ڈی پی او رحیم یار خان سہیل ظفر چٹھہ کی حق گوئی و بیباکی کی داستان۔ خرم زکی

 سانحہ پشاور، جس میں طالبان کے تکفیری دیوبندی دہشتگردوں نے 150 سے زائد معصوم بچوں، طالب علموں اور اساتذہ کو ذبح کر ڈالا، نے ہر پاکستانی کی روح و ضمیر کو جھنجوڑ ڈالا۔ وہ لوگ بھی جو اس سے پہلے مذہبی دہشتگردی کے ہر واقعہ کی ذمہ داری خود ساختہ، خیالی اور افسانوی کرداروں پر ڈالتے آئے تھے وہ بھی ان تکفیری درندوں اور دہشتگردوں کی مذمت کرنے پر مجبور ہوئے اور ایک طرح سے ان کالعدم دہشتگرد گروہوں کے خلاف پوری قوم یکجا اور متحد ہو گئی۔ یہ بات اپنی جگہ تھی کہ کچھ دیوبندی جماعتوں کی ابھی بھی کوشش تھی کہ کسی طرح اس واقعہ کے متعلق بھی وہی پرانا راگ الاپا جا سکے کہ کوئی مسلمان اس طرح کی حرکتیں نہیں کر سکتا، اس طرح کوئی پاکستانی معصوم بچوں کا قتل عام نہیں کر سکتا اور اس میں ضرور را، موساد اور سی آئی اے ملوث ہیں لیکن قوم نے اس طرح کی کسی بھی کہانی کو مسترد کر دیا اور پھر جب تحریک طالبان نے کھل کر اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لی تو وہ لوگ جن کے ذہنوں میں تھورا بہت ابہام بھی تھا وہ بھی دور ہو گیا۔

اس اندوہناک واقعہ سے کوئی 14 دن بعد 30 دسمبر 2014 کو  ڈی پی او رحیم یارخان سہیل ظفر چٹھہ نے بلدیہ ہال خانپور میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایک فکر انگیز اور متاثر کن تقریر کی۔ اس تقریر میں سہیل ظفر نے کھل کر وہ حقائق بیان کیئے جو اس سے پہلے وردی والے ہوں یا سویلین حکام چھپاتے آئے ہیں۔ چٹھہ صاحب نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح پاکستان میں 1977 کے بعد مذہبی انتہاپسندی کو فروغ ملا، کس طرح 15 ٪ دیوبندی گروہ نے بزور طاقت اپنے عقائد دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کی، زبردستی شریعت کے نام پر اپنے مسلک کو نافذ کرنے کی کاوشیں کی گئیں،  کس طرح شریعت کے نام پر عورتوں اور بچوں کے گلے کاٹے گئے اور کس طرح عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہا کہ یہ دہشتگرد مسلمان نہیں، پاکستانی نہیں ہیں، جب کہ حقیقت یہ تھی کہ ہر تکفیری دیوبندی دہشتگرد کا جنازہ بڑے بڑے مولیوں نے آ کر پڑھا اور یہ تمام دہشتگرد اسی ملک سے تعلق رکھتے تھے۔ چٹھہ صاحب نے اپنی تقریر میں قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست والی تقریر کا حوالہ بھی دیا جس میں قائد اعظم نے ملک میں موجود تمام مذاہب کو بتایا تھا کہ پاکستان میں ہر شہری کو اپنے مذہب و مسلک پر عمل کرنے کی پوری آزادی ہو گی اور ریاست کا کسی شہری کے مذہب و مسلک سے کوئی سروکار نہ ہو گا۔ افسوس کے بعد میں لوگوں نے زبردستی ملکی آئین کی لیپا پوتی  اور ملمع کاری کر کےاس کو مذہبی بنانے کی کوشش کی۔  ریاست کو اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا لازمی تھا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں 150 معصوم بچوں کے گلے کٹوا کر ہی ریاست جاگتی ؟ اس سے پہلے بھی تو یہ تکفیری دیوبندی دہشتگرد بازاروں میں، مساجد میں دھماکے کرتے آئے تھے۔ غور سے سنیں۔ 

Following is the download link of the complete speech:
Sohail Zafar Chattha Exposing the Roots of Religious Extremism and Terrorism in Pakistan

پھر جیسا کہ ہوتا آیا ہے، جیسے ہی چٹھہ صاحب نے یہ حقائق عوام کو صاف صاف بتائے تو وہ گروہ جن کا چہرہ بے نقاب ہر کر سامنے آ گیا تھا، جن کو شرمناک وجود عوام کے سامنے برہنہ ہو گیا تھا، وہی انتہاپسند تکفیری دیوبندی گروہ جو ایک عرصے سے پاکستانیوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں، جو کبھی سنی بریلوی مسلمانوں کے مشرک، کہ کر قتل کرتے ہیں، شیعہ مسلمانوں کی کافر کہ کر نسل کشی کرتے ہیں، صوفیوں کو بدعتی اور ملحد کہ کر ذبح کرتے ہیں، احمدی کمیونٹی کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں، عیسائیوں کے گرجوں پر حملہ آور ہوتے ہیں، ہماری مسلح افواج کو ناپاک و مرتد کہ کر مارتے ہیں، جی ہاں وہی انتہا پسند دیوبندی گروہ چٹھ صاحب کے خلاف بھی منظر عام پر آ گئے اور لگے فتویٰ بازی کا بازار گرم کرنے۔ مگر سہیل ظفر چٹھہ صاحب اپنے مؤقف پرقائم رہے اور ان تکفیری دیوبندی دہشتگردوں کے کسی دباؤ میں نہ آئے۔ ہم سہیل ظفر صاحب کی جرات کو سلام پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں بھی وہ اسی جرات و بہادری کے ساتھ ان انتہاپسند گروہوں کا مقابلہ کریں گے۔

Screen Shot 2015-06-19 at 17.05.01

Pakistani police superintendent Sohail Zafar Chattha is seen at his office in Rahim Yar Khan in the eastern Punjab Province March 2, 2013. REUTERS/Faisal Mahmood

Pakistani police superintendent Sohail Zafar Chattha is seen at his office in Rahim Yar Khan in the eastern Punjab Province March 2, 2013. REUTERS/Faisal Mahmood

Comments

comments