سنو ! میں جعفر نقوی ہوں ، تو سالے !ایران کیوں نہیں بھاگ جاتے ؟ – عامر حسینی
منظر ہے احمد آباد شہر کی ایک سڑک کے کنارے پر لگی ” انڈا بھوجی ” کی ایک ریڑھی کا اور سمیر ( سنجے سوری ) اور اس کی بیوی انورادھا ڈیسائی (ٹسکا چوپڑا ) دھلی سے واپس اپنے گھر کی اور لوٹتے ہوئے وہاں رکتے ہیں اور ریڑھی والا جو کہ ہندؤ ہے بتاتا ہے کہ ” فسادات ” نے سارا دھندہ چوپٹ کررکھا ہے اور ہر چیز کو آگ لگ گئی ہے ، زیادہ ” انڈا بھوجی ” تو سالے پھوجی ہی کھاجاتے ہیں ، کیونکہ ان کو یہاں روکنے کے لئے یہ سب تو برداشت کرنا پڑتا ہے ، یہ آدھی رات کا وقت ہے کہ اچانک ایک پولیس کی گاڑی وہاں کھڑی ہوتی ہے اور گاڑی سے ایک انسپکڑ نکلتا ہے اور ڈنڈا لہراتا ہوا ” انڈا بھوجی ” والے سے کہتا ہے اے چلو بند کرو اور پھٹ لے یہاں سے
اور سمیر و ڈیسائی سے بھی یہی کہتا ہے ، پولیس والا ان سے ان کی شناخت بارے پوچھنے ان کی طرف بڑھتا ہے تو انورادھا ڈیسائی فوری آگے بڑھکر کہتی ہے کہ میں انورادھا ڈیسائی اور اپنے شوہر کی طرف اشارہ کرکے اس کے نام کا پہلا حصّہ بتلاتی ہے کہ یہ ہیں مرے پتی سمیر پولیس والا یہ سنکر نرم پڑتا ہے اور کہتا ہے کہ بی بی اتنی رات تک یوں باہر رہنا اچھا نہیں ہے سمیر گاڑی کی اور جاتا جاتا رک جاتا ہے اور پولیس والے کو مخاطب کرکے کہتا ہے
انسپکڑ صاحب ! میرا پورا نام سمیر ارشد شیخ ہے
اور گاڑی کی طرف بڑھتا ہے ، پولیس والا پورا نام سنکر بھڑک جاتا ہے اور اسے آواز دیکر کہتا ہے
سالے پھر پاکستان بھاگ جا ، یہان کیا کرتا ہے
میں نے یہ سین دیکھا تو مرا ذھن بھک سے اڑگیا اور مجھے آج کے پاکستان کی موجودہ صورت حال پہ یہ سچوئشن بالکل فٹ بیٹھتی نظر آئی ، بس یہاں معروض اور طرح کا ہے سعودی – ایران بائنری کا فوبیا اسقدر سوار ہے کہ کسی ظلم اور زیادتی کے حلاف بات کریں ، تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ آپ کا نام کیا ہے ؟
آپ نے بتایا کہ
سنو ! ميں جعفر نقوی ہوں
آگے سے جواب آئے گا
کہ تم تو بات ہی نہ کرو ، ایرانی ایجنٹ ہو ، ایران بھاگ جاؤ ، سالے یہآں کیا کررہے ہو
اس فلم کے بہت سے مناظر مرے ذھن پر چپک کر رہ گئے
ایک ہاؤس وائف آرتی ( دپتی نوال ) جوکہ اپنے آپ بازو پر گرم خوردنی تیل گراکر اپنے ضمیر کے کچوکوں کو دبانے کی کوشش کرتی ہے جو اسے ایک گڑگراتی گجراتی مسلم عورت کی مدد نہ کرنے پر ہورہے ہیں جو اس کے دروازے پر کھڑے گھرے ہندؤ جنونیوں کے ہاتھوں پہلے ریپ ہوتی ہے اور پھر موت کے گھاٹ اترجاتی ہے ، اسے سڑکوں پہ ایک گجرات کے فسادات میں یتیم ہوجانے والا لڑکا ملتا ہے ، بھوکا ہوتا ہے ، شاید کسی ٹھیلے سے کیلا چرا کر بھاگ رہا ہوتا ہے اور سبزی لیکر واپس آتی ہوئی آرتی سے ٹکرا جاتا ہے ، وہ ادھ کھایا کیلا زمین پر پڑا دیکھکر اس سے پوچھتی ہے ، بھوکے ہو ، لڑکا سر ہلاتا ہے اور اسے گھر لے آتی ہے اور اسے پاپڑ دیتی ہے کھانے کو کہ اتنے میں اس کا سسر اسے آواز دیتا ہے ، وہ لڑکے کو سسر سے ملوانے لیجانے لگتی ہے کہ اچانک اس کی نظر لڑکے کے کلے میں پڑے تعویز پر پڑتی ہے تو وہ اسے پیچھے کردیتی ہے
