دار العلوم دیوبند ، جمعیت العلمائے ہند ، جماعت اسلامی ہند اور سعودی عرب کی قربت – عامر حسینی
دارالعوم دیوبند ، جامعہ ندوہ العلماء ، جماعت اسلامی ہند ، جمعیت اہل حدیث ہند سمیت ہندوستان کی بہت سی جماعتیں جوکہ سید احمد شاہ آف رائے بریلی اور اسماعیل دہلوی بن شاہ عبدالغنی بن شاہ ولی اللہ کی تقویت الایمان و صراط مستقیم پر ویسا ہی اجماع رکھتے ہیں جیسے آج کل یہ شیخ ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوھاب التمیمی النجدی کے دنیا کے سب سے بڑے موحد ، پابند شرع ہونے پر رکھتے ہیں اور ان سب کا خاصہ یہ ہے کہ یہ سب تنظیمیں اور مدارس سعودی عرب ، قطر ، کویت ، بحرین سمیت گلف ریاستوں کی امداد سے مستفید ہوتے رہے ہیں
ایک عشرے سے پہلے تک یہ سب جماعتیں آل سعود اور سعودی عرب کے ساتھ باہم شیر و شکر تھیں اور جامعہ ندوہ العلماء سعودی عرب ، قطر اور مصر کی اخوان المسلمون کے ساتھ یکساں تعلقات بغیر کسی روکاوٹ کے اور خرابی کے لیکر چل رہا تھا لیکن اس میں روکاوٹ اس وقت پیش آئی جب سعودی عرب اور آل سعود نے اخوان المسلمون پر سے ھاتھ اٹھا لیا ، مرسی کی حکومت کو گرانے میں اپنا کردار ادا کیا ، اور گلف ریاستوں کو کہا کہ وہ اخوان المسلمون پر پابندی عائد کردیں ، ندوہ العلماء کے موجودہ وائس چانسلر سید سلیمان ندوی جوکہ اخوان المسلمون کے سب سے بڑے حمائتی ہیں اگرچہ جماعت اسلامی ھند ، سید مودودی سے ندوہ العلماء کے تعلقات خراب ہیں ، سید ابوالحسن ندوی نے جماعت اسلامی اور سید مودودی کے فہم دین پر ایک تنقیدی کتاب بھی تحریر کی ، اس وقت سے ندوہ والے جماعت اسلامی ہند و پاک سے دور ہیں
دارالعلوم دیوبند سے ندوہ والوں کا اختلاف بھی بنیادی طور پر اخوان والے معاملے میں ہی ہے اور دارالعلوم دیوبند کے برٹش سامراج سے آزادی کے لئے چلنے والی قوم پرست تحریک کے ساتھ جانے پر بھی ندوہ والے اختلاف کرگئے تھے اور ندوہ اس معاملے می پین اسلام ازم کی تحریک کے ساتھ چلا اور اس نے ہندوستانی نیشنلزم کو مسترد کیا
دارالعلوم دیوبند نے کانگریس کا ساتھ دیا اور ہندوستانی نیشنلزم کو اسلام کے منافی خیال نہ کرتے ہوئے ہندوستانیوں کے مختلف نسلی ثقافتی اور مذھبی پس منظر کے باوجود ایک قوم ہونے کے تصور کو سپورٹ کیا ، مولانا حسین احمد مدنی سے لیکر دارالعلوم دیوبند کے ابتک کے تمام وائس چانسلرز اور جمعیت العلمائے ہند کے تمام صدور اور تمام دھڑوں کا یہی موقف رہا ہے
پاکستان جب تک نہیں بنا تھا تو پاکستان ہر مشتمل علاقوں میں جہاں جہاں دارالعلوم دیوبند سے وابستہ مدارس اور مساجد تھیں وہ سب کی سب ہندوستانی نیشنلزم کی حامی تھیں اور پاکستان کے اندر شامل علاقوں میں تو ایک بھی دیو بندی سیاست دان یا مولوی آل انڈیا مسلم لیگ کے مسلمانوں کے ایک قوم ہونے کا حامی نہیں تھا ، یہ اعزاز دارالعلوم دیوبند کے اس وقت صدر مدرس علامہ شبیر احمد عثمانی ، مولوی اشرف علی تھانوی اور ان کے چند رفقاء کو حاصل تھا کہ انھوں نے دارالعلوم دیوبند اور جمعیت العلمائے ہند کی جانب سے آل انڈیا کانگریس کی حمائت اور مسلم نیشنلزم نامی کسی بھی چیز کے موجود ہونے سے انکار کے خیال کو مسترد کردیا تھا اور وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے حامی ہوگئے تھے
