عالم اسلام میں جدید خوارج کی شرانگزیزیاں :علماء اہل سنت کا بے باک رد عمل – غلام رسول دہلوی

khawarij-supporters

جدید خوارج کی وہابی دیوبندی سلفی تنظیمداعش کے خودساختہ خلیفہ ابوبکر البغدادی کی کسی بھی قسم کی حمایت اور پشت پناہی خلاف شرع اور قابل مذمت ہے: ممتاز علماء اہل سنت و دانشوران ملت کا راقم السطور کے ساتھ ایک علمی مذاکرہ غلام رسول دہلوی گذشتہ دنوں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے سینئر استاد و ترجمان اور سابق مہتمم ادارہ مولانا ابوالحسن علی ندوی میاں کے نواسہ مولانا سلمان ندوی کے اس خط نے عالمی میڈیا میں ہیجان بپا کردیا جس میں انہوں نے جدید خوارج کی دہشت گرد تنظیم داعشکی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اور اس کے خود ساختہ خلیفہ ابو بکر البغدادی کو ?? امیر المؤمنین?? کا خطاب دیتے ہوئے اسےمبارک باد پیش کی ۔

واہٹس ایپ کے ذریعہ بغدادی کو ارسال کئے گئے اس خط (مطبوعہ: روزنامہ ??آگ??، لکھنو ، 17 جولائی، 2014 ) نے بہت سے غیرمسلم طبقوں میں ہندوستانی مدارس اور مسلمانوں کے تئیں بے جا تشویش پیدا کردی ہے اور خود ذی شعور مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آج کے یہ نام نہادمسلم دانشوران ہندوستانی مسلم کمیونٹی کو کس سمت میں لے جا ر ہے ہیں۔ معروف زمانہ ہندوستانی ادارہ ندوۃ العلماء کے سینئر استاد و ترجمان اور سابق مہتمم ادارہ مولانا ابوالحسن علی ندوی میاں کے نواسہ کی حیثیت سے مولانا سلمان ندوی کے خط نے قومی میڈیا میں یہ غلط تاثر دیا کہ داعش اور دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے تئیں ہندوستان کے دیگر اہل مدارس کا نقطہ نظروہی ہے جو ان کا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ان کے اس بیان کی چوطرفہ مذمت شروع ہوئی اور حکومتی و صحافتی حلقوں کی طرف سے سخت لہجہ میں استفسارات ہوئے تو موصوف صفائی پیش کرتے ہوئے اردو اخبارات میں اپنے متضاد بیانات درج کرانے لگے۔

المیہ یہ ہے کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء نے تادم تحریر مولاناسلمان ندوی کے اس متنازع، مدارس مخالف اور مسلم بدنامی پر مبنی بیان سے برأت کا اظہار نہیں کیا ہے اور نہ ہی مولانا ندوی کے اعتقادی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی کسی بھی تنظیم یا علماء کی جماعت کی جانب سے اس خط کی کوئی مذمت سامنے آئی ہے۔ تاہم ہندوستان کے امن پسند علماء اہل سنت ، مشائخ عظام ، اصحاب مدارس و خانقاہ اور معتبر مسلم اسکالرس نے نہ صرف یہ کہ کسی بھی دہشت گرد تنظیم یا کسی بھی شدت پسندانہ نظریہ کی کسی بھی صورت میں کوئی حمایت نہیں کی، بلکہ انہوں نے واضح طور پر دہشت و منافرت، تکفیری تشدد، انتہا پسندی اور عدم رواداری کے ان تمام نظریات وحرکات کی کھلے لفظوں میں مذمت کی ہےجن میں آج کی عالمی صیہونی و خارجی و تکفیری و وہابی دہشت گردتنظیمیں اسلام کے نام پر ملوث ہیں۔

ان عمائدین ملت نے داعش اور اس جیسی دیگر دیوبندی عسکریت پسند تنظیموں کے تئیں کبھی کوئی نرم رویہ نہیں اپنایا، بلکہ بروقت ابو بکر البغدادی کی خود ساختہ خلافت اور اسے حاصل ہونے والی ہر قسم کی فکری و مادی حمایت کی دو ٹوک مذمت کی ہے۔ اس سلسلے میں راقم السطور نے خاصی تعداد میں ایسے علماء اہل سنت اور سنی و صوفی فکر کے حامل دانشوروں سے ملاقاتیں اور رابطے کئے کی جو مختلف حیثیتوں سے ملکی و بین الاقوامی سطح پرسنی مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ داعش  کی غیر اسلامی خلافت اور ان جیسی دیگر انتہا پسند جہادی تنظیموں کے متشدد نظریات کے خلاف علماء اہل سنت کے دو ٹوک اور بے باکانہ بیانات کو پڑھ کر ایک ادنی شعور رکھنے والا شخص بھی یقینی طور پریہ کہے گا کہ اس قضیہ میں تمام ہندوستانی علماء یا مدارس دینیہ کو ایک ہی زمرہ میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔

آج بھی ہندوستان میں ایسے سنی وصوفی علماء اور مدارس کی غالب اکثریت موجود ہے جو امن عالم، سماجی ہم آہنگی اور ملکی سالمیت کے زبردست حامی ہیں اور جنہوں نے دہشت گردی، انتہا پسندی، فکری بے اعتدالی، جدید خوارج کے فکری انحرافات اوراس قسم کے ان تمام متشددانہ افکار ونظریات کی شدومد سے مخالفت کی ہے جن کی حمایت آج متعدد وہابی علماء ومفکرین کررہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ مؤخر الذکرطبقہ کو زبردست مادی ذرائع اور سعودی پیٹرو ڈالر کی وجہ سے حالیہ دہائیوں میں مین اسٹریم سے جڑے امن پسند مسلمانوں کو اپنی آیڈیالوجی کے دام فریب کا شکار بنانے میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ بر صغیر ہندوپاک کے علماء اہل سنت اور اصحاب تصوف وروحانیت نے شروع سے ہی واضح طور پر داعش  اور دیگر متشدد اورعسکریت پسند جہادی تنظیموں کی کھل کر مذمت فرمائی ہے۔

ابوبکر البغدادی کی خود ساختہ غیر اسلامی خلافت اور اس کی تائید میں مولانا سلمان ندوی کے حالیہ خط سے متعلق ممتاز علماء اہلسنت کے مندرجہ ذیل خیالات اور بے باکانہ ردعمل میں اس حقیقت کی عکاسی بدجہ اتم موجود ہے: مشہور اسلامی مفکر و معروف سنی عالم دین مولانا یاسین اختر مصباحی اس مو ضوع پر راقم السطور سے گفتگو کرتے ہوئے ہندوستان میں مختلف سنی تنظیموں کے مشیر اعلی، جماعت اہل سنت کے علمی وفکری ترجمان اور ایک مشہور اسلامی مفکر اور معروف سنی عالم دین مولانا یاسین اختر مصباحی نے کہا کہ: “داعش کا خلیفہ ابو بکر البغدادی ایک خود ساختہ خلیفہ ہے جسے اسلامی خلیفہ کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ شریعت اسلامی میں اس کی خود ساختہ خلافت کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ: ” عالم اسلام میں اس طرح کی تمام تر غیر اسلامی تحریکات کے پس پردہ وہابی لابی کارفرما ہے۔

ان سب کا واحد مقصد دنیا کے تمام حصوں میں اپنی خلافت قائم کرناہے۔?? مولانا مصباحی نے واضح کیا کہ ” ان کی شناخت آسانی کے ساتھ ایک چیزسے جا سکتی ہے جو ان سب کے درمیان ایک قدر مشترک کے طور پر پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی غلبہ پاتے ہیں تاریخی اسلامی مقامات اور مزارات اولیاء کو مسمار کردیتے ہیں”۔ انہوں نے لاہور میں حضرت داتا گنج بخش ہجویری (رضی اللہ عنہ) اور کشمیر میں چراغ شریف کے مزارات کے واقعات کا حوالہ بطور مثال پیش کیا جنہیں وہابی انتہا پسندوں نے مسمار کر دیا ہے۔ خلافت اسلامی کے مسئلہ پر فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان قادری برکاتی کی تحقیقی کتاب ??دوام العیش فی ائمۃالقریش?? اور فتاویٰ رضویہ (حصہ 14) کے خصوصی حوالہ سے بات کرتے ہوئے مولانا یاسین اختر مصباحی نے اسلامی خلافت کے شرائط کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا اور کہا کہ علماء اور فقہاء نے سات شرائط بیان فرمائے ہیں جن کے بغیر کوئی اسلامی خلیفہ مقررنہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نےواضح کیا کہ “ابو بکر بغدادی اسلامی خلیفہ کے طور پر مقرر ہونے کے لئے ضروری شرعی اہلیت نہیں رکھتا”۔ مولانا مصباحی نے البغدادی کی خود ساختہ خلافت کی حمایت میں مولانا ندوی کے خط پر اپنی گہری تشویش کا اظہار اور کہا کہ وہ اس حد تک کس طرح جا سکتے ہیں جبکہ بڑے پیمانے پر مسلمانوں نے اس کی خود ساختہ خلافت کے اعلان کو مسترد کر دیا ہے۔

