یورپی پارلیمنٹ نے یورپی حکومتوں کو سعودی عرب کو اسلحہ فراہمی پر پابندی کی قراداد بھاری اکثریت سے منظور کرلی

56ceef6fc461887e108b459b

یورپی پارلیمنٹ نے 25 فروری ، 2016ء کو بھاری اکثریت سے سعودی عرب کو یورپی حکومتوں کی جانب سے اسلحے کی فراہمی پر پابندی لگانے کی قرارداد منظور کرتے ہوئے سعودی عرب پہ الزام عائد کیا کہ وہ یمن میں معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار ہے – یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد اگرچہ کوئی قانونی پابندی اس حوالے سے عائد نہیں کرسکتی لیکن اس قرارداد کی بہت بڑی اخلاقی قدروقیمت ضرور ہے – یہ قراداد ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب سعودی عرب مسلسل یمن کے اندر جنگی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے اور اسے دنیا میں بڑے پیمانے پر دیکھا اور سنا جارہا ہے – لیکن سعودی عرب کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی اور وہ اندھے ، بدمست ہاتھی کی طرح عراق سے لبنان تک اور شام سے ایران تک سب جگہوں پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے – اس قرارداد کا متن یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ یورپی یونین کی پارلیمنٹ جس کے اندر شامل طاقتور مغربی ملک سعودی عرب کو سب سے زیادہ اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک ہیں ان کے لئے بھی اب یہ مشکل ہوگیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے جرائم پر پردہ ڈال سکیں یا شہریوں کو مارنے کی ملٹری پالیسی کو ٹھیک قرار دیں اور اسی لئے یہ قرارداد مغربی ممالک کو سعودی عرب کو اسلحہ کی فراہم پر پابندی کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے –

یورپی پارلیمنٹ نے یہ قرارداد 36 کے مقابلے میں 449 ووٹ کی بھاری اکثریت سے منظور کی ہے اور اس قرارداد میں سعودی عرب کے یمن میں فضائی آپریشنز کی سخت مذمت کی گئی ہے – قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی جو یمن پر فضائی حملوں کےمشن میں شریک ہیں کو ہر طرح کے فوجی سازوسامان اور ہتھیاروں کی فراہمی بند کی جائے اور اس قرارداد کو بنیاد بناتے ہوئے سعودی عرب کے جنگی جرائم کے ارتکاب کے خلاف عالمی عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے

اقوام متحدہ کی کمیٹی آف ایکسپرٹ نے جو رپورٹ یمن جنگ بارے شایع کی ہے اس میں یمن میں جنگ کے دوران 6000 سویلین افراد کے مارے جانے کی تصدیق کی گئی ہے اور اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر افراد سعودی قیادت میں ہونے والی فضائی جارحیت کے باعث مارے گئے ہیں اور اسی رپورٹ نے یورپی تنظیموں اور ان کے عہدے داروں کو اس بات پہ اکسایا ہے کہ وہ اپنی حکومتوں کو سعودی عرب کی یمن کے خلاف جنگ کی حمایت سے روکیں – یورپی تنظیموں کی جانب سے جنگ مخالف تحریک میں شدت دیکھنے کو مل رہی ہے – برطانیہ میں سعودی عرب کی جارحیت اور جنگ کے خلاف تحریک کو بڑھاوا ملا ہے اور خود برطانوی حکومت کے خلاف تنقید میں اضافہ ہورہا ہے – اس تنقید میں اضافے کا سبب یہ حقیقت ہے کہ جب سے یمن پر سعودی عرب نے حملہ کیا ہے اس وقت سے (صرف تین ماہ میں ) برطانیہ کی جانب سے سعودی عرب کو اسلحہ کی فراہمی میں 11 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا اور برطانیہ کی سعودی عرب سے فوجی اسلحہ کی فراہمی کی تجارت ایک ارب پاؤنڈ تک چلی گئی ہے

برطانیہ کی اپوزیشن پارٹی لیبر پارٹی کے سربراہ اور لیبر پارٹی کے اندر سنٹر لیفٹ کی نمائندگی کرنے والے جریمی کاربائن سمیت کئی ممبران پارلیمنٹ نے برطانوی حکومت کو سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی پہ شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ٹوری پارٹی کی جانب سے یمن میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے ملک سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی اور حمایت بذات خود ایک جنگی جرم ہے –جبکہ دوسری طرف عالمی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بھی کئی مرتبہ نشاندہی کی کہ سعودی عرب بین الاقوامی طور پر ممنوع قراردئے جانے والے ہتھیاروں کو یمن کے معصوم شہریوں پر آزما رہا ہے اور ایسے وہ جنگی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے

یورپی یونین میں اس وقت برطانیہ اور فرانس سعودی عرب کو اسلحہ سپلائی کرنے والے سب سے بڑے ملک ہیں جبکہ جرمنی کے کزشتہ سال کے آخر میں سعودی عرب کو 200 ملین ڈالر کے اسلحے کی فروخت کی منظوری دی تھی اور یہ بات جرمنی کی وزرات اقتصادیات کے تازہ ترین ڈیٹا میں بیان کی گئی ہے

سعودی عرب کی جانب سے ” قرارداد رکو ” مہم

سعودی عرب نے یورپی پارلیمنٹ کو یہ قرارداد لانے سے روکنے کے لئے بہت ہی سخت مہم چلائی ، یورپی یونین میں شامل ممالک کے سربراہان مملکت ، باآثر ممبران پارلمنٹ اور لابسٹ سے ملاقاتیں کیں اور ان کو اس بات پہ آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ کسی بھی طرح سے یمن پر سعودی قیادت میں ہونے والے فضائی حملوں کی مذمت کی قرارداد پاس نہ ہوسکے جبکہ سعودی عرب کے بیلجئیم میں تعنیات سفیر عبدالرحمان الاحمد نے یورپی پارلیمنٹ کے ممبران سے ملاقاتیں کیں اور ان یمن پر جارحیت کے سعودی فیصلے کو ” دھشت گردی کے خاتمے ” میں ممد و معاون ہونے والے اقدام کے طور پر سپورٹ کرنے کو کہا اور یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی یمن میں القاعدہ و داعش کو آنے سے روکنے کے لئے فوجی کاروائی کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف یمن میں حوثی قبائل کو شیطان بناکر پیش کرنے کی بھی پوری کوشش کی گئی ، ایسا لگتا ہے کہ اس منظم سعودی مہم نے اتنا تو کیا کہ قرارداد میں یمن میں برسرپیکار فریقوں کو جنگ بندی کرنے اور جنگ سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان کی ترسیل کو ممکن بنانے میں ہاتھ بٹانے اور ایران و سعودی عرب کو یمن میں جنگ بندی کرانے کے لئے مثبت کردار ادا کرنے سے الفاظ تو شامل کرڈالے لیکن اس قرارداد میں سعودی عرب کو اسلحہ کی فراہمی پر پابندی عائد کئے جانے ، اس کے یمن کے عام شہریوں کو نشانہ بنائے جانے کی مذمت نہ شامل کرنے کی خواہش پوری نہ ہوسکی

http://www.al-akhbar.com/node/252998

Comments

comments