جھنگ میں سنگ میلہ کی رونقیں: تصویری جھلکیاں
سنگ میلہ قافلے کی صورت میں جاری رہنے والا واحد میلہ ہے جس کا آغاز 13 جنوری کو سیالکوٹ سے ہوتا ہے اور یہ مختلف شہروں سے ہوتا ہوا دربار حضرت سخی سرور ڈیرہ غازی خان پہنچ کر اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔
جھنگ میں یہ قافلہ پانچ مارچ کی شام شہر پہنچتا ہے اور سات مارچ کو اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے تاہم میلہ دس تاریخ کی رات تک جاری رہتا ہے۔
مجاہد چوک سے مونی چوک اور پھر پرانی چونگی سے ایبٹ پور چوک تک لگا یہ میلہ سب سے پرانے میلوں میں سے ایک ہے۔
پینسٹھ سالہ خوشی محمد گزشتہ چونتیس سال سے اس میلے میں آ رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ حضرت سخی سرور کی رحلت کے بعد 1174ء میں ان کے مریدین کی جانب سے ایک سنگت کا آغاز کیا گیا تھا اور اسی مناسبت سے اسے سنگ میلہ کہا جانے لگا۔
میلے میں آئے بچے جھولوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
آصف علی بتاتے ہیں کہ وہ ہر سال میلے میں برتنوں کا سٹال لگاتے ہیں اور انھیں یہاں عام دنوں کی نسبت دو گنا آمدن ہو جاتی ہے۔
ان کے مطابق خواتین منفرد انداز کے برتن خریدنا پسند کرتی ہیں اس لیے وہ ہر سال نئی طرح کے برتن فروخت کرنے کے لیے لاتے ہیں۔
ضلع جہلم کے رہائشی محمد راشد میلے میں سیپیوں سے بنے زیورات اور اشیاء لگاتے ہیں جو ہر گزرتے فرد کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتی ہیں۔
راشد کے مطابق نوجوان سیپی سے بنے ایسے کی رِنگ (چھلے) خریدنا پسند کرتے ہیں جن پر ان کا نام یا موبائل نمبر کنداں ہو۔
ماچھیوال کے رہائشی اللہ بخش جلیبیوں کا سٹال لگاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میٹھا کھانے کے شوقین افراد جلیبی سے دل بہلاتے ہیں۔
علی احمد جھنگ شہر کے رہائشی ہیں جو اپنے بھائی اور بیٹے کے ہمراہ میلے میں جلیبیاں اور چٹ پٹے پکوڑے فروخت کر کے روزی کماتے ہیں۔
محمد حنیف مختلف اقسام کی مٹھائیاں سجائے گاہکوں کے منتظر رہتے ہیں۔
چھپن سالہ رشید احمد چالیس سال سے میلے میں لوریاں سُنا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ رسم کئی سو سال پرانی ہے جس میں لوگ دربار سخی سرور پر منت مانگتے ہیں کہ اگر ان کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی تو وہ اسے میلے میں لوریاں سُنائیں گے۔
رشید بتاتے ہیں کہ وہ گزشتہ چالیس سال سے لوری سُنا رہے ہیں اور ان سے پہلے ان کے والد یہ کام کیا کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ منتوں سے پیدا ہوئے افراد کو ان کی وفات تک ہر سال لوری سُنائی جاتی ہے۔
سات مارچ کی صبح لوگوں کا ایک ہجوم رقص کرتا ہوا مریدین کو ان کی اگلی منزل تک چھوڑنے کے لیے ساتھ جاتا ہے۔
Source:
http://jhang.sujag.org/feature/39970