پشاور سکول سانحہ کی برسی پر طالبان نواز اور جعلی لبرل طبقے کی بد نیت مہم – از عامر ہاشم خاکوانی
پندرہ دسمبر کی شام سے سے سولہ دسمبر کی دوپہر تک سوشل میڈیا، خاص طور پر فیس بک پر ایک طوفان کھڑا رہا۔ چند گھنٹوں کے دوران بہت سی پوسٹیں وجود میں آ گئیں، جنہیں کمال سرعت کے ساتھ پھیلایا گیا۔ سانحہ پشاور میں بعض شہدا کے ورثا کی جانب سے احتجاج کیا گیا، اس کی ویڈیو نہایت منظم انداز سے پھیلائی گئی۔
ایسے ایسے سوالات اٹھائے گئے، جن کے جوابات معلوم تھے یا پھر اندازہ تھا کہ ان سوالات میں جو فتنہ پوشیدہ ہے، جواب دینے اور بحث کرنے سے وہ فتنہ پھیلے گا۔ رواج ہے کہ ایسے موقعوں پر بہت سے ایسے لوگوں بھی تبصرے کرتے ہیں یا ان پوسٹوں کو شئیر کرتے ہیں، جن کا کوئی خاص ایجنڈا نہیں ہوتا؛ چنانچہ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے نیک نیتی سے تبصرے کئے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس مہم میں شامل ہو کر وہ نادانستہ طور پر دہشت گردوں کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ میڈیا کے ایک حصے نے بھی اس ایجنڈے میں حصہ ڈالا۔ ایک بڑے چینل پر سانحہ پشاور کے حوالے سے پروگرام نشر کیا گیا، جس کے آخر میں چند شہید بچوں کے ورثا سے گفتگو کی گئی تھی۔ وہ گفتگو اور پروگرام کا مکمل تاثر فوج اور پاکستانی ریاست کے خلاف تھا۔ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جن درندوں نے معصوم بچوں کو نشانہ بنا کر گھٹیا پن، بزدلی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کیا، ان کا تذکرہ ہی نہیں، گویا یہ بچے دہشت گردوں نے نہیں، خدانخواستہ ریاست نے شہید کےے ہیں۔
حد ہوتی ہے۔ ایسا دنیا میں کہاں ہوتا ہے کہ محاذ جنگ میں لڑتی فوج کی پشت میں چھرا گھونپا جائے اور یہ کام کمال ڈھٹائی اور بے حمیتی سے مسکراتے ہوئے کیا جائے اور جب کوئی اعتراض کرتے تو الٹا اسی پر ناراض ہوا جائے کہ آپ لوگ ہمیں سوال اٹھانے سے روک رہے ہیں، ہمارے اوپر شک کر رہے ہیں۔ جن کے جگر گوشے چلے گئے، ان کی ناراضی، تلخی سمجھ میں آتی ہے۔ مناسب ہے کہ اس رویے کی نفسیاتی وجوہ کو سمجھا اور اس کے مطابق انہیں ڈیل کیا جائے۔ شہدا کے ورثا کی باتوں کو تحمل سے سنا اور نظرانداز کیا جائے، ان کے زخموں پر مرہم رکھا جائے اور ان کے مسائل فوری حل کئے جائیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان میںسے کسی کی تلخ گوئی کو پاک فوج اور ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کے لئے استعمال کیا جائے۔ ایسا کرنا درحقیقت دہشت گردوں کی حمایت اور ان کی سہولت کاری کے مترادف ہے۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ سانحہ پشاور کو ایک سال مکمل ہونے پر منعقد کی گئی تقریب کی وجہ سے پیدا ہونے والی قومی یک جہتی کی سپرٹ کو کیوں سبوتاژ کیا جا رہا ہے؟ پچھلے پورے سال میں تو کسی نے نہیں کہا کہ اس حادثے کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے وغیرہ وغیرہ۔ کون سی نااہلی؟ بھائی‘ وہ سکول تھا، کون سا فوجی اہمیت کا اڈہ تھا، جس کی خاص سکیورٹی فراہم کی جاتی؟ ایک سکول کی کتنی سکیورٹی ہو سکتی ہے؟ دو چار گارڈ اگر زیادہ بھی ہوتے تو دہشت گردی کے اس قدر منظم حملے کی کیا مزاحمت کر لیتے؟ رہی با ت سکیورٹی الرٹ جاری ہونے کی تو یہ ایسی ڈرامہ بازی ہے، جس کے بارے میں ہر صحافی جانتا ہے۔ روزانہ کئی محکمے درجنوں سکیورٹی الرٹ جاری کرتے ہیں۔
