کینسر ہسپتالوں سے زیادہ کینسر سپیشلسٹس کی ضرورت – عمران خان اور میاں شہباز شریف کے نام – عمار کاظمی
کوئی دو تین ماہ پہلے میرے سسر کو منہ میں ہونٹوں کے اندر ایک چھالا سا محسوس ہوا۔ ڈاکٹر سے دوا لی مگر چھالا گلٹی کی شکل اختیار کر گیا۔ تکلیف بڑھی تو گھر والے انھیں ایم ایچ کے جرنیل سرجن ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ وہاں انھوں نے چھالے سے کچھ مواد لے کر بائیوکسی کے لیے بھجوا دیا۔
رپورٹ کلئیر آئی اور اس دوران سرنج لگانے کے بعد تکلیف میں مزید اضافہ ہوگیا اور زخم سے پیپ نکلنا شروع ہو گئی۔ رپورٹ جب سرجن ڈاکٹر کو دکھائی گئی تو انھوں نے زخم کو دیکھتے ہوئے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ ایم ایچ کی لیبارٹری کا ٹیسٹ مشکوک ہونے کے بعد مزید مشاورت کے لیے انھوں نے شفا انٹر نیشنل ہسپتال سے رابطہ کیا۔ وہاں جب ان کا سٹی سکین کیا گیا تو سینیر سرجن نے رپورٹ دیکھ کر بتایا کہ انھیں منہ اور گردن کا کینسر ہے۔ ڈاکٹر صاحب جو قابل سرجن ہیں انھوں نے اس کے لیے انھیں فوری سرجری کروانے کو کہا۔
سسرال والے اس اچانک آفت سے بہت پریشان ہوئے اور انھوں نے یہ سوچ کر کہ ایم ایچ میں بھی تو رپورٹ کلیر آئی تھی تو کیوں نہ تیسرا مشورہ بھی لے لیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے رپورٹس ہمیں لاہور بھجوا دیں کہ ہم انھیں یہاں شوکت خانم میں دکھا کر مزید تسلی کر لیں۔ رپورٹس لے کر ہم شوکت خانم ڈے کلینک میں چلے گئے۔ جب یہاں رپورٹس دکھائیں تو ڈاکٹر نے بتایا کہ رپورٹس میں کینسر اور رسولی کا سائز تو واضع ہے مگر کس سٹیج پر ہے، کتنا اور کہاں تک پھیل چکا ہے یہ واضع نہیں۔ لہذا علاج یا ٹریٹمنٹ پر رائے دینے کے لیے ضروری ہے کہ مریض کا ایم آر آئی ٹیسٹ کیا جائے۔ اسی سے فیصلہ ہوگا کہ علاج کے لیے کونسا طریقہ ساز گار رہے گا۔ یعنی سرجری ہوگی،
ریڈی ایشن دی جائے گی یا پھر دونوں کی ضرورت ہوگی۔ ہم نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ اگر انکل کو سفر کروانے سے پہلے ایم آر آئی وہیں اسلام آباد سے کروا کر آپ کو دوبارہ دکھا دیں تو کیسا رہے گا؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ وہ تو شوکت خانم میں علاج کی صورت بہر طور دوبارہ ہی ہوگا۔ یہ سن کر ہم نے فیصلہ کر لیا کہ علاج شوکت خانم سے ہی کروائیں گے کہ ایک تو شفا انٹرنیشنل کی رپورٹ ادھوری محسوس ہو رہی تھی، دوسرا یہ کہ شوکت خانم تو بہر حال پاکستان کا اکلوتا کینسر سپیشل ہسپتال ہے اور تیسری وجہ یہی تھی کہ دو جگہ ٹیسٹوں پر پیسے ضائع کرنے کی بجائے وہیں سے ٹیسٹ کروا لیا جائے جہاں علاج ہونا ہے۔
شوکت خانم کے ڈاکٹر کے مشورے پر ان سے ایم آر آئی کا وقت لینے کے بعد انکل کو ایمرجینسی میں لاہور بلا لیا گیا۔ میرا سالا اور بڑی سالی ان کے ہمراہ آئے اور انھوں نے ان کی تکلیف کی وجہ سے چار گھنٹے کا راستہ ساڑھے چھ گھنٹے میں طے کیا۔ وہ ٹیسٹ کے مقررہ وقت سے ایک دن پہلے لاہور پہنچے۔ اگلے دن ایک لمبے انتظار اور چودہ ہزار روپے ٹیسٹ کی فیس ادا کرنے کے بعد ایم آر آئی مکمل ہوا۔ رپورٹ آنے پر پتا چلا کہ رسولی کا سائز تو وہی ہے جو پہلے سٹی سکین میں آیا تھا۔ تاہم وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ یعنی جتنا سٹی سکین میں دکھایا گیا تھا کینسر اس سے تھوڑا سا زیادہ پھیلا ہوا نکلا۔
