ناول نگار اشتیاق احمد کی وفات

555

اشتیاق احمد، بچوں کی کہانیوں کے مشہور و معروف لکھاری اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔

جھنگ کی سرزمین نے دنیا پر احسان یہ کیا کہ مائی ہیر اور عبدالسلام کی جنم بھومی بنی۔ لیکن لگتا ہے کہ اس کو عزت راس نہیں آئی ٴ سپاہ صحابہ بھی یہیں پیدا ہوئی اور اس نے مشن کو بڑھانے والے اشتیاق احمد بھی یہیں پروان چڑھے۔ مشہورطاہر القادری بھی جھنگو ی ہیں۔

سن اسی اور نوے کی دھائی پاکستان میں شاذ ہی کوئی پڑھاکو قسم کا بچہ ہو جو ان کے ناولوں سے واقف نہ ہو ۔ انسپکٹر جمشید اور کامران مرزا سیریز کے ماھانہ شمارے اور پھر ہر سال کے ضخیم خاص نمبر – ہم اپنے جیب خرچ اکھٹے کر کے ناول خریدتے – دوستوں سے کتابیں ادھار لیتے۔ پاکستان کے گلی کوچوں میں اس قسم کے لٹریچر کے لئے لائبریریاں بھی مل جاتی تھیں۔ اگر خریدنے کی توفیق نہ ہو تو آٹھ آنے روپے میں ہر ماہ کے شمارے کرائے پر بھی دستیاب تھے۔

اشتیاق احمد نے سات سو سے زائد ناول تحریر کئے

ہم بھی ہر سال شوق سے ان کے ناولوں کا انتظار کرتے – عام شمارے تو گھنٹوں میں پڑھے جاتے۔ خاص نمبروں کے لئے سکول، کھیل اور نیند کے ناغے بھی ہو جاتے – اس چسکے میں بہتوں نے اپنے بچپن صرف کر دئیے ہوں گے۔

ان کتابوں کی کوئی بات اب مجھے بھی یاد نہیں رہی۔ کہانیوں بھی قابل فراموش تھیں۔ اردو نگاری کا معیار بھی بس گزارے لائق تھا۔ ان کے کردار بھی کاغذی تھے اور کہانیوں کے پلاٹ بھی اکثر بھرتی کے ہی ہوتے تھے۔

سب ہیرو ان ناولوں کے نمازی اور روزہ دار ہوتے تھے۔ بچے سلجھے ہوئے ایسے کہ پڑھنے والوں کے والدین ان پر رشک کریں۔ بڑے بھی قدم قدم پر پند و نصائح کئے جاتے ہیں لیکن جب موقع آئے تو دشمن کے سو دو سو فوجیوں/ایجنٹوں کو گولیوں کی بوچھاڑ میں مارنے سے چوکتے بھی نہیں۔ جاسوسی ناول میں دشمن کا ہونا بھی لازم اور ان کے ساتھ ہاتھا پائی اور کشت و خون بھی متوقع ہوتا ہے ۔  اشتیاق احمد صاحب کے کردار جو ابھی اوائل لڑکپن میں ہی ہوںگے، قتل سے چوکتے نہیں ہیں ۔ اور تعجب یہ کہ ایسی ہولناکیوں نے ان کے ذہنوں پر کوئی خاص دیر پا اثر بھی نہیں چھوڑا۔ ہر ناول میں ویسے ہی چٹکلے اڑاتے، اسلام دشمن عناصر کو جہنم رسید کئے جاتے ہیں ۔ سبحان اللہ۔

بہت سی کہانیوں کے تانے بانے صیہونی، امریکی یا بھارتی سازشوں سے بنے گئے ہیں۔ اور اس کی آڑ میں اسلامی نظریہ قتال کی ہر شدت پسندانہ تشریح پر مبنی سین بہت باقاعدگی سے قاریوں کو پڑھنے کو ملتے ہیں۔

ادبی اور ثقافتی رنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کہتے ہیں کہ مزاحیہ ادب اور رومانوی شاعری کے لئے بائیں بازو کی سیاست کا اثر لازم ہے اور جاسوسی ادب، رزمیہ شاعری اور سپر ہیرو قسم کے کامکس کے لئے دائیں بازو کے نظریات کار آمد ہوتے ہیں۔

