فیصل آباد: القاعدہ، طالبان اور سپاہ صحابہ کی حلیف شہبازشریف حکومت کی جانب سے پر امن سنی اتحاد کونسل اور صاحبزادہ حامد رضا کے خلاف انتقامی کاروائی
فیصل آباد میں مذہبی جماعت سنی اتحاد کونسل کی جانب سے لاؤڈ سپیکر ایکٹ کے خلاف ہڑتال کے دوران گھنٹہ گھر کے آٹھ بازاروں میں زبردستی دکانیں بند کروانے اور تاجروں سے ہاتھا پائی کے الزام میں نقضِ امن کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
سنی اتحاد کونسل کی جانب سے ہڑتال کی کال لاؤڈ سپیکر ایکٹ کے تحت ہونے والی اپنے کارکنوں کی گرفتاریوں کی وجہ سے دی گئی تھی۔ ایف آئی آر میں سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا کاظمی سمیت بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی کئی دوسری مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
سنی اتحاد کونسل کا دعویٰ ہے کہ پنجاب بھر میں ان کے 2100 کارکنوں کو لاؤڈ سپیکر ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
ہڑتال کے دوران مذہبی جماعتوں کے کارکن فیصل آباد کے گھنٹہ گھر اور اس کے اردگرد آٹھ بازاروں میں زبردستی دکانیں بند کروانے کی کوشش کرتے رہے۔ جس پر تاجروں سے ان کی ہاتھا پائی اور تلخ کلامی ہوئی۔
پولیس کی بھاری نفری موقعے پر موجود تھی، تاہم انھوں نے جھڑپوں کے دوران مداخلت سے گریز کیا۔ تاجروں کی بڑی تعداد نے ہڑتال سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے دکانیں بند کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے تاجروں سے زبردستی دکانیں بند کروانے کے الزام کو مسترد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نجی ٹی وی چینلوں پر دکھائی جانے والی فوٹیج میں اتحاد میں شامل 16 مذہبی تنظیموں کے کارکن آپس میں دست و گریبان تھے، تاجروں سے زور زبردستی کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہ سب ن لیگ کے سیاسی انتقام کا حصہ ہے۔
’ایک تو حکومت کے خلاف دھرنے کا حصہ ہونے کے باعث سنی اتحاد کونسل کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اور دوسرا یہ ہے کہ مختلف کالعدم تنظیموں خاص کر سپاہ صحابہ سے پنجاب میں ن لیگ کے وزرا کے گہرے روابط ہیں۔ یہ ان سے غلط کام کرواتے رہیں ہیں۔ اب یہ نفرت پھیلانے والی کالعدم تنظیموں کے خلاف تو کارروائی کر نہیں سکتے کیونکہ اگر ان کے خلاف اقدامات ہوں گے تو وہ وزرا اور حکومتی عہدےداروں کے خلاف زبان کھول دیں گے اس لیے ہمارے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔‘
حامد رضا کا کہنا تھا کہ وہ لاؤڈ سپیکر ایکٹ کے مخالف نہیں ہیں اور ان کی جماعت نے دہشتگردی کے خلاف حکومت اور فوج کے اقدامات کی مکمل حمایت کی ہے۔ وہ اب بھی اس موقف پر قائم ہیں کہ لاؤڈ سپیکر کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ تاہم اس قانون کے نامناسب اور یک طرفہ استمعال پر انھیں شدید تحفظات ہیں۔
’ہمیں اپنے 2100 کارکنوں کے بارے میں تشویش ہے جنھیں پنجاب حکومت کے ڈی سی اوز نے تحریری طور پر دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔ ملک اسحاق اور مولانا عبدالعزیز تو پکڑے نہیں جاتے اور ہم نشانے پر ہیں۔ ہمارا احتجاج تو سیاسی انتقام کے خلاف تھا۔ حکومت نے آپریشن کرنا ہے تو کالعدم تنظیموں اور ان مدرسوں کے خلاف کریں جن کے بارے میں رپورٹس اور ثبوت موجود ہیں۔
فیصل آباد کے ڈسٹرکٹ کوارڈینشن آفیسر نورالامین مینگل کا کہنا ہے کہ ’لاؤڈ سپیکر ایکٹ کے تحت کارروائی ضلعے کی انٹیلی جنس کمیٹی کی معلومات پر ہوتی ہے کہ کون لاؤڈ سپیکر کے ذریعے فرقہ ورایت اور اشتعال پھیلا رہا ہے۔ اور پھر کمیٹی ہی یہ سفارشات دیتی ہے کہ کس کو تحقیقات کے لیے نظربند کیا جائے یا کہ انھیں فورتھ شیڈول میں ڈال دیا جائے۔ اور اس ایکٹ کے تحت صرف سنی اتحاد کونسل کے خلاف کارروائی نہیں ہو رہی۔
’جن لوگوں کے خلاف انکوائری میں کچھ ثابت نہیں ہو گا انھیں پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا جائے گا۔ہم ان کا کریمنل ریکارڈ نہیں بنائیں گے۔ اس مقصد کے لیے عدالت نے ہمیں تین دن کا وقت دیا ہے اور ہم اس پر کام کررہے ہیں۔‘
فیصل آباد کے سٹی پولیس آفیسر سہیل جبیب کا کہنا ہے کہ پولیس نے ہڑتال کے دوران صبر اور برداشت کا مظاہرہ کیا تاکہ صورتحال مزید خراب نہ ہو، تاہم جن لوگوں نے زبردستی اور توڑپھوڑ کی ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ پولیس ایف آئی آر میں نامزد افراد کےخلاف چھاپے ماررہی ہے اور صاحبزادہ حامد رضا سمیت تمام لوگوں کو گرفتار کیا جائے گا۔‘
حامد رضا کا کہنا ہے کہ انھیں کوئی گرفتار کرنے نہیں آیا لیکن اگر پولیس انھیں گرفتار کرنا چاہے تو وہ خود تھانے جانے کو تیار ہیں۔
’میں کوئی مولوی عبدالعزیر نہیں ہوں کہ جو ڈیڑھ سو بچوں کے قتل کی توجیہات دے اور جب ایف آئی آر ہو تو کہے کہ کوئی مجھے گرفتار نہیں کر سکتا۔‘
Source:
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2015/03/150325_sunni_council_case_hk