رباب مہدی رضوی کی جانب سے المانہ فصیح کا دفاع – عامر حسینی
رباب مہدی رضوی ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک نہایت اہم شیعہ سماجی شخصیت کی بیٹی ہیں اور یہ صاحب زمانہ ساز کہلائے جاتے ہیں ، جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں یہ مخدوم سجاد حسین کے گلے کا ھار تھے اور ضیاء الحق کی قربت کے خواہ تھے ، پھر پی پی پی برسراقتدار آئی تو انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان سے بڑا وفادار بھٹو دنیا میں نہیں ملے گا ، پھر نواز شریف آئے تو یہ ان کے ساتھ ہوگئے ، اس کے بعد جب گیلانی صاحب آئے تو یہ محب خاندان قریشیاں ، گیلانی خاندان کی محبت کا دم بھرنے لگا ، اسی دوران جب دیوبندی تکفیری دہشت گردوں نے زور پکڑا تو اسلام آباد پریس کلب میں انھوں نے ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے وقت محمد احمد لدھیانوی اور مولوی فضل الرحمان کو بلالیا ، آجکل پھر سے قرب نواز شریف کے مزے لوٹتے ہیں
ثانیہ حسن کیانی نے رباب مہدی کے بارے میں اپنا جو تاثر رقم کیا ہے وہ غلط نہیں ہے اور میں انتہائی دکھ کے ساتھ یہ بتارہا ہوں کہ آج سے کم و بیش سال پہلے رباب مہدی رضوی سے میں نے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں شیعہ نسل کشی کے زمہ دار سپاہ صحابہ پاکستان اور دیگر گروپوں کا نام لیں اور لارڈ ھاوس برطانیہ سمیت جہاں جائیں وہاں پر شیعہ ، سنی بریلوی اور دیگر کمیونٹیز کے قتل میں ملوث لوگوں کی نظریاتی شناخت بارے بتائیں تو ان کا کہنا تھا کہ
عامر بھائی ! کوئی ثبوت بھی تو ہو ، تبھی ان گروپوں کا نام لیا جاسکتا ہے
میں تھوڑا سا حیران بھی ہوا تھا ، لیکن پھر میری سمجھ میں آگیا ، جب مجھے پتہ چلا کہ رباب مہدی رضوی دورہ امریکہ کے دوران بینا سرور کے گھر ٹھہری رہیں اور اب ثانیہ حسن کیانی نے ان کی تھریڈز کے سکرین شارٹ لگائے ہیں تو مجھے یقین مانئیے کہ وشواس نہیں ہورہا کہ
جہاں میں کوئی ایسا محب اہل بیت بھی ہوسکتا ہے جو ان کے بارے میں نازیبا جملے کہنے والی خاتون کے دفاع پر مصر ہو اور جو لوگ اس پر خاتون سے معافی کا مطالبہ کریں اور اس پر رنج و غم اور غصے کا اظہار کریں ان کے لئے چو-یا کا گھٹیا خطاب مرحمت کریں ، ویسے بھی ایک سنجیدہ ، مہذب اور باوقار و بردبار انسان سے اس انداز کی ٹاک کی گفتگو کی توقع نہیں کی جاسکتی
حیرت در حیرت اس بات کی ہے کہ رباب مہدی کہتی ہے کہ مذھبی بنیاد پر المانہ والے معاملے کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا ، اسے آزادی اظہار کا حق کی بات ستاتی ہے گویا جیسے وہ ایک مذھب پر ایمان رکھنے والی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مسلکی بنیاد پر شیعہ ہونے کی دعوے دار نہ ہو ، وہ ورلڈ امام حسین کانگریس کی چئیرپرسن نہ ہو اور ان ناموں کی کمائی نہ کھارہی ہو ، یہ فرار اور خود فریبی کی بدترین مثال ہے جو رباب مہدی رضوی – زرا نام تو دیکھئے اور سر پر لیا سکارف تو دیکھیں اور پھر آزادی اظہار کے حق پر ملحدانہ لبرل ازم کے راستے سے بات کرنا دیکھئے – نے مذکورہ بالا گفتگو کے دوران دیا ہے