ایک اور سین آرتی کے گھر کی رسوئی کا ہی ہے ، آرتی لڑکے سے نام پوچھتی ہے ، لڑکا کہتا ہے
محسن
آرتی کہتی ہے
ٹھیک ہے رسوئی ميں تم محسن ہو اور رسوئی سے باہر موہن ہو
منیرہ ( شاہانہ گوسوامی ) اور جیوتی ( امرتا سبھاش ) اسکوٹی پہ مہندی لگانے ایک ہندؤ شادی گھرانے میں جاتے ہیں اور گھر کے داخلے پر جیوتی اپنی بندیا منیرہ کے ماتھے پہ لگاتی ہے اور کہتی ہے کہ اس سے ان کو شک نہیں ہوگا ، منیرہ بے ساختہ پوچھتی ہے
اور تمہارا کیا ؟
مجھے تو سب جانتے ہين
یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتی ہے
اور واپسی پر جب اسکوٹی کو ایک ناکہ پر روکے جانے کا اندیشہ ہوتا ہے تو جیوتی پھر جھٹ سے اس کے ماتھے پر بندی چپکاتی ہے اور پولیس والا جب لائسنس مانگتا ہے تو جیوتی اسے اس کی آنکھوں کے سامنے لہراتی ہے تو اس پر ہندؤ لڑکی کا نام پڑھ کر اس کے چہرے پر ملاحت آجاتی ہے اور اور بخوشی ان کو جانے دیتا ہے سمیر ارشد شیخ جب دھلی بھاگ آتا ہے اپنی بیوی کے ساتھ اس کی ماں کے گھر تو وہاں چندے لینے والے ہندؤ آتے ہیں تو وہ اپنے نام کا پہلا حصّہ بتلاتا ہے اور اپنے نام کا دوسرا حصّہ وہ گول کرجاتا ہے
دیکھا کہ شناختیں کیسے ” عذاب ” بن جاتی ہیں اور ” علامتیں ” بھی
میں یہاں ایک اعتراف اپنی بزدلی کا بھی کرنا چاہتا ہوں
میں جنوبی وزیرستان گیا ہوا تھا اور مکین میں بیت اللہ محسود سے صحافیوں کے ایک وفد سے ملا تھا ( اس کی روداد ” ہم شہری ” لاہور میں شایع ہوئی تھی ) اور میں نے اسپین گئی میں قاری حسین محسود سے بھی ملاقات بھی کی تھی جو اسی وقت کوہاٹ سے جہاد کرکے لوٹا تھا ، اس کی چھری کا نام لیکر محسود اپنے بچوں کو ڈرایا کرتے تھے ، بیت اللہ محسود نے مجھ سے پوچھا تھا کہ تمہارے نام کے ساتھ ” حسینی ” کیوں ہے ؟ کیا تم شیعہ ہو ؟
سچی بات ہے کہ اس کا یہ سوال سنکر میں ڈرگیا تھا اور میں نے فوری طور پر کہا کہ یہ نام میں ” شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ” کی نسبت سے رکھا ہے تو بیت اللہ محسود نے مجھے کہا کہ تو پھر ” الحسینی ” لکھا کرو اور ساتھ ہی ماشاءاللہ بھی کہا ، مری جان میں جان آئی ، ایک مرتبہ بلوچستان کیچ گیا اور وہاں میں جیش کے لوگوں سے ملا ، ایک کمانڈر نے مجھ سے پوچھا کہ مرا نام کیا ہے ، میں نے صرف اپنے نام کا پہلا حصّہ ” محمد عامر ” بتایا اور ” حسینی ” گول کرگیا ( آکرچہ بعد میں اپنی اس بزدلی پر بہت غضّہ بھی آیا اور ندامت بھی ہوئی تھی اور شاید مرے ضمیر کی ملامت تھی اس کے بعد میں نے بہت کھل کر اور بہت بلٹنٹ ہوکر لکھا اور کہا بھی اور یہ عہد بھی کیا تھا کہ کبھی اپنے کوفے کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا ، اسی اثر کے تحت میں نے ” افسانہ ” لکھا تھا جس کا آخری جملہ یہ تھا