اشتیاق احمد صاحب مرحوم نے نسیم حجازی کی مذھبی تنگ نظری اور اے حمید کی خیالی اڑانوں اور ابن صفی کی اعلیٰ قلم کاری سے شائید کوئی استفادہ کیا ہو گا –

ان کی سیاست کے کیا کہنے۔ ہٹلر کی مائن کیمف کو مات کرتے ہیں۔ پکے احراری اور شورش کاشمیری کے گم گشتہ صاحبزادے لگتے ہیں جو اردو میں نالائیقی کی وجہ سے گھر سے نکال دئیے گئے تھے۔

ان کی زودنویسی کی وجہ سے تمام کی تمام تحریریں قابل فراموش ہیں۔

ابن صفی کے کردار جاندار تھے اور حقیقت سے قریب تر تھے۔ نسیم حجازی نے تو تاریخ کا چربہ کیا اسلئے ان کو پڑھنے والے اسی کو تاریخ ہی سمجھتے تھے۔ اور اے حمید مرحوم نے کہانی نویسی میں تنوع کو قائم رکھ کر اپنے فن میں کمال حاصل کیا۔ مقبول جہانگیر نے قصہ خوانوں کے اثر کو آگے بڑھایا ۔

اشتیاق احمد صاحب نے اپنے دیوبندی مسلک کی چار دیواری میں محبوس ہو کر اپنی ساری عمر وعظ و تبلیغ کا لبادہ اوڑھے جعلی ادب ایجاد کرنے میں گزار دی۔ ان کے کردار ساری دنیا کے مسائل حل کرنے میں مہارت رکھتے تھے لیکن ایسی دنیا جس میں قیامت کی نشانیاں نئے نیے انداز سے دھرائی جاتی ہیں۔ جہاں مذہب کے علاوہ کوئی اور معیار قابل قبول نہیں۔

ان کے ناولوں کے آغاز میں نماز، گھر کے کاموں وغیرہ کی یاد دھانی ہوتی اور ساتھ ہی حدیث بھی۔ کتاب کے آخری صفحات میں آئیندہ شماروں کے اشتہارات کے علاوہ اکثر جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیز مواد ہوتا –

IMG_20151118_212653[1]

جماعت احمدیہ سے نفرت بھی مرحوم کا ایک خاص ٹیلنٹ تھا۔ اور حیلے بہانے وہ اپنی کتب میں بھی احمدی عقائید اور شخصیات کے خلاف گھٹیا پراپیگینڈا شامل رکھتے۔  ڈاکٹر عبدالقدیر سے ان کی عقیدت خاص تھی اور اس کے بدلے پروفیسر عبدالسلام مرحوم کو اسلام اور ملک دشمن ثابت کرتے۔ مجھی یاد ہے کہ ایک خاص نمبر ان کا صرف جماعت احمدیہ کے لئے لکھا گیا جس میں انہوں نے ایک عالمی سازش پر مبنی کہانی لکھی جس میں احمدی مرکزی ولن قرار پائے-

IMG_20151118_212637[1]

میں بھی کیا کرتا ? پاکستان میں بچوں کا ادب اشتیاق احمد جیسوں نے ہائی جیک کر رکھا تھا۔ مقبول جیہانگیر اچھا لکھتے تھے مگر ان کی کہانیاں اکثر ماخوذ ہوا کرتیں – اور وہ جوانی میں ہی چل بسے۔ اے حمید مرحوم کی کئی کتب ہماری پہنچ اور ذھنی عمر سے باہر ہوتیں – مظہر کلیم کی عمران سیریز تھی یا اشتیاق احمد کے ناول۔

قابل رحم بات تو یہ ہے کہ مچھ جیسے احمدی بھی ان کی کتب پڑھتے اور بڑے شوق سے پڑھتے ۔ ان کی انتہا پسندی سے  بھی ایک سنسنی خیز پہلو کا خوامخوا ہی اضافہ ہو جاتا۔ ہمارے غیر احمدی دوست بھی سوچتے ہوںگے کہ یہ کیا کرتے ہیں ۔ لیکن بچوں کا لٹریچر لکھنا ہمارے ہاں ایسے کم ظرفوں پر چھوڑ دیا گیا – اس میں ہمارا کیا قصور?