آج پاکستان کے اندر سیکولر ازم اور سیکولر نیشنل ازم کی سب سے زیادہ مخالفت دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ، جامعہ اشرفیہ لاہور سمیت کئی ایک ایسے مدارس کی جانب سے ہوتی ہے اور جمعیت العلمائے اسلام ء کی جانب سے کی جاتی ہے جبکہ یہ سب تنظیمیں اور جامعات پاکستان بننے سے پہلے ہندوستانی نیشنلزم اور سیکولر ازم کو اسلام کے مخالف خیال نہیں کرتے تھے مگر آج یہ اس کو الحاد ثابت کرنے میں سب سے آگے ہیں
دار العلوم دیوبند ، جمعیت العلمائے ہند ، جماعت اسلامی ہند ، جمعیت اہل حدیث ، ڈاکر ذاکر نائیک کی تنظیم ، ندوہ العلماء یہ سب کے سب ہندوستان میں ہندوستانی سیاست میں اپنے اختلافات کے باوجود سعودی عرب کی قربت اور اسی مقصد کے لئے شیخ ابن تیمیہ اور شیخ محمد بن عبدالوھاب کی شان میں قصیدے تواتر سے پڑھتے ہیں
گذشتہ سال فروری میں جب سعودی وزیر مذھبی امور صالح العزیز نے ہندوستان کا دورہ جمعیت العلمائے ہ د کے ایک دھڑے مولانا ارشد مدنی والے کی درخواست پر کیا تھا تو اس وقت تک اخوان کے بارے میں سعودی عرب کی صورت حال زیادہ واضح نہیں ہوئی تھی اور اس وقت تک سعودی عرب ہندوستان میں متحدہ اسلامک منچ نامی ایک اتحاد میں سب مسلم تنظیموں کو اکٹھا ہوجانے کو کہہ رہا تھا اور سعودی وزیر مذھبی امور نے تاج محل ہوٹل دہلی میں دئے گئے عشائیہ میں بھی سب کع متحدہ اسلامک منچ میں اکٹھا ہونے کو کہا تھا جس کے سربراہ اس وقت ندوہ کے سربراہ سلمان ندوی ہی تھے
اور اس زمانے میں یہ ہوا کہ ارشد مدنی نے اگر عبدالرحمان السدیس امام حرم کو بلوایا تو سلمان ندوی نے امام حرم ڈاکٹر خالد الغامدی کو بلواکر یی دکھایا کہ آل سعود اور سعودی وھابی علماء کے وہ زیادہ قریب ہیں
اسی طرح جماعت اسلامی ہند ، جمعیت اہل حدیث اور ڈاکٹر زاکر نائیک بھی آل سعود اور سعودی وزرات اوقاف و شیون الاسلامی و کویتی حکام کو بلاکر یہ دکھانے میں مصروف رہے کہ پیٹرو ڈالر کی دولت سے مالا مال یہ عرب وھابی حاکم ان کے قریب ہیں
اس سارے قضیہ میں سعودی عرب کی جانب سے بنائی گئی رابطہ عالم اسلامی مک مکرمہ کی رکنیت ، اس کے مختلف پروجیکٹس میں حصہ داری کا معاملہ بھی ملوث رہا ، مولانا ارشد مدنی کو بھی رابطہ العالم الاسلامی کی رکنیت مل گئی
