سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ منافرت اور تکفیری فاشزم کا پھیلاؤ – عامر حسینی
چینوٹ کے رہائشی 32 سالہ ثقلین حیدر کو انسداد دھشت گردی کی عدالت نے فیس بک پر صحابہ کرام کے بارے میں مبینہ توھین آمیز پوسٹنگ کرنے پر 13 سال قید اور ڈھائی لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے
اس سے پہلے قصور کے ایک امام مسجد مولوی محمد ابوبکر کو شیعہ مسلک کے خلاف نفرت انگیز تقریر کرنے پر اور اس کی تقریر کے دوران ” کافر ، کافر شیعہ کافر ” کے نعرے لگنے کی بنا پر انسداد دھشت گردی کی عدالت نے پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی
محکمہ انسداد دھشت گردی پنجاب کے سربراہ ڈی آئی جی رائے طاہر عالم کا کہنا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایسی تقریر ، تحریر یا سوشل میڈیا پر پوسٹ جس سے فرقہ وارانہ منافرت پھیلے ، کسی مسلک کی تکفیر کی جائے ، یا ان کے خلاف تشدد پر ابھارا جائے یا کسکی مقدس ہستی کے خلاف توھین آمیز بات کی جائے اسے انسداد دھشت گردی ایکٹ کی رفعہ نو کے تحت جرم گرادانا گیا ہے اور ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف انسداد دھشت گردی ایکٹ کی دفعہ 9 کے تحت سی ٹی ڈی مقدمات درج کررہا ہے اور ان کے مقدمات انسداد دھشت گردی کی عدالت میں چلائے جارہے ہیں اور ابتک پنجاب میں اس کے تحت درجنوں مقدمات درج کئے جاچکے ہیں ،
ان کا کہنا تھا کہ اکثر و بیشتر سی ٹی ڈی مقامی طور پر شکایت ملنے پر خود کاروائی کرتا ہے اور مدعی بھی ریاست خود بن رہی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جب بھی کوئی شکایت درج کرائی جاتی ہے تو ہم بلاامتیاز کاروائی کرتے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کسی خاص مسلک یا فرقہ کے خلاف سرگرم عمل نہیں ہے بلکہ جو بھی قانون شکنی کرے گا اس کی گرفت ہوگی ، رائے طاہر عالم کی توجہ جب مولوی عبدالعزیز کی طرف دلائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ مولوی عبدالعزیز کی لال مسجد اور جامعہ حفصہ وفاقی انتظامیہ کے انڈر آتا ہے ہم نے مولوی عبدالعزیز کی سائبر سرگرمیوں بارے رپورٹ باقاعدگی کے ساتھ وفاق کو ارسال کی ہے ، ان کی توجہ پشاور میں کی گئی پاکستان راہ حق پارٹی کے سربراہ ابراہیم قاسمی کی ایک تقریر کی جانب دلائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ اگر پنجاب کے اندر یہ تقریر کی گئی ہوتی اور یہ ہمارے سامنے آتی تو سی ٹی ڈی پنجاب اس پر ویسے ہی کاروائی کرتا جیسے قصور کے مولوی کے خلاف یا چینوٹ کے ثقلین حیدر کے خلاف کی گئی
سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ منافرت ، تکفیری فاشزم کا پھیلاؤ ایک لعنت بنکر سامنے آیا ہے اور اس حوالے سے ابھی تک پاکستان کے متعلقہ ریاستی اداروں کی کارکردگی مثالی نہیں ہے – جیسے بہت سی کالعدم تنظیميں بشمول سپاہ صحابہ پاکستان اپنے کئی ناموں سے پاکستان بھر میں سرگرم ہیں اور ہماری ریاست کے ادارے اس حوالے سے غفلت ، سستی یا جانبداری کا شکار ہیں ، ایسے ہی سوشل میڈیا پر طالبان ، سپاہ ، لشکر جھنگوی کے حامیوں کے سینکڑوں پیجز موجود ہیں جو دن فرقہ وارانہ منافرت ، تشدد ، دھشت گردی کی حمایت کررہے ہیں اور وہ شیعہ – سنّی تںازعات ابھارنے میں مصروف ہیں لیکن ان کے خلاف نہ تو ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ حرکت میں آتا ہے ، نہ سی ٹی ڈی ، نہ ہی کوئی اور ادارہ حرکت میں آتا ہے ، جس سے یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ ریاستی ادارے ہی اپنے طور پر بعض گروپوں کو ڈھیل دئے ہوئے ہیں ،
