لبنان مین سلفی ازم : غیر سیاسی پن سے ٹرانس نیشنل جہاد ازم تک – عامر حسینی

12573188_10208611933884159_2764722453115438423_n

رابرٹ جی بیل کی کتاب ” لبنان میں سلفیت ۔غیر سیاسی سے بین الاقوامی جہاد تک ” ایک ایسی کتاب ہے جسے میں ” پاکستان میں سلفیت : غیر سیاسی سے بین الاقوامی جہاد تک ” کے ساتھ پڑھنے کا خواہش مند تھا اور اس حوالے سے اپنے خیالات کو واضح کرنے کی کوشش بھی کروں گا ، مجھے رابرٹ جی بیل کی اس موضوع پر لکھی کتاب سے پہلے ” عارف جمال ” کی کتاب ” جماعت دعوہ اور ٹرانس نیشنل جہاد ” بھی پڑھنے کا اتفاق ہوچکا ہے اور میں نے پاکستان کے اندر ” جہادی ایمپائر ” کی تعمیر میں ” سلفی آئیڈیالوجی ” کے کردار کو بھی اپنے حساب سے غور سے دیکھنے کی کوشش بھی کی ہے –
میں ہمیشہ سے یہ چاہتا رہا ہوں کہ پاکستانی سماج کی ” سعودیزائشن ، دیوبندائزیشن اور سلفائزیشن ” کو ایک منظم پروسس میں دیکھنے کی ضرورت ہے ، لبنان میں ” فرقہ وارانہ ، جہادی ، دھشت گردانہ ڈسکورس 1982ء میں لبنان پر اسرائیلی قبضہ کے بعد دیکھنے کو ملا اور اسی دوران لبنان مین جو پین عرب ، پین شامی ، کمیونسٹ اور لیفٹ ڈسکورس غالب تھا وہ کمزور ہونا شروع ہوگیا تھا اور اگر اس دوران ہم پاکستانی معاشرے کا جائزہ لیں تو وہ بھی اسی طرح کی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا ، پاکستان کے اندر لیفٹ ، قوم پرست اور کمیونسٹ ڈسکورس کو تنزلی کا سامنا تھا اور اس کے مقابلے میں ایک طرف تو اسلام ازم ( برائے مہربانی اسے ” اسلام ” کے مترادف خیال نہ کیا جآئے ) کے ابھار کا سامنا تھا تو دوسری طرف تیزی سے پورے سماج کے اندر نام نہاد ” جہادی ازم ” تشکیل پارہا تھا اور یہ دائیں بازو کی روایتی مسلکی مذھبی سیاسی جماعتوں کی جگہ لے رہا تھااور اس ” جہاد آزم ” یا ” فرقہ پرست عسکریت پسندی ” کے براہ راست یا بالواسطہ تعلقات ” سعودی عرب و دیگر گلف ریاستوں کی فنڈنگ اور اس سے لتھڑی ہوئی سلفی آئیڈیالوجی ” سے تھے اور یہ سنّی اسلام کا جو ” جمہور کا ماڈل ” تھا اس کو بھی چیلنج کررہا تھا
رابرٹ جی بیل کی کتاب میں سلفی آئیڈیالوجی اور سلفیت کی تاریخ پر ایک شاندار بحث کے بعد یہ لبنان میں ” سلفیت ” کی آمد کا تاریخی جائزہ لیتی ہے اور اس حوالے سے رابرٹ جی بیل لبنان کے شمالی حصّے پر فوکس کرتا ہے اور پھر لبنان کے شمالی شہر ” تریپولی ” کو اپنی کتاب کا مرکز بناتا ہے جو کہ اس وقت سلفی ازم کا سب سے برا مرکز ہے ، وہ ہمیں بتاتا ہے کہ تریپولی شہر کس قدر تاریخی اعتبار سے ” پولیٹکل اسلام ” اور ” بین المذاہب کشاکش ” کا مرکز رہا ہے ، اس شہر کے قدیم ترین باشندے ” کرسچن ” ہیں اور ان کے یہآن کافی قدیم کلیسائی مراکز تھے اور یہ شہر ایک زمانے میں ” کروسیڈرز ” کا بھی گڑھ رہا اور یہ شہر مسلمان حکمران ” سلجوک مملوک ” اور ” عثمانی ترکوں ” کا بھی خاص توجہ کا مرکز رہا ہے ،