آل سعود کے لئے اور سعودی وزرات مذھبی امور کے لئے اہل حدیث اور دیوبند سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان فقہ کا اختلاف کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا بلکہ ندوہ لکھنئو جب بنا تھا تو اس کی تقریب میں دارالعلوم دیوبند کی نمائیندگی کے ساتھ ساتھ معروف اہل حدیث عالم دین مولوی ثناء اللہ امرتسری بھی شریک تھے ، آل سعود نے جنوبی ایشیا کے اندر اور برصغیر پاک و ہند کے اندر اپنی خارجہ پالیسیوں کو مذھبی لبادہ پہناکر اس کا علمبردار دارالعلوم دیوبند ، ندوہ العلماء ، دارالعلوم کراچی ، دار العلوم جامعہ اشرفیہ ، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ، اور جمعیت العلمائے ہند و جمعیت العلمائے اسلام ، جماعت اسلامی ہند و پاکستان و بنگلہ دیش کو ریال و ڈالر دیکر بنایا اور یہاں تک کہ اس کی جانب سے پاکستان کی بظاہر سیکولر جماعتیں جو نظر آتی ہیں اس کے سیاست دانوں کو بھی خریدنے اور رام کرنے میں کوئی مضائقہ خیال نہیں کیا گیا
دارالعلوم دیوبند نے اس حوالے سے سب سے بڑی قربانی دی ہے ، کیونکہ اس کی اکثریت علماء اور لیڈر سیکولر ازم اور نیشنلزم کے ساتھ جڑے رہے اور انھوں نے پان اسلام ازم تحریک کو مسترد کیا مگر سعودی عرب اور آل سعود کے ساتھ ان کے تعلقات اور دارالعلوم دیو بند سے جڑے مدارس و مساجد اور تنظیموں میں سعودی عرب کی وھابی آئیڈیالوجی کے نفوز اور سعودی عرب کی پراکسی جنگوں کے ساتھ آنے والی جنگجوئی ، تکفیریت ، خارجیت ، بنیاد پرستی ، انتہاپسندی نے جمعیت العلمائے ہند اور دارالعلوم دیوبند کی نیشنسلٹ سیکولر سیاست کو گہنادیا
دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ ، جمعیت علمائے ہند کے جملہ دھڑے اور سیاسی قیادت کو سامنے کا نوشتہ دیوار کبھی نظر نہیں آیا کہ جب یہ سعودی عرب کے ساتھ اتحاد برقرار رکھے گی اور سعودی عرب کی امداد اور اس امداد کی آئیڈیالوجیکل جہت کو خاموشی سے اپنے لوگوں کے اندر سرائت کرنے دے گی تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے ارادت مند سیکولر نیشنل ازم کے ساتھ جڑے رہیں اور وہ سلفی جہاد ازم کی طرف راغب نہ ہوں
جمعیت العلمائے ہند سامراج دشمن تاریخ کا بہت تذکرہ کرتی ہے اگرچہ اس کے مین سٹریم مرکزی قیادت کی جانب سے اب سرمایہ داری کے خلاف وہ راگ تو الاپا جاتا نہیں ہے جو ایک زمانے میں اس کے بعض حلقے بلند آھنگ سے الاپا کرتے تھے
مفتی محمود کی تحریک کے جانشین جب مولانا حسین احمد مدنی بنے تو آل انڈیا کانگریس کے ساتھ اپنے اتحاد اور نہرو کے زیر اثر وہ کسی حد تک جاگیرداری کے خلاف تو اکثر بات کرتے ، سامراجی لوٹ کھسوٹ پر بات کی جاتی ، لیکن مولانا حسین احمد مدنی سے لیکر جمعیت العلمائے ہند کے کسی ایک بھی مرکزی یا صوبائی سطح کے لیڈر نے کبھی ہندوستان کی ابھرتی ہوئی مقامی بورژوازی کے استحصالی ، جابرانہ اور لوٹ کھسوٹ کی فطرت اور اس کی گماشتگی کے خلاف آواز بلند نہیں کی تھی ، جمعیت العلمائے ہند سے ہندوستان کے کئی ایک انقلابی علماء چاہے وہ دارالعلوم دیوبند یا اس سے وابستہ کسی مدرسے کے فارغ التحصیل تھے یا نہیں جمعیت الععلمائے ہند کی مقامی سرمایہ دار گماشتہ کلاس کے ساتھ کھڑے ہونے کی روش کی بنا پر اس سے علیحدگی اختیار کی ، ان میں سرفہرست عبیداللہ سندھی کا نام ہے اور پھر اس میں مولانا برکت اللہ بھوپالی کا نام ہے
