محترم قائم علی شاہ صاحب – کیا آپ پھر کسی بڑے سانحے کا انتظار کر رہے ہیں؟ – کمانگر حسین
محترم سائیں قائم علی شاہ صاحب اور آئی جی سندھ
جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ سندھ کا ضلع شکارپور جو کہ ماضی قریب میں ایک اندوہناک سانحہ سے دوچار ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں ستر پر امن شہریوں نے اپنی جانیں گنوا دیں، آپ کو یاد ہے پورے ملک میں آپ کی حکومت کیخلاف احتجاج ہوا تھا؟ بار بار آپ کے بھیجے ہوئے وفود جو کہ صوبائی وزرا پر مشتمل تھے لواحقین کو یہی یقین دہانی کروانے آرہے تھے کہ ایک موقعہ دے دیں آپ کے شہر کو واپس امن کا گہوارا بنا دیا جائے گا، اس شہر سے دہشتگردوں اور ان کے سہولتکاروں کا صفایا کیا جائے گا، خدارا لانگ مارچ ختم کریں ، خدرا احتجاج ختم کریں،
دیکھیں ہم نے آپ کی بات مانی تھی، ہم آپ کی بزرگی والی زبان پر یقین کرکے اس امید پر واپس آئے کہ آپ کچھ کریں گے آپ ہمارے شہر کیلئے سوچیں گے، ہوا کیا؟؟ کچھ لوگ پکڑے جو صرف اس دھماکے میں کسی طرح ملوث پائے گئے، کیا یہ عجیب نہیں کہ دہشتگرد میر حسن بلوچ نے اگر اس دھماکے میں کردار ادا کیا تو اسے گرفتار کیا گیا لیکن اس کی پرورش کرنے اور اسے ایسی پرتشدد کاروائیوں کی ترغٰیب دینے والا اس کا باپ عبدالحق شہر میں ویسے ہی دندناتا پھر رہا ہے؟
کیا تعجب کی بات نہیں کہ صحافی وقار مہر اکیلا پکڑا گیا جیسے شہر میں اس کا کوئی اور ساتھی تھا ہی نہیں؟ہم یہ جملہ کافی عرصے سے سنتے آ رہے ہیں کہ ’’دہشتگردوں کے سہولتکاروں کا صفایا کیا جائے گا‘‘ ذرا ہمیں یہ سمجھائیں کہ یہ ’’سہولتکار‘‘ کیسے پہچانے جائیں گے؟شہر میں اسی طرح ایک کالعدم تنظیم کی سرگرمیاں جاری ہیں ان کی ریلیز نکلتی ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں
محرم الحرام میں عزاداروں کی سیکیورٹی کے نام پر آپ کی پولیس انہی پر ڈنڈے برساتی رہی اور وہ بچارے یہ سوچ کر برداشت کرتے رہے کہ شاید ہمارے ایک ڈندا کھانے سے کئی عزاداروں کی جانیں محفوظ ہوجائیں لیکن یہاں بھی ان کی امید پر پانی پھر گیا اور قریبی شہر جیکب آباد میں دھماکے سے بچوں سمیت ۲۵ مومنین کی جانیں گئیں۔چہلم کو زیادہ دن نہیں گذرے جب دوبارہ اسی ڈنڈہ بردار فورس کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس تعاون کی بدولت آج پھر ہمیں یہ تحفہ ملا ہے کہ جامڑہ گائوں میں مولانا صابر حسین کو ان کے حُجرے میں زندہ جلانے کی کوشش کی گئی، اب آپ یہ بتائیں آپ کے دعووں کی کیا اہمیت رہہ گئی؟ ہمارے تعاون کا کیا صلہ مل رہا ہے؟
نیشنل ایکشن پلان کراچی کی سیاسی جماعتوں سے ہٹ کر اندرونِ سندھ دہشتگرد جماعتوں تک وسیع کیجئے تا کہ صحیح معنوں میں امن و امان قائم ہو سکے اور لوگوں کے دلوں میں آپ سے متعلق غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔دیکھنے سننے میں چھوٹا واقعہ ہے لیکن یہ چھوٹا واقعہ ایک بڑے واقعے کی پیشگوئی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ دہشتگردوں کی موجودگی کی دلیل اس واقعے میں مل گئی ہے، ۳۰ جنوری والے دھماکے سے پہلے بھی اسی طرح ایک شیعہ وکیل غلام عابد پر مسجد میں دورانِ نماز خنجر سے حملہ ہوا تھا لیکن خاطر خواہ نوٹس نہ لینے پر ہمیں ایک بڑے سانحے سے دوچار ہونا پڑا تھا مگر ابھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا نوٹس لے لیں ، ایکشن لے لیں۔
یا آپ پھر کسی بڑے سانحے کا انتظار کر رہے ہیں؟
yeah there should a strategy