اداریہ تعمیر پاکستان بلاگ : کیا واقعی ملٹری و سویلین قیادت میں فاصلے بڑھ رہے ہیں ؟
انگریزی ڈیلی ڈان کی اشاعت 15 ستمبر 2015ء کی اشاعت میں ایک خبر کے مطابق سینٹ کی کاروائی کے دوران جب سینٹر مشاہد اللہ کے پی ٹی آئی کے دھرنے کے حوالے سے اس میں پاکستان آرمی کے سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے کردار بارے بیان کو مدنظر رکھکر فوج اور سویلین حکومت کو ایک پیج پر آنے کے مطالبے کی قرارداد پیش کی گئی تو چئیرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے اس کو اگلے سیشن تک زیر التواء کرتے ہوئے بیان دیا کہ
سب جانتے ہیں کہ فوج اور سویلین قیادت ایک پیج پر نہیں ہے اور اس وجہ سے فوج کے ٹیک اوور کرنے اور مارشل لاء کے آڑے آنے والے آئین کے آرٹیکل 6 میں کمزوری آگئی ہے اور سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے
سینٹ کے چئیرمین میاں رضا ربانی کا یہ بیان اس تناظر میں اور اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے کہ پی پی پی کے اہم سینٹر فرحت اللہ بابر نے بھی اس معاملے پر بات کرتے ہوئے سینٹ میں کہا کہ
” جب ہم حکومت میں تھے تو ہم بھی یہی بیان دیا کرتے تھے کہ حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں اور ہمارے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے ، اب مسلم لیگ نواز کی حکومت بھی یہی کہہ رہی ہے
جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ ہم بھی نہیں تھے اور یہ بھی نہیں ہیں ”
بلوچستان کی حکمران پارٹی نیشنل پارٹی کے سینٹر حاصل بزنجو نے بھی سینٹ میں برملا اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فوجی قیادت اور سویلین قیادت میں فاصلے بڑھ چکے ہیں اور عوامی حلقوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف ہی حکومت چلارہے ہیں اور سویلین حکمران بس ان کے احکامات کی پیروی کررہے ہیں ، انہوں نے اس معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس تک بلانے کی تجویز پیش کردی
سینٹ میں جماعت اسلامی ، پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) تین ایسی جماعتیں تھیں جن کے سینٹر سراج الحق ، نعمان وزیر اور مشاہد حسین نے پاکستان آرمی کی مقبولیت کا سبب پاکستان آرمی کے آپریشن ضرب عضب اور دھشت گردی کے خلاف شہروں اور دیہی علاقوں میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہونے والے ٹارگٹ آپریشن کی کامیابی اور پاک فوج کے جوانوں کی کامیابی کو قرار دیا اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر جمہوریت نہیں تو ملک میں کیسے ہوگی ( سراج الحق ) ، سیاست دان فوجی ٹیک اوور کے زمہ دار ہیں کیونکہ وہ ڈیلیور کرنے میں ناکام رہے (نعمان وزیر ) ، فوج کی بڑھتی مقبولیت سے ملک میں مارشل لاء کا کوئی خطرہ نہیں ہے ، سیاست دان گورننس اچھی کریں ، کرپشن کا خاتمہ کریں اور عوام کو ریلیف دیں ( مشاہد حسین )
اس ساری بحث سے ہم یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اگر اس وقت سینٹ کے اعتبار سے ہم ملٹری اسٹبلشمنٹ سے دوری اور نزدیکی کو پیمانہ بناکر سیاسی جماعتوں کے کیمپ کو تقسیم کریں تو پی پی پی ، نیشنل پارٹی ، اے این پی ، ہمیں اعلانیہ ملٹری اسٹبلشمنٹ سے دوری پر نظر آتی ہیں جبکہ حکومتی جماعت مسلم لیگ نواز نیم دروں ، نیم بروں کی پالیسی کے ساتھ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے پیچھے کھڑی ہے اور پاکستان تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ق ملٹری اسٹبلشمنٹ کی موجودہ ڈرائیو کو اپنے سیاسی