ظلم کب تک سہیں گے؟ سید عون عباس
مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ہم سچ بات کہنے سے کیوں گھبراتے ہیں ، ہمارا مذہب اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ انسان کتنی ہی مجبوری میں کیوں نہ ہو لیکن اس کا اولین کام یہی ہونا چاہئے کہ کسی بھی حال میںاور صورت میں جھوٹ نہ بولیں۔۔۔۔ ارے مسئلہ یہ نہیں بلکہ کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ ہم سچ بولنے سے ڈرتے ہیں۔کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ حقائق کی بات ہو اور معاشرے میں جھوٹ کا رواج ختم ہو !!!جھوٹ بولنا ہماری زندگی میں اتنا اہم ہو گیا ہے کہ جتنا کھانا اور سانس لینا ہو، اس کے بغیر ہم کوئی بھی کام کر ہی نہیں کر سکتے ۔۔۔ کیا کبھی ہم نے اس کے نقصانات پر غور کیا ہے کہ اس کی وجہ سے ہم کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پرتا ہے ۔
چلیں سب نہیں لیکن ایک دو جھوٹ ، فریب، دوغلہ پنا ، مکاری، عیاری اور اسی طرح کی دیگر چیزوں پر غور کرتے ہیں، سب سے پہلی چیز جو ہمارے معاشرے میں رائج ہے وہ بُرے کو بُرا نہ کہنا ہے بلکہ یا تو اس پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے یا پھر یہ کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ ارے بھئی دفعہ کرو کون ان فضول کے چکروں میں پر کے اپنا دماغ کھپائے اور اپنی زندگی کو خطرات میں ڈالے !!! بس یہیں سے ابتداء ہوتی ہے ایک شدت پسندی کی ۔۔۔ اب آپ کے ذہن میں سوال آئے گا کہ وہ کیسے تو بھائی وہ ایسے کہ آپ کے محلے میں ایک گھر والے کچرا باہر پھینکتے ہوں جس سے گلی میں بدبو پھیلیی ہو تما تر معملات اور گلے شکووں کے باوجود آپ صرف اس بناء پر خاموش رہیں کہ اس گھر میں رہنے والے مرد بہت طاقتور ہیں اور ان سے پنگا لینا بھاری پر سکتا ہے!!! تو بھائی پھر تو ایک گھر کیا ہر گھر والا ہی یہی کام کرے گا اور انہیں کوئی نہیں روک سکے گا۔
اب ذرا ہم بات کرتے ہیں پاکستان میں جاری موجودہ صورتحال پر ہمارے ملک میںہونے والی ہر طرح کی دہشت گردی کا الزام مدرارس پر لگا دیتے ہیں ،لیکن اب کیا کہیں گے وہ تمام لوگ کہ سبین محمود اور سانحہ صفورا گوٹھ کے واقعہ میں کوئی اور نہیں بلکہ کراچی کے بہترین تعلیمی ادروں کے پڑھے لکھے وہ نوجوان ملوث پائے گئے ہیں کہ جن کے اذہان حق اور سچ بات سمجھنے سے قاصر رہ گئے۔انہوں نے دنیاوی تعلیم تو حاصل کر ہی لی لیکن علم کی دولت حاصل کرنے سے تشنہ رہ گئے۔۔۔۔ یہاں میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے ملک میں جاری شدت پسندی میں کون ملوث ہے اور کون نہیں ہے۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر ہماری قوم اپنے اندر کی منافقت کو ختم کر کے ایک اچھا او رسچا پاکستانی بننے کی کوشش کریں تو بہت سارے مسائل خود با خود حل ہوتے چلے جائیں گے وہ کیسے تو آئیے یہ بھی سمجھا دیتا ہوں۔
سولہ دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ایک ایسا سانحہ ہوا جس نے نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ پوری دنیا کو دہلا کے رکھ دیا اس سانحہ میں 146طالبعلموں کو دہشت گردوں نے اس بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا کہ اگر یہ کہا جائے کہ اس دن پاکستان میں کربلا پابا ہو گئی تو غلط نہ ہو گا ۔ اس سانحے کے بعد جہاں پوری دنیا کے صدور اور وزرائے اعظم سمیت تما لوگوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں اور ای میلز کے ذریعے تعزیتی پیغامات بھیجنے شروع کیئے تو وہیں ملک کے اندر بھی رہنے اور بسنے والے تمام تر مذاہب و مسالک کے لوگوں نے اس واقعہ پر شدید ترین افسوس کا اظہار کیااور یہاں تک کہا گیا کہ 16دسمبر کا دن پاکستان کی تاریخ کا سیاح ترین دن ہے ۔
لیکن ذرا کچھ لمحات کے لئے رکیں اور سوچیں کہ اس واقعہ کے بعد آپ کی کیا حالت ہوئی تھی ؟؟؟ اور آپ کے کیا جذبات تھے ؟ لیکن اسی دوران پاکستانی ٹی وی چینلز پر اسلام آباد کی مسجد کے ایک پیش امام نے یہ یہ بر ملا کہا کہ میں اس سانحہ کی بلکل بھی مذمت نہیں کروں گا ۔ کیوں کہ اگر کوئی اس طرح کی کارروائی کرتا ہے تو میں اس کو غلط نہیں کہہ سکتا ، مولوی صاحب کے اس بیان کے بعد دنیا بھر میں ہلچل مچ گئی اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت سول سوسائٹی نے بھی بھر پور مظاہرے کئے جس میں چند لوگوں نے شرکت کی اور بس پھر ہر واقعہ کی طرح یہ بات بھی دب گئی، اور لوگ سب بھول گئے کیونکہ لوگ بھی اب کیاکریں آئے دن اتنے واقعات اور سانحات ہوتے ہیں کہ ہم لوگ بے حس ہو گئے ہیں۔ہماری والدہ بتاتی ہیں کہ پہلے دور میں اگر کسی کی مرغی بھی اچانک مر جائے تو لوگ افسوس کرتے تھے لیکن اب تو انسان مرغیوں کی طرح کاٹے جارہے ہیں بلکہ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہماری مثال اسی مرغی کی طرح ہو گئی ہے کہ جو پنجرے میں بیٹھی اپنے زبح ہونے کی باری کا انتظار کرتی رہتی ہے اور جب قصائی پنجرا کھول کے کسی اور مرغی کو نکلاتا ہے تو بس وہ ان لمحات کے لئے سکون کا سانس لیتی ہے کہ شکر ہے اس دفعہ میری باری نہیں آئی۔ ہم ایک ایسے دور اور حالات میں رہ رہے ہیں جہاں گھر سے نکلنے کا تو پتہ ہوتا ہے لیکن یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ آیا واپس بھی لوٹ کر آئیں گے یا نہیں، خیر بات بہت آگے نکل جائے گی میں بات کر رہا تھا مولوی صاحب کی جانب سے سانحہ پشاور کی مذمت نہ کرنے کی۔۔۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا لیکن پھر اچانک کراچی میں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی ایک سبین محمود نامی خاتون کو موت کی نیند نولا دیا گیا ابھی اس واقعہ کی تحقیقات چل ہی رہی تھی کہ جامعہ کراچی شعبہ ابلاغ عامہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر یاسر رضوی کو شہید کر دیا گیا اور اس کے بعد ہی 12 مئی کے روز آغاخانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی بس کو روک پر اس پے فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 43لوگوں کو موت کے گھاٹ اتر دیا گیا۔پہلی بات تو یہ کہ آپ لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ بات جھوٹ ، فریب اور منافقت سے شروع ہوئی اور کہاں پہنچ گئی !!!تو بھئی اس کی وجہ بتانے سے پہلے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف ، آئی جی سند ھ غلام حیدر جمالی اور ڈی جی رینجرز سمیت تما م ان قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سلام پیش کروں گا کہ جنہوں نے سبین محمود اور صفورا گوٹھ کے ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے اور انہوں نے اعتراف جرم بھی کر لیا ہے بس اب انتظار ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ڈاکٹر یاسر رضوی کے قاتلوں بھی پکڑ کر سامنے لائیں۔
بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ سبین محمود کے وہ قاتل جو نہایت ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف کالعدم دہشت گرد تنظیموں سے بھی رابطے میں تھے انہوں نے دوران تفتیش بتایا ہے کہ یہ قتل صرف اور صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ جب اُن مولوی صاحب کی جانب سے سانحہ پشاور کی مذمت نہ کرنے کی بات کی گئی تو سبین محمود سمیت دیگر سول سو سائٹی نے ان کیخلاف پورے ملک میں مظاہرے کیا جس کاا نہوں نے یہ بدلا لیا ہے۔
اب یہاں میں سوال کرتا ہوں ہوں ان تمام لوگوں سے جو پاکستان میں رہتے اور بستے ہیں کیا آپ اس مولوی کی اس بات سے متفق تھے کہ جب اس نے سانحہ پشاور کی مذمت نہیں کی؟؟؟ ہر گز نہیں ااپ کو یہ بُری لگی ہو گی لیکن ااپ نے یہی کہا ہو گا کہ ارے بھئی چھوڑو کون بولے جو ہوتا ہے وہ ہونے دو !لیکن سبین محمود اور ان کے ساتھیوںکا قصوربس یہ تھا کہ ان لوگوں نے پاکستان میں اسلام کا غلط رخ پیش کرنے والوں کیخلاف آواز اٹھائی اور دنیا کو یہ بتا یا کہ پاکستان ایک پر امن ملک ہے اور یہاں کے لوگ امن پسند ہیں دہشت گردوں اور شدت پسندون کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آخر کب تک ہم غلط کو غلط نہیں بولیں گے ؟ ہم کب تک ظلم کے آگے خامو ش رہیں گے ؟
یا د رکھیں اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ان تمام تر نعمتوں سے نوازا ہے کہ جو دنیا کہ کسی بھی ملک میں ایک ساتھ موجود نہیں ہیں اسی لیئے دشمن کی اس ملک پر نگاہ ہے ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم حق اور سچ کا ساتھ دیں، بُرائی سے صرف اپنا دامن نہ بچائیں بلکہ بُرے کو بُرا کہیں بھی کیونکہ ظلم پر خاموش رہنے والے بھی ظالم کا حمایتی ہی کہلاتے ہیں۔