رابرٹ جی بیل ہمیں یہ بھی معلومات فراہم کرتا ہے کہ مسلمان عربوں میں مذھبی سیاسی احیاء پرست رجحان کا ایک بڑا نام رشید رضا بھی اسی شہر کے پڑوس میں کچھ فاصلے پر موجود لبنانی شہر القلمون کے رہنے والے تھا جن کا رسالہ ” المنار ” پوری عرب دنیا میں ” مسلم ریفارمسٹ تحریک ” کے ابھار کا سبب بنا تھا اور اس کا وہی کردار تھا جو ہندوستان کے اندر ابوالکلام آزاد کے پرچے ” الہلال ” نے ادا کیا تھا اور رشید رضا کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ ان کے خیالات پر نجد سے اٹھنے والی تحریک کے بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی اور اس کے خیالات کا کیا اثر تھا اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ انھزن نے شیخ ابن تیمیہ کے نظریات کو پھیلانے میں کیا کردار ادا کیا تھا ، رابرٹ جی بیل اس کتاب میں لبنان میں سلفیت کے آغاز میں سب سے بنیادی کردار ادا کرنے والے شیخ سالم الشہل کا زکر کرتا ہے جس نے تریپولی سے یہ کام 1940ء مین شروع کردیا تھا اور وہ رشید رضا سے بہت متاثر تھا
رابرٹ جی بیل کا خاصا یہ ہے کہ اپنی کتاب کے پہلے باب میں وہ نہ صرف ” سلفی آئیڈیالوجی ” کی فکری جہتوں کی کرانیکلز بیان کرتا ہے بلکہ وہ ساتھ ساتھ ان سیاسی ، سمجی تبدیلیوں کا جائزہ بھی لیتا ہے جنھوں نے سلفی تحریک کو لبنان کے اندر مختلف مراحل سے کزرنے اور ان کے مطابق سٹریٹجی اختیار کرنے پر مجبور کیا وہ سلفی تحریک کو تین بڑے رجحانات میں تقسیم کرتا ہے اور یہ رجحانات سٹریٹجی کے اختلاف کی بنیاد پر سامنے آئے
Quietist
Harraki
Salafi Jihadi
اور وہ ان تینوں رجحانات کی وضاحت کے لئے سلفی تحریک کے شیخ سعد الدین کعبی ، شیخ زکریا مصری اور اثبات الانصار وغیرہ کو چنتا ہے اور بتاتا ہے کہ ان تینوں کا مقصد تو سلفی آئیڈیالوجی کو لبنانی معاشرے مین غالب کرنا تھا لیکن یہ کیسے غالب ہوگی اس حوالے سے سٹریٹجی میں اختلاف پایا جاتا تھا
اب یہآن اگر ہم جماعت دعوہ کے آغاز کا جائزہ لیں تو یہ ابتداء سے یہ دعوی کرتی آرہی ہے کہ یہ بنیادی طور پر غیر سیاسی تںطیم ہے لیکن اس کا ٹرانس نیشنل جہادی ہونا تو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ، جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سراج الحق حکیم اللہ محسود کے نام ایک خط میں کہتا ہے کہ ان کی فکر ایک ہی ہے لیکن بس سٹریٹجی کا آحتلاف ہے ، رابرٹ جی بیل ہمیں اس کتاب مین تفصیل سے بتاتا ہے کہ کیسے ” اخوان المسلمون ” کا ” سیاسی کلچر ” اور سعودی عرب کی جامعات میں پڑھائی جانے والی وہابی فکر کا باہمی تفاعل و انٹریکشن وہابی ازم اور سلفی ازم کی اے پولیٹسائزیشن کو پولیٹسائز کرجاتا ہے اور یہان وہ اس کے آغاز ، ارتقا اور عروج کو مقامی ، علاقائی اور بین الاقوامی فیکٹرز سے جوڑ کر دیکھتا ہے
لبنان کے شہر تریپولی میں سلفی آزم کو لیکر آنے والا شیخ سالم الشہل مدینہ کے اندر سلفی مدرسوں ميں پڑھا اور اس کے اوپر ” ناصر البانی ” کے مکتبہ فکر کے سخت اثرات تھے ، ناصر البانی سلفی تحریک کے اندر ” دعوت اور غیر سیاسی انداز ” میں سلفی ادرشوں کو اگے بڑھانے کا علمبردار تھا اور آگر ہم اور زیادہ گہرائی میں جاکر دیکھیں تو شیخ سالم الشہل جو ناصر البانی کا شاگرد بھی تھا اس پر جہاں ناصر البانی کے سلفی خاموش مکتبہ فکر کے اثرات تھے وہین وہ لبنان میں اخوان المسلمون کی شاخ ” جماعۃ الاسلامیہ ” سے بھی متاثر تھا اور جماعت الاسلامیہ ( اخوان المسلمون ) کآ گڑھ تریپولی ہی تھا –
سلفی تنظیم کا ارتقائی دورانیہ وہ ہے جب لبنان پہ شامیوں کا غلبہ تھا اور اس زمانے میں سلفیت ” غیر سیاسی ” طور پر کام کررہی تھی اور اس نے ” شامی رجیم ” کے لئے کوئی خطرات پیدا نہ کئے تو اس کو شامی رجیم نے لبنان میں پھیلنے بھی دیا ، رابرٹ جی بیل کے مطابق جماعت الاسلامیہ پر سید قطب کے خیالات جو اس نے اپنی کتاب ” معالم فی الطریق ” میں واضح طور پر بیان کئے تھے جس میں اس نے ” حاکمیت ، جاہلیت اور جہاد ” تین تصورات کے گرد اپنی سیاسی فکر کو گھمایا تھا میں یہ واضح کیا کہ ” حکومت اللہیہ ” کا قیام اسلام کا بنیادی مقصد ہے اور مسلم ممالک کے جو حکمران ہیں وہ اس فریضہ سے روگرادانی برت رہے ہيں اس لئے ان کے خلاف جہاد فرض ہوچکا ہے اور یہ ایک ایسی فکر تھی جو رابرٹ جی بیل کے بقول سلفی تحریک کے غیر سیاسی اور محض دعوتی روش پر کاری صرب ثابت ہوئی اور ناصر البانی ، سعودی سکالر محمد عمان جامی اور ربیع المداخلی کی تعلیمات کو اگر دیکھا جائے تو ان کا نکتہ نظر یہ تھا کہ کسی سیاسی مہم جوئی کی بجائے اور مسلم حاکموں کو چیلنج کرنے کی جائے ” سلفی دعوت ” کو نوجوانوں ميں عام کیا جائے اور اس کے مقابلے مین جو سیاسی اصلاحات کا حامی اور اس حوالے سے تمام دستیاب زرایع استعمال کرنے کا حامی تھا اسے رابرٹ جی بیل ” حرکی یا تحریکی سلفی گروپ ” کا نام دیتا ہے اور جو اس قصد کے لئے دھشت گردی ، عسکریت پسندی کو ہی بنیادی سرچشمہ بتلاتا ہے اسے رابرٹ جی بیل ” سلفی جہادی ” کا لقب دیتا ہے ،
رابرٹ جی بیل بتلاتا ہے کہ کیسے شیخ سالم الشہل نے مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم پائی اور اس کے تعلقات سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز ابن باز سے پیدا ہوئے اور سعودی اسٹبلشمنٹ نے کیسے اسے لبنان کے اندر خاص طور پر شمالی لبنان مین سلفیت کو پھیلانے کے لئے سپانسر شپ فراہم کی ( یہاں اگر ہم اس کی مشابہت پاکستان کے اندر تلاش کریں تو ہمیں علامہ احسان اللہی ظہیر بانی جمعیت اہل حدیث پاکستان ، عالمی ختم نبوت انٹرنیشنل کے بانی عبدالحفیظ مکّی دیوبندی ، مفتی نظام الدین شامزئی