یمن کی سرحد کے قریب سعودی عرب کے جنوبی صوبہ عسیر کے شہر ابہا میں واقع سعودی سپیشل فورسز کے ہیڈ کوارٹر میں بنی مسجد ( جو کہ سلفی مسجد ہے ) میں ایک خودکش بمبار کے پھٹ جانے سے 15 افراد ہلاک ہوگئے – سعودی وزرات داخلہ کے ترجمان نے جمعرات کے روز بتایا کہ ” دھشت گردانہ حملہ ” دوپہر کی نماز کے دوران ہوا – پندرہ میں سے 12 افراد سیپشل ویپن اینڈ ٹیکٹس یونٹ کے رکن تھے جبکہ تین کمپاؤنڈ میں کام کرنے والے مزدور تھے – خودساختہ دولت اسلامیہ عراق و الشام – داعش نے اس واقعے کی زمہ داری قبول کرلی
یہ حملہ یوسف بن سلیمان عرف عبداللہ السلیمان نے کیا جبکہ معلوم ہوا ہے کہ اس حملے سے بھی پہلے یوسے بن سلیمان کو سعودی حکام نے گرفتار کیا تھا لیکن وہ ناکافی ثبوت کی وجہ سے رہا کردیا گیا – اسی طرح کی پراسرار مماثل صورت حال پاکستان کے اندر پیش آئی تھی جہاں پر لشکر جھنگوی ( دیوبندی مکتبہ فکر کی تکفیری ، خارجی تنظیم ) کے چیف اور بڑے دھشت گرد کو ناکافی ثبوت ہونے کی وجہ سے رہا کردیا گیا تھا – لشکر جھنگوی کا چیف ملک اسحاق اپنے تیرہ ساتھوں سمیت پنجاب کے جنوبی علاقے مظفر گڑھ شاہ والہ کے قریب ایک مبینہ پولیس مقابلے کے دوران ہلاک ہوگیا جبکہ پولیس کے مطابق لشکر جھنگوی کے دھشت گردوں نے ملک اسحاق ، اس کے دو بیٹوں ، اس کے نائب خاص غلام رسول شاہ اور دو اور ساتھی پولیس سے چھڑوانے کی کوشش کے دوران اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے – ملک اسحاق اور ان کے دیگر ساتھیوں کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنچ کیا گیا ہے ، جس میں عدالت سے کہا گیا ہے کہ وہ مبینہ ماورائے عدالت اس قتل کا نوٹس لے
ملک اسحاق نے 1997ء میں اکتوبر کے مہینے میں ایک اردو روزنامے کو دوران انٹرویو بتایا تھا کہ اس نے ایک سو دو افراد کو قتل کیا تھا – اور پھر اسے 44 دھشت گردوں کے ساتھ دوبارہ گرفتار گیا گیا جن پر مختلف دھشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا بشمول سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملے کے جوکہ 2009ء میں ہوا تھا – اس کو سپریم کورٹ نے عدم ثبوت کی بنا پر رہا کردیا تھا یہ دو مثالیں سعودی عرب اور پاکستان کے اندر دھشت گردی سے نمٹنے کے روايتی طریقوں کی ناکامی پر روشنی ڈالتی ہیں – دونوں ملکوں میں یہ سعودی عرب کی بادشاہت ہے جس نے پاکستان کے اندر دیوبندی مکتبہ فکر سے تکفیری دھشت گردوں کو اور سعودی عرب میں سلفی مکتبہ فکر سے دھشت گردوں کو اس طرح کے وحشیانہ اقدامات کرنے کے قابل بنایا ہے سعودی عرب کے پٹھو میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان اور حکمران پارٹی مسلم لیگ نواز کے بعض وزراء و رہنماء ملک اسحاق سمیت دیوبندی مکتبہ فکر سے اٹھنے والے تکفیری خارجی دھشت گرد تنظیم کالعدم سپاہ صحابہ / اہلسنت والجماعت اور اس کے ٹاپ کے دھشت گردوں بشمول ملک اسحاق