امریکی خفیہ مراسلے : شام کیسے لہو رنگ ہوا- دوسرا حصّہ
مارچ 22 ، 2009ء – سعودی عرب میں امریکی سفارت خانے سے ایک مراسلہ امریکی حکومت کو ” سعودی انٹیلی جنس چیف سے جان برینان کی علاقائی سلامتی بارے بات چیت ” کے عنوان سے ارسال کیا گیا – اس مراسلے میں بھی ” شام میں سعودیہ عرب کے ساتھ ملکر شیعہ – سنّی فرقہ واریت کے پھیلاؤ ” اور ” ایران – شام تعلقات پر فوکس ” پر زور دینے کی امریکی پالیسی کی جھلک بخوبی نظر آتی ہے
امریکی سفیر برائے سعودی عرب فورڑ فریکر اس مراسلے میں امریکی مشیر برائے انسداد دھشت گردی ( اب سی آئی اے کے ڈائریکٹر ) جان برینان کی سعودی انٹیلی جنس کے سرابرہ مقرن بن عبدالعزیز کے درمیان بات چیت کا خلاصہ یوں بیان کرتا ہے
ایرانی مداخلت : پرنس مقرن نے ( اپنی پالیسی میں بطور دشمن کے ) ایران کو ٹاپ آف دی لسٹ قرار دیا اور کہا کہ ” شیعہ ہلال اب پورا چاند بنتا جارہا ہے – اس نے عراق ، بحرین ، کویت اور یمن کو ایران کے ” اہداف ” قرار دیا – اس نے کہا کہ ہمیں مدینہ اور مشرقی سعودی صوبے میں مسائل کا سامنا ہے –جب اس سے کہا گیا کہ کہ مدینہ میں گزشتہ ماہ ہونے والے ہنگاموں میں کیا ایرانی ہاتھ کارفرما تھا ؟ تو اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ہاں ! اس میں ایرانی حمایت شامل تھی ( تبصرہ : مقرن کا تبصرہ ضروری نہیں ہے کہ ہمارے شیعہ سورسز کے زریعے سے مصدقہ ہو ) مقرن نے بے باکی سے کہا کہ اب ایران ۔۔۔۔۔۔ میں درد کا سبب بن رہا ہے ، اس نے امید ظاہر کی کہ امریکی صدر ایران سے سیدھے ہوسکتے ہیں یا سیدھے سبھاؤ اسے نکال باہر کرسکتے ہیں
امریکی سفیر کا یہ کہنا کہ مقرن کا ایرانی مداخلت کے بارے بیان ہوسکتا ہے کہ ہمارے شیعہ سورسز کی تصدیق نہ پاسکے اس کے فروری 24 ، 2009ء کو امریکی حکومت کو سعودی شیعہ اور سعودی پولیس کے درمیان ہونے والے تصادم بارے بھیجے گئے مراسلے میں کی گئی بات پر پردہ ڈالنے کے مترادف تھا ، اس مراسلے میں امریکی سفیر نے لکھا تھا
مدینہ میں سعودی شیعہ اور سعودی سیکورٹی اداروں کے درمیان تصادم کی وجہ یہ تھی کہ سعودی پولیس نے سعودی شیعہ حجاج کو مسجد نبوی سے ملحقہ جنت البقیع میں داخلے سے روک دیا تھا اور اس تصادم کی دوسری وجہ سعودی شیعہ کمیونٹی کی تاریخی محرومیوں کے سبب ان میں پنپنے والا غصّہ بھی تھی
اس مراسلے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ امریکی حکومت کو اچھی طرح سے علم تھا کہ سعودی عرب اپنے ملک کے اندر جن ایشوز پر ایران کو مورد الزام ٹھہرارہی ہے اس کا ایران سے کچھ لینا دینا نہیں تھا اور امریکی مراسلہ بھی ” مدینہ فسادات ” میں ایرانی مداخلت کارفرما ہونے کی نفی کرتا ہے لیکن 2009ء کا یہ مراسلہ اور اس سے پہلے 2006ء کا مراسلہ دونوں امریکہ کے سعودی عرب کے ساتھ ملکر سعودی عرب اور شام کے اندر پائی جانے والی بے چینی کا زمہ دار ایران کو ٹھہرائے جانے کی پالیسی کو آگے بڑھانے کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں ، 2009ء کا امریکی مراسلہ اگلے پیرا گراف اس بارے میں مزید اقدامات اٹھانے کی تجویز دیتا نظر آتا ہے
ایران سے شام کو دور کرنا : مقرن سے برینان نے سوال کیا کہ ان کا کیا خیال ہے کہ شامی حکومت امریکہ سے بہتر تعلقات بنانے کی خواہاں ہے ؟ مقرن نے جواب میں کہا کہ میں اس کا حتمی جواب ہآں یا نہ میں نہیں دے سکتا اور کوئی رائے ظاہر کرنے سے معذرت کرلی ، لیکن مقرن نے یہ ضرور کہا کہ شامی حکومت ایرانیوں کو ” کسی رشوت ” کے بغیر چھوڑیں گے نہیں
