پاکستان میں سعودی وہابی منصوبے کی تکمیل کے لئے طاہر اشرفی نے سعودی عرب سے عبد الحفیظ مکی دیوبندی کو بلوا لیا – از عامر حسینی

5337_10208459091663199_6711008076486475629_n

 
ایک ویب سائٹ ہے جس کا ویب ایڈریس ہے
 
 
 
اس سائٹ پر ایک آرٹیکل انگریزی میں پڑا ہے جس کا ویب ایڈریس ہے
 
 
یہ آرٹیکل مولانا عبدالحفیظ مکّی نے لکھا ہے اور آرٹیکل کا ترجمہ اسماعیل ناخدا نے کیا ہے اور اس کا عنوان ہے
شیخ محمد بن عبدالوہاب اور صوفی ازم اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں آپ کو بتاتا چلوں کہ اس مضمون کے آغاز ہی میں مولانا عبدالحفیظ مکّی نے ہمیں یہ اطلاع دی کہ
 
Imam Muhammad bin Saud Islamic University (pictured above) in Riyadh held a “Shaykh Muhammad bin ‘Abd al-Wahhab Week” in which all of the shaykh’swritings were distributed in twelve volumes.
 
امام محمد بن سعود یونیورسٹی ریاض میں ” شیخ محد بن عبد الوہاب ویک ” منایا گیا جس میں شیخ کا مجموعہ تصانیف جو بارہ جلدوں میں تھا تقسیم کیا گیا
 
ابھی دو دن ہوئے ہیں 12 ربیع الاول کو گزرے ، جیسے ہی ربیع الاول آتا ہے تو دارالعلوم دیوبند اور غیر مقلدین کے مدرسوں کی اکثریت سے ” عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ” کے خلاف فتاوی جات کی بھرمار ہوجاتی ہے اور اس دن کے منانے پر وہ شور مچتا ہے کہ الامان الحفیظ ، اور میں صاف کہتا ہوں کہ اگر کوئی اس عید کو نہیں منانا چاہتا نہ منائے اور اس کو وہ بدعت خیال کرتا ہے تو کرے لیکن اس حوالے سے خود ہی دوغلا پن کہاں کا انصاف ہے ، عبدالحفیظ مکّی ابن سعود یونیورسٹی کی جانب سے ” ہفتہ محمد بن عبدالوہاب نجدی ” منائے جانے کو ” بدعت ” کیوں نہیں کہتا اور اس کے خلاف کوئی فتوی کیوں نہیں لاتا ، ویسے تو یہ خود بھی جشن صدسالہ دارالعلوم دیوبند منائیں تو بھی ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا ، حد ہوتی ہے منافقت کی بھی
 
یہ دو تصاویر میں نے اس لئے اپ لوڈ کیں کہ آپ دیکھ لیں کہ کیسے منافقت کی جاتی ہے اور لوگوں کو غم اور خوشی منانے سے روکنے کے لئے فتوؤں کی تلوار استعمال کی جاتی ہےخیر عبدالحفیظ مکّی صاحب پر یہ نوٹ لکھنے کا خیال مجھے اس لئے آیا کہ میں محمد طاہر اشرفی چئیرمین پاکستان (دیوبند ) علماء کونسل کی جانب سے دیا گیا ایک اشتہار پڑھا جس کو میں نے اس نوٹ کے کور فوٹو کے طور پر استعمال کیا ہے اور اس میں پیغام اسلام کے عنوان سے ایک کانفرنس کے اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں انعقاد کی خبر دی گئی ہے اور اس میں عبدالحفیظ مکّی کی آمد کی خبر بھی دی گئی ہے
 
عبدالحفیظ مکّی ان مولویوں میں شامل ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو سعودی حکومت کے ہاتھ فروخت کردیا ہے اور دیوبندی ازم کی ایسی تعبیر کے لئے وقف کررکھا ہے جس سے سعودی حکومت کے مفادات کو فروغ ملے اور سعودی عرب کو ہی زبردستی ” سنّی اسلام ” کا قائد اور رہنماء ثابت کیا جاسکے اور ظاہر ہے یہ قیادت و سیادت سعودی عرب کے پاس ہوگی تو وہ آل سعود کا غلبہ و تسلط مڈل ایسٹ ، جنوبی ایشیا ، شمالی افریقہ ودیگر خطوں میں قائم و دائم رہ سکے گا ،
 
