کرم ایجنسی، پاراچنار دہشتگردوی فرقہ واریت اور قبائلی دشمنی مختصر تاریخ اور حقیقت ۔ شفیق احمد طوری
پاراچنار کے عیدگاہ میں دھماکے سے ۲۳ افراد جاں بحق ہوئے اور دسیوں زخمی ہوگئے۔ کالعدم لشکر جھنگوی نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی اور اسے شام کے لڑائی سے جڑنے کی کوشش کی لیکن لشکر جھنگوی لوگوں کو گمراہ کررہی ہے جو ہر دھماکے کے بعد کرتے رہتے ہیں۔
کرم ایجنسی میں شیعہ آبادی کو تین سو سال سے زیادہ عرصہ ہوا ہے اور یہاں کے اکثریتی شیعہ آبادی کو مسلکی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، شام کی لڑائی تو صرف چار سال سے شروع ہوئی ہے۔ تو اسے پہلے کس وجہ سے نشانہ بنایا جاتا رہا؟
اور ایران میں خمینی انقلاب بھی صرف ۳۵ سال پہلے کا واقعہ ہے۔
دراصل اس جنگ کی ابتداء جنگ چودہ سو سال پہلے کربلا سے شروع ہوتی ہے بلکہ اسے بھی پہلے! بدر اور اُحد سے۔
یہ دھماکہ اہلسنت کی عیدگاہ میں ہوا جہاں لنڈہ بازار لگا ہوا تھا ،اور یہاں عیدگاہ کے ایک کونے میں ہمیشہ سے یہ بازار لگتا رہا ہے۔ جہاں سنی ہوتا ہے نہ شیعہ وہاں صرف غریب لوگ جاتے ہیں، کیونکہ پاراچنار کا موسم نہایت شدید سرد ہوا کرتا ہے اور درجہ حرارت منفی بیس تک چلا جاتا ہے تو غریب اور مسکین لوگ اپنے لیئے اور اپنے بچوں کیلئے لنڈے کے کپڑے اور سردی سے بچنے کے لوازمات خریدتے ہیں۔
پاراچنار میں دہشتگردی کی اصل کہانی ہے کیا؟
اصل کہانی فرقہ ورانہ منافرت ہے اور کرم ایجنسی میں موجود اکثریتی طوری قبیلہ جو شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں آبادی پر مشتمل ہے یہ نہ ملک کے اسٹیبلشمٹ کو قبول ہے اور نہ ہی علاقے کی دیگر سنی قبائل کو قابل قبول ہے۔
مذہبی منافرت کے علاوہ یہاں چونکہ شیعہ سنی ساتھ ساتھ رہے ہیں تو زمین ، پہاڑ اور پانی کے جھگڑے بھی ہوتے رہے ہیں جو بعد میں مذہبی اور مسلکی لڑائی میں بدل کر علاقے کو میدان جنگ میں تبدیل کرتے رہے ہیں۔
افغانستان متعصب حکمرانوں بچہ سقا اور امان اللہ خان کے ظلم ستم سے تنگ آکر طوری قبیلے نے طویل جدوجہد کے بعد انگریزوں کیساتھ ملکر کرم ایجنسی کو متحدہ ہندوستان میں شامل کرلیا اورڈیورنڈ لائن کی اس پار انگریزوں نے طوری قبیلے کے حفاظت کیلئے ۱۸۹۲ میں طوری میلشیا کے نام سے قبائلی ملیشیا بنایا جو بعد میں کرم ملیشیا بن گیا اور پاکستان کا حصہ بن گیا۔
بدقسمتی سے ضیااء لحق کے فرقہ ورانہ پالیسیوں کا شکار ہو کر کرم ملیشیا کو برطرف کرکے پورے پاکستان میں پھیلایا گیا، علاقے کو آگ و خون میں نہلایا گیا اور سرسبز وشاداب ، حسین و جمیل اور جنت نظیر علاقے کو دہشتگردی اور فرقہ واریت کے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا جو آج تک نہیں نکل سکا۔
۱۹۲۹-۲۸، ۱۹۵۰ اور ۱۹۵۶ کے خونریز لڑائیوں کے علاوہ میرے سامنے جو خونریز لڑائی ہوئیں انکا مختصر تاریخ یہ ہے
۱۹۸۱-۸۲ میں صدہ قصبہ میں شیعہ آبادی پر ہلہ بول دیا اور دادو حاجی کے سارے خاندان کو ہلاک کیا گیا اور صدہ قصبے سے شیعہ آبادی کو مکمل طور پر بے دخل کر دیاگیا جو آج تک آباد نہیں ہو سکے۔
۱۹۸۷-۸۸ ضیاءالحق کے دور میں پاکستان شیعہ مسلک کے روح رواں اور ملت جعفر یہ کے صف اوّل کے رہنما علامہ عارف حسین الحسینی کو شہید کیا گیا اور علاقے کے سنی قبائل نے افغان مہاجرین کیساتھ ملکر مقامی شیعہ آبادی پر حملہ کردیا اور مہینوں پر محیط لڑائی میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے۔ اور اسٹیبلیشمنٹ تماشا دیکھتی رہی۔
