ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان ایرانی نیوکلیئر پروگرام پر معاہدہ – عامر حسینی

 Iranian Foreign Minister Mohammad Javad Zarif shakes hands on January 14, 2015 with US State Secretary John Kerry in Geneva. Zarif said on January 14 that his meeting with his US counterpart was vital for progress on talks on Tehran's contested nuclear drive. Under an interim deal agreed in November 2013, Iran's stock of fissile material has been diluted from 20 percent enriched uranium to five percent, in exchange for limited sanctions relief.   AFP PHOTO / POOL / RICK WILKING        (Photo credit should read RICK WILKING/AFP/Getty Images)

ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان ایرانی نیوکلیئر پروگرام پر ایک معاہدہ طے پاگیا ہے اور اس معاہدے کو اکثر ممالک اور تجزیہ کار تاریخی معاہدہ قرار دے رہے ہیں جبکہ خود امریکی صدر باراک اوبامہ علی الصبح وھائٹ ھاوس میں میڈیا کے سامنے آئے اور انھوں نے ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والی اس مبینہ ڈیل کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کی بنیاد اعتماد کی بجائے ویریفیکشن پر ہے اور اگر گانگریس نے اس معاہدے کو کالعدم قرار دینے کی کوشش کی تو وہ اس کو ویٹو کردیں گے  امریکی میڈیا نے بھی اس معاہدے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے ، اس کو صدر اوبامہ کی ڈپلومیٹک پالیسیوں کی تاریخ میں سب سے بڑی ڈپلومیٹک فتح قرار دیا ہے

دوسری طرف چین ، روس ، فرانس ، برطانیہ اور جرمنی نے بھی اس معاہدے کو تاریخی معاہدہ قرار دیا ہے اور اس معاہدے سے یہ امید ظاہر کی ہے کہ اس سے مڈل ایسٹ میں امن کے قیام میں مدد ملے گی

ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان اس مبینہ ڈیل پر سب سے سخت اور تند و تیز بیان اسرائیل کی جانب سے آیا ہے جس نے اس معاہدے پر سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس معاہدے سے ایران کو مڈل ایسٹ میں دہشت گردی پھیلانے کے لئے مزید ڈالر ملیں گے

سعودی عرب اور دیگر گلف عرب ریاستوں نے اس ڈیل کی خبر آنے کے بعد ابتک سرکاری طور پر کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے لیکن اگر مڈل ایسٹ میں سعودی عرب اور قطر کی پالیسیوں کی عکاسی کرنے والے دو بڑے نیوز نیٹ ورکس کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ گلف عرب ریاستوں کے دارالحکومتوں میں اس ڈیل نے خاصی مایوسی کو جنم دیا ہے اور سعودی و قطر نواز میڈیا اس ڈیل پر اگر ، مگر ، چونکہ ، چناچہ اور اس ڈیل کی کامیابی پر سوالیہ نشان لگا رھا ہے ، جبکہ کئی ایک گلف عرب ریاستوں کے حامی اخبارات و جرائد نے اس ڈیل کو مغرب کی جانب سے عرب ملکوں سے غداری سے بھی تعبیر کیا ہے

سعودی عرب کے سرکاری نیوز نیٹ ورک العربیہ کی انگلش ویب سائٹ انگلش .العربیہ .کوم نے رفیع اللہ زادہ کا ایک تفصیلی آرٹیکل اس ڈیل پر شایع کیا ہے ، اس آرٹیکل میں اس مبینہ ڈیل کی گانگریس میں منظوری پر اس نے سوالیہ نشان لگایا ہے اور اس ڈیل کے پروان نہ چڑھنے بارے دلائل دئے ہیں اور ایسے لگتا ہے جیسے اس ڈیل کو ناکام بنانے کے لئے رفیع اللہ زادہ نے سعودی عرب کے اگلے لائحہ عمل کے خدوخال بین السطور بیان کرڈالے ہیں

سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے لئے ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان معاہدے کا طے پاجانا اتنی ہی بڑی ہزیمت ہے جتنی بڑی ہزیمت یہ اسرائیل کے لئے بنی ہے ، سعودی عرب نے اول دن سے جب سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایران اور مغرب کے درمیان ایٹمی پروگرام پر کوئی ڈیل ہونے جارہی ہے ،تب سے سخت ردعمل آنا شروع ہوگیا تھا ، سعودی عرب اور اسرائیل نے اس معاہدے کے خلاف امریکی انتظامیہ اور امریکی کانگریس و سینٹ و امریکی میڈیا میں لابنگ بڑے پیمانے پر کی ، جب صدر باراک اوبامہ نے ایران سے ایٹمی معاہدے کی کوششیں ترک نہ کیں اور ایران سے جنگ کی بجائے مذاکرات کا آپشن اختیار کیا تو اسرائیل و سعودی عرب کی جانب سے اوبامہ انتظامیہ پر سخت تنقید شروع ہوگئی ، اسرائیلی صدر بنجمن نیتن یاہو نے تو اس حوالے سے امریکی کانگریس اور پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سخت اور ترش و تند تقاریر کیں تھیں

سعودی عرب کے بارے میں یہ بھی تجزیہ نگاروں نے کہا تھا کہ اس نے یمن کے حوثی قبائل کے خلاف جارحیت کا آغاز بھی ایران – امریکہ ڈیل کو ناکام بنانے اور مڈل ایسٹ لے میدان کو گرم کرنے اور امریکہ کو ایران کے خلاف نبردآزما کرانے کے لئے کیا تھا لیکن یہ سٹریٹجی کام کرتی دکھائی نہیں دی

سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے ایران کے خلاف مغرب اور امریکہ کی پابندیوں کے خاتمے اور ایران کی تنہائی کے خاتمے کے لئے کسی بھی مجوزہ مغربی اقدام کو تباہ کن ثابت کرنے کے لئے پروپیگنڈے کے میدان میں بہت سے تیر آزمائے جن میں سے ایک تیر ” شیعہ -سنی ” تاریخی تنازعے کو نیا رنگ دینے اور مڈل ایسٹ میں اپنے زوال پذیر اثر ورسوخ کو بحال کرنے کے لئے ” ایرانی توسیع پسندی ” کے مفروضے کو بڑھا چڑھا کر ایران کا خوف بڑھا کر دکھانے کی پالیسی بھی شامل تھی ، اس پالیسی کو کامیاب کرنے کے لئے سعودی عرب نے سیاست دانوں ، مذھبی رہنماوں ، صحافتی قبیلے کے لوگوں اور یہاںتک کہ کئی ایک ملکوں کی حکومتوں تک کو پیٹرو ڈالر کی رشوت پیش کی اور جواب میں ان سے اس مبینہ ڈیل کے خلاف مدد چاہی

سعودی عرب نے خود کو اپنے آپ ہی سنی اسلام کے نمائیندہ اور سنی اقوام کے مفادات کے سب سے بڑے محافظ کے منصب پر فائز کرلیا اور خود سے ہی سنی اسلام کے سٹریٹیجک مفادات کا تعین کرلیا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس سارے عرصے میں وہ مڈل ایسٹ ، شمالی افریقہ ، جنوبی ایشیا اور فار ایسٹ ایشیا میں وھابیت ، سلفی ازم پلس سعودی سٹریٹجیک مفادات کو سنی اسلام بناکر پیش کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ، لیکن اس کا یہ لبادہ اسرائیل اور مصر کی حکومتوں کے ساتھ اس کی ملی بھگت اور اتحاد کی کہانیوں کے باہر آنے اور غزہ و حماس پر اسرائیلی حملوں کے دوران سعودی عرب کے خاموش رہنے بلکہ اس معاملے پر قرارداد تک لانے کے راستے میں روکاوٹ کھڑی کرنے جیسے معاملے بھی سامنے آئے ، دیکھا جائے تو آل سعود ، سعودی عرب اور اس کے دیگر عرب اتحادیوں نے ” بہار عرب ” کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سماجی -سیاسی جوار بھاٹے کو انارکی میں بدل ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا اور ان کی جانب سے عرب عوام کی جانب سے آزادی ، خود مختاری ، روٹی ، کپڑا ، مکان ، سیاسی جمہوری حقوق کی بازیابی کی تحریک کو جبر ، مداخلت اور دہشت گردی کی مدد سے فرقہ پرستانہ منافرت میں بدلنے کے لئے بہت زیادہ پیسہ صرف کیا ،