تاہم ڈاکٹرز کے مطابق یہ صورتحال زیادہ پریشان کن نہ تھی کہ رسولی کا سائز دو سے تین ملی میٹر کے درمیان اور چار ملی میٹر کی خطرناک حد سے کم تھا۔ شوکت خانم کے ڈاکٹر کا خدشہ درست اور شفا انٹرنیشنل کی رپورٹ ادھوری ثابت ہوئی۔ اس سب کے بعد اب پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب آیم آر آئی سے ہی واضع ہونا تھا تو شفا انٹر نیشنل میں سٹی سکین پر ان کے آٹھ ہزار روپے اور انتہائی قیمتی وقت کیوں ضائع کروایا گیا؟ اس سوال کو یہیں چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔
ہر چند کہ ایم آر آئی رپورٹ میں کینسر کی رسولی کا پھیلاو قدرے زیادہ نکلا مگر یہ مکمل طور پر قابل علاج بتایا جا رہا تھا۔ گھر پر تمام لوگ بہت خوش تھے کہ چلو اب ہم درست جگہ پر پہنچ گئے ہیں، علاج تسلی بخش ہو جائے گا۔ اداس، ویران اور سہمے ہوئے چہروں پر رونق بحال ہونے لگی تھی۔ بیٹا، باپ، بیٹیاں اور نواسے اتنے دنون کی ٹینشن کے بعد کچھ ہنسنے لگے تھے۔ اب صرف یہی انتظار تھا کہ سرجری کی ڈیٹ جلد از جلد مل جائے۔
مگر افسوس یہ اطمینان دیرپا ثابت نہ ہوا۔ جب سرجری کی ڈیٹ لینے کے لیے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ جس ڈاکٹر نے سرجری کرنی تھی وہ تیس دن کی چھٹی پر بیرون ملک جا رہے ہیں۔ آپ فوری طور پر شفا انٹرنیشنل اسلام آباد یا پھر آغا خان ہسپتال کرچی سے سرجری کروا لیں کہ تیس دنون میں کینسر پھیل بھی سکتا ہے۔
یہ سنتے ہی گوشہ تنہائی میں چپکے سے آنسو بہاتی آنکھوں کا بند ٹوٹ گیا۔ اب شدید بے بسی اور پریشانی کے عالم میں تمام گھر والے دوبارہ اسلام آباد شفا انٹرنیشنل جا رہے ہیں۔ حیرت ہے ساری دنیا سے فنڈز اکٹھے کرنے والے مہنگے ہسپتال کے پاس کوئی دوسرا سرجن ہی نہیں؟ کیا مریض کو صرف ایم آر آئی ٹیسٹ کے چودہ ہزار روپے کمانے کے لیے پنڈی سے بلوایا گیا تھا؟ جب سرجن کی دستیابی کا یقینی نہ تھی تو مریض کو سفر کیوں کروایا؟ اگر ہسپتال کا یہ عذر درست تھا تو تیس دن تک باقی مریضوں کا کیا ہوگا؟ اگر نہیں تو جھوٹ کیوں بولا گیا؟
جب شوکت خانم لاہور میں سپیشلسٹس کی کمی ہے تو عمران خان شوکت خانم پشاور کے لیے ایک ارب کے لگ بھگ مزید چندہ کس چکر میں مانگ رہے ہیں؟ شوکت خانم میں کینسر کی میجر سرجری کرنے والا ایک ہی سپیشلسٹ ہے جو کل سے مہینے کی چھٹی پر بیرون ملک جا رہا ہے۔ پاکستان کو کینسر ہسپتالوں سے زیادہ کینسر سپیشلسٹس کی ضرورت ہے۔ مشینری کا کیا ہے؟ ریاست کے لیے مشینری خریدنا اور امپورٹ کرنا کونسا مشکل کام ہے؟
