محترم سبوخ سید دیوبندی صاحب کی اپنے فرقہ وارانہ ماضی کے حوالے سے وضاحت
میں اپنا وقت گزارنے کے لئے اخبار ، رسالے اور کتابیں پڑھتا ہوں تھک جاؤں تو فلم دیکھتا ہوں مختلف الخیال دوستوں کے علمی اور فکری حلقے میسر ہیں، ان میں بیٹھتا ہو واک اور ورزش کا بہت شوق ہے لیکن طبیعت مائل نہیں ہوتی. سیاسی وابستگی تیسری کلاس سے پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے. اس پر فخر محسوس کرتا ہوں
مذہبی وابستگی مختلف جماعتوں کے ساتھ رہی. مذہبی ، جہادی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے ساتھ چلتا رہا. یہ میرا ماضی ہے اور مجھے اس پر فخر ہے کیونکہ اسی ماضی نے مجھے آج کے ماحول کو بہتر انداز میں سمجھنے کا شعور بخشا.اب میں اس مذہبیت سے تنگ اور بیزار آ چکا ہوں. میں نے دیکھا ہے کہ انسانوں کو دکھ دینے والے اور انسانیت کو تقسیم کرنے والے یہ مذہبی نشہ فروش ہیں. میں اس بات سے متفق ہوں کہ دنیا کے سارے نشے برے لیکن مذہب کا نشہ سب سے برا ہے. لیکن مجھے مذہبی لوگ ہر گز برے نہیں لگتے. میں انہیں اپنی طرح کا ایک مسافر سمجھتا ہوں. شاید وہ اگلے دنوں میں میری جگہ کھڑے ہوں
.
اپنے ماضی پر کبھی دکھ نہیں ہوا کیونکہ الحمد للہ کبھی کرپشن نہیں کی، کسی کے ساتھ جان بوجھ کر زیادتی نہیں کی .کبھی ظلم کیا اور نا ہی ظلم کا ساتھ دیا. اور ظلم اور زیادتی اپنوں نے بھی کی تو ان کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہو گیا. کسی کی حاکمیت ، برتری کو اس کے عہدے کی وجہ سے قبول نہیں کیا اور جاہ و جمال والوں سے اکثر دور ہی رہا. انا پرستی اس قدر ہے کہ میرے دوست سرفراز راجا کے سامنے گزشتہ ہفتے والد محترم کا فون آیا اور انہیں کہنا پڑا ” آپ کی جاب نہیں اور آپ شاید شرم کی وجہ سے مجھ سے پیسے نہیں مانگ رہے ” مجھ میں کبھی اس بات کی ہمت بھی نہیں ہوئی کہ جن لوگوں نے مجھ سے پیسے بطور قرض لئے ہیں اور اس معاملے دس ، دس سال سے زیادہ ہو چکے ہیں، ان سے واپس مانگ سکوں، ان میں ایک ایسا آدمی بھی ہے جو پاکستان کے پہلے سات امیر ترین لوگوں میں شامل ہے. خیر شاید وہ بھول گئے ہوں ، ورنہ وہ رقم اتنی زیادہ نہیں کہ وہ نہ دے سکیں. میں دوستوں پر جان چھڑکتا ہوں . تعلق رکھتا ہوں یا نہیں رکھتا. اختلاف منہ پر کرتا ہوں لیکن صرف ان سے جن سے تعلق مزید رکھنا چاہتا ہوں. جس بات کو سچ سمجھتا ہوں ، اسے کہہ دیتا ہوں چاہے اس کے جو نتائج بھی نکلیں
.
مجھے دیوبندی غامدی سمجھتے ہیں مجھے سپاہ صحابہ والے شیعہ سمجھتے ہیں( جب تک انہیں کوئی ان کا اپنا میرے مسلمان ہونے کی گواہی نہ دے) مجھے شیعہ لشکر جھنگوی سمجھتے ہیں میرے نظریاتی صحافی میرے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگوں کو کنفیوژ کرتا ہے لٹ اس بلڈ پاکستان والوں نے خارجی قرار دیا ہے ۔
مولانا لدھیانوی کے ایک گارڈ نے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں ایک طرح سے حملہ آور ہونے کی کوشش کی جس کے بعد میں آج تک مولانا سے نہیں ملا ، وجہ صرف یہ تھی کہ مجھے وہاں ایک بچے سے ملوایا گیا جس کا باپ جیل سے رہا ہو کر آیا تھا اور بچے نے پوزیشن حاصل کی تھی ۔ میں اس بچے کو مبارکباد دیتے ہوئے یہ کہہ دیا تھا کہ بیٹا تعلیم حاصل کرو، یہ جلسے جلوس اور تنظمیں تمھیں تباہ کر دیں گی.