پاکستان کے اندر بھی جو اکثر علمائے سرحد تھے وہ سعودی عرب سے زرا فاصلے پر رہے اور سعودی عرب سے تعلقات میں سب سے پہلے آگے مولانا شبیر عثمانی اور مولانا اشرف علی تھانوی کے رفقاء آئے اور شاید یہی وجہ تھی کہ مفتی محمود اور غلام غوث ہزاروی سعودی عرب کی پین اسلام ازم تحریک کے خلاف جمال عبدالناصر کی پین عرب ازم تحریک کے ساتھ رہے لیکن یہ مساوات 70ء کے آخر میں بدل گئی جب ہزاروی بھٹو کے ساتھ گئے اور مفتی محمود پی این اے دور اور بعد میں ضیاء دور میں وہ سب سعودی کیمپ میں شامل ہوگئے
مفتی ہند اسیر مالٹا محمود حسن جو شیخ رشید احمد گنگوہی کے فوری بعد دارالعلوم دیوبند کے مہتمم بنے تھے کی انگریز سامراج دشمنی کا بہت تذکرہ ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مفتی محمود حسن ہی اصل میں دارالعلوم دیوبند اور پھر جمعیت العلمائے ہند کی سیاسی آئیڈیالوجی کے دو بنیادی ستون
برٹش سامراج دشمنی
سیکولر ہندوستانی نیشنلزم
کے خالق تھے اور ان کی کوششوں سے دارالعلوم دیوبند ایک سیاسی تحریک کے طور پر سامنے آیا لیکن بہت کم لوگوں نے اس پر بات کی ہے کہ مفتی محمود حسن جیسا شخص جو ہندو – مسلم – سکھ سب کے اتحاد کے سے بننے والی ہندوستانی قومیت کے بل بوتے پر انگریز سامراج سے نجات کا علمبردار تھا وہ اتنا ہی زیادہ شیعہ کے خلاف کیوں تھا اور اس کے ھاں شیعہ کے خلاف جنگجوئی خیالات کے جراثیم کیوں موجود تھے ؟
مفتی محمود حسن کے ہاں اس تضاد کی وجہ ترکی عثمانی سلطنت تھی ، اور مفتی محمود انسویں صدی کے اس عرصہ میں برطانوی حکومت کے عتاب سے بچنے کے لئے مدینہ موجود تھے جب خجد سے آل سعود اور بنی تمیم نے ترک عثمان سلطنت کے خلاف خروج کیا اور وھابی تحریک کا آغاز کیا ، مفتی محمود نے وھابی تحریک کے حق میں اور ترکی پاشا کے خلاف فتوی دینے سے انکار کیا اور وہ حجاز سے ترکی آگئے اور مفتی محمود پہلی جنگ عظیم سے قبل عالمی سطح پر ہونے والی سامراجی تقسیم میں ترک عثمانیوں کی وجہ سے جرمنی کی طرف موافقانہ نظر سے دیکھتے تھے اور ترک عثمانیوں کی شیعہ کے خلاف ایک عمومی نفرت اور شیعہ کے خلاف پراسیکوشن کا رویہ ایرانی صفوی حریف سلطنت کی وجہ سے تھا اور ایرانی صفوی حریف سلطنت بھی سنیوں کے حوالے سے کم منتقمانہ نہیں تھی
بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ترک عثمانی سلطنت کی
Sunnification and Anti Shia drive
اور صفوی سلطنت کی
Shification and Anti Sunni drive
بارے ابتک کوئی جامع اسٹڈی میرے علم میں نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اثرات پر بات ہوئی ہے ، اور یہ دونوں مہم اپنی شدت میں اس وقت عروج پر نظر آتی ہیں جب سلطنت مغلیہ اورنگ زیب کے ھاتھ آگئی اور اورنگ زیب کی جانب سے بھی