عبدالحفیظ مکّی جنوبی ایشیاء جہان سنّی حنفی مذھب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے اور دارالعلوم دیوبند سے منسلک لاکھوں مدارس پوری مسلم دنیا کے اندر پھیلے ہوئے ہیں میں ” سعودی وہابی آئیڈیالوجی کا نکاح دیوبندی تحریک ” سے کرانے کا ٹاسک لئے ہوئے ہیں اور ان کے پاس یہ ٹاسک بھی ہے کہ وہ صوفی سنّی روایت جسے جنوبی ایشیا میں ” بریلوی روایت ” کہا جات ہے اور اہل تشیع کی تکفیر ، ان کی تضلیل کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے ہیں ، عبدالحفیظ مکّی سعودیہ عرب 80ء کی دھائی میں اس وقت منتقل ہوئے تھے جب ” عراق و ایران جنگ ” جاری تھی اور سعودی عرب – ایران کے درمیان مذھبی پراکسی وار عروج پر جاپہنچی تھی اور ایسے میں سعودی عرب کو پاکستان کے اندر سے ایسے مولویوں کی ضرورت تھی جو سعودی عرب میں مقیم سنّی حنفی ورکنگ کلاس کی برین واشنگ میں مدد دے سکیں اور ان کے اندر شیعہ مخالف ، بریلوی مخالف جذبات پروان چڑھا سکیں اور عبدالحفیظ مکّی جیسے لوگ وہ تھے جنھوں نے پاکستان کے اندر اینٹی شیعہ ، اینٹی صوفی سنّی دیوبندائزیشن و سعودیزائشن کی تحریک کو نظریاتی بنیادوں پر استوار کرنے اور تبلیغی جماعت و سپاہ صحابہ پاکستان کے لئے فنڈز کی فراہمی کو ممکن بنایا
 
عبدالحفیظ مکّی ہی وہ شخص تھے جو دیوبندی تکفیری تںطیموں کیباہمی سرپھٹول پر پریشان تھے اور ان کے اندر خونین لڑائی سے پریشان ہوکر ثالثی کا کردار ادا کررہے تھے اور انھوں نے ہی ظاہر اشرفی کو ملک اسحاق کو کوٹ لکھپت جیل سے لینے اور ان کا استقبال کرنے بھیجا تھا ، تاکہ ملک اسحاق اور ان کے ساتھیوں کو جماعت الاحرار اور داعش وغیرہ کے ساتھ جانے سے روکا جائے اور لو پروفائل شیعہ کلنگ پر راضی کرلیا جائے اور اس کو محمد احمد لدھیانوی سے صلح کے راستے پر لیجایا جاسکے اور اس ساری تگ و دود کا مقصد دیوبندی تکفیری تنظیموں کے درمیان ” سعودی عرب اور آل سعود ” بارے پائے جانے والی مختلف آراء کو ختم کرکے سب کو ” سعودی عرب ” کے ساتھ کھڑا کرنا مقصود تھا اور پاکستان میں ریاست کو ” یمن و شام ” پر اپنی خارجہ پالیسی کو بدلنے پر مجبور کرنا تھا
 
مجھے طاہر اشرفی کے قریبی لوگوں نے بتایا کہ طاہر اشرفی یہ ٹاسک پورا کرنے میں ناکام ہوگئے تو عبدالحفیظ مکّی نے محمد احمد لدھیانوی و ملک اسحاق کو سعودی عرب بلانے کا انتظام کیا ، ملک اسحاق پر تو بین الضلاعی نقل و عمل پر پابندی تھی لیکن یہ سعودی عرب کا دباؤ تھا کہ ملک اسحاق کو سعودی عرب جانے کی اجازت پراسرار طریفے سے مل گئی ، کچھ حلقے تو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور نواز لیگ کی حکومت کے اندر بیٹھے کئی ایک وزراء کا یہ خیال تھا کہ ملک اسحاق کا گروپ اگر لدھیانوی گروپ کا پیٹرن اختیار کرلے گا تو کم از کم پنجاب میں سکون رہے گا ،
 
