فوج پر تنقید کے دو رخ – خرم زکی
فوج پر تنقید ہمارے ملک میں غدار یا مرد حر ہونے کا سرٹیفیکیٹ لینے کے لیئے کافی ہے حالاں کہ دونوں ہی القابات صحیح نہیں۔ نہ تو آرمی کی چاپلوسی کرنے والا ہر شخص محب وطن ہے اور نہ ہی آرمی پر تنقید کرنے والا ہر شخص غدار۔ اسی طرح آرمی کے خلاف نعرے بازی کرنا والا ہر شخص بھی کوئی مرد آزاد و انقلابی نہیں
ضرورت اس امر کی ہے کہ طالبان، لشکر جھنگوی / کالعدم سپاہ صحابہ اور دیگر تکفیری خوارج کے خلاف نبرد آزما پاک فوج کے آپریشن کی حمایت کی جائے اور شہید فوجیوں کے مقدس خون کو خراج تحسین پیش کیا جائے ، جو عناصر جیسا کہ دیوبندی تکفیری مولوی، کالعدم جماعتیں، نام نہاد پشتون اور مارکسی کارکن، اور کمرشل یا جعلی لبرلز جو آپریشن ضرب عضب کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ درحقیقت تکفیری خوارج کے ہمدرد یا مددگار ہیں
اس کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ فوج ، ایف سی، اور رینجرز کے اندر جو گھس بیٹھیے عناصر کالعدم تکفیری خوارج کے بارے میں نرمی یا ہمدری کا رویہ رکھتے ہیں ان پر تنقید کی جائے کیونکہ ایسے عناصر جنرل راحیل شریف اور ضرب عضب کے مقدس عزائم کو نقصان پہنچا رہے ہیں
آرمی پر تنقید کرنے والوں میں ایک اعتدال پسند گروہ وہ ہے جو دل سے چاہتا ہے کہ آرمی صرف اور صرف اپنا آئینی کردار ادا کرے اور سویلین حکومت کی ماتحت و وفادار بن کر رہے جیسا کہ وہ حلف اٹھاتے ہیں۔ اس گروہ کے نزدیک آرمی بھی سویلین حکومت کے ماتحت دیگر ریاستی اداروں کی طرح ایک ادارہ ہے جس کی آئینی و قانونی حدود متعین ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ آرمی کا بار بار آئین سے تجاوز کرنا، ایک طرف نہ تو صرف ان کی پیشہ وارانہ کمزوریوں کا سبب بنا ہے بلکہ دوسری طرف خود مسلح افواج پاکستانیوں کی نظر میں متنازع بن کر رہ گئی ہیں۔ بار بار سویلین معاملات میں مداخلت اور آئین پاکستان کی پامالی نے خود شہریوں کی نطر میں بھی آئین و قانون کی وقعت و اہمیت کو کم کر دیا ہے کیوں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ملک کا ایک ذمہ دار ادارہ پوری آزادی کے ساتھ مسلسل ملک کے آئین کو روندتا ہے، پامال کرتا ہے اور قانون کی اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پاتا۔ اس سے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی کا نہیں بلکہ طاقت کی حکمرانی کا تصور ابھرتا ہے اور ہر باپ کی، ہر خاندان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے خاندان کا کوئی فرد فوج یا پولیس میں تاکہ کسی بھی مشکل صورتحال میں قانون کی گرفت اور پہنچ سے دور رہ سکیں۔ یہ سوچ اسی لیئے پیدا ہوتی ہے کہ پورا معاشرہ قدرت مدار ہے اور طاقت قدرت کا سرچشمہ عوام کو نہیں، عدل و انصاف کو نہیں بلکہ فوج، پولیس اور آئی ایس آئی کو سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص ان اداروں میں تعلقات بنانا چاہتا ہے یہاں تک کہ خود صحافی بھی۔ صحافی جو کبھی کبھار پولیس کی کرپشن پر لکھتے رہتے ہیں اور اکثر چھپاتے رہتے ہیں وہ بھی فوج اور انٹیلیجینس اداروں کے حوالے سے اس طرح کی اسٹوریز سامنے لانے سے گھبراتے ہیں۔ اچھا فوج پر تنقید کی صرف یہی ایک نظریاتی و اخلاقی وجہ نہیں اور یہ صرف آئیڈئیل ازم کی جنگ نہیں بلکہ فوج کی ان پالیسیز پر بھی تنقید کی جاتی رہی ہے جن پر وہ اپنے دور اقتدار میں عمل پیرا رہی ہے۔