تعمیر پاکستان المعروف ایل یو بی پاک کی یہاں پر بات ہوئی ،، میں حیران ہوں کہ کسی کے جرم ، مبالغہ آرائی ، ہذیان و بکواس کو محض اس لئے ہذیان و بکواس نہ کہا جائے کہ اس کی مخالفت ایل یو بی پاک نے کی ہے اور پھر جو ، جو بھی سچی بات کرے آپ اسے چو -یا کہہ ڈالیں اور یہ روشن خیالی قرار پائے
میں نے تعصب اور نفرت میں اندھے ہوجانے کی سب سے بڑی مثال اس وقت دیکھی جب ایک ٹوئٹر آئی ڈی ایل یو بی ایکسپوذڈ نے اپنے ٹوئٹ میں یہ دعوی کیا کہ ایل یو بی پاک پر عبدل نیشاپوری کے نام سے لکھنے والے کا نام جواد حسین سید ہے اور وہ لندن کے ایک معروف تعلیمی ادارے میں پروفیسر ہے اور یہ ٹوئٹ جیسے ہی آیا تو میرے انتہائی آئی ٹی کے قابل دوست ” علی ناطق عرف علی مشہدی کا ایک ٹوئٹ سامنے آیا جس میں انھوں نے لکھا کہ اور کتنے ثبوت درکار ہوں گے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ دہشت گرد ، انتہا پسند ، فرقہ پرست کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں ، وہ ایک ٹوئٹ میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ اگر پرنٹ سکرین کا بٹن کمپیوٹر میں نہ ہوتا تو بہت سے لوگوں کی دانشوری کی دکان برباد ہوجاتی
میں اپنے بھائی علی ناطق کو کہنا چاہتا ہوں کہ تعصب اور عناد میں اسقدر اندھا ہونا درست نہیں ہے کیونکہ جس جواد حسین سید کو اس سارے معاملے میں خوامخواہ گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ بیچارے ایک تو کبھی بھی اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہی نہیں رہے ، دوسرا وہ ڈاکٹر علی حیدر کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ،جو پورا گھرانا زبردست پروفیشنل کا گھرانہ ہے اور یہ کوشش جس نے بھی کی ہے وہ اصل میں اعلی دماغ اور ھائی سکلڈ پروفیشنلز کو محض ان کے عقیدے کی بنیاد پر نشانہ بنانے کا خواہاں ہے
ڈاکٹر علی حیدر شہید کی فیملی اس نئی تخریب کاری سے کس قدر زھنی ازیت سے گزررہی ہے اس کا اندازہ لگانا کسی بے خبر آدمی کے بس میں نہیں ہے
میں لبرل ازم اور اس کے مخصوص تاریخی پس منظر کے ساتھ ابھرنے کے ساتھ ساتھ اس فلاسفی کے بورژوازی ( سرمایہ داری ) تناظر پر اپنی تنقید رکھتا ہوں اور ظاہر سی بات ہے کہ وہ انتقاد مارکسی تناظر کے ساتھ ہے لیکن یہ لبرل ازم ولگر ازم یا
Abusing way to see the things
ہرگز نہیں ہے ، وہ تو ہرگز نہیں ہے جس کا مظاہرہ طارق فتح ، بینا سرور ، المانہ فصیح اور بہت سارے نام نہاد ملحد لبرل کرتے رہتے ہیں
یہاں پر بار بار کہا جارہا ہے کہ المانہ فصیح کے کمنٹس دریں بارے حضرت علی و جناب فاطمتہ الذھرا ء کے خلاف جن جن لوگوں نے کمنٹس دئیے اور ان سے معافی کا مطالبہ کیا انھوں نے اصل میں المانہ کے خلاف بلاسفیمی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایک لبرل رائٹس گروپ بلاگ کو یا کسی لبرل کو مذھبی بنیاد پر تنقید کا حق نہیں ہے