دیوبندی ، مولانا عبدالرحمان اشرفی دیوبندی صدرالجامعہ جامعہ اشرفیہ لاہور ، مولانا عبداللہ والد مولوی عبدالعزیز دیوبندی بانی لال مسجد اسلام آباد کی واضح امثال سمجھ میں آتی ہیں کہ جن کے ساتھ ” سعودی وہابی مذھبی اسٹبلشمنٹ ” کے ساتھ گہرے تعلقات کی بنیاد پڑی ہے اور اس نے ایک طرف تو مدینہ یونیورسٹی ، کنگ فہد یونیورسٹی ، مدرسہ عبدالعزیز ابن سعود مکّہ سمیت سعودی عرب کے اداروں میں دیوبندی اور اہلحدیث مدارس کے طلباء کے داخلوں کو آسان بنایا اور وہاں سے واپس آکر انھوں نے دیوبندی اور سلفی مدارس کے طلباء کی ریڈیکلائزیشن میں اہم کردار ادا کیا ، اس کے ساتھ 80ء کی دھائی میں جہاد افغانستان کے پروجیکٹ کے دوران قبائلی علاقوں اور افغان سرحد کے ساتھ ساتھ بہت سارے دیوبندی مدارس کھلے جن کے پیچھے گلف ریاستوں کا پیسہ تھا اور وہابی آئیڈیالوجی بھی ساتھ ساتھ تھی ،
سعودی پیسہ کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے تعاون سے جو سید قطب کے خیالات کے زیر اثر عبداللہ عزام ، ایمن الذھراوی ، مصعب زرقاوی نے بھی خیبرپختون خوا اور قبائلی علاقوں میں ” سلفی جہادی ‘ اسلام ازم کو پھیلانے میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ احسان اللہی ظہیر مدینہ یونیورسٹی کے دوران شیخ ابن باز کے قریب ہوا اور سعودی ریال سعودی یونورسٹیون مین داخلے کی راہ ہموار ہوگئی اور پاکستان کے اندر ضیاءالحق کی سرپرستی میں اسلام آباد کے اندر سعودی عرب نے ایک ” انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ” قائم کی جو سلفی ازم کی براہ راست خدمت پر مامور ہوگئی ) رابرٹ جی بیل کہتا ہے کہ شیخ سالم الشہل نے کئی لبنانی نوجوانوں کو مدینہ یونیورسٹی پڑھنے کے لئے بھیجا جن میں اس کے دو بیٹے ” داعی الاسلام ” اور ” رضي الاسلام ” بھی شامل تھے
سن 1987 میں شیخ الشہل نے تریپولی میں ” جامعۃ الھدايۃ و الاحسان الاسلامیہ ” انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی اور یہاں سے وہابی لٹریچر پوری قوت کے ساتھ لبنان میں پھیلانے کا کام شروع ہوا اور شیخ الشہل کے بیٹے رضی الاسلام اور اس کے داماد حسان الشہل نے ان کے بعد سلفی تحریک کی قیادت کی اور حسان الشہل نے بعد میں اپنا انسٹی ٹیوٹ بھی بنالیا اور پھر اس کے بعد شمالی لبنان میں بتدریج کئی وہابی انسٹی ٹیوٹ بنے اور ان کے ساتھ ساتھ چیرٹی انسٹی ٹیوٹس کا جال بھی غریب اور محروم علاقون میں پھیل گیا ، رابرٹ جی بیل کہتا ہے کہ شہل کا غیر سیاسی سلفی ازم 2005ء تک خاموشی سے دعوتی و چیرٹی کام کرتا رہا اور جب رفیق حریری کا قتل ہوا تو اس کے بعد اس میں ” سیاسی عمل ” دکھائی دیا ، شیخ حسان الشہل نے ” حزب اللہ ” کے ساتھ ایک میمورنڈم سائن کیا تھا جسے سلفی تحریک کے اندر سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا اور جبکہ سلفی تحریک کا ایک اور رجحان جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت طاقتور ہوا وہ ” حرکی سلفیت ” تھی جس کی چریں جماعت الاسلامیہ اور حرکۃ التوحید الاسلامی کے اندر پیوست نظر آتی ہیں
رابرٹ جی بیل نے اپنی کتاب کے اندر ایک مستقل باب
Takfiri Salafist
یعنی تکفیری سلفی کے عنوان سے باندھا ہے اور یہ عنوان کم از کم پاکستان کے اس کمرشل لبرل مافیا کی انکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے جو پاکستان کے اندر ” تکفیری سلفی یا تکفیری دیوبندی ” اصطلاح کے استعمال پر اعتراض کرتے ہيں اور اسے فرقہ وارانہ ذھنیت کے ساتھ جوڑنے میں دیر نہیں لگاتے ، رابرٹ جی بیل نہ تو صوفی سنّی ہے ، نہ اس کا شیعہ بیک گراؤنڈ ہے اور اس کو ایک غیر جانبدار ماہر سیاسیات خیال کیا جاتا ہے اور وہ اس اصطلاح کو استعمال کررہا ہے اور میں اس آرٹیکل کے پڑھنے والے قاری کو یہ بھی بتلاتا چلوں کہ سنّی مکتبہ فکر سمیت قدیم ماہرین کلام کے ہآں ” التکفیر ” ایک ایسی شرعی اصطلاح ہے جو ان اسلامی فرقوں کے متعلق استعمال کی جاتی رہی ہے جو اہل قبلہ کی تکفیر کرتے تھے اور ان کا خون اور مال مباح قرار دیتے تھے ، خود ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سمیت کئی جید صحابہ کرام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کیا کہ ” جو اپنے مسلم بھائی پر کفر کا الزام لگاتا ہے تو گویا وہ اس کے قتل کا مرتکب ہوتا ہے ” تو تکفیر شرعی معنوں میں بھی اہل قبلہ کی تکفیر کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے اور تاریخی اعتبار سے اس کا اطلاق ” خوارج ” پر کیا جاتا تھا جو ” گناہ کبیرہ ” کے مرتکب مسلمانوں کو کافر کہتے تھے اور وہ تاویل بد سے مسلمانوں کی اکثریت کا قتل جائو ٹھہرانے کے لئے ان کو کافر ومشرک قرار دے دیا کرتے تھے ،
رابرٹ جی بیل کہتا ہے کہ لبنان میں سب سے زیادہ خطرناک ، بدنام اور وحشی کوئی گروہ ہوسکتا ہے تو وہ ” تکفیری سلفی جہادی ” ہیں اور وہ کہتا ہے تریپولی ، بیکا ، دینیہ اور القلمون وہ علاقے ہیں جہاں تکفیری سلفی جہادیوں کے سیل بکثرت موجود ہين اور ان کا الحاق القاعدہ کے ساتھ ہے ( یہاں پر کیونکہ رابرٹ جی بیل کی کتاب ” بہار شام ” اور اس کے بعد کی صورت حال سے پہلے سامنے آئی اس لئے ہميں جبھۃ النصرہ جیسے گروپوں کا تذکرہ نہیں ملتا جو سعودی عرب ، قطر ، کویت ، یو اے ای کی فنڈنگ سے تکفیری سلفی جہادی گروپوں کے طور پر ابھرے ) وہ فلسطینی سلفی تکفیری جہادی تنظیم اثبات الانصار کا بطور خاص زکر کرتا ہے جو کہ ٹرانس نیشنل تکفیری جہادی نیٹ ورک کے ساتھ جڑی اور ایک نیا ٹیررازم کا فیس سامنے لیکر آئی اور یہ جو شیخ الرفاعی وغیرہ کی شام کے خلاف جہادی پروجیکٹ پر مبنی تحریک ہے اس میں وہ بشار الاسد کو کافر اعظم گردانتی ہے اور اس کا ساتھ دینے