مولانا عبدالعزیز ، محمد احمد لدھیانوی سمیت کئی لوگ ہیں جن کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جارہی جس سے یہ تاثر بھی جنم لے رہا ہے کہ اگر آپ ریاست کی رٹ کو واقعی چیلنج کرنے اور ہنگامہ ہائے ہو کرنے کی اہلیت سے سے سرشار ہیں اور آپ ہئیت مقتدرہ کے کسی منتخب یا غیر منتخب حصّے کی سرپرستی رکھتے ہیں تو پھر آپ کی فرقہ وارانہ منافرت / تکفیری فاشزم سب برداشت کیا جاتا ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور آپ سے کسی غلطی کا صدور ہوجائے تو ریاست کی پوری طاقت جھونک دی جاتی ہے آپ کو سبق سکھانے کے لئے
پاکستان کے اندر شیعہ ، احمدی ، ہندؤ ، مسیحی برادریوں کے اندر یہ احساس بہت زیادہ تقویت پارہا ہے کہ ان کی مذھبی آزادیوں ، عقیدے کی آزادی اور ان کے اپنے شعائر کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق سے محروم کیا جارہا ہے اور پاکستان کے اندر پھیلتا ہوا تکفیری وہابی دیوبندی فاشزم مذھب کے نام پر ان کی مذھبی آزادی کو سلب کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور یہ کوئی ” مفروضہ ” نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے
میں سمجھتا ہوں کہ ‘ منافرت ‘ اور کسی بھی گروہ کے مذھبی عقائد اور خیالات میں فرق کرنے کی اشد ضرورت ہے – مسلمانوں کے اندر شیعہ اور سنّی دو قدیم ترین مسالک ہیں ان کے درمیان جدائی اور تقسیم کا سبب ” امامت و خلافت ” ہے اور ان دونوں کے درمیان اس اختلاف کا اظہار شائستگی ، تہذیب اور تعقلی انداز میں صدیوں سے ہوتا آرہا ہے اور یہآن تک کہ دونوں اطراف کی کتب ہائے تفاسیر و احادیث و تواریخ مین یہ سلسلہ موجود ہے لیکن اختلاف و تنقید اور شئے ہے جبکہ ” گالم گلوچ ، منافرت ، اشتعال پسندی پر مبنی بدزبانی ” اور شئے ہے ان دونوں میں فرق بہت ضروری ہے جس کو کم از کم شیعہ کے باب میں مٹایا جارہا ہے اور ان کے پورے ڈسکورس کو ” گستاخی ، توھین ، منافرت ، گالی ” کہہ کر ان کی مذھبی آزادی پوری طرح سے سلب کی جارہی ہے اور یہ پاکستان کے آئین میں دی گئی شہری اور مذھبی آزادیوں کے حلاف ہے –
پاکستان کی ریاست اور حکومت کے ارباب اختیار کو اس معاملے پر احتیاط اور ہوشمندی سے کام لینے کی ضرورت ہے اور میں یہ بھی کہتا ہوں کہ فیس بک پر اگر آپ شیعہ اور سنّی یا کوئی اور مذھبی گروپ پاکستان سے تعلق رکھنے والے اپنے عقائد اور تاریخی واقعات پر بحث کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے کلوز یا سیکرٹ گروپ کا آپشن استعمال کریں یہ ” چار دیواری کا سوشل میڈیائی تصور ” ہے جسے شدید متنازعہ امور پر بات کرنے کے لئے استعمال کیا جانا چاہئیے جبکہ مشترکات اور کم شدت کے متنازعہ مسائل پر آپ اوپن بات کريں ، یہ فساد اور انتشار سے بچنے کا بہتر طریق ہے