میں کہتا ہوں کہ ہندو و پاک میں کمیونسٹ پارٹی کے بہت سے دانشور اور مفکرین نے سوشلسٹ اکنامی اور کمیونسٹ سماج کے مذھب اسلام سے متصادم نہ ہونے کے بارے میں بہت سے مقالے اور کتابیں تحریر کیں اور اپنے موقف کے لئے قرآن ، احادیث ، فقہ ، تاریخ ، تفسیر سے شواہد پیش کئے اور ان میں کامریڈ دادا فیروز الدین منصور ، مولانا برکت اللہ بھوپالی ، مولانا حسرت موہانی ، سید سبط حسن ، سجاد ظہیر ، صفدر میر سمیت ایک بہت لمبی فہرست ہے ،
عبیداللہ سندھی کو بھی آپ اسی لائن میں رکھ سکتے ہیں تو کیا ان سب کی ان تحریروں کے بعد ان کو مارکسسٹ جدلیاتی مادیت پرست فلسفے کا منکر کہا جاسکتا ہے جوکہ مارکس ازم کی بنیاد ہے اور کیا ہم ان کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ رجعت پرست تھے ، اس لئے خرد افروزی ، روشن خیالی ، انقلابی ہونے کے لئے آپ کا بدتمیز ، گنوار ، گالی پرست اور دنیا کی اہم تری مذھبی شخصیات کہ جن کے تصور مساوات اور اصلاح پسندی کو انقلابیت سے تعبیر کیا جاتا رہا ہو کو اس انداز سے مخاطب کیا جائے جیسے المانہ فصیح نے کیا
کچھ لوگ جو خود کو اہل تشیع مکتب فکر سے وابستہ بتلاتے ہیں اور المانہ فصیح کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ بھلا مولا علی و جناب فاطمتہ الذھرا کی ناموس کو کوئی کیا خطرہ ہوسکتا ہے ، اور المانہ فصیح کا رد کرنے سے ایسا نہیں ہوگا ، مولا علی و فاطمہ کی فضیلت پر کوئی فرق آنے والا نہیں ہے
میں ان سب حضرات سے یہ سوال ضرور کروں گا کہ اگر اس کلیہ اور مقدمہ کو مان لیا جائے تو زرا بتلائیے کہ قرآن میں اللہ پاک کی وحدانیت ، اس کی زات و صفات بارے غلط تصورات و عقائد و خیالات کے بارے میں تفصیلی احکام کیوں درج ہوئے اور پھر پیغمبر ، صالحین کے حوالے سے جو تہمات اور الزامات لگائے جاتے رہے ان کا جواب کیوں آیا ، مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جھوٹ کا تومار باندھے اور غلط باتیں کہے تو اس کا جواب نہ دیا جائے ، ایسا مسلک تو کہیں بھی موجود نہیں ہے
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور جملہ اہل بیت اطہار کے بارے میں ایک گمراہ کن کمپئن امویوں کی جانب سے چلائی گئی ، پوری نہج البلاغہ خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ایسے خطبات اور ارشادات سے بھری ہوئی ہے جو مخالفین کے جوابات پر مشتمل ہے ، اس میں وہ خطوط بھی ہیں جس میں جب مخالف کی جانب سے آپ پر حسد کرنے ، اقتدار کی خواہش رکھنے ، امت کو تفریق کرنے اور قتل عثمان میں شریک ہونے کے الزامات عائد کئے گئے کا جواب بھی موجود ہے ، اسی طرح ہمارے سامنے عمار یاسر ، سلمان فارسی ، مقداد اسود ، صہیب رومی ، میثیم تمار ، قیس سلیم ھلالی اور خود شریکتہ الحسین ام المصائب حضرت بی بی زینب اور امام سجاد زین العابدین کا اسوہ موجود ہے کہ جب فضائل اہل بیت اطہار کو چھپایا گیا اور جناب حسین کے حوالے سے عبید اللہ ابن زیاد ، یزید اور دیگر نے غلط بیانی کی ، تہمت لگائی ، بہتان باندھا تو اس کا جواب دیا گیا