۱۹۹۶ میں رسول اللہ کے چچا اور حضرت علی کے والد حضرت ابو طالب کی توہین کی گئی اور مقامی شیعہ آبادی کو اشتعال دلا کر خونریز جنگ کا آغاز کیا گیا جو پانچ سال تک جاری رہا اور اسکے بعد کرم ایجنسی کے شیعہ آبادی کو محصور کیا گیا اور انکے لئے پاراچنار تک رسائی کے صرف ایک راستے ٹل پاراچنار روڈ کو بند کیا گیا اور پاراچنار پاکستانی غزا میں تبدیل ہوا۔
جو ہزاروں لوگوں کی ہلاکت پر ختم ہوا۔
۲۰۰۷ میں طالبان نے انجمن اہل سنت والجماعت کے پاراچنار کے سیکریٹری جنرل عید نظر المعروف “یزید نظر” کیساتھ ملکر ۱۲ ربیع الاول کے عید میلاد النبی کے جلوس میں “حسین مردہ باد اور یزید زندہ باد” کے نعرے لگا کر جنگ کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھے پورے پورا علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہوا اور پانچ ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔
یاد رہے عید نظر کالعدم سپاہ صحابہ کا سرگرم رکن تھا اور اب اہل سنت والجماعت کا سرگرم رکن ہے جسطرح دیگر سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے لوگ اہل سنت والجماعت کے چھتری تلے جمع ہوئے ہیں ۔
اسکے علاوہ لشکر طیبہ کے میجر مست گل بھی آجکل پاراچنار سے متعلق خبروں میں جلوہ گر ہو رہے ہیں اور مرکزی مسجد و امام بارگاہ کے پیش امام نواز عرفانی کے اسلام آباد میں ہونے والے قتل میں دیگر دہشتگردوں کیساتھ انکا بھی نام لیا جاتا رہا ہے۔
گزشتہ اربعین میں یعنی صرف دس دن پہلے کرم ایجنسی کے علاقے بوشہرہ میں شر انگریزی کی کوشش کی گئی اور انتظامیہ نے آنکھیں بند کردیں کہ بلا ٹل جائے گا۔
اس دھماکے میں ایک طرف چوبیس افراد شہید ہوئے لیکن ایک گھرانہ پورے کا پورا برباد ہوا، بغکی نامی گاؤں کے گوہر علی اپنے دو بیٹوں قیصر علی اور نعمان علی سمیت شہید ہوئے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہر کوئی اپنی گریبان میں جھانکیں اور مزید حالات سے آنکھیں چرانا بند کریں!
آنکھیں چرانے سے آپکے حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے، سازشوں ، دہشتگردی اور فرقہ واریت کا ملکر مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کریں اور حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے لوگوں میں شعور پیدا کریں۔
آپس میں اتحاد کا موقع ضائع نہ کریں۔
تاریخ میں وہ قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو مشکل حالات میں اپنے آپ پر قابو پا کر بہتر فیصلے کریں اور ہماری قوم شہادتوں کی ایک طویل داستان رکھتی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب اور کوئی مسلک نہیں ہوتا، البتہ دہشتگردی کی بھینٹ چڑھنے والوں کا تعلق اکثر شیعہ مسلک سے ہی ہوتا ہے چاہے کوئٹہ میں ہو یا کراچی لاھور، ڈی آئی خان یا پاراچنار۔
پاکستانی کے صف اوّل کے تجزیہ کاروں کیمطابق پاکستان میں ہونے والی ہر دہشتگردی میں بیرونی ہاتھ ملوث رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاؤں ہمیشہ پاکستانی ہوتے ہیں اور دماغ کا کبھی کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔
اللہ تعالی ہماری قوم کو آئیندہ ہر قسم کے آفتوں اور دہشتگردی سے محفوظ رکھیں۔ آمین۔
Source:
http://www.scoop.it/t/parachinarvoice/p/4056754675/2015/12/13/-