عمران خان پختونخواہ حکومت ہاتھ میں ہونے کے باوجود شوکت خانم ہی کیوں بنانا چاہتے ہیں؟ جبکہ ریاست یا صوبائی حکومت کے لیے اتنا پیسہ کوئی مسلہ ہی نہیں۔ کینسر ریسرچ ٹرسٹ ہسپتال شوکت خانم میں کینسر پر آج تک کتنی ریسرچ ہوئی؟ باقی یہ ٹرسٹ کی غلط فہمی بھی اصل میں بہت بڑا دھوکا ہے۔ کینسر کے آپریشن میں استعمال ہونے والی دوا کے بارے میں ایک ڈسٹری بیوٹر نے بتایا کہ وہ دوا انھیں ۴۰۰ روپے کی ملتی ہے، وہ اسے شوکت خانم کو ۴۵۰ روپے میں فروخت کرتے ہیں جبکہ شوکت خانم ہسپتال اسے مریضوں کو ۶۰۰۰ روپے میں بیچتا ہے۔ ڈسٹری بیوٹر کا کہنا تھا کہ دوا مارکیٹ میں بھی چھ ہزار کی ہی بیچی جاتی ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے دوا ساز کمپنیوں نے کتنی لُوٹ مچائی ہوئی ہے اور اس پر یہ برائے نام ویلفئیر ہسپتال کا خانچا کتنا بڑا ہے۔
یعنی اگر آپ کو ویلفئیر ٹرسٹ کی بنیاد پر ٹیکس معافی پر دوا سستی مل ہی رہی ہے تو آپ مریضوں کا خون کیوں چوس رہے ہیں؟ کیا آپ وہاں سارے مریضوں کا مفت علاج کر رہے ہیں؟ نہیں آپ تو دوائیں بیچ کر بھی کروڑوں اربوں کما رہے ہیں۔ کیا آپ پیڈ مریضوں کو دواوں کی فروخت سے حاصل شدہ منافع کے مطابق ریاست کو ٹیکس ادا کر رہے ہیں؟ مگر اتنے لامحدود، فنڈز، خانچوں اور انتہائی مہنگے پیڈ مریضوں کے باوجود آپ کے پاس دوسرا سرجن نہیں۔
ریاست ہر سال متختلف شعبوں میں جانے کتنے سکالرشپس دیتی ہے مگر ایسے مہلک اور مہنگے علاج والے مرض کی اعلی تعلیم کے لیے شاید اس کے پاس کچھ نہیں۔ جہاں ہزاروں ایم بی بی ایس ڈاکٹر سڑکوں پر رُل رہے ہیں وہاں ملک میں اہل کینسر سپیشلسٹ بمشکل چار پانچ ہیں۔ اور جو گنتی کے ڈاکٹر میسر ہیں ان سے وقت لینا اوبامہ سے ملاقات کرنے جیسا ہے۔ موٹرویز، انڈر پاسسز اور اوور ہیڈ پل بنانے پر کھربوں خرچ کرنے والے میاں صاحبان کو بھی تھوڑی انسانیت کرنی چاہیے۔
اور اس سکیورٹی کو بھی کچھ خدا خوفی ہونی چاہیے جو کھربوں روپے دفاعی اداروں، سازوسامان اور اسلحہ پر لگاتی ہے مگر اپنے شہریوں کو بے یارومددگار مرنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔ فوجیوں کے والدین سے کر بیوی بچوں تک سب کے لیے ہر صحولت موجود مگر وہ بندہ جس نے پینتیس سال سرکاری نوکری کی اور منسٹری آف ڈیفینس میں لمبا عرصہ خدمات سرانجام دینے کے بعد انیسویں گریڈ میں ریٹائر ہوا اس کے لیے کہیں بہتر علاج کی صحولت نہیں۔ ریاست کسی بھی دوسرے شعبہ تعلیم میں سکالرشپس بانٹنے سے پہلے میڈیکل کالجز کے طلبہ کو سکالرشپ آفر کرے اور متنخب طلبہ سے کم سے کم دس سال کا بونڈ بھروا کر انھیں سرکاری خرچ پر بیرون ملک کینسر سپیشلائزیشن کے لیے بھجوائے۔
اور جب وہ واپس آئیں تو انھیں تین گنا تنخواہ پر ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں کینسر کا الگ شعبہ قائم کر کے قانونی تحفظ کے ساتھ نوکریاں دے۔ اگر موٹروے پولیس کی تربیت اور تنخواہوں پر پیسہ خرچ کر کے ایک مثالی ادارہ بنایا جا سکتا ہے تو صحت کے شعبے میں یہ سرمایہ کاری کیوں نہیں کی جا سکتی۔ اور اس طرح کی صحولیات کے باوجود اگر کوئی ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کرے تو اسے تا حیات قید کی سزا سنا کر جیل میں ڈال دیا جائے۔