والی صوفی سنّی آبادی کو بھی وہ کافر کہتی ہے اور ان کا قتل جائز ٹھہراتی ہے اور ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ تریپولی ” بلدالاسلامیہ ” ہے جو لبنان و شام پر مشتمل اسلامی خلافت کا دارالخلافہ ہوگا ، رابرٹ جی بیل کہتا ہے کہ ” دعوتی سلفی اور حرکی سلفیوں ” میں سے کئی ایک ” تکفیری سلفی جہاد ازم ” سے اختلاف کرتے ہيں اور ان کی روش سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہين لیکن ” تکفیری سلفی جہادیوں ” کی جانب سے اپنی حمایت میں جب ” شیخ ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب نجدی ” کے تکفیری فتاوے پیش کئے جاتے ہیں تو یہ دعوتی و حرکی سلفی لاجواب نظر آتے ہين
اس کتاب کا جو 6واں باب ہے جس کا عنوان
Expediency and self-Denial
بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور یہ بنیادی طور پر شمالی لبنان کی جو مین سٹریم پولیٹکل پارٹی اور لیڈر شپ ہے اس کی نااہلیوں کا جائزہ بھی لیتا ہے جو کہ شمالی لبنان کی ” سنّی روایتی اکثریت ” کی مین سٹریم نمائندہ سیاسی نمائندگی کرتی ہے اور یہ ” تیار المستقبل ” یعنی فیوچر پارٹی ہے ، فیوچر پارٹی شمالی لبنان کی سنّی بورژوازی اور مڈل کلاس پرتوں سے قیادت سامنے لیکر آئی اور یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شمالی لبنان کی شیعہ – سنّی تناؤ والی فضاء مين شمالی لبنان کی موثر سنّی بورژوازی اور سنّی مڈل کلاس کی امنگوں ، حواہشوں اور مفادات کی ترجمان پارٹی بنکر سامنے آئی اور رفیق حریری کا خاندان اس پارٹی کی قیادت کرتا نظر آتا ہے اور اس نے مڈل ایسٹ کی علاقائی جیو پالیٹکس مین ایک طرف تو خود کو سعودی عرب کے شاہی خاندان کی گود مین ڈال دیا ، دوسرا یہ عالمی سیاست میں امریکی کیمپ کے ساتھ جڑ کر کھڑا ہوگیا اور شمالی لبنان میں جو مین سٹریم مذھبی روایتی سنّی مذھبی قیادت تھی
جس مین زیادہ تر لوگ شافعی و اشعری مسلک سے تعلق رکھتے ہیں نے بھی خود کو فیوچر پارٹی کی سنّی بورژوازی اور پروفیشنل مڈل کلاس کے مرہون منت رکھا اور فیوچر پارٹی کی اس سنّی بورژوازی قیادت نے سلفی ازم کو ایک ٹیٹکس اور پرشیر گروپ کے طور پر استعمال کرنے کی سوچی اور اس نے ” سلفیت کے پوٹینشل اور پھیلاؤ ” کو اپنے لئے خاطر خواہ خطرے کے طور پر نہیں دیکھا ، رابرٹ جی بیل اےسے فیوچر پارٹی کی لیڈرشپ کے وژن کی کمی اور کمزوری سے تعبیر کرتا ہے ، رابرٹ جی بیل کہتا ہے کہ ایک طرف حریری خاندان سعودی عرب کی سرپرستی کے سبب ” سلفی ازم ” کے پھیلاؤ مین معاونت کا کردار ادا کررہا تھا تو دوسری طرف فیوچر پارٹی کی پوری قیادت سلفی ازم کی جانب متذبذب کردار کی حامل تھی وہ سلفی تحریک کے ” سیاسی و جہادی کردار ” اور اس کے پوٹنشل کا اندازہ لگانے میں انتہائی ناکام رہی