جنرل ایوب کا دور حکومت نہ صرف سرمایہ کے کچھ خاندانوں میں ارتکاز کا سبب بنا بلکہ خود مشرقی پاکستان میں بسنے والے بنگالی پاکستانیوں کی پاکستان سے دوری کا سبب بھی اور خود 1965 کی جنگ میں پاکستان کی مسلح افواج بمشکل پاکستان کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوئیں بلکہ بعض ماہرین کے خیال میں تو 1965 کی جنگ ہی اس بات کا سبب بنی کہ خود بنگالیوں میں یہ احساس پیدا ہوا کہ دوران جنگ ان کے حصے کا پاکستان انڈیا کے رحم و کرم پر تھا اور دوسری جانب انڈیا نے پاکستان سے کشمیر میں آپریشن جبرالٹر کا بدلہ لینے کے لیئے مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندی کی آگ کو بھڑکانا شروع کر دیا۔مسلسل فوجی اقتدار نے مشرقی پاکستان میں آباد بنگالیوں کے دلوں میں احساس محرومی پیدا کیا کیوں کہ گو ملک میں اکثریت بنگالی آبادی کی تھی اور اس طرح سے کسی بھی جمہوری نظام کے تحت وفاقی نظام حکومت میں ان کا بڑا حصہ ہونا تھا لیکن فوج میں ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی اور فوجی اقتدار بنگالی آبادی کی نمائندگی نہیں کرتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ جنرل یحیی خان کے دور حکومت میں آزادانہ انتخابات میں شیخ مجیب بھاری اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور یہ نوبت آئی کہ عوامی لیگ کی علاوہ کوئی دوسری پارٹی مشرقی پاکستان کے کسی حلقے سے کامیاب ہی نہ ہو سکی۔ یہ احساس محرومی و دوری بالآخر پاکستانی افواج کی شکست، انڈین افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور ملک کے دوٹکڑے ہونے پر منتہج ہوا، ہمارے 90000 فوجی بھارتی قید میں گئے جن کو بعد میں انڈیا نے اس وقت تک رہا نہیں کیا جب تک حکومت پاکستان نے شملہ معاہدے پر دستخط کرنے کی حامی نہ بھر لی۔ یہ ایک سویلین حکومت ہی تھی جو ان 90000 پاکستانی فوجیوں کو انڈیا کی قید سے چھڑوا کر ۔ پاکستان لائی تھی۔ یاد رہے کہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ساتھ رن آف کچھ کا نوے فیصد علاقہ ہم نے جنرل ایوب کے دور میں انڈیا کو کھو دیا تھا۔
مگر زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ جرنیلوں نے ایک بار پھر اقتدار پر شب خون مارا اور جنرل ضیا نے نہ صرف یہ کہ آئین پاکستان کو روندتے ہوئے بغاوت کی بلکہ جمہوری وزیر اعظم کو پھانسی کے تختے پر بھی لٹکا دیا۔ یہ وہی وزیر اعظم تھا جو نوے ہزار پاکستانی فوجیوں کو انڈیا کی قید سے آزادی دلوا کر لایا تھا اور جس نے اس وقت اقتدار سنبھالا تھا جب پاکستانی عوام میں فوج کی مقبولیت انتہائی کمترین سطح کو چھو رہی تھی۔بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب، افغانستان میں وہاں کی حکومت کی درخواست پر روسی افواج کے داخلے کے بہانے، اور خود پاکستان میں سوشل، پروگریسو قوتوں کے خاتمے اور ان کی کمزوری کے لیئے انتہا پسند فرقہ وارانہ، دہشتگرد مذہبی گرہوں کی آبیاری اور دینی مدارس کی پشت پناہی شروع ہو گئی۔ پورے ملک میں مدارس کا جال بچھا دیا گیا، جماعت اسلامی جو میاں طفیل کی قیادت میں جنرل ضیا کے تلوے چاٹنے میں مصروف تھی اس کو افغانستان میں لڑے جانے والے امریکی جہاد میں بھی حصہ دے دیا گیا۔ یہ حصہ مجلس شوری اور دیگر انتظامی عہدوں میں شراکت کے علاوہ تھا۔ احسان الہی ظہیر، یوسف لدھیانوی، حق نواز جھنگوی جیسے فرقہ پرست تکفیری خارجی دہشتگردوں کی پشت پناہی کی گئی۔ ملک کے طول و عرض میں سعودی سرمائے اور امریکی آشیرباد کے ساتھ ان ملاؤں کی کتابیں، تقریریں اور دیگر زہریلا فرقہ وارانہ مواد پھیلا دیا گیا اور وہ پاکستانی معاشرہ جو گزشتہ کئی صدیوں سے صوفیانہ تعلیمات کے زیر اثر رواداری، بردباری، برداشت اور پلورل (تکثیری) اقدار کا حامل و علمبردار تھا اس کو ٹھیٹ سعودی وہابیت اور سخت گیر تکفیری دیوبندی عقائد کے زیر اثر کر دیا گیا۔ جی ہاں یہ سب کچھ ایک فوجی آمر کے ہی دور حکومت میں ہوا۔ اب کوئی اس کے لیئے جونیجو کو ذمہ دار ٹہرائے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے کیوں کہ ملک کی سیکیورٹی اور دفاعی پالیسی تو آج تک سویلین حکمرانوں کے کنٹرول میں نہیں آ سکی ہے۔ریاست ان دہشتگرد گروہوں کی آبیاری سے کئی محازوں پر فائدہ اٹھا رہی تھی۔ ایک طرف انہی گروہوں کو افغان میں امریکی جہاد میں استعمال کیا جا رہا تھا، دوسری طرف سعودی ایماء پر انہی کے ذریعہ ملک کی شیعہ مسلم آبادی کو کنٹرول کیا جا رہا تھا، انہی کے ذریعہ ملک کے سوشلسٹ، پرگریسو، لبرل طبقے کو بھی نکیل ڈالی جا رہی تھی اور پھر پرانے مذہبی ہتھیار اختیار کے کے آمر وقت اپنے آپ کے امیر المومنین اور اولی الامر ثابت کر کے ملک پر اپنے جابرانہ اقتدار کا مذہبی جواز پیش کر کے اس کو ان دنیا دار مفتیوں کی بدولت مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا جا رہا تھا۔اس دور حکومت میں سول و فوجی سروسز میں بھرتی ہونےوالوں کی بڑی تعداد سروسز لائبریری میں تفہیم القران اور نوائے وقت پڑھتی ہوئی ترقی پاتی رہی ہے۔ اور اگر دفاعی محاذ پر دیکھیں تو ہم نے اس دور آمرانہ میں سیاچین گلیشئیر سے بھی ہاتھ دھو لیئے تھے۔
جنرل مشرف کا دور اقتدار کئی لحاظ سے مختلف تھا۔ پہلی بار ایک اردو بولنے والا مہاجر فوج کا سربراہ تھا جو کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک وزیراعظم کو گھر بھیج کر برسر اقتدار آیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی دفعہ سندھ نہیں بلکہ پنجاب تھا جہاں فوج مخالف جذبات عروج پر تھے اور یہ پنجاب کے سیاستدان تھے جنھوں نے فوجی دال کا مزا چکھا، مونچھیں منڈوائیں اوراپنے کرتوتوں کی کچھ سزا بھگتی – ایک بار پھر سعودی استعمار نے پاکستان میں مداخلت کی اور نواز شریف کو سعودی مہمان بنایا اور مسلم لیگ نواز اور کالعدم تکفیری دیوبندی دہشت گرد جماعت سپاہ صحابہ نام نہاد اہلسنت والجماعت کے ذریعہ سے پاکستان میں تکفیریت اور خارجیت کی راہ مزید ہموار کی
یہی نواز شریف آج کل وزیراعظم بن کر کوشش کر رہے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں، بلوچستان میں رمضان مینگل جبکہ پنجاب میں لدھیانوی اور اشرفی جیسوں کو تکفیری نفرت کی کھلی چھٹی دی گئی ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ یعنی عدلیہ اور سیکورٹی اداروں میں ان کے حلیفوں کی پوری کوشش ہے کہ کالعدم تکفیری دہشت گردوں کی پھانسیوں کو موخر کیا جائے جبکہ عام مجرموں کو لٹکایا جائے اور کراچی میں آپریشن کا رخ طالبان اور سپاہ صحابہ کی بجائے ایم کیو ایم کی طرف کر دیا جائے – رینجرز اور ایف سی کے بعض عناصر کا بلوچستان اور سندھ میں سیاسی کردار اور کالعدم دہشت گرد گروہ سپاہ صحابہ کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کا رویہ کسی بھی محب وطن پاکستانی کے لئے ناقابل برداشت ہے