سعودی عرب ، آل سعود کے اس کردار کو سمجھنے کے لئے سعودی ویکیلیکس پر ایک نظر ڈالنا کافی ہوگا اور سعودی عرب ، قطر ، بحرین ، مصر کی جابرانہ پالیسیوں نے ہی بہار عرب کے مقابلے میں رد انقلاب ، انتہائی رجعت پرست ، جنونی ، فرقہ باز تکفیری ، خارجی داعش ازم کو جنم دیا اور یہ سلفی جنونیت صرف شیعہ کے لئے انتہائی ھلاکت آفریں ثابت نہ ہوئی بلکہ اس نے مڈل ایسٹ ، شمالی افریقہ ، جنوبی ایشیا ، مشرق بعید میں بسنے والی دیگر مذھبی برادریوں بشمول صوفی سنی ، کرسچن ، یہودی ، یزیدی ، دیرویزی ، اسماعیلی سب کے لئے ھلاکت آفریں ثابت ہوئی اور اس کی ھلاکت آفرینی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے خود امریکیوں کا عراق میں ایرانی عسکری دستوں سے داعش ازم کے خلاف تعاون کرنا مجبوری بن گیا اور اب مڈل ایسٹ کی جیو پالیٹکس میں امریکیوں کے لئے اپنے کنٹرول اور خطے میں اپنی موثر موجودگی کے لئے ایران سے لڑائی کی بجائے مفاہمانہ تعلق برقرار رکھنا مجبوری دکھائی دیتا ہے اور آل سعود کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ مڈل ایسٹ کے بدلتے سوشو اکنامک حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی بجائے 79ء میں ایرانی انقلاب کے بعد والی جیوپالیٹکس اور اس کے مطابق پالیسیوں پر اڑا رہنا چاہتا ہے اور یہ کٹھ حجتی بھی عرب کے وھابی حاکموں کو پیچھے دھکیلنے کا سبب بن رہی ہے

مڈل ایسٹ میں سلفی ازم ، بادشاہت ، ملوکیت ، سنی مخالف اقلیتی وھابی سلفی ازم کے تسلط کی کوششوں کو سخت چیلنج کا سامنا ہے اور گلف ریاستوں ، مصر و ترکی کے حکمرانوں کی سماجی تبدیلی کے آڑے آنے کی پالیسی نے ان معاشروں میں سخت اضطراب ، بے یقینی کو جنم دیا ہے اور اس کے خلاف عوامی ابھار کو بھی سامنے کیا ہے ، اور گلف خلیج کونسل کے اکثر ممالک ، مصر ، لبنان سمیت کئی ایک ملکوں میں سعودی نواز سیاسی اشرافیہ کے خلاف عوامی جذبات اپنے عروج پر ہیں ، ان سب کو دبانے کے لئے عرب حکمران جابر ریاستی مشینری ، فرقہ پرستانہ جنونیت جیسے ھتیاروں کو استعمال کررہے ہیں ، ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان مبینہ ڈیل کو ڈی ریل کرنے اور اپنے اقتدار و طاقت کی ڈوبتی ناو کو بچانے کے لئے جبر ، ظلم ، تاریکی کی یہ قوتیں اب اور زیادہ فرقہ پرست جنونیت کو استعمال کریں گی ، اور عالم اسلام کے اندر فرقہ وارانہ تقسیم اور اس کو بھرپور قسم کے پرتشدد و تباہی سے مملو مظہر میں بدل کر خود کو زبردستی سنی کیمپ کا ترجمان ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی ، اس کے ساتھ خود کو عربوں کے مفادات کا سب سے بڑا پاسبان ثابت کرنے کی کوشش ہوگی

پاکستان کے اندر بھی دیوبندی تکفیریت سعودی عرب کی تزویراتی گہرائی کو ممکن بنانے کے لئے ہر ممکن تعاون کرے گی جبکہ اس کام کے لئے سیاسی جماعتوں ، دیوبندی ازم و وھابی ازم کے پھیلے نیٹ ورکس اور اسٹبلشمنٹ میں موجود سعودی لابی بھی ھاتھ بٹائے گی اور اس مبینہ ڈیل کو سب بڑی شرانگیز شئے قرار دیا جائے گا اور اس حوالے سے چند روز میں ہی بہت سے چہرے بے نقاب ہوں گے

Comments

comments