کی سرپرستی کرتے رہے ہیں اور ملک اسحاق 100 معصوم شہریوں کے قتل میں ملوث ہونے اور اپنی دھشت گرد تکفیری آئیڈیالوجی کو پھیلانے کے جرم میں ملوث ہونے کے باوجود رہا ہوگیا تھا – ملک اسحاق کی سپریم کورٹ کی طرف سے رہائی ایک طرف تو پاکستان میں طاقتور دیوبندی تکفیری لابی کے سرکردہ افراد جیسے طاہر اشرفی صدر دیوبندی علماء پاکستان کی کمپئن کا نتیجہ تھی تو دوسری طرف اس وقت کی عدلیہ میں دیوبندی تکفیریت سے ہمدردی رکھنے والے ججز بشمول چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری ، جسٹس جواد ایس خوابہ اور جسٹس آصف کھوسہ کے سمجھوتے بازی نے بھی اس رہائی میں اہم کردار ادا کیا ،پنجاب میں مسلو لیگ نواز کے وزیر قانون و وزیرداخلہ اس وقت کے رانا ثناء اللہ جن کے تکفیری دیوبندیوں سے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں پراسیکوشن ڈیپارٹمنٹ کو کہہ کر کیس کو کمزور کیا اور اس کے سبب عدالتوں سے انتہائی خطرناک ملزمان رہا ہوگئے
پاکستان کے اندر بعض لبرل اشراف کے سیکشنز نے بھی تکفیری دھشت گردوں کے متاثرین کو یوٹوپیائی خیالات جیسے ” قانون کے ڈیو پروسس ” کو بروئے کار لانے کی تلقین وغیرہ – اور یہ ساری یوٹوپیائی باتیں ایک ایسے ملک میں اپنانے کو کہی جارہی ہیں ، جہاں پر سپریم کورٹ تک قانون اور آئین کی سلیکٹو یعنی مخصوص قسم کی تشریحات کرتی ہے اور جہاں سپریم کورٹ کے ججز ، مسلم لیگ نواز جیسی حکمران جماعتیں سنّی بریلوی ، شیعہ ، صوفی ، کرسچن اور احمدیوں کے قتل کے لئے سہولتیں اور ان کو فروغ دینے جیسے اقدامات میں ملوث ہیں
سعودی عرب اور پاکستان جیسے معاشرے جہاں پر حکومتیں سرگرمی کے ساتھ تکفیری دھشت گردی کو فروغ دیتی ہوں وہاں پر کیا دھشت گردی کے متاثرین ” ڈیو پروسس اور جوڈیشل فیصلوں ” جیسے افسانوی تصورات سے مطمئن ہوسکتے ہیں یہ جعلی قسم کا گمراہ کن مغالطہ پوری طرح سے اس وقت بے نقاب ہوکر سامنے آیا جب پاک فوج نے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ملک اسحاق کا خاتمہ کیا اور پاکستان کی اکثریت نے اس پر سکون کا سانس لیا تو یہ جعلی لبرل تھے ، جنھوں نے دھشت گردی کے متاثرین کو ” قانون کی حکمرانی ، قانونی پراسس کی اجارہ داری ” کے خطرے میں ہونے کا سبق پڑھانا شروع کیا ، ان میں بینا سرو سمیت کئی ایسے لوگ تھے جن کی آوازوں کا شور اتنا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی – ان لبرل اشراف کا خیال یہ ہے کہ تکفیری دھشت گردوں کو نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھنے دیا جائے یہاں تک کہ ایک دن ہماری عدلہ ان کو پھانسی کی سزا سنائے —- یہ ایک ایسا یوٹوپیا ہے جس سے پاکستان کے زمینی حقائق نہیں ملتے ہیں – بلکہ یہ تو آئرش نژاد ڈرامہ نگار سیموئل بیکٹ کے کھیل ” گوڈو کا انتظار ” کا بنیادی خیال ہے کہ انصاف کے گوڈو کا انتظار کیا جائے جس نے کبھی نہیں ملنا ہے