کاش یہ آخری دھماکہ ہو – کراچی ریزنر
کراچی گزشتہ تین دہائیوں سے جس دہشت گردی کا شکار ہے شاید ہی کوئی گھرانہ ایسا ہو کہ جس کا کوئی فرد کسی نہ کسی انداز میں دہشتگردی یا جرم کی کسی واردات کا نشانہ نہ بنا ہومیرے اپنے خاندان میں میرے دو بھائی ایک سے زیادہ دفعہ لوٹے جا چکے ہیں … خود مجھے قریباً دو برس قبل
ڈرائیونگ کے دوران میرے موبائل فون سے محروم کر دیا گیا .. کراچی میں جہاں کسی کے مال کی کوئی سلامتی نہیں وہیں جان کی بھی کوئی قدر نہیں … میری اہلیہ کے والد کوفرقہ وارانہ بنیاد پر قریباً بارہ برس پہلے قتل کیا گیا
گزشتہ رات میں گھر کے صحن میں تھا جب میں نے ایک دھماکے کی آواز سنی . میں اب تک کراچی میں ہونے والے ایسے پانچ بموں کے دھماکوں کی آواز خود سن چکا ہوں جن میں درجنوں قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہوا
١٥ نومبر، ٢٠٠٥ کی صبح میں دفتر جانے کے لیۓ تیار ہو رہا تھا جب میں نے ایک دھماکے
کی آواز سنی پی آئی ڈی سی پر ہونے والےاس دھماکے میں تین افراد کی جان گئی تھ
٣مارچ ، ٢٠١٣ کی شام میں فیڈرل بی ایریا کے بلاک ١٦ میں ایک دوست کے ساتھ ایک چاے کے ہوٹل پر بیٹھا تھا جب ہم نے نہایت زوردار دھماکہ سنا….دھماکہ تقریباً دو کلومیٹر دور عبّاس ٹاؤن میں ہوا تھا … اس کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ زمین لرزتی ہوئی محسوس ہوئی . عباس ٹاؤن سانحہ میں تقریباً ٥٠ لوگ جاں بحق ہوۓ تھے
٢٦ اپریل، ٢٠١٣ کی رات میں دستگیرمیں سنگم گراؤنڈ کے نزدیک ایک دوست کے گھر پر تھا جب اک دھماکہ سنا… گو کہ دھماکہ تقریباً دس / بارہ کلومیٹر دور سائٹ کے علاقے میٹروول میں ہوا تھا پھر بھی دھماکے کی شدت سے کھڑکیوں میں ارتعاش سا محسوس ہوا تھا اس دھماکے میں طالبان نے اے این پی کی
الیکشن میٹنگ کو نشانہ بنایا … اور دس جانیں گئیں.
٢٢ نومبر، ٢٠١٣ کی رات میں انچولی میں اپنے ایک عزیز کے گھر پر تھا … نزدیک ہی یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوۓ …
٧ افراد کی جان گئی
اور اب سے قریباً دو گھنٹے قبل میں نے ایک دھماکے کی آواز سنی … دھماکہ اورنگی ٹاؤن میں رنجیرز اور دہشتگردوں کے درمیاں مقابلے کے دوران ہوا
کاش کہ جس دھماکہ کی آواز میں نے کچھ دیر قبل سنی تھی، وہ دھماکہ کراچی میں ہونے والا آخری بم دھماکہ ہو