کیوں جاؤں یہ ملک چھوڑ کر ، کیا علی نے اپنا کوفہ چھوڑا تھا جو میں چھوڑ جاؤں
یقین مانئے شیخ نمر باقر النمر کے ساتھ بھی یہی معاملہ تو ہوا تھا اس نے کہا تھا کہ
میں 55 سال کا ہوگیا ہوں کبھی بھی خود کو یہآن محفوظ تصور نہیں کیا ، ہمین تو دیواروں سے بھی ڈرایا جاتا ہے اور اس صوبے کا سیکورٹی چیف کہتا ہے کہ لازم ہے تمام شیعہ قتل کردئے جائیں
اور آپ کو معلوم ہی ہے کہ چلاس گلگت بلتستان میں کیا ہوا تھا شناختی کارڑ دیکھکر جس کا نام ” علی ، حسین ، فاطمہ ، حسن ” تھے سب کے سب مارڈالے گئے تھے ، جہاں سیاہ علم لہراتا دیکھا وہاں حملہ ہوا ، جس کے ہاتھ ميں چاندی کا کڑا دیکھا اس پر نشانہ لگایا اور پھر قوالی ، عرس ، میلاد اور عاشور خودکش بمباروں کی زد میں آگئے
اور جب سے سعودی و ایران کے درمیان کشیدگی زرا تیز ہوئی ہے تو زرا سوشل میڈیا پر نظر دوڑائیں درجنوں ایسے سٹیٹس مل جائیں گے جو ” شیعہ شناختوں ، ناموں ، علامتوں ، مذھبی ثقافتی شعائر ” کو ایران سے جوڑ رہے ہیں اور پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے شیعہ کو ایران جانے کا سبق دیا جارہا ہے اور سعودی عرب کو کہا جارہا ہے کہ وہ عوامیہ کے شیعوں کو نیست و نابود کرڈالے اور بس جنوبی ایشیا میں پوری طرح سے نہین چل رہا کہ یہاں بھی ان کو نیست و نابود کردیا جائے
میں جانتا ہوں کہ یہاں کوئی ” نندتا داس ” نہیں ہے جو یہاں سے 100 سچی کہانیاں اکٹھی کرے گی اور یہاں پر ” تکفیری فاشزم ” کے ہاتھوں بپا قیامت کے بعد پیدا ہونے والی ٹریجڈی کو کسی ” فراق ” میں ڈھالے گی ، کیونکہ یہاں کسی کو لگتا ہی نہیں ہے کہ ” شیعہ ” کے لئے پاکستان ان کی شناخت کے حوالے سے ایک ” جہنم ” سے کم نہیں ہے ، وہ تو یہ سمجھتے ہیں کہ شیعہ جو پاکستان کے کونے ، کونے میں پلے کارڑز لیکر نکل پڑتے ہیں اور وہ بار بار ” لال مسجد والوں ” کا محاصرہ کرتے ہیں تو کبھی سعودی قونصلیٹ کے سانے جاکر کھڑے ہوجاتے ہیں تو کبھی شکار پور کی امام بارکآہ کے پڑوس والوں کی سردمہری اور بے مہری کا شکوہ کرتے ہیں تو یہ سب وہ ” ایجنٹی ” کے تحت کررہے ہیں
یہاں ایک افسانہ ” کیا نام تھا اس کا ” اشعر مسعود نے لکھا تھا اور اس میں ڈاکٹر علی حیدر آف لاہور کے شیعہ شناخت پر قتل ہوجانے کا المیہ نقش کردیا تھا اور یہ افسانہ بھی اس لئے لکھا گیا کہ اشعر مسعود خود بھی ایک ” نسلی شیعہ ” تھا ( وہ کمیونسٹ ہے مگر اس کو اپنا شیعہ بیک گراؤنڈ اس لئے دوبارہ سے زیادہ شدت سے یاد آیا جب ڈاکٹر علی حیدر کے باپ کی اس نے حالت دیکھی اور اس کا اس افسانے کے زریعے اپنی بھولی شناخت کو دوبارہ سے پالینے کا عمل ویسا ہی ہے جیسا ہمیں سمیر ارشد شیخ کے ہاں ملتا ہے
)
مری ایک دوست نے ابھی کل ہی کہا کہ حسینی ! ( اس سے پہلے وہ مجھے عامی کہا کرتی تھی لیکن اس دن اس نے مجھے مرے نام کے دوسرے حصّے کے ساتھ پکارا میں چونک گیا ) مجھے لگتا ہے کہ تم نے ” ملحد اشتراکی ” ہونے کا ڈرامہ رچا رکھا ہے ، اندر تمہارے ایک ” شیعہ ” چھپا بیٹھا ہے