ایک دوست نے ان کی کتاب کا ایک صفحہ بھیجا ہے چس میں اشتیاق احمد ڈینگ مارتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے کسی فرد نے ان سے احتجاج بھی کیا مگر موصوف اپنی خدمت اسلام پر مصر رہے۔ اللہ جانے کہ یہ بات کتنی سچی ہے۔

Ishtiaq Ahmad Rabwah

خیر اشتیاق احمد کے تعصب کی چھاپ اب بھی میرے ذہن پر ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ اس ادب پر پروان چڑھنے والے سنی العقیدہ بچوں کے ذہنوں پراس زہر کا اثر اب بھی ہو گا۔

ریکارڈ توڑ تعداد میں ناول لکھنے کے علاوہ، مرحوم ‘بچوں کا اسلام‘ کے مدیر بھی رہے۔ اس رسالہ کے مواد اور اس میں موجود ان کے ادارئیے مرحوم کے مشن کی نشاندھی کرتے ہیں۔ رسالہ میں بچوں کو سپاہ صحابہ کی نظریاتی تربیت کا تمام مواد دستیاب ہے۔ احراری ملاوں کے مبالغہ آمیز قصے، ان مقتول مولاناؤں کی تعریفیں جو سنی شیعہ فساد میں پیش پیش رہے۔ اور ہر دوسرے شمارے میں ختم نبوت کی آڑ میں احمدیوں کے خلاف نفرت کا انبار۔

ڈنمارک کے خاکوں کے ردعمل میں موصوف بچوں کو ڈینش لوگوں سے شدید نفرت کا سبق دیتے ہیں۔

ڈنمارک والوں سے ہمیشہ نفرت رکھنا ہی خآکوں کا اصل علاج ہے۔ اشتیاق احمد

ایک اور شمارے میں موصوف یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنانے کی تلقین کرتے ہیں۔ قادیانیوں اور مسیحیوں کے سماجی بائیکاٹ کا سبق تو ان کے ناولوں میں بھی موجود ہے۔ میں نے اپنا بچپن ایسے ہی ماحول میں گزارہ ہے جہاں میرے بہت سے ہم جماعت اس لٹریچر سے متاثر ہو کر اس امتیازی اور متعصب سلوک کی مشق کرتے تھے جو اب پوری قوم کا وطیرہ ہے۔

IMG_20151118_174514[1]

ایک اور اداریئے میں ایک سول جج کا خط نقل کرتے ہیں۔ یہ جج صاحب کہتے ہیں کہ قانون کی پاسداری اور عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنا انہوں نے موصوف کی کتب سے سیکھا۔  ان جیسے اور کتنے ہوں گے جنہوں نے اشتیاق احمد صاحب سے مذھبی تنگ نظری اور انتہا پسندی سیکھی ہو گی?

ایک شمارے میں انہوں نے ایک اور قاری کا خط نقل کیا جو پروفیسر عبدالسلام مرحوم کے بارہ میں جھوٹ سے پر تھا ۔

Ishtiaq Ahmad Prof Salam

جگہ جگہ موصوف انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کا ذکر بھی فرماتے رہے جو سعودی ریالوں پر مولوی پالتی ہے اور تعلیم کے نام پر تنگ نظری کی درآمد کو اسلام کی خدمت جانتی ہے۔

مرحوم نے  کذشتہ پینتیس چالیس سال میں پاکستان کے تعلیم یافتہ طبقہ کی دو تین نسلیں تو ضرور  خراب کی ہوں گی –

ان کے اوصاف میں مستقل مزاجی , زود نویسی اور اردو زبان کی ترویج ہی ذہن میں آتے ہیں – باقی ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ۔

Source:

https://khokhar976.wordpress.com/2015/11/18/%D9%86%D8%A7%D9%88%D9%84-%D9%86%DA%AF%D8%A7%D8%B1-%D8%A7%D8%B4%D8%AA%DB%8C%D8%A7%D9%82-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF-%DA%A9%DB%8C-%D9%88%D9%81%D8%A7%D8%AA/

Comments

comments