سراج الحق دیوبندی اور جنرل حمید گل کے چہیتے دیوبندی طالبان نے بامیان کے مجسمے تباہ کرنے کے لیے شیعہ ہزارہ قیدیوں کو استعمال کیا
مرزا حسین 26 سال کے تھے جب طالبان کمانڈرز نے ان کو حکم دیا کہ بامیان صوبے میں واقع بدھا کے مجسموں پر بارودی مواد نصب کریں۔
بدھا مجسموں کو تباہ کر دیا گیا جس کے باعث دنیا بھر میں اس عمل پر تنقید کی گئی۔
افغانستان میں بدھا کے مجسموں کی تباہی کے 14 سال بعد بہت کچھ ہو چکا ہے لیکن مرزا حسین کے ذہن میں وہ واقعہ اب بھی تازہ ہے۔
انھوں نے بتایا: ’پہلے طالبان نے مجسموں پر ٹینکوں اور آرٹلری کے فائر کیے۔ لیکن جب مجسموں کو نقصان نہیں پہنچا تو ان کو تباہ کرنے کے لیے بارودی مواد نصب کیا گیا۔‘
مرزا نے بتایا کہ ان کو دیگر مقامی لوگوں کے ہمراہ طالبان نے ان کو کہا کہ بارودی مواد نصب کریں۔
مرزا حسین بامیان کی اکثریتی آبادی کی طرح شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ طالبان نے کئی ماہ کی شدید لڑائی کے بعد بامیان پر مئی 1999 میں کنٹرول حاصل کیا۔ طالبان کی آمد کے ساتھ کئی مقامی افراد افراد صوبہ چھوڑ کر چلے گئے۔
مرزا حسین نے کہا: ’میں 25 قیدیوں میں سے ایک تھا۔ شہر میں کوئی بھی شہری نہیں رہا تھا، سارے کے سارے طالبان جنگجو تھے۔ ہمیں اس لیے منتخب کیا گیا کیونکہ شہر میں کوئی اور بچا ہی نہیں تھا۔ ہم قیدی تھے اور ہمارے ساتھ ایسا برتاؤ تھا جیسے ہماری جان کی کوئی اہمیت نہیں۔‘
مرزا نے بتایا کہ طالبان بارودی مواد لے کر آئے۔ ’وہ بارودی مواد ٹرک پر لے کر آئے۔ ہم وہ مواد اپنی پیٹھ یا بازوؤں پر اٹھا کر مجسموں تک لے کر گئے۔‘
2001 کی موسمِ بہار کی ابتدا کے سرد دن ہم موت کے لیے تیار تھے۔ یا تو بارودی مواد پھٹنے کے باعث یا پھر طالبان گارڈ کے ہاتھوں۔ ایک موقعے پر میں نے دیکھا کہ ایک قیدی کی ٹانگ میں تکلیف تھی اور وہ بارودی مواد اٹھا نہیں پا رہا تھا تو اس کو گارڈ نے گولی مار دی۔‘
مرزا حسین کے بقول ان لوگوں کو مجسموں کے ارد گرد بارودی مواد نصب کرنے میں تین دن لگے۔ بارود نصب ہونے کے بعد تاریں اس مواد سے قریبی مسجد تک بچھائی گئیں جہاں سے ’اللہ اکبر‘ کے نعروں کے ساتھ دھماکہ کیا گیا۔
’دھماکے کے ساتھ ہی بدھا کے مجسموں کے سامنے دھواں اور شعلے تھے اور ہوا میں بارود کی بدبو تھی۔‘
مرزا حسین نے بتایا کہ طالبان امید کر رہے تھے کہ اس دھاکے سے پوری پہاڑی ہی نیچے آ جائے گی لیکن صرف بڑے والے مجسمے کی ٹانگیں ہی اڑیں۔
عالمی تنقید کے باوجود طالبان نے مزید بم اور بارودی مواد منگوایا جو صابن کی مانند تھا۔
’اس کے بعد مجسموں کو پوری طرح تباہ کرنے کے لیے وہ روزانہ دو سے تین دھماکے کرتے تھے۔ ہم نے مجسموں میں سوراخ کیے اور بارودی مواد ان سوراخوں میں نصب کیا۔ ہمارے پاس ڈرلنگ مشین نہیں تھی اس لیے اس عمل میں تقریباً 25 روز لگے۔‘
اس دوران قیدیوں کو تھوڑے سے چاول اور روٹی دی جاتی تھی جبکہ سرد راتوں میں پتلے کمبل ہی سے گزارا کرنا پڑتا تھا۔
جب بدھا کے مجسمے مکمل طور پر تباہ ہو گئے تو طالبان نے جشن منایا۔ ’انھوں نے ہوائی فائرنگ کی، رقص کیا اور نو گائیں ذبح کیں۔‘
مرزا حسین اب بامیان میں سائیکلوں کی مرمت کی دکان چلاتے ہیں۔
ان کو امید ہے کہ عالمی برادری بدھا کے مجسموں کو از سرِ نو تعمیر کرے گی۔ ان مجسموں کی تباہی میں اپنے کردار پر ان کو افسوس ہے۔
’میں صرف افسوس کر سکتا ہوں۔ مجھے اس وقت بھی افسوس تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ لیکن میں کچھ کر نہیں سکتا تھا کیونکہ اگر نہ کرتا تو وہ مجھے مار ڈالتے۔
Source:
http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/2015/03/150312_bamiyan_statues_destruction_story_rh