے پہلے میں نے غیاث نسائی سمیت چار سے پانچ دانشوروں کی اس موضوع پہ تخلیص کرکے آن لائن کی ہیں مگر تاحال سنجیدگی سے کوئی
pruductive contribution
سامنے نہیں آیا
paraphrasing
تو خوب دیکهی گئی ہے ، نام نہیں لے رہا ورنہ قیامت آجائے گی ، لاہور کے اندر تو یہ ہوا ہے کہ اس لبرل کیمپ نے مکالمے کے نام پہ مجیب الرحمان شامی سمیت دایاں بازو کے لوگوں کے ساته جپهے ڈال لیے ہیں اور ان کی شروع کردہ ویب سائٹس پہ بهان متی کا کنبہ ہے جو اکٹها کرلیا گیا ہے یہاں تک کہ تکفیری فاشزم کے معذرت خواہوں کو مسجع و مقفع عبارت آرائی کے ساته اپنے ہاں شایع کیا جارہا ہے اور حوصلہ اتنا ہے کہ جب جواب بهیجا جائے تو “مکالمے ” کی ساری پکار دهم سے خاموش ہوجاتی ہے ،
دربار اور سرکار سے پرائڈ آف پرفارمنس قبول کرلیا جاتا ہے یہ جانتے ہوئے بهی کہ اس وقت ملک پر اس پارٹی کی حکومت ہے جس نے پی آئی اے کے دو ورکرز کے خون سے ہولی کهیلی ، جس نے بلوچ نسل کشی کو روکنے کی کوشش نہیں کی اور اس کی پنجاب کے اندر حکومت کے تکفیری دہشت گردوں سے تعلقات ہیں اور ماڈل ٹاون میں 14 معصوم جانوں کا خون ان کی گردنوں پہ ہے اور یہ حکومت مظفر گڑه کے باسیوں کی مرضی کے خلاف کول پاور پلانٹ لگانے میں مصروف ہے ،
اس نے لاہور کے تاریخی آثار کو میٹروبس ،اورنج ٹرین کی نذر کردیا اور ہزاروں لوگوں کو بے گهر و بے زمین کرنے کا سبب بنی اس کے باوجود اس کے هاتهوں اعزاز ، ایوارڈ لیے جارہے ہیں اور اس حکومت سے ٹی ہاوس بنواکر اس میں ترقی پسندی کا ڈهونڈرا پیٹا جاتا ہے ، میں یہ مخالفت برائے مخالفت نہیں کررہا صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ دائیں بائیں کی تقسیم ختم کرنے یا مکالمہ مکالمہ کی گردان لگاکر جو لفاظی کی جارہی ہے اور مارکسی فکر پہ ملائیت کے فتوے دئیے جارہے ہیں اس کے پیچهے مڈل کلاس پیٹی بورژوازی کی کیچڑ زهنیت اور خواہشوں کا سلگتا جہنم ہے جس میں مین سٹریم میڈیا پہ ہر صورت آجانے کا خبط بهی سوار ہے اور اگر نظریات کی قربانی دیکر بهی ملے تو مضائقہ نہیں ہے

Comments

comments