اس پیراگراف سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی حکومت مارچ 2009ء میں شام کا مفاد امریکہ سے بہتر تعلقات میں دیکھتی تھی اور اس کا مطلب ایران کو شام سے دور کرنا تھا – اس کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ امریکہ کو شامی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے کہیں زیادہ ایران اور شام کے درمیان تعلقات کو توڑنے سے دلچسپی تھی اور اگر شامی یہ امریکہ کی دوستی کے ساتھ کرتے تو امریکہ کو یہ منظور ہوتا
دسمبر 2006ء میں امریکی سفارتی مراسلے میں یہ کہا گیا تھا کہ امریکہ کو ایسے اقدامات کرنے چاہيں جس پر شامی حکومت مشتعل ہوکر ایسے اقدامات کرے جس سے وہ مزید تنہا ہو – امریکہ کو مشورہ دیا گیا شام کے منحرف سابق سیئنر نائب صدر عبدالحلیم خدام جو کہ نیشنل سالویشن فرنٹ کے سربراہ تھے اور اس وقت جلاوطن تھے کی شامی حکومت سے لڑائی کا فائدہ اٹھائے ، مراسلہ میں ” شامی حکومت کی کمزوریوں ” کے عنوان کے نیچے لکھا گیا
خدام فیکٹر : عبدالحلیم خدام بشار الاسد حکومت کی کمزوریوں سے واقف ہے – وہ جانتا ہے کہ بشار الاسد کو کیا چیز مشتعل کرتی ہے – اس کی سپورٹ شام کے اندر موجود ہے – بشار الاسد ” خدام ” بارے ہر ایک خبر میں دلچسپی لیتا ہے اور خدام کو جب کوئی دوسرا عرب ملک اپنے ہاں بطور سرکاری مہمان کے مدعو کرتا ہے اور اس کا جب کسی بھی عرب میڈیا گروپ کے اخبارات و جرائد میں انٹرویو شایع ہوتا ہے تو وہ اسے اپنی شکست خیال کرتا ہے
ممکنہ اقدام : ہمیں سعودی عرب اور دوسرے عرب ملکوں کی خدام کو عرب ميڈیا تک رسائی دیتے رہنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئیے تاکہ وہ شام کے گندے کپڑے بیچ چوراہے میں دھوتا رہے ، اس طرح سے شامی حکومت اس پر اور زیادہ مشتعل ہوگی اور اوور ری ایکٹ کرے گی اور اس سے عرب ملکوں سے اس کے فاصلوں میں اضافہ ہوگا اور اس کی علاقائی سطح پر تنہائی میں بھی اضافہ ہوگا
اس مراسلے کے مذکورہ بالا پیراگراف کا تجزیہ ہمیں بتاسکتا ہے کہ شامی حکومت کے مخالف عبدالحلیم خدام کو سعودی عرب اور دوسرے عرب ملکوں کے ميڈیا تک رسائی دینے کا مقصد شام میں انسانی حقوق کی صورت حال بارے عوام کو آگاہی دینا یا وہاں پر جمہوریت لانے کے لئے رائے عامہ ہموار کرنا نہ تھا بلکہ اس کا مقصد بشار الاسد کی حکومت کو اشتعال دلانا تھا تاکہ امریکہ کو یہ ثابت کرنے کا موقعہ مل سکے کہ شامی حکومت واقعی ایک ” بدمعاش حکومت ” ہے اور وہ عالمی برادری کے قائم کردہ معیارات کے ساتھ چلنے کے قابل نہیں ہے یا وہ ایسا کرنے پر راضی نہیں ہے – وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے خطرہ بن گئی ہے ، اس لئے امریکہ کو اس کے حلاف ایکش لینا پڑا تو امریکی خارجہ پالیسی شام کے حوالے سے یہ تھی کہ خود ایسے حالات پیدا کئے جائیں جس سے شامی حکومت کو ہٹانے کا موقعہ ہاتھ آسکے
امریکی مراسلے کے آٹھ ماہ بعد منحرف شامی نائب صدر عبدالحلیم خدام نے سعودی حکومت کے اخبار ” الوطن ” کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ شام کے نائب صدر فاروق الاشراء نے سعودی عرب پر جو شدید تنقید کی ہے وہ حکمران ٹولے کی پالیسی کا حصّہ ہے جس کا مقصد شام کے سعودی عرب سے تعلقات کو انتہائی خراب کرنا ہے – جبکہ بیروت سے شایع ہونے والے ڈیلی سٹار نے اپنی ایک رپورٹ میں واضح کردیا تھا کہ ” شامی حکومت تو سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کررہی ہے اور فاروق کا کہنا ہے