ہر مہینے ایسے بیسیوں بلکہ کبھی تو سینکڑوں الرٹ غلط اور بے بنیاد ثابت ہوتے ہیں، لیکن اگر کبھی دو چار مہینے بعد کوئی واقعہ ہو جائے تو فوراً وہ محکمہ اپنے الرٹ کو ڈھونڈ کر اس کی کاپی میڈیا کو لیک کر دیتا ہے۔ یہ سب ایک بے فائدہ، غیر ضروری، گھسی پٹی پریکٹس ہے، جس کا ہر ایک کو علم ہے، جسے کوئی درخور اعتنا نہیں سمجھتا۔ ہونا یہ چاہیے کہ ان سب اطلاعات کو اکٹھا کر کے، ان کا تجزیہ کر کے باقاعدہ، بامعنی الرٹ جاری کیا جائے، جسے لوگ اور محکمے وزن دیں اور اس کے مطابق حکمت عملی بنائیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا، ان الرٹس کا کوئی فائدہ نہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ آپریشن ضرب عضب پہلے سے جاری تھا، اس دردناک واقعے کے بعد اس کی شدت کئی گنا بڑھ گئی۔ سیاسی قیادت نے اکٹھے ہوکر نیشنل ایکشن پلان دیا، ملٹری کورٹس تک بنا دیں، جن کے بارے میں آئینی ماہرین کو تحفظا ت تھے۔ فورسز اور ایجنسیوں نے ایسا موثر آپریشن کیا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ پچاس ہزار کے قریب لوگ پکڑے گئے، بے شمار مارے گئے جبکہ باقی بزدل، حقیر چوہوں کی طرح بل میں دبکے بیٹھے ہیں یا کچھ افغانستان اپنے پروانڈین فنانسروں کے پاس جا چھپے ہیں۔ کوئی ہے جو اس حقیقت سے انکار کرے کہ پاکستان پندرہ دسمبر 2014ءکی نسبت کئی گنا محفوظ ہو چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ ابھی لڑائی جاری ہے، دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرنا ہو گا، ان کی باقیات کو بھی ختم کرنا ہو گا، قومی یک جہتی اور یکسوئی کے ساتھ انشاءاللہ ہم یہ بھی کر دکھائیں گے۔ دہشت گردوں، ان کے نظریاتی حامیوں، سہولت کاروں اور پاکستان کی دشمن قوتوں کو یہ تکلیف ہے کہ پوری مسلم دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جس نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیا۔ سانحہ پشاور کے حوالے سے سوال تو تب پوچھے جاتے، جب اس دلگداز سانحے کے بعد بھی کچھ نہ کیا جاتا اور آج دہشت گرد پہلی جیسی پوزیشن میں ہوتے۔
جب ایسا نہیں ہوا اور وہ سب کچھ ہو گیا، جس کی توقع بھی نہیں تھی، تب ایسا معجزہ کر دکھانے والے جوانوں پر تنقید کے تیر نہیں بلکہ تحسین کے پھول نچھاور کرنے چاہئیں۔ اپنی جان کی بازی لگانے، دہشت گردوں کی برستی گولیوں، پھٹتے بموںکا سامنا کرنے والی فورسز، پولیس اور دیگر محکموں کا ہمیں شکریہ ادا کرنا چاہیے، جنہیں نے ہمیں اور ملک کو محفوظ بنایا۔ سوال پوچھنے میں کوئی حرج نہیں، کسی پر کوئی پابندی نہیں، مگر پہلے سے معلوم جوابوں والے سوال پوچھنا بھی زیادتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ فتنہ پھیلانے والے سوالات سے دہشت گردوں کو فائدہ ہو گا، ملک و قوم کو نہیں۔ ہم حالت جنگ میں ہیں اور جنگ کے ضابطے، دستور اور اصول عام دنوں سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