مستقبل کے لئے فائدہ مند گردان رہی ہیں جبکہ ایم کیو ایم کے خلاف ملٹری اسٹبلشمنٹ کا رویہ بہت معاندانہ ہے اور مسلم لیگ نواز سیاسی باب میں ایم کیو ایم کے خلاف کاروائی کا سارا ملبہ اپنے اوپر ڈالنے سے گریزاں ہے ، اسی لئے ملٹری اسٹبلشمنٹ بھی اس سے زرا “خفا ” نظر آتی ہے جبکہ جے یوآئی (ف) کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سینٹ اور قومی اسمبلی میں دیوبندی مکتبہ فکر کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت ہے اور وہ اندرون خانہ فوج کے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنوں ، آپریشن ضرب عضب سے جہاں متفق نہیں ہے آگرچہ وہ اعلانیہ اس بات کا اظہار کرنے سے گریزاں ہے لیکن نیشنل ایکشن پلان میں ” مدارس دینیہ ” بارے جو نکات ہیں ان پر اس کی بے چینی اور مخالفت بہت واضح ہے -سینٹ میں جے یو آئی ایف کے سینٹر مولوی عبدالستار جوکہ بلوچستان میں ایک مدرسہ بھی چلاتے ہیں بہت واضح طور پر کہا کہ اگر حکومت نیشنل ایکشن پلان میں ” مدارس ” سے متعلق شقوں پر عملی جامہ پہنائے گی تو ان کی جماعت مرکز میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے گی ، دیوبندکی مدارس کی چھاتہ تنظیم وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی پوزیشن بھی کم و بیش یہی ہے اور اس مکتبہ فکر کے اندر تکفیری انتہا پسندانہ رجحان کی مالک سیاسی تنظیم جوکہ ” نیکٹا ” کی لسٹ میں کالعدم ہونے کے باوجود اوپن کام کررہی ہے اہلسنت والجماعت اور اسی تنظیم کی پالیسیوں کو ماڈیفائی کرکے ” دیوبندی پاکستان علماء کونسل ” کے نام سے کام کرنے والی تنظیم بظاہر تو آپریشن ضرب عضب کے خلاف کوئی بات نہیں کرتے اور اپنے آپ کو وہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کا خیرخواہ بناکر پیش کرتے ہیں مگر ان کی اپنی تحریریں اس بات کی گواہ ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کی اکثر شقیں ان کو اپنی تکفیری آئیڈیالوجی کے پاکستان کے شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں میں بنے مراکز اور وہاں پر موجود سہولت کاروں ، بھرتی کاروں ، مددگاروں اور نظریہ سازوں کے لئے براہ راست خطرہ محسوس ہورہے ہیں – دیوبندی پاکستان علماء کونسل کے سربراہ مولوی طاہر اشرفی نے روزنامہ جنگ کی اشاعت بروز منگل 14 ستمبر ،2015ء کے ادارتی صفحہ پر شایع ہونے والے ایک کالم میں نیشنل ایکشن پلان کی بعض شقوں کو متنازعہ بتایا اور اس حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو ” مذھبی حلقوں ” اور فوج میں لڑائی کی سازش بتایا ، اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے مرکزی چئیرمین سینٹر عبدالغفور حیدری نے بہاول پور میں ایک مدرسہ کے جلسہ سے خطاب کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت مشکوک مدارس میں سرچ آپریشن کو ” دیوبندی مکتبہ فکر کی مذھبی آزادی ” کو سلب کرنے کے مترادف قرار دے ڈالا
اس تفصیل سے ہم یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ دیوبندی مکتبہ فکر کی ” سیاسی اور مذھبی ” تنظیموں اور ان کی قیادت سرے سے یہ تسلیم کرنے کو ہی تیار نہیں ہے کہ پاکستان کے اندر تکفیری دھشت گرد تنظیموں کی مدد و سہولت کاری اور ان کے لئے افرادی قوت کی تیاری کے لئے ذھن سازی بعض دیوبندی مدارس کے اندر ہی کی جاتی ہے اور وہ اس حوالے سیکورٹی ایجنسیوں کی کاروائی کو من حیث الکل سارے ” دینی مدارس ” کے خلاف کاروائی سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ الزام بھی دینے سے گریز نہیں کررہے کہ یہ کاروائیاں اسلام دشمن مغربی طاقتوں کے اشارے پر کی جارہی ہیں اور اس ایشو پر جماعت اسلامی کا موقف بھی جے یوآئی ، اے ایس ڈبلیو جے اور وفاق المدارس العربیہ کے موقف سے ملتا ہے