مولانا یاسین اختر مصباحی نے اپنی بات یہ کہتے ہوئے ختم کی کہ اسلام امن عالم کا مذہب ہے اور داعش یا دیگر انتہا پسنددیوبندی تنظیمیں جدید خارجی وہابی تحریکیں ہیں۔ شیخ ابوبکراحمد، بانی ورئیس مرکز الثقافۃ السنیۃ ،کیرلا و جنرل سکریٹری آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء انتہائی بالغ نظری، زمانہ شناسی اور دینی وفقہی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کے جنرل سکریٹری شیخ ابوبکراحمد (مرکز الثقافۃ السنیۃ) نے انتہا پسند تنظیموں کی حمایت کو خلافِ شرع قرار دیتے ہوئے باقاعدہ ایک فتوی جاری کیا۔ راقم السطور کو مذکورہ فتوی کے اردو متن کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کا موقع میسر آیا جو 30 اگست 2014 بروز سنیچر کو ??دی ہندو??، ??ہندوستان ٹائمز??، ??دی ایشین ایج?? اور ??ٹائمز آف انڈیا ?? جیسے متعدد مشہور ومعتبرقومی وبین الاقوامی انگریزی اخبارات کی زینت بنا۔ اس سلسلے میں اپنے افکار کا اظہار کرتے ہوئےشیخ ابوبکرصاحب نے کہا کہ : ??عراق اور شام میں جاری عسکریت پسندوں کی دہشت گرادانہ حرکتیں ناجائز وحرام ہیں۔

داعش جیسی نام نہاد اسلامی تنظیموں کا مذہب اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔دہشت گرداسلام کی آڑ میں اسلام کی شبیہ کو مسخ کرتے ہیں ۔عالم اسلام کو چاہئے کہ یا اس جیسی تنظیموں کے خلاف متحد ہوکر ان کا بائیکاٹ کرے اور ان سے بیزاری کا اعلان کرے ۔?? شیخ صاحب نے خبردار کیا کہ ??اسلام مخالف سازشوں سے عالم اسلام کو ہوشیار ہونا چاہئے۔ ہمیں ان کے ناپاک عزائم کے خلاف متحد ہوکر ان کا سدباب کرنا چاہئے ۔عسکریت پسند گروپ اسلام کی آڑ میں اسلام مخالف کام کررہا ہے اور انتہاء پسند دہشت گردتنظیموں کی حمایت خلاف شرع ہے ۔?? شیخ ابوبکر احمد نے کہاکہ عسکریت پسند گروپوں کی وجہ سے پوری دنیاء میں دہشت کا ماحول گرم ہے۔شیخ نے کہاکہ ??اسلام کے پیروکار کبھی بھی انسانیت کا خون نہیں کرتے ۔آج عراق اور شام میں جو حالت بنی ہوئی ہے وہ صرف حصول اقتدار اور یہودی ایجنٹوں کے ایما ء پر ہوتا ہے ۔?? شیخ نے اپنے ایک حالیہ بیان میں عالمی رہنماؤں اور حکمرانوں سے اپیل بھی کی ہے کہ وہ کے اسلام مخالف حرکتوں سے عوام وخواص کو آگا ہ کریں ۔

ضرورت اس بات کی ہے عالمی امن کے قیام کو ترجیح دی جائے ۔یہی اسلام کا پیغام ہے ۔ معروف سنی اسلامی مفکراور محقق و نقاد مولانا خوشتر نورانی: محقق و نقادمولانا خوشتر نورانی، مدیر ماہنامہ جام نور نے راقم السطور کو انگریزی میڈیا کے لئے دیئے گئے اپنے ایک انٹریو میں کہا کہ : “مولانا سلمان ندوی کوئی مستند اسلامی شخصیت نہیں ہیں۔ داعش کی خلافت کی حمایت میں لکھے گئے ان کے خط کو یکسر مسترد کر دیا جانا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ ان کا انفرادی نقطہ نظر ہے اور ہو سکتا ہے کہ ان کی جیسی ذہنیت کے حامل چند لوگوں کا بھی یہی نظریہ ہو ،لیکن مرکزی دھارے میں شامل 25 کروڑ امن پسند سنی مسلمانوں کی یہ رائے ہرگز نہیں ہو سکتی۔”

مولانا خوشتر نورانی نے یہ بھی کہا کہ”نہ تو مولانا ندوی اور نہ ہی ان کا مذہبی ادارہ ندوۃ العلماء ہندوستان کے مرکزی دھارے میں شامل ان مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے جو پرامن بقائے باہمی، قومی یکجہتی، تکثریت پسندی، اور مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کے اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔” انہوں نے اسلامی خلافت کے نام پر دہشت گردانہ سرگرمیوں پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ مسلم کمیونٹی میں تقریبا تمام تر انتہا پسندی، بنیاد پرستی اور تعصب کی جڑیں عالمی سطح پر وہابی نظریات کے ساتھ مربوط ہیں جن کا صوفی سنی اسلامی روایت سے کوئی ربط نہیں ہے۔ مولانا نورانی نے مزید واضح کیا کہ ہو سکتا ہے کہ مولانا ندوی جیسے لوگ داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی حمایت زبانی طور پر کریں لیکن جب تک وہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں ہیں ان کے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتے۔ ان کا ماننا ہے کہ غیر مسلم سماج سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی شہریوں کی اکثریت اب بھی مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتی ہے۔

مولانا نورانی نے زور دے کر کہا کہ اسلام جمہوری اقدار کی وکالت کرتا ہے جنہیں جمہوریت اور سیکولر ازم کے موجودہ دور میں قبول کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس دور جدید میں خلافت قائم کرنے کی کوئی بھی بات حماقت کی انتہاء ہے۔ جدید دور میں کسی بھی قسم کی خلافت کی بالکل ہی کوئی ضرورت نہیں ہے، حتی کہ اسلامی حکومتوں کی بنیاد بھی آج جمہوریت کے منصفانہ اقدار پر ہونی چاہئے۔ مولانا نورانی نے تاریخی حوالہ پیش کیا کہ ابتدائی اسلامی ادوار میں بھی حقیقی اسلامی خلافتیں جمہوریت، تکثیریت اور عدل و انصاف کے اصولوں پر مبنی ہوتی تھیں۔ لہذا، آج مسلم ممالک میں جمہوریت کی جگہ خلافت کی وکالت کرنے والے کسی بھی شخص کی باتوں کو مکمل طور پر مسترد کر دیا جانا چاہئے۔ مولانا نے  یا داعش کی شدت پسندانہ سرگرمیوں کی زبردست تنقید کی اور انہیں غیر اسلامی قرار دیا۔ انہوں نےکو ایک سیاسی گروپ قرار دیا جو اسلام کا نام استعمال کر رہا ہے اور اپنے سیاسی مفادات کے لئے سنی اور شیعہ کے درمیان دراڑ یں پیدا کر رہا ہے۔

الحاج سعید نوری، جنرل سیکرٹری، رضا اکیڈمی ممبئی سنی صوفی مسلمانوں کی ایک اہم تنظیم رضا اکیڈمی ممبئی کے جنرل سکریٹری اور متحرک سنی کارکن الحاج سعید نوری نے داعش کو خارجی اور تکفیری تحریک قرار دیا جو معصوم لوگوں کا قتل کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام معصوم لوگوں کے قتل کو حرام قرار دیتا ہے اور خود ان کی جانب سے کئی سو بم دھماکوں کی ذمہ داری کا قبول کیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بازاروں اور دیگر عوامی مقامات پر معصوم لوگوں کوقتل کرنے میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سنی شیعہ کی لڑائی نہیں بلکہ تیل سے مالا مال علاقوں پر حکومت قائم کرنے کے لیے صرف ایک سیاسی تحریک ہے۔

مولانا ابو العرفان فرنگی محلی: صوفی پس منظر سے تعلق رکھنے والے مولانا ابو العرفان فرنگی محلی نے خطرناک اور انتہا پسند خود ساختہ خلیفہ ابو بکر بغدادی کی سخت مخالفت کی ہے جیسا کہ ان کا یہ دو ٹوک بیان میڈیا میں شائع کیا گیا تھا کہ: “ایک ایسا شخص کیوں کر مسلمانوں کا خلیفہ ہو سکتا ہے جو بے گناہ مسلمانوں، عورتوں اور بچوں کا قاتل ہے؟” سید بابر اشرف، جنرل سکریٹری آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ  کے جنرل سیکرٹری سید بابر اشرف نے راقم السطور سے اس مو ضوع پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: “جو نظریہ نفرت، عدم رواداری اور انتہا پسندی کو عام کرے قطعی طور پر اس کی سخت مذمت کی جانی چاہیے۔

مولانا سلمان ندوی کے خط نے واضح طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہندوستان میں پیٹرول ڈالر سے چلنے والی ایسی وہابی تنظیمیں بھی ہیں جو سعودی عرب کی ایماء پر برطانیہ کے سرکاری نظریہ، وہابیت کی تشہیر کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔ مولانا ندوی کے خط کو قریب الوقوع خطرے کا الارم سمجھا جانا چاہئے۔ حکومت ہند کو تمام وہابی تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہئے”۔ سید بابر اشرف نے واضح کیا کہ داعش کے حامیان مختلف ناموں کے ساتھ مختلف تنظیموں کے توسط سے پورے ہندوستان میں سرگرم عمل ہیں

Source:

http://www.noorimission.com/article.php?id=74

Comments

comments