محمد احمد لدھیانوی اور ملک اسحاق سعودی عرب گئے اور وہاں ان کے ساتھ ملک اسحاق کے ساتھ غلام رسول شاہ بھی تھا اور لدھیانوی کے ساتھ اورنگ زیب فاروقی بھی تھا وہاں بظاہر معاملات طے پاگئے تھے لیکن ملک اسحاق اور ان کے ساتھیوں کے اندر یہ خیال کہیں جاگزیں ہوگیا تھا کہ 80ء کی دھائی میں جو جنگ انھوں نے شروع کی تھی اس میں وہ بس ” پیدل سپاہی ” تھے اور ان کو ٹشو کی طرح استعمال کیا گیا اور اس کا پھل کسی اور نے کھایا اور اسی چیز نے ان کے گروپ کو ایک کھلی جنگ پر مجبور کردیا اور یوں ملک اسحاق اپنے ساتھیوں سمیت بالآخر اس انجام سے دوچار ہوئے جو ” پیدل سپاہیوں ” کا قسمت ہوا کرتی ہے
 
پاکستان کی ریاست نے ابھی تک مڈل ایسٹ میں جاری فرقہ وارانہ جنگ میں کسی بھی کیمپ میں شمولیت اختیار نہیں کی ہے اور اس نے اپنا موقف غیر جانبدارانہ رکھا ہے مگر پاکستان کے اندر سعودی عرب کی لابی کی کوشش مسلسل یہ ہے کہ پاکستان کو ” سعودی عرب اور اس کے اتحادی جنگی کیمپ ” کا حصّہ بنایا جائے اور اس لابی کی کوشش ہے کہ پاکستان کی افواج یمن اور شام سمیت جہاں سعودی عرب چاہے استعمال کی جاسکیں اور اس کے لئے پاکستان کے اندر سے دباؤ ڈویلپ کرنے کے لئے سعودی فنڈنگ سے کمپئن چل رہی ہے اور اس سارے کام میں پاکستان کے اندر طاہر اشرفی اینڈ کمپنی اور محمد احمد لدھیانوی گروپ بہت سرگرم ہے اور یہ ” سعودی نواز پروپیگنڈا ” کرنے کے لئے سعودی فنڈنگ سے کام چلارہے ہیں
 
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے لئے سب سے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ مڈل ایسٹ ، شمالی افریقہ کہیں بھی اپنے آپ کو کسی بھی کیمپ کی جانب سے ملوث نہ کرے ، نہ تو اسے سعودی عرب کے کیمپ میں جانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسے حوثی یمن – ایران – اسد شام -روس کیمپ میں جانے کی ضرورت ہے ، اگرچہ یہ بات بہت واضح ہے کہ یمن اور شام پر بیرونی جارحیت مسلط کی گئی اور وہاں کے لوگوں کو اپنا فیصلہ خود کرنے کا موقعہ نہیں دیا گیا ، مگر پاکستان کے پاس نہ تو اتنے وسائل ہیں اور نہ اتنی استطاعت ہے کہ ہم اپنی فوج کو غیر ملکی تنازعے میں جھونک ڈالیں ، پاکستان کثیر المسلکی ملک ہے اور شیعہ ، سنّی بریلوی ، دیوبندی ، اہلحدیث یہآں بستے ہیں اور ہم ایسا کوئی رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جس سے پاکستان ان مسالک کی جنگ کا میدان بن جائے ، اگرچہ تکفیری دیوبندی تنظیموں نے کوئی کثر چھوڑی نہیں ہے پاکستان میں فرقہ وارانہ سول وار کرانے میں لیکن اس ملک کی اکثریت سنّی ، شیعہ ، دیوبندی ، اہلحدیث نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ہے اور ہمارے ہاں ابھی تک گلی محلوں میں جنگ کی کوئی کیفیت نہیں ہے ، اسے اپنے لیے اپنے لئے نعمت خیال کرنا چاہئیے اور اسلام آباد کا سرکاری کنوشن سنٹر کو سعودی لابی کے لئے استعمال کی باجازت نہیں ملنی چاہئیے تھی
 