ملٹری قیادت سے پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے فاصلے کا سبب ایف آئی اے ، رینجرز اور نیب کی سندھ میں کرپشن ، بدعنوانی ، دھشت گردوں کو فنڈنگ ، لینڈ مافیا ، واٹر مافیا ، ٹارگٹ کلرز کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کے دوران ان دونوں پارٹیوں کے بعض اہم اور سرکردہ رہنماؤں کی گرفتاری اور کئی صوبائی اداروں میں چھاپے ہیں ، پی پی پی اس حوالے سے میاں نواز شریف سے بھی سخت نالاں ہے کہ وہ رینجررز کو کیوں ایسی کاروائیاں کرنے سے روک نہیں پارہے ؟ پی پی پی نے اسی تناظر میں مسلم لیگ نواز سے اپنی مفاہمت کو ختم کرنے کا اعلان کرڈالا ہے -مسلم لیگ نواز پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ ایک تو وہ اپنے اندر سے ان لوگوں سے جان چھڑائے جو ” تکفیری انتہا پسندوں ” کے مددگار اور سرپرست ہیں – رانا ثناءاللہ سمیت کئی اہم ارکان صوبائی و قومی اسمبلی اور لیگی عہدےداران کے نام اس فہرست میں شامل ہیں جن سے جان چھڑوانے کے لئے دباؤ بڑھ رہا ہے اور سندھ میں ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد دباؤ بڑھا ہے کہ پنجاب و وفاق میں مسلم لیگ نواز کی کالی بھیڑوں کو بھی گرفتار کیا جائے ، نندی پاور پروجیکٹ ، ایل این جی امپورٹ ڈیل کے حوالے سے کئی نام ہیں جن کی گرفتاری کا دباؤ بڑھ رہا ہے
مسلم لیگ نواز نے کافی کوشش کی ہے کہ ایک طرف تو اس کا اتحاد اہلسنت والجماعت / سپاہ صحابہ پاکستان ، جمعیت العلمائے اسلام (ف) سے قائم رہے اور وہ ہر قیمت پر وفاق المدارس العربیہ کی قیادت کو بھی راضی رکھنا چاہتی ہے اور اس نے اپنی صفوں کے اندر دیوبندی مکتبہ فکر کی تکفیری قوتوں کی سرپرستی کرنے والے وزراء ، مشیر ، رکن قومی و صوبائی اسمبلی کو بھی بھی کنارے نہیں لگایا – شہباز شریف پنجاب میں رانا ثناءاللہ ، رانا مشہود سمیت ایک درجن بھر ایسے وزیر و شیر و اراکین کے نرغے سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں جن سے ملٹری اسٹبلشمنٹ ، اپوزیشن پارٹیز اور پنجاب کی اکثریتی عوام بھی تنگ ہیں اور خود مسلم لیگ نواز کے اندر میاں شیر علی ،عابد شیر علی ، پرویز رشید سمیت کئی اراکین قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلی اور عہدے داران بھی ان فرقہ پرست ، تنگ نظر اور تکفیری قوتوں کے حامی افراد سے بے زار نظر آتے ہیں اور ملٹری اسٹبلشمنٹ پنجاب کے اندر پنجاب حکومت کی دھشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف اقدامات سے مطمئن نہیں ہے اور یہ پنجاب کے اندر کرپٹ اور بدعنوان عناصر کے خلاف کاروائی نہ ہونے پر بھی اپ سیٹ ہے اور یہی وہ بنیادی سبب ہے جو مسلم لیگ نواز اور ملٹری قیادت میں فاصلے کا سبب بنا ہوا ہے
ایل یو بی پی پاکستان کے اندر جمہوریت کا حامی ہے اور کسی صورت پاکستان کے اندر فوجی آمریت یا فوجی ٹیک اوور کی حمایت نہیں کرتا لیکن ساتھ ساتھ ہماری پوزیشن ملک میں ” تکفیری دھشت گرد قوتوں ” اور ان کے سہولت کاروں ، مددگاروں ، نظریہ سازوں کے حوالے سے بھی بہت واضح ہے کہ ہم ان سب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والے اقدامات کی حمائت کرتے ہیں