ایک
Rigid Sunnificatin campaign and Anti Shia , anti diversity Sufi campaign
دیکھنے کو ملی اور اورنگ زیب کے اقدامات نے تو ہندو ، سکھ کے اندر بھی ریڈیلکلائزیشن کو بڑھاوا دیا اور سلطنت مغلیہ جس کی بنیاد مغلیہ بادشاہوں ، خاص طور پر اکبر نے سیکولر اور تکثریت پر استوار کی تھی کو ھلاکر رکھ دیا
تو دارالعلوم دیوبند اور اس سے اٹھنے والی جمعیت العلمائے ہند کا سیکولر نیشنلزم بار بار اس کے ہاں موجود سید احمد بریلوی ، شاہ اسماعیل دھلوی کے وھابی جہادی خیالات سے مغلوب ہوتا رہا اور اس میں اس تاریخی شعور کا بھی دخل تھا جو اسے اورنگ زیب کے دور میں پروان چڑھنے والی زیادہ فرقہ پرست ، زیادہ قدامت پرست اور زیادہ رجعت پسند ملائیت سے ورثہ میں ملا تھا اور دارالعلوم دیوبند کو تصوف کی جو روائت ورثے میں ملی وہ بھی ” صلح کلیت ، تکثریت اور روادار تصوف اور بھگتی لہر ” سے ہٹ کر شیخ احمد سرہندی والی روائت تھی اور اس میں اینٹی شیعہ لہر جسے یہ ردروافضہ کہتے تھے بہت غالب تھا اگرچہ ان اثرات کو صرف دارالعلوم دیوبند تک محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ اثرات ہمیں بریلی ، بدایوں ، رامپور ، فرنگی محل لکھنئو کے مدراس اور ان سے ابھرنے والی سنی بریلوی روائت بھی بخوبی نظر آتے ہیں
جبکہ شیعہ کے ہاں بھی ہندوستان میں ہمایوں کے بعد سے جو شیعہ علماء کی ہندوستان آمد تھی اور ہندوستان میں خاص طور پر لکھنئو سے جو شیعہ روائت سامنے آرہی تھی اس میں مناظرانہ ، فرقہ وارانہ اور مجادلانہ رنگ نمایاں ہونے لگا تھا اور یہ جو ہندوستان میں شیعہ -سنی مناظرہ بازی کا کلچر ہے یہ بھی ہمایوں کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے اور دربار میں ایرانی امراء اور روھیل کنڈ پٹھانوں کے درمیان رسہ کشی کی وجہ سے بھی یہ کش مکش گہری ہوئی اور اس ساری روش نے پورے ہبدوستان کی ہند اسلامی تہذیب کے سیکولر ، روادار اور تکثیری شناختوں پر راضی رہنے کی خو کو نقصان پہنچایا اور یہ زیادہ مسخ شکل میں ہمیں طوائف الملوکی کے اس زمانے میں زیادہ نظر آیا جب اودھ ، دھلی سمیت پورے ہندوستان میں رجواڑے ، چھوٹی راجدھانیاں سامنے آئیں ، ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال سے آگے سفر شروع کیا ، شاہ ولی اللہ سنی علماء کی جانب سے سامنے آئے تو ایک طرح سے انھوں نے سنی ملائیت کے دوبارہ سے عروج پانے اور روھیل کھنڈی پٹھان کے سارے معاملات پر غالب آنے کے لئے احمد شاہ ابدالی کی جانب دیکھا تھا اور اس کے بطن سے ہی فطری طور پر اور زیادہ سخت گیر تحریک جہاد سامنے آئی تھی ، کچھ لوگ شاہ ولی اللہ کے ہاں اس اورنگ زیبی فرقہ واریت کے ابتدائی آثار دیکھتے ہیں تو زیادہ غلط نہیں کرتے لیکن اس کو مبالغہ آرائی کی حد تک بہت آ گے لیجاکر نتائج اخذ کرنا درست نہیں ہے