میں نے کہا ( بڑی مشکل سے اپنے آپ کو قابو میں رکھا ) تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے ؟
تم ” تکفیری فاشزم اور شیعہ کیوسچن ” پر اتنے ٹچی کیوں ہوگئے ہو ، اتنی شدت کیوں ہے تمہارے ہاں ؟
میں بڑا حیران ہوکر اسے دیکھنے لگا ، میں نے اس سے پوچھا کہ کہ کیا اسے ” شیعہ کمیونٹی ” کی ٹریجڈی معمولی لگتی ہے
کیا اسے لگتا ہے کہ تکفیری فاشزم اور شیعہ نسل کشی واقعی ” غیر شدید ردعمل ” کا متقاضی ہے ؟ اور یہ واقعی کوئی ٹریجڈی نہیں ہے ؟ کیا ان پر ہونے والی یلغار پر اکثریت کی خاموشی اور یلغار کرنے والوں کے بڑھے حوصلے کسی بھی انسان دوست کو بے چین ، بے قرار کرنے کے لئے کافی نہیں ہے ؟ کیا 70 ہزار لوگوں کا مارا جانا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہے ؟ کیا ہزاروں لوگوں کا اس ملک کو چھوڑ کر چلے جانا اس لئے کہ اپنی مذھبی شناخت ، نام ، علامتوں کے ساتھ ان کا یہاں رہنا محال ہوگیا تھا ، کیا بڑا واقعہ نہیں ہے ؟ کیا یہ ایک ادیب کو اکسانے والے واقعے نہیں ہيں ؟ تورا بورا کی ٹریجڈی پر ناول لکھنے والے ، یا ری لکٹینٹ فنڈا مینٹلسٹ لکھنے والے سے کسی نے یہ سوال کیا تھا ؟ کہ بھائیو کیا ان واقعات پر اس قدر ٹچی ہونے کی کیا ضرورت تھی ؟ نہین نا تو پھر مجھ سے یہ سوال کیوں ؟
میں کہتا ہوں کہ عراق میں بغداد سے مخلوط آبادی کا سکڑاؤ اور وہاں مخلوط آبادی کے علاقوں کا بتدریج کم ہوتے جانے اور وہاں پر شناخت کے ساتھ کئے جانے والے سلوک پر بھی کئی کہانیاں سامنے لائی گئی ہیں اور شام کے اندر بھی ایسے ناول ، کہانیاں اور فلمیں بن رہی ہیں ، گویا ہر خطے کا جو بھی ” فراق ” ہے اس پر فلم ، ناول ، ڈاکومنٹری سامنے آرہی ہیں لیکن یہاں کا ” فراق ” فلمایا نہیں جا رہا ہے بلکہ اس پر بات کرنے والوں کو ” فرقہ پرستی ” کے طعنے دینے یا ایران سے جوڑ دینے کا رجحان عام ہوتا چلا جارہا ہے
شرمین عبید چنائے ، ثمرمن اللہ , عمران بابر , فرجاد نبی سمیت کئی نام ہیں جنھوں نے ڈاکومنٹری فلمز بنانے میں نام بنایا ، ان کو تیزاب سے جل جانے والوں ، طالبان جنریشن ، ملالہ ، چائلڈ لبیر ، بچپن کی شادی ، غیرت کے نام پہ قتل ، بھٹہ مزدور سمیت کئی ایک موضوعات پر ڈاکومنٹری یا فیچر فلمیں بنانے کا خیال آیا لیکن ” سبط جعفر ، ڈاکٹر علی حیدر ، اعتزاز احسن ، محضر فاطمہ ، عرفان علی خودی ” جیسے کئی نام تھے جو حقدار تھے کہ ان پر ڈاکومنٹری فلم بنتی اور ان کے سہارے اس ٹریچڈی اور ” فراق ” پر بات کرلی جاتی جس کا میں یہاں آج نوحہ لکھنے بیٹھا ہوں
No One Believes Professor
فرجاد نبی نے بنائی تھی ، لیکن استاد سبط جعفر کی موٹر سائیکل اور اس کی زندگی بھی اس بات کی مستحق تھی کہ اس پر بھی فلم بنائی جاتی لیکن یہ سب شاید ان کی ” شناخت ” کی وجہ سے ممکن نہیں ہوپارہا ، کیونکہ ان سب کرداروں کے ساتھ جڑا ” لفظ ” شیعہ ان کی کہانی پر فیچر فلم بنانے کی راہ میں روکاوٹ بنا ہوا ہے