میں حیران ہوں ان اہل تشیع پر جو ایل یو بی پاک کی نفرت میں اس قدر اندھے ہوئے کہ انہوں نے یہ سب آثار وشواہد ایک طرف ڈالکر بس حساب سیدھا کرنے کی کوشش کی اور ایسا انہوں نے اپنی مقدس ترین ھستیوں کی ناموس کو نظر انداز کرکے کیا
جناب علی و فاطمتہ الذھرا وہ ھستیاں ہیں کہ ان کے بارے میں کوئی بھی صاحب عقل ، فہم و دانش اس کا تعلق کسی بھی مذھب سے ہو یا کسی مذھب سے نہ ہو اور وہ جدلیاتی مادیت پرست انقلابی ہی کیوں نہ ہو وہ ان کا احترام کرتا ہے اور ان کے اپنے زمانے کے اندر تمام تر زمان و مکان کی قیود کے باوجود حدود امکاں سے آگے جاکر تصور مساوات اور حق پر بات کرنے پر ان کو خراج عقیدت و تحسین پیش کرتا ہے اور اپنے زمانے میں المال للہ کی بجائے المال الناس کا تصور عام کرنے اور رب الناس جیسی اصطلاح کو عام کرنے پر ان کے عبقری ہونے کا اعتراف کرتا ہے ، ان کی شان میں بے ادبی کے مرتکبین کی تردید کو آزادی اظہار کے منافی خیال کرنے والے اصل میں صرف اپنے مفادات عاجلہ جیسے نام نہاد مین سٹریم لبرل صحافیوں کی صحبت اور اس حوالے سے مین سٹریم میڈیا میں حاضری کے مواقع سے محروم نہیں ہونا چاہتے اور وہ مفربی فنڈنگ سے محرومی کا عذاب برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں
یہ این جی او نائزڈ بورژوازی لبرل اصل میں بنجر تصورات کو بہت اونچا بناکر دکھانے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ ایک مافیا کی صورت سامنے آئے ہیں مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ رباب مہدی رضوی نے اس تھریڈز میں سے کچھ تھریڈز ڈیلیٹ کردی ہیں لیکن ثانیہ حسن کیانی پہلے ہی ان کو سکرین شارٹ کے طور پر محفوظ کرچکی تھی ، یہ پرنٹ سکرین کا بٹن دانشوری کی دکان چمکانے کے لئے نہیں بلکہ ” لکھکر مٹانے والوں اور ڈیلیٹ کرنے والوں ” کی چالاکی کا پردہ چاک کرنے کے لئے بنا ہے ، پرنٹ سکرین بٹن سے جن لوگوں کو تکلیف ہے اس کی سمجھ بہت اچھی طرح سے آنے لگی ہے
Rubab Mehdi Rizvi’s questionable defence of the abuser of Maula Ali – by Sania Hassan Kayani
from facebook
Like · Reply · 9 hrs
Noor Darwesh
میرا تو یہ انسانی حقوق بریگیڈ سے دل پہلے ہی کھٹا تھا اور حالیہ واقعات نے مزید بددل کر دیا. یہ سیٹھی بینا لابی تو باقاعدہ فرقہ ہے جس میں بڑے بڑے نام نے نقاب ہو رہے ہیں. اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان سب کو ایل یو بی پی سے ہی مسئلہ ہے.
Unlike · Reply · 2 · 9 hrs
Aamir Hussaini
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں موصوفہ نے جو تقریر کی اس میں کسی جگہ بھی اے ایس ڈبلیو جے یا سپاہ صحابہ پاکستان کا نام نہیں تھا اور نہ ہی ان پر پابندی لگانے کا اور حال ہی میں 23 جون 2015 ء کو لندن میں ایک کانفرنس میں بھی موصوفہ ہے دیوبندی تکفیری دہشت گرد گروپوں کا نام نہیں لیا اور نہ ہی ان پر پابندی کا مطالبہ دوھرایا اور ان کی تقریر کا جو خلاصہ دی ایشین ڈاٹ کو ڈاٹ یوکے میں درج ہوا اس میں بھی ساری بات چیت شیعہ -سنی بائینری کے تحت ہی ہے