افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر کا اپنے نائب ملا اختر منصور کے ہاتھوں قتل۔ خرم زکی

Screen Shot 2015-07-30 at 21.54.05

یہ اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر کو قتل کر دیا گیا ہے۔افغان حکومت ، امریکی حکومت نے اس اطلاع کو قابل بھروسہ قرار دیا ہے اور پاکستان میں لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید نے تو ملا عمر کی غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھا دی ہے۔ گو افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس بات کی تردید کی ہے لیکن اس خبر کو تقویت اس بات سے مل رہی ہے کہ ملا عمر کی جانب سے کوئی ویڈیو پیغام اس خبر کی تردید کے لیئے تاحال سامنے نہیں آ سکا۔ اس خبر کا انکشاف ملا نجیب اللہ کی سربراہی میں طالبان سے علیحدہ ہونے والے دھڑے فدائی مجاہدین کے ترجمان قاری حمزہ نے کیا۔ قاری حمزہ کا کہنا تھا کہ ملا عمر کو آج سے دو سال قبل افغان طالبان کے نائب سربراہ اختر محمد منصور اور گل آغا (جو افغان طالبان کے مالیاتی کمیشن کے سربراہ بھی ہیں) نے قتل کر دیا تھا۔ افغان طالبان رہنما اختر محمد منصور پر اس سے پہلے ملا داد اللہ آخوند کے قتل کا الزام بھی لگ چکا ہے۔ ملا داد اللہ کو 12 مئی 2007 میں ان کے ہی کے ایک گارڈ نے صوبہ ہلمند میں قتل کر دیا تھا۔ بعد میں افغان افواج نے ان کی لاش کو قندھار میں عوام کے سامنے پیش کر دیا تھا۔ ملا داد اللہ کے خاندان اور حمایتیوں نے اس قتل کا الزام اختر منصور پر لگایا تھا۔ فدائی محاز کے سربراہ نجیب اللہ ملا داد اللہ کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیئے جاتے تھے۔

اختر منصور کو لے کر افغان طالبان میں دھڑے بن رہے ہیں اور حال ہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں ملا عمر کے صاحبزادے مولوی یعقوب، جو حال ہی میں کراچی کے ایک مدرسے سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں، کو ملا عمر کے جانشین کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مولوی یعقوب کی ملا عمر کے جانشین کے طور پر حمایت کو کئی طالبان رہنماؤں بشمول عبد القیوم ذاکر (سابقہ قیدی گوانتانامو بے)، ملا باز محمد اور ملا داد اللہ کے چھوٹے بھائی منصور داد اللہ کی مکمل تائید حاصل ہے۔ جس اجلاس کا ذکر ہم نے اپر کیا اس اجلاس میں ملا عمر کے چھوٹے بھائی عبد المنان بھی شامل تھے تاکہ اس تاثر کو مضبوط کیا جا سکے کہ مولوی یعقوب کی جانشینی پر ملا عمر کا خاندان متفق ہے۔ یہ اندرونی اختلافات حال ہی میں اس وقت شدت اختیار کر گئے جب ملا اختر محمد منصور نے حکومت پاکستان کے کہنے پر افغان حکومت سے بات چیت کے لیئے ایک وفد 7 جولائی کو مری روانہ کیا۔ افغان طالبان کے نائب رہنما ملا اختر محمد منصور کا تعلق درانی قبیلے کی اشک زئی شاخ سے ہے جبکہ ان کے مخالفین کا تعلق درانی قبیلے کی نور زئی اور علی زئی شاخوں اور کاکڑ قبیلے سے ہے۔ افغان طالبان رہنما اختر منصور پر صرف ملا عمر کے ہی قتل کا الزام نہیں بلکہ سابق وزیر دفاع ملا عبید اللہ سمیت کئی اطالبان کمانڈروں کو قتل اور قید کروانے کا بھی الزام ہے۔ اس حوالے سے مولوی ذاکر کا ایک بیان بھی گردش کر رہا ہے۔ ملا اختر محمد منصور 2010 فروری میں عبد الغنی برادر کی پاکستان میں گرفتاری کے بعد افغان طالبان کے نائب امیر کے طور پر سامنے آئے تھے۔ یاد رہے کہ عبد الغنی برادر پر پاکستان کو سائیڈ لائن کر کے براہ راست افغان حکومت سے بات چیت کا الزام تھا۔ اختر منصور کے مخالفین پاکستانی سرپرستی میں افغان حکومت سے بات چیت کے مخالف سمجھے جاتے ہیں۔

Screen Shot 2015-07-30 at 21.54.53Molvi ZakirHafiz Saeed2

Comments

comments