دہشتگردوں کا نیٹ ورک، جو آنکھوں سے اوجھل ہے

n00444074-b

اسلام ٹائمز: پہلے سیاسی جماعتوں یا سیاسی شخصیات جو کام کرائے کے قاتلوں سے کرواتی تھیں، جہاد افغانستان کے بعد سے یہ کام جہاد کے نام پہ منظم ہونے والے دہشت گردوں کے مختلف گروپ انجام دے رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر پاکستان دشنمن عناصر کی پہچان کے آغاز کے لئے اتنا کافی ہے، جوں جوں ہر شہری دقت کرتا جائے گا، سارے پردے اٹھتے جائیں گے، نیکی کی طرف بڑھیں گے تو اللہ کریم فرقان عطا کرے گا۔ ذہن کھلے رکھیں اور آگے بڑھیں، یاد رکھیں، اس بڑے سیناریو میں احمد لدھیانوی جیسے لوگ ایک چھوٹی سی پدی کے علاوہ کچھ نہیں۔

ہر پاکستانی پر ارض وطن کا بیٹا ہونے کے ناطے یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ملک کو درپیش خطرات کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ یہ ایک انفرادی ذمہ داری بھی ہے اور اجتماعی فریضہ بھی۔ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والی مصیبتوں میں سے، مذہب کے نام پہ دہشت گردی ایک بڑا چیلنج ہے۔ وہ عناصر جو کسی بھی طرح انتہا پسندی کو فروغ دے رہے ہیں، ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ انہیں پہچانے اور انکا راستہ روکے، اپنے بچوں کو ان مدارس، جماعتوں میں جانے سے بچائے۔ نہ انہیں کوئی چندہ دے، نہ ووٹ دے، نہ جھنڈا لگائے، نہ جلسوں میں شرکت کرے، نہ انکا ممبر بنے، نہ جہاد کے نام پہ دہشت گردی کی کوئی ٹریننگ لے، نہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا حصہ بنے، نہ پناہ دے، نہ دہشت گردوں کے لیے پاکستانی شخصیات اور حساس مقامات کی ریکی کرے، ان ساری باتوں کو یقینی بنانا اکیلے ریاستی اداروں کے بس میں نہیں، اس نیک کام کے لیے عوام کی شراکت نہایت ضروری ہے۔ ہر پاکستانی اتنا چوکنا اور آگاہ ہو کہ وہ دہشت گردوں کی نشاندہی شروع کر دے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کو ناکام بنانے کے لیے سخت حفاظتی بندوبست کیا جائے اور دوسرا یہ کہ ہر پاکستانی جانتا ہو کہ دہشت گرد کس طرح اپنے نیٹ ورک چلا رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ہم اس بات پر نظر رکھیں کہ ان کے سہولت کار کون ہیں اور کس طرح غلاف در غلاف دہشت گرد گروپوں کے لیے تقویت اور توانائی کا باعث ہیں۔ ہم کوشش کریں تو کوئی شک نہیں کہ اس نیک کام میں اللہ تعالٰی ہماری مدد کرے گا، ہر پاکستانی آنکھیں کھولے گا، انہیں پہچانے گا اور ان سے بیزاری اختیار کرے گا، تحریک قیام پاکستان کی طرح، تکمیل پاکستان کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوگا۔

وطن کو جان سے عزیز رکھنے والوں کے لیے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کا سیاسی اثر و رسوخ کیسے ختم کریں، اسکے لیے جان لیں کہ دہشت گردوں کے سیاسی اثر رسوخ کا ایک بازو نون لیگ اور پی ٹی آئی ہیں اور دوسرا جمہوریت کا راگ الاپتے دیوبندی دھڑے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نون لیگ کی بیک بون بریلوی پیر، جاگیر دار، صنعت کار، سرمایہ دار اور سیاسی ٹھگ ہیں، جبکہ دیوبندی دھڑوں میں مولوی، مولویوں کے بھائی، بہنوئی، داماد اور رشتہ دار ہیں، لیکن حقائق اتنے سادہ نہیں۔ سماج میں انکی جڑیں اس سے کہیں گہری ہوچکی ہیں۔ دہشت گردوں کو پہچاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستانی سیاست میں موجود انکے ہم خیال عناصر کی طاقت کے نکات کا اندازہ لگایا جاسکے اور اسکے بعد انہیں کمزور کرنے کی تدبیر ممکن بنائی جاسکے۔ دہشت گرد گروپ کس طرح پاکستانی معاشرے میں موجود ہیں اور کیسے وہ ریاست کی چولیں ہلا رہے ہیں، چند نکات نہایت غور طلب ہیں۔

دہشت گرد گروپوں کیساتھ کھلم کھلا اور ڈھکے چھپے تعلقات کے حوالے سیاسی جماعتوں اور مذہبی سیاسی جماعتوں کا معاملہ زیادہ پیچیدہ نہیں، سب سے زیادہ غیر جانبدار اور بے ضرر جانی جانے والی تبلیغی جماعت میں دہشت گرد گروپوں کا سب سے زیادہ نفوذ ہے۔ جماعت انہیں اپنی دعاوں میں یاد رکھتی ہے، انکے لیے سفر اور سامان کی ٹرانسپورٹیشن کا محفوظ اور سستا ذریعہ بھی ہے۔ تبلیغی جماعت کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان کا ظاہر میٹھا اور باطن زہریلا ہے، وہ دیوبندی مدارس اور جماعتیں جو دہشت گردوں کی حمایت کے حوالے سے بہت زیادہ بدنام ہیں، تبلیغی جماعت ان سے کہیں زیادہ بڑھ کر دہشت گرد گروپوں کی خدمت میں مصروف ہے، اگر پاکستان کے کونے کونے میں دہشت گردوں کو رسائی حاصل ہے تو انکے لیے پشتو