علامہ امین شہیدی بتاتے ہیں کہ اکثر لوگ میری تحریریں انہی کاپی کر کے بھیجتے ہیں کہ دیکھو یہ کیا لکھ رہا ہے. جی ہاں میں جب مسلمانوں کو لڑانے والی تاریخ کو چرسیوں کی تاریخ لکھتا ہوں .
مجھےلوگوں نے ہر قسم کہ گالی دی. جامعہ نصرۃ العلوم والے ایشو پر مجھے ان دیوبندی بچوں نے بھی گالی دینا اپنے ایمان کا حصہ سمجھا جو ابھی رحم مادر میں ایام حمل پورے کر رہے تھے. وہ صرف گالی دینے کے لئے باہر تشریف لائے اور گالی دے کر لوٹ گئے
.
بات یہ ہے کہ میں سب کے لئے ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہوں اور اب میں اپنے دوستوں کے لئے بھی قابل قبول نہیں رہا. اگر معاملہ یوں ہی چلتا رہا تو شاید میں کل خود کو بھی برداشت نہ کر سکوں.
جنہیں میں اپنا دوست سمجھتا تھا ، انہوں نے کہا ہے کہ تم ایک نفسیاتی مریض ہو
ایک علامہ نے کہا کہ میں صرف ہنسا سکتا ہوں.
ایک کہتا ہے کہ میں شام غريباں اچھی پڑھ سکتا ہوں
کچھ نے کہا کہ میری سمجھ نہیں آتی ۔
ہو سکتا کہ یہ سب ٹھیک کہتے ہوں ۔ شکوہ فقط یہ ہے کہ کہ میرے منہ پر نہیں کہتے. اور بات جو کرنی تھی ،وہ یہ ہے کہ دوست روز روز نہیں بنتے ۔ ابو نے ایک بار نصیحت کر تے ہوئے کہا تھا کہ نائی ، موچی ، باورچی اور ملازم ایک ہی رکھنا چاہیے دوست تو اس سے بہت ہی اوپر کا معاملہ ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ میں شدت جذبات میں زیادہ بہہ جاتا ہوں
لیکن بھائیو ، دوستو اور بزرگو ، سہیلیو اور ان کی سہیلیو یہ سب کچھ میں تمھاری محبت میں صرف اخلاص کی وجہ سے کرتا ہوں۔ ورنہ میں تمھارے جھوٹ پر تم سے بلند قہقے لگا سکتا ہوں ۔ تمھارے غلط کاموں پر ٹھیک ٹھیک کا شور مچا کر تمھاری سوچ کو یوں بدل سکتا ہوں کہ تمھیں اپنا غلط بھی ٹھیک دکھائی دینے لگے گا میں تمھاری ناگواری برداشت کر لیتا ہوں لیکن تمھیں بات درست کہتا ہوں۔ اور تم سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں کہ میں غلط ہوں تو آبپارہ چوک میں جلسہ کرنے کے بجائے میرے پاس آکر کہہ دیا کرو ۔
اور ہاں 2015 میں اور اس سے پہلے اگر کسی کی دل آزاری ہوئی تو معافی کا خواستگار ہوں ۔ میں نے کسی روز لکھا تھا کہ میں چالیس برس تک خود ہی ٹھیک ہو جاؤں گا لیکن اب سوچتا ہوں کہ شاید چالیس تک زندہ بھی رہتا ہوں کہ نہیں ، سو اپنی ذات میں تبدیلی کا سفر میں یکم جنوری 2016 سے شروع کر دیا تھا ۔ بتا نہیں سکا ، اب بتا رہا ہوں کہ میں پہلے والا نہیں رہا ۔
2016 میں ، میں کچھ کرنا چاہتا ہوں ۔ کچھ پڑھوں گا اور آپ کو بتاتا رہوں گا ۔ کچھ دیکھوں گا تو آپ کے لیے لکھتا رہوں گا ۔ شاید مجھے کچھ کڑوے سچ بھی لکھنے پڑیں تو برادشت کیجئے گا کیونکہ
بچھلے برس میں نے گالی کا جواب گالی سے دیا تھا ، اس کی وجہ یہ تھی اردو لغت گالیوں کے معاملے میں کافی کمزور تھی ، میں نے اردو زبان کی خدمت کی اور لغت میں یک لفظی گالیوں کے بجائے مصرع اولیٰ جیسی گالی کو رواج دیا ۔
لیکن اب میں گالی نہیں دوں گا ، سو وقت نہ ضائع کرنا ۔ بہت سے سال میں نے ضائع کر دیے ، سو بہت سے کام کر نے ہیں ۔ اپنے حصے کے کام مرنے سے پہلے پہلے شاید وہ کام مجھے زندہ رکھیں ۔ دعاؤں کی درخواست کے ساتھ