آپریشن ضرب عضب سے لیکر نیشنل ایکشن پلان تک ہم قومی سیکورٹی پالسییوں کی حمایت کرتے ہیں اور ہم فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے عزم اور استقامت کو سراہتے ہیں جبکہ ساتھ ساتھ ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کو مولوی طاہر اشرفی سمیت کسی بھی ایسے مولوی جو کہ کسی بھی طرح سے ” عسکریت پسندی ، دھشت گردی ، تفرقہ بازی ، کفر سازی سے لتھڑا ہوا ہو کے ساتھ کسی قسم کا فوٹو سیشن نہیں کرنا چاہئیے بلکہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کو کسی بھی مسلک اور فرقہ کی جماعت کے رہنماؤں کے ساتھ فوٹو سیشن سے گریز کرنا چاہئیے تاکہ پاکستان آرمی کی جو قومی حثیت ہے وہ برقرار رہے
پنجاب کے چیف منسٹر میاں شہباز شریف کا ایک بیان آج کے اخبارات کی زینت بنا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پنجاب سے کالعدم دھشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کریں گے لیکن ان کا یا بیان اس وقت تک خالی بیان ہی رہے گا جب تک وہ صوبے سے اہلسنت والجماعت / سپاہ صحابہ پاکستان پر پابندی پر عمل درآمد نہیں کرائیں گے اور اس کی قیادت کو گرفتار نہیں کریں گے
ایل یو بی پی بہت واضح طور پر پاکستان مسلم لیگ نواز کے دھشت گردوں کے ہمدردوں ، سہولت کاروں ، مددگاروں اور نظریہ سازوں سے روابط اور اتحاد کی پہلے بھی محالفت کرتا رہا ہے اور اب بھی کرتا ہے اور اس کا مطالبہ رہا ہے کہ رانا ثناءاللہ ، چودھری عابد گجر سمیت ان سب لوگوں کو اپنی صفوں سے نکال باہر کیا جائے جو پاکستان میں تکفیری دھشت گردوں کے ہمدرد اور سرپرست ہیں اور پنجاب و وفاق میں ” اہلسنت والجماعت / سپاہ صحابہ پاکستان کے تمام دفاتر بند کئے جائیں اور ان کی قیادت کو گرفتار کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم پاکستان کی مین سٹریم پارٹیوں بشمول پی پی پی ، ایم کیو ایم اور اے این پی سے بھی کہتے ہیں کہ وہ سپاہ صحابہ پاکستان جیسی تکفیری ، انتہا پسند جماعتوں کے کسی راہنماء و لیڈر کے ساتھ فوٹو سیشن مت کریں
ایل یو بی پاک کا یہ بھی نکتہ نظر ہے کہ کرپشن ، بدعنوانی ، اختیارات کا ناجائز استعمال جیسے جو جرائم ہیں ان کے خلاف کاروائی کے لئے نیب ، ایف آئی اے ، پولیس ، اینٹی کرپشن جیسے وفاقی اور صوبائی اداروں کو ہی کام کرنے دیا جائے جبکہ رینجرز سمیت ملٹری کے جتنے ادارے ہیں وہ دھشت گردی کے نیٹ ورکس کے خلاف کام کریں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جس سے یہ تاثر ابھرے کہ ملک میں عملی طور پر غیر اعلانیہ مارشل لاء نافذ ہوگیا ہے
جہاں تک ڈیلیور کرنے اور گڈ گورننس اور پارٹیوں کے اندر جمہوریت کی جو بات ہے یہ بالکل ٹھیک مطالبات ہیں اور پاکستان کی مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کو اس حوالے سے ٹھوس اور نظر آنے والے اقدامات اٹھانے چاہئیں
ایل یو بی پی خیبرپختون خوا کے حلقہ 93 اپر دیر میں پاکستان پیپلزپارٹی کے امیدوار حاجی ثناء اللہ کی جماعت اسلامی کے مقابلے میں کامیابی پر مبارکباد پیش کرتا ہے اور اسے اپر دیر جیسے قدامت پرست حلقے میں لوگوں کی سوچ میں تبدیلی کا ائینہ دار بھی کہتا ہے ، کیونکہ پہلی مرتبہ اس علاقے میں عورتوں نے ووٹ ڈالے ہیں لیکن اس علاقے میں پاکستان پیپلزپارٹی نے یہ کامیابی اکیلے حاصل نہیں کی بلکہ اسے اس علاقے میں جے یوآئی ، مسلم لیگ نواز ، جمہوری وطن پارٹی کی حمایت بھی حاصل تھی اور یہ ” نظریاتی اور اصولی ” جنگ سے کہیں زیادہ ” پی ٹی آئی و جماعت گراؤ ” یک نکاتی ایجنڈا تھا -مین سٹریم سیکولر لبرل سیاسی جماعتوں کو رجعت پسند اور یہاں تک کہ تکفیری دوست قوتیں جیسے جے یوآئی اور مسلم لیگ نواز ہیں کے ساتھ بے اصول اتحاد بنانے سے گریز کرنا چاہئیے تبھی پاکستان سیکولر ، لبرل اور ڈیموکریٹ بن سکتا ہے