بے وزن قصیدے اور با وزن گالیاں، واہ سلمان حیدر واہ – عامر حسینی
ہمارے ایک قصیدہ پر سلمان حیدر نے توجہ دلائی کہ بے وزن ہے تو یقینی بات ہے کہ وزن کی کمی ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ ہمیں چاند پر ہی پہنچادیا جائے ، ویسے بھی پاش نے کہا تھا کہ ” روایت اور بنے بنائے قاعدوں ” میں سمونے نہ والوں کو دربار سے وابستہ شاعر باڑ سے باہر کا سور خیال کرتے ہیں ، یہاں دربار سے میری مراد دربار عالیہ نجم سیٹھیہ دیوبندیہ تکفیریہ ثم بغضیہ و کینیہ ہے
اب جب ان صاجب نے قصیدہ ہجویہ بحضور ایل یو بی پاک لکھا تھا تو اس کی زبان بھی زرا ملاحظہ کرلیں
تعمیر پاکستان بلاگ کے دلال اور بھڑوے – سلمان حیدر
توہین کے نعرے ہیں
تکفیر کے فتوے ہیں
تخریب کے منصوبے
تعمیر کے دعوے ہیں
تذلیل کی کوشش ہے
تکفیر کی خواہش ہے
مذھب کی قبا پہنے
اک ننگی طوائف ہے
تقدیس کے چولے میں
دلال ہیں بھڑوے ہیں
کیونکہ میں اس طرح کی تحریر نہیں لکھ سکتا لیکن لازمی تو نہیں کہ ہر کوئی میری پیروی کرے زرا محسن سبط جعفر نقوی کا جلال پرمبنی یہ قصیدہ ہجو پڑھئے
ایل یو بی پی بلاگ کے خلاف سلمان حیدر کی ننگی نظم کا جواب – محسن سبط جعفر نقوی
تکفیر کی توہیں کی
لبپ پہ یہ تہمت ہے
دیوبند کے یاروں اور
جھوٹوں پہ لعنت ہے
روبل تو نہیں ملتے
ڈالر کی خواہش ہے
لیڈرجو نہ بن پاِئے
نوکر ہوں یہ کوشش ہے
لینن کا قلم تھامے
سیٹھی کا نمائندہ
شاعر کے لبادے میں
دلال ہے بھڑوہ ہے
لینن کا قلم تھامنے کی نسبت میں سلمان حیدر کی جانب نہیں کرسکتا ، کیونکہ لینن کو سب سے زیادہ نفرت اور غصّہ پیٹی بورژوازی کی لبرل پرت پر ہی تو تھا اور اسی کے بارے میں کارل مارکس نے کہا تھا کہ سر آسمان پر اور پیر کیچڑ میں دھنسے ہوتے ہیں ، ان کو اپنے کمال فن پر بہت ناز ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو واقعی یہ علم کے سمندر سے موتی ڈھونڈ لاتے ہیں ، جیسے کافر ، کافر ، تو بھی کافر ، میں بھی کافر والی شاہکار نظم سلمان حیدر نے لکھی لیکن جب دماغ میں فتور آجائے تو پھر ایسے غلامان دربار نجمیہ سیٹھیہ تکفیریہ کے ہاں سے وہی بھڑوے ، دلال ، لونڈے لپاڑے اور نہ جانے کیا کیا خرافات سامنے آتی ہیں
بھڑوا ، دلال جیسے لفظ جب دانشور دوسروں کے لئے استعمال کریں تو سمجھ جائیں کہ ترکش میں اب دلیل و منطق سب ختم ہوچکی ، باقی بچی غلاظت تو خود بھی لتھڑے اور دوسروں پر بھی اسے پھینکنے کا سامان کرلیا
سلمان حیدر میاں کیونکہ آرٹسٹ ، تھیڑ پرفارمر اور شاعر ہیں لیکن ان تینوں چیزوں کو ایک موزوں ترکیب میں دینے میں ناکام ہیں ، انھوں نے خود کو شاید عرب شاعر ابن الراوندی سمجھ لیا ہس لیکن وہ ملوک اور جابروں کو بھڑوا و دلال کہہ کر نہیں بلکہ ان کے تصورات پر کراری سی تنقید کرکے ان کو تلملاتا چھوڑ دیتا تھا
ہمارے ہاں منٹو صاحب تھے ، وہ اپنے کرداروں سے جو جملے کہلواتے وہ کاٹ دار بھی ہوتے تھے اگر کہیں دلالی اور بھڑواپن دکھانا بھی ہوتا تھا تو اس کے لئے بھی پورا ماحول اور کردار کو کسا کسا رکھا جاتا تھا ، ایسے نہیں تھا کہ ایک سنجیدہ بحث میں کسی کو لفظوں سے اڑانے کی کوشش میں پوھڑ پن سے کا لیا جاتا جیسے سلمان حیدر نے لیا – مجھ سے بات کرنے لگے تو آغاز ہی مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ کہا کہ ” آپ نے جو لونڈے لپاڑے پال رکھے ہیں “
میاں ! ہمارے ہاں تو بس دوست اور یار ہوا کرتے ہیں اور یا کامریڈ شپ برابری کی ہوتی ہے ، دیانت داری پر مبنی ہوتی ہے ، ہاں میں ہاں ملانے والی نہیں ، نہ ہی تو مجھے مولوی کہہ ، میں تجھے حاجی کہوں ” والی ، میں علمی بحث و مباحثہ میں دیانت داری کا قائل ہوں ، اور یہ اصول دوست ، غیر دوست سب پر نافذ ہوتا ہے ، ذرا اپنے سرمایہ تخلیق پر نظر کیجئے کہ کیا جمع کیا ہے؟
اگر ہم دو ڈالر کی خاطر پاکستانی ریاست کو گالیاں دے سکتے ہیں
تو دو ٹکوں کی خاطراسی ریاست کے لئے ملی ترانے بھی لکھ سکتے ہیں
گندا ہے، پر دھندہ ہے – کسی بھی طرح کی خدمت کے لئے ان باکس پر پیغام بھیجیں
اشاروں کنایوں میں تنقید اور تنقیص اردو شاعری میں عام ہے – سلمان حیدر صاحب کی تعمیر پاکستان بلا گ سے دشمنی اور سیٹھی، بینا، ناطق و المانہ سے قربت کی خواہش پوشیدہ نہیں، تعمیر پاکستان بلاگ پر تکفیری ہونے اور المانہ و ناطق کے حوالے سے دیگر جھوٹے الزام بھی لگا چکے ہیں، ان کے کئی جھوٹ پکڑے بھی گئے ہیں اور یہ نیا جھوٹ، کہ نظم کا مخاطب تعمیر پاکستان نہیں، اور گالم گلوچ بھی ان کے دوغلے پن کا اظہار ہے