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ رفیق حریری اور پھر اس کا بیٹا سعد حریری یہ خیال کرتا رہا کہ وہ سلفی تکفیری جہادیوں کو کنٹرول کرلیں گے ، جب چاہين گے ان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے کوڑے دان میں ڈال دیا جآئے گا ، رابرٹ جی بیل یہاں پر ایک اور بات بھی بہت پتے کی کرتا ہے اور وہ یہ ہے فیوچر پارٹی کی قیادت لبنان کے شمال میں ایسی شناخت کی تعمیر مين سرے سے ناکام رہی جو کہ لبنان کی تکثیری ، متنوع ثقافتی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے سعودی عرب کے سلفی وہابی فرقہ پرست نام نہاد سنّی عرب ازم کی جگہ لے سکتا اور رابرٹ جی بیل کہتا ہے کہ سلفی تحریک نے فیوچر پارٹی کے اس تذبذب ، ڈھل مل اور موقعہ پرستانہ ڈسکورس کا فائدہ اٹھایا ، رابرٹ جی بیل کہتا ہے کہ سلفی تحریک نے سعودی امداد سے جو مساجد ، مدرسے اور امدادی سوشل نیٹ ورک قائم کیا اس نے لبنان کے اندر جو تکثیری ثقافتی تنوع موجود تھا اسے کاٹنے ، اسے الگ الگ کرنے اور سخت فرقہ وارانہ ” شیعہ – سنّی ” بائنری کو مضبوط کرنے میں مدد فراہم کی اور ایرانی – شیعت – حزب اللہ کے خوف کو بڑھا چڑھا کر دکھایا اور سنّی آبادی میں ” غیر محفوظ ” ہونے کے تصور کو ایک فوبیا کی طرح پھیلایا ، رابرٹ جی بیل کہتا ہے کہ جب تک ” یہ فوبیا ، خوف اور بائنری ” موجود رہے گی سلفی ازم پھلتا پھولتا رہے گا اور اس کا تکفیری سلفی جہادی کیمپ غلبہ کرتا رہے گا
یہ 6 واں باب اس لئے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ یہ بتاتا ہے کہ شمالی لبنان مين حکومت کی لبرلائزیشن ، فری مارکیٹ ایجنڈے اور سرمایہ دار دوست اور سب سے بڑھ کر رفیق حریری کے کرونی کیپٹل ازم ( اقربا پرست سرمایہ داری نظام ) نے شمال کی سنّی غریب کسان ، شہری غریب آبادی اور نچلے متوسط طبقے کی اکثریت کو بے یار ومددگار چھوڑا اور ان پرتوں کو جہآن کبھی لیفٹ ، پین عرب سوشلسٹ ، کمیونسٹ ڈسکورس غالب تھا اس کی جگہ سلفی تکفیری جہادی ، اخوانی ، دعوتی سلفی سوشل چیرٹی نیٹ ورک نے لے لی اور ان کے اندر سلفی ازم ، اخوان ازم کی کشش فیوچر پارٹی کے نیو لبرل بورژوازی ڈسکورس سے کہیں زیادہ ہے لیکن رابرٹ جی بیل کہتا ہے کہ سلفی ازم لبنان کے تکثیری سماج کے لئے ایک براہ راست خطرہ ہے ،
رابرٹ جی بیل نے براہ راست تو لبنانی سماج کے اندر جو شافعی صوفی سنّی اکثریت ہے وہ اپنی آواز سے ہی محروم دکھائی دے رہی ہے اور اس کو سلفی وہابی آواز کے زریعے ہٹانے کی کوشش ہورہی ہے ، رابرٹ جی بیل کی اس کی کتاب کی متھڈولوجی سے رہنمائی لیتے ہوئے پاکستانی سماج میں سعودی فنڈڈ سلفیت ، نیو دیوبندی ازم کے پھیلاؤ کا جائزہ سماجی و سیاسی تبدیلیوں کے آئینے میں لیا جاسکتا ہے اور پاکستان میں جو صوفی سنّی مین سٹریم دھارا ہے وہ بھی لبنان کے آئینے میں اپنی تصویر دیکھ سکتا ہے

Comments

comments