میں دیوبند تحریک کے اعتدال پسند مذھبی سکالرز سے کہتا ہوں کہ وہ اپنی مجرمانہ خاموشی ترک کردیں ، دیوبندی تحریک نے آغاز کار سے کبھی یہ تسلیم نہیں کیا تھا کہ وہ ” وہابی تحریک ” کا تسلسل ہیں اور اس تحریک کی بنیاد رکھنے والوں نے ” وہابی ازم ” سے اپنی بیزاری کا اظہار ” المہند ” نام کے اجتماعی فتوے میں کیا تھا اور مفتی محمود حسن اسیر مالٹا نے تو عثمانی خافت کے خلاف اٹھنے والی وہابی تحریک کے خلاف باقاعدہ تحریک چلائی تھی ، شیخ حسین احمد مدنی نے ایک مکمل کتاب ” دیوبند تحریک کے وہابی ازم سے کوئی رشتہ نہ ہونے ” کو واضح کرنے پر لکھی تھی ، یہی بات حال ہی میں دار العلوم ندوہ کے پرنسپل اور مفتی اعظم سید سلمان ندوی نے اپنے ایک خط میں لکھی ، اس میں انھوں نے دارالعلوم دیوبند انڈیا کے مہتمم مولانا ارشد مدنی کو باور کراتے ہوئے کہا
 

”آپ کے والد محترم حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ جن مغربی بیرونی طاقتوں سے ۔ جن میں سرِ فہرت اس وقت ‘‘ ہندوستان میں برطانیہ کے انگریز تھے ’’ کہیں فرانسیسی تھے ، کہیں اطالوی ، کہیں روسی ۔ عمر بھر لڑتے رہے ، اور جلا وطنی اور جیلوں کی سختیاں جھیلتے رہے ، آج سعودی حکومت انہیں کی گود میں بیٹھی ہوئی ، جزیرۃ العرب میں بالخصوص اور پورے عالم اسلام میں بالعموم انہیں کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے، تیل کی کمپنیاں ہوں یا سیکوریٹی کا با مخابراتی نظام ، وہ انہیں کی نگرانی میں چل رہا ہے ، کیا کبھی اس پر غور کرنے کا جناب کو موقع ملا“

میں یہی سوال علمائے دیوبند سے کرنا چاہتا ہوں کہ وہ بتائیں کہ وہ ” دیوبند تحریک ” کو سامراج دشمن تحریک کے طور پر متعارف کراتے ہیں لیکن کیا ” سعودی عرب ” سے اشتراک اور سٹریٹجک اتحاد ” سامراج دشمن کیمپ ” کے ساتھ اشتراک ہے یا سامراج کے ایجنڈے کے پیچھے چلنا ہے ؟
 
مسٹر راجیشور راؤ کے خط کا یہ عکس میں یہاں اس امید پر دے رہا ہوں کہ شاید علمائے دیوبند کو کچھ شرم آئے اور وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی شاندار تاریخی ورثے کو اپنے ہاتھوں سے برباد کرنے والوں کو اپنی صفوں سے نکال باہر کریں ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے 1980ء میں سیکرٹری جنرل راجشیور راؤ نے ” جشن دارالعلوم دیوبند ” پر اپنے تہنیتی پیغام میں کہا تھا کہ ان کو بخوبی علم ہے کہ دارالعلوم دیوبند مين پڑھنے اور پڑھانے والے کئی ایک علماء نے کیسے برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کی تھی اور ہندؤ – مسلم اتحاد کے لئے کام کیا تھا ، تو اگر ہندؤ – مسلم اتحاد کے لئے کام کرنا فخر کا باعث ہوسکتا ہے تو کیا خود مسلم مسالک کے ماننے والوں کے درمیان ” کفر کے فتوؤں ” کی تقسیم کرنے والوں کے خلاف جدوجہد فخر کا باعث نہ ہوگی ؟
 
میں صاف بات کہتا ہوں کہ آج دیوبندی تحریک اگر اپنی ” سیکولر قوم پرستی ، سامراج دشنمی ” سے دور جاپڑی ہے تو اس کی واحد وجہ سعودی عرب کی چاکری اور سعودی ریال ہیں جنھوں نے عبدالحفیظ مکّی ، محمد احمد لدھیانوی ، طاہر اشرفی ، زاہد قاسمی جیسوں کو اندھا کردیا ہے
 