کہ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کے شایع کیا گیا ہے ” – یہ امریکی حکام اور خدام تھے جو سعودی عرب اور شام کے درمیان معاملات کو مزید کشیدہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے – 2006ء میں شامی حکومت کو عرب میڈیا میں عبدالحلیم خدام کی کوریج کرکے مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی اور ظاہر عرب حکومتیں اپنے میڈیا پر جیسا کنٹرول رکھتی ہیں تو یہ کوریج ان کی مرضی کے ساتھ ہوئی ہوگی اور جیسا کہ خود روئے بک نے بتایا تھا کہ کیسے سعودی حکومت نے مدینہ میں سعودی شیعہ حجاج اور سعودی سیکورٹی فورسز کے درمیان تصادم کی خبروں کو سعودی میڈیا میں شایع ہونے سے روکا گیا تھا
خدام نے 2006ء میں سعودی حکومت کی ملک اخبار ” اشراق الاوسط ” کو ایک انٹرویو اس وقت دیا جب وہ پیرس میں مقیم تھا – اس کا ایک حصّہ ملاحظہ کرنے کے قابل ہے
س : آپ کی موجودہ ترجیحات کیا ہیں ؟ کیا آپ حکومت کی اصلاح چاہتے ہیں یا اسے گرانے کے خواہش مند ہیں ؟
جواب : اس حکومت میں اصلاح کی گنجائش نہیں ہے – اس کو گرانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے
کوئی بھی اس سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ اگر ایرانی حکومت مصر یا بحرین کے کسی نائب صدر کو اپنے میڈیا کا پلیٹ فارم فراہم کرتی اور وہ کہتا کہ مصر یا بحرین کی حکومتوں میں کسی اصلاح کی گنجائش نہیں ہے ، اسے اٹھا کر باہر پھینک دنیا چاہئیے تو امریکہ اس بیان پر اتنی توجہ نہ دیتا
تو روئے بک کے مراسلے سے 11 ماہ قبل اور شام میں بہار عرب سے تقریبا 5 سال پہلے کی بات ہے کہ امریکہ اور اس کے عرب اتحادی شامی حکومت کو غیر مستحکم کرکے گرانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوچکے تھے جبکہ عوام کو مغرب میں یہ بتایا جاتا ہے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شامی حکومت کو کمزور کرنے اور اسے گرانے کی کوششیں 2011ء میں اس وقت شروع کیں جب شامی حکومت نے اپنے مخالفین کو دبانے ، ان پر جبر کرنے کی ہر ایک حد پار کرلی
روئے بک کی ایک اور تجویز ” شام کی کمزوریوں ” سے فائدہ اٹھانے پر مشتمل ہے ، اور وہ بھی یہی تجویز کرتا ہے
ممکنہ اقدام :
شامی حکومت کو گرائے جانے کے بیرونی منصوبوں کی افواہوں اور اشاروں کی حوصلہ افزائی کریے-
شامی حکومت ” حکومت گرائے جانے کے منصوبوں ” یا شامی سیکورٹی سروسز یا افواج میں بے چینی کے منصوبوں بارے بہت حساس ہے – علاقائی اتحادی جیسے مصر اور سعودی عرب کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئیے کہ وہ خدام اور رفعت جیسوں کو استعمال کرتے ہوئے یہ سگنل شامی حکومت تک پہنچائیں کہ ان کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے کیونکہ اس سے شامی حکومت کے پاگل پن میں اضافہ ہوگا اور اس کے شکست خوردہ اوور ریکشن میں بھی بڑھوتری آئے گی
روئے بک گویا ” فرضی قسم کے شامی حکومت کو گرائے جانے کے منصوبوں کی خبریں خود ہی پھیلانے کی تجویز دے رہا تھا اور اس کے لئے شامی حکومت کے منحرفین کے کندھے استعمال کرنے کی تجویز تھی کہ ان سے سعودی عرب اور مصر کے حکام سے ملاقاتیں ہوں اور ان کی خبریں لیک کی جائیں کہ یہ ملاقاتیں شامی حکومت گرانے کے منصوبے تیار کرنے کے لئے ہورہی تھیں – 2014ء میں امریکہ ان باغیوں کو مسلح کررہا تھا جو کہ شامی حکام کو قتل کرنے کی کوشش کررہے تھے – تو کیا شامی حکومت کو امریکیوں سے جو خوف تھا کیا وہ غیر معقول تھا ؟
Source: