روہنجیا مسلمان اور ’جعلی‘ تصویریں
ذشتہ ماہ میانمار سے بھاگ کر سمندر میں پھنسے بے یار و مددگار روہنجیا مسلمانوں کی حالتِ زار ٹی وی سکرینوں، اخبارات اور دیگر میڈیا کا موضوع رہی لیکن آن لائن پر دکھائی جانے والی سبھی تصاویر وہ نہیں تھیں جو دراصل ہمیں دکھائی جا رہی تھیں۔
روہنجیا مسلمانوں کا ایک نسلی گروہ ہیں جو زیادہ تر میانمار یعنی برما میں رہتا ہے۔
روہنجیاؤں سے 1982 میں برما کی شہریت چھین لی گئی اور بدھ مت کی اکثریت والے اس ملک میں ان کو جور و ستم کا سامنا رہتا ہے۔
برمی ریاست انہیں بنگالی سمجھتی ہے اور بنگلہ دیش انہیں برمی کہتے ہیں اور وہ شہری آبادی سے دور بہت ہی بری حالت میں پرہجوم کیمپوں میں رہتے ہیں۔
میانمار میں اور وہاں سے بھاگ کر سمندروں میں پھنسے ہوئے روہنجیاؤں کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے اس کے متعلق دکھائی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز بہت پریشان کن ہیں۔
بغیر خوراک اور پانی کے سمندر میں کشتیوں پر بے یار و مددگار روہنجیاؤں کی بہت سی تصاویر تو اصلی ہیں لیکن بی بی سی ٹرینڈنگ کو معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے آن لائن پر دکھائی جانے والی اکثر تصاویر کسی اور تباہی اور کسی اور واقعے کی بھی ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر تصاویر بہت پریشان کن اور دل ہلا دینے والی ہیں۔
مثال کے طور پر ایک تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ بودھ راہب انسانی جسموں کے ڈھیر کے اوپر کھڑے ہیں۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر شیئر کی گئی اس تصویر میں روہنجیاؤں کے خلاف بودھ بھکشوؤں کا تشدد دکھایا گیا ہے۔
لیکن یہ تصویر برما کی نہیں بلکہ یہ اپریل 2010 میں چین میں آنے والے زلزلے کے بعد کی تصویر ہے۔
ایک اور تصویر میں جلتے ہوئے ایک شخص کو سڑک پر بھاگتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ فیس بک پر ایک گروہ کہتا ہے کہ اس شخص کو خوفناک اذیت کا شکار بنایا گیا اور اسے زندہ جلا دیا گیا لیکن حقیقی کہانی بالکل مختلف ہے۔
اصل میں یہ تصویر تبت کے سرگرم کارکن جمفیل یشی کی ہے جنھوں نے 2012 میں انڈیا کے دارالحکومت دلی میں چینی صدر کی آمد کے خلاف احتجاج کے طور پر خود سوزی کی تھی۔
اس کے علاوہ بچوں کی بھی بہت سی پریشان کن تصاویر گردش کر رہی ہیں۔
ایک تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ ایک کھمبے کے ساتھ ایک لڑکا بندھا ہے جس کے چہرے پر تشدد کے نشانات ہیں۔
اگرچہ آن لائن پوسٹ میں اسے روہنجیا مسلمان بتایا گیا ہے لیکن اصل میں یہ ایک تھائی بچہ ہے جسے اس سال کے آغاز میں اس کے ایک رشتہ دار نے مٹھائی یا ٹافیاں چرانے کے الزام میں سزا دی تھی۔
اس کے علاوہ ایک اور تصویر کو بہت زیادہ شیئر کیا گیا ہے، خصوصاً انڈیا اور پاکستان میں۔ اس تصویر میں ایک شخص زمین پر لیٹے ہوئے لڑکے اور لڑکیوں کے بازوؤں کے اوپر سے موٹر سائیکل گزارتا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ جنوبی انڈیا کے ایک مارشل آرٹس کے ماہر کا سٹنٹ ہے۔
دیگر تصاویر بھی ہیں۔ ایک تصویر میں زمین پر بہت سے لوگ لیٹے ہوئے دکھائی گئے ہیں۔ دراصل یہ تصویر 2004 میں تھائی لینڈ میں احتجاجی مظاہروں کی ہے۔
اسی طرح ایک تصویر میں جلی ہوئی لاشیں دکھائی گئی ہیں جو کہ 2010 میں کونگو میں ایک آئل ٹینکر کو آگ لگنے کے بعد کا خوفناک منظر ہے۔
اسی طرح کی ایک تصویر خون میں لت پت کپڑوں میں ملبوس بچوں کی بھی ہے جو کہ بظاہر سری لنکا کی ہے۔ اس طرح کی تصاویر فیس بک پر لگا کر بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ روہنجیا کے مسلمانوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
برطانیہ میں مقیم روہنجیا مسلمانوں کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن اور بلاگر جمیلہ ہنان کہتی ہیں کہ ’ہم سب لوگوں کی تشویش کی قدر کرتے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہر کوئی ان تصاویر کو شیئر کرنے سے پہلے ان کی تصدیق کر لے۔‘
انھوں نے بی بی سی ٹرینڈنگ کو بتایا کہ ’روہنجیا کے بہت سے المناک مناظر کی تصاویر حقیقی ہیں، اس لیے انھیں جعل سازی سے بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سب سے زیادہ المناک تصاویر حقیقی تصاویر ہیں۔
Source:
http://www.bbc.com/urdu/world/2015/06/150607_rohingya_trending_as