حسین احمدنی کی عادت تھی کہ وہ بطور عاجزی اپنا نام ” ننگ دین واسلاف ” لکھتے تھے اور وہ اپنی تمام تر قید وبند کی صعوبتوں اور عظیم الشان سامراج دشمن کردار کے باوجود خود کو اپنے اکابرین کے برابر خیال نہ کرتے تھے اور آج میں کہتا ہوں کہ ننگ دین و اسلاف کا حقیقی معانی کے ساتھ اطلاق سعودی نواز دیوبندی ملّاؤں پر ہونا چاہئیے جنھوں نے دیوبند تحریک کے اکابرین کی قائم کردہ روایت کو ریالوں کے عوض بیچ دیا ہے
 
غضب خدا کا جسے حسین احمد مدنی نے ” خونخوار ، قاتل ، مثل خوارج ” لکھا اور وہابی خبیث جیسا جملہ لکھا اس محمد بن عبدالوہاب نجدی کو عبدالحفیظ مکّی نے اپنی کتاب میں ” صوفی صادق ، ولی اللہ ، شیخ الاسلام ” ثابت کیا ہے ، ہے کسی دیوبندی عالم میں یہ ہمت اور جرآت ہے کہ وہ اس عبدالحفیظ مکّی سے پوچھے کہ ’مکّی صاحب ! آپ کے شیخ اکبّر مولانا حسین احمد مدنی تو آل سعود اور ان کے بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی کو مثل خوارج کہتے رہے اور تم اسے صوفی باصفا ثابت کرنے پر تلے ہو اور آل سعود کی ناجائز و غاصب حکومت کو جائز ثابت کرنے پر تلے ہو ، یا انقلاب کیسے آیا ؟ کیا ریالوں میں اتنی طاقت ہے کہ تم نے اپنا دین اور اپنے اکابرین کا سودا کرڈالا
 
اور عجب بات یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند اور جمعیت العلمائے ہند کا ہندوستان میں آج بھی یہ موقف ہے کہ وہ ” سیکولر قوم پرست ” ہیں جس کا صاف صاف مطلب یہ بنتا ہے کہ وہ آج بھی بھی وطن کی بنیاد پر قوم کے قائل ہیں اور اگرچہ اب وہ حال میں ” سامراج دشمن ” کردار سے دور بھاگتے ہیں کیونکہ وہاں بھی ریال کی محبت غالب ہے اور دارالعلوم دیوبند کے ہاں ہندؤ ، سکھ ، کرسچن ، پارسی ، جین مت والوں سے مکالمہ تو ٹھیک ہے لیکن مسلمانوں میں وہ بس ایک ہی ماڈل چاہتے ہیں اور وہ ہے وہابیت کا ماڈل اور بریلوی و شیعہ- دیوبندی دوستی ان کو پسند نہیں ہے
 
میں سوچتا ہوں کہ آگر سیکولر ازم اور سامراج دشمنی کی تعریف اینٹی شیعہ و صوفی نظریات پر مولانا برکت اللہ بھوپالی ، مولانا حسن حسرت موہانی ، مولانا عبید اللہ سندھی نے اگر استوار کرلیا ہوتا تو بیچارے سبط حسن ، سجاد ظہیر ، سردار جعفری ، سلطانہ جعفری ، کیفی اعظمی اور درجنوں اور شیعہ بیک گراؤنڈ سے آنے والے کمیونسٹوں کے ساتھ کیا بنتا ؟ بات طویل ہوگئی ہے میں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ دیوبندی تحریک کا مین سٹریم دھارا سیکولر قوم پرستی اور سامراج دشمنی پر استوار تھا اگرچہ اس وقت بھی عبدالشکور لکھنوی ، عبداللہ چکڑالوی سمیت کئی لوگ تھے جن کا ڈسکورس فرقہ وارانہ یا آج کی اصطلاح میں تکفیری تھا لیکن یہ ڈسکورس دیوبندی تحریک کا مین سٹریم ڈسکورس نہ تھا لیکن آج افسوس کی بات ہے کہ دیوبندی تحریک کا مین سٹریم ڈسکورس ” سعودی نوآز ” ہے یعنی سامراج کے ایجنٹ کی ایجنٹی ہے اور فرقہ پرستانہ ہے جو سیکولر قوم پرستی سے بہت دور ہے
 

Comments

comments