شامی تارکینِ وطن اور نام نہاد نقاد۔ از نور درویش
کچھ کمرشل لبرل، نام نہاد حقیقت پسند اور نقاد ایک راگ الاپ رہے ہیں کہ شام کے تارکینِ وطن کے غم میں رونے والوں کو اپنے ملک کے وزیرستان کے متاثرین نظر نہیں آتے۔
افسوس کہ اِن حضرات کو تارکین وطن کا مطلب نہیں پتہ، اور تارکین بھی وہ جنہیں کوئی قبول کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ خُدا وہ دن نہ دکھائے جب داعش (دولتِ اسلامیہ) جیسے تکفیری خوارج کی وجہ سے آپ کو اپنا ملک چھوڑنا پڑے اور آپ کو سمندر کے سوا کہیں پناہ نہ ملے۔ وزیرستان کے متاثرین ہمارے سر آنکھوں پر، خدا نہ کرے کہ اِن متاثرین کے ملک چھوڑنے کی نوبت کبھی آئے۔ وہ بھی انہی تکفیری دیوبندی خوارج کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہیں، جن کو اگر لگام نہ دی گئی تو ہمارے ملک کا حال خاکم بدہن بھی شام جیسا ہوگا۔
تین سال کے ایک بچے کی تصویر نے صرف پاکستان نہیں، پوری دنیا کو جھنجوڑ دیا ہے، سوائے عیاش خلیجی بادشاہوں کے۔ اُمید ہے کہ آپ اپنا شمار اِن بادشاہوں کے ساتھ نہیں کرنا چاہیں گے۔ کچھ انسانی المیے، سرحدوں سے ماورا ہوتے ہیں، جیسے شامی تارکینِ وطن کا المیہ یا یمن میں اُمہ کے ہاتھوں جاری قتل عام۔
لہذا اپنی تنقیدی صلاحیتیں کسی مناسب موقع کیلئے سنبھال کر رکھئے۔ شکریہ