لیکن دارالعلوم دیوبند اور جمعیت العلمائے ہند کے سیکولر نیشنلزم اور اس کے سامراج مخالف تشخص کے لئے سب سے زیادہ تباہ کن اور اینٹی ویکسین جو ثابت ہوئی ہے وہ اس کا سعودی عرب سے جڑجانا اور سعودی عرب کی پراکسی جنگوں کے لئے اپنی زمین فراہم کردینے کا عمل ہے
پاکستان میں صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ دیوبندی مدارس کے لئے آئی ایس آئی کی جہادی پراکسی کو جگہ فراہم کرنا بھی تباہ کن عمل ثابت ہوا ہے ، اس نے ہندوستان سے کہیں زیادہ پاکستان میں دیوبند کی سیاسی شناخت کو تباہ وبرباد کیا ہے
پاکستان میں تاریخ کے نیم حکیم ایسے نام نہاد سیکولر ، لبرل اور مارکسی کمرشل پیدا ہوگئے ہیں جو دارالعلوم دیوبند ، جمعیت العلمائے ہند ، مفتی محمود حسن ، مولانا حسین احمد مدنی اور دارالعلوم دیوبند کی مجموعی سیاسی لہروں کے بارے میں جامد اور کلیشے قسم کے خیالات کی جگالی کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب وہ پاک و ہند کے اندر
Question if Deobandization and its links with Wahhabism , Takfirism and Kharijite
اور اس سوال کی عملی جہت
Question of Shia -Sufi Sunni genocide , organized crimes and attacks against religious minorities in Pakistan
سے معاملہ کرنے جاتے ہیں تو پھر
False nuetrality
False Shia -Sunni binary
Saudi – Iran Binary
کی روشنی میں ان دو سوالوں کو دیکھتے ہیں اور اس سے ہی وہ
Obfuscation
جنم لیتی ہے جو کم از کم سعودی کمیپ کا مقصود ہے اور جب بھی اس موضوع پر بات ہوتی ہے تو کمرشل لبرل مافیا کو اس پر بہت تکلیف ہوتی ہے اور وہ اس حوالے سے بہت سی سازشی تھیوریز کو سامنے لیکر آتا ہے
میں اس وقت بھی بہت سنجیدگی سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم واقعی فکری ، نظری سطح پر اور ترقی پسندانہ نکتہ نظر سے مذکورہ بالا مسائل پر بات کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان چیزوں پر بات کرنا ہوگی جس کو فرقہ واریت کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، یہ
Deobandi Phobia or Deobandi phobic
ہر گز نہیں ہے لیکن میرا مقصود ان مضامین سے ان حضرات کو سمجھانا نہیں ہے جو ان معاملات پر کسی بھی گفتگو کو
Paid and dollar oriented or Iranian Toman oriented and similiar other baseless acussations
کے ساتھ دیکھتے ہیں ، وہ میرے مخاطب ہے ہی نہیں ، ان کی بدیانتی بارے مجھے کوئی شبہ نہیں رہا ہے ، یہ کسی سنجیدہ علمی مباحثے سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ، ان کی نظریں تو مراعات اور پرکشش عہدوں سے جڑی ہیں جو ان کے آقا نجم سیٹھی ، ان کی ملکہ بینا سرور ، اس کی شہزادی المانہ سے ملنے کی امید ہے لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ نرا خسارے اور گھاٹے کا سودا ہے جو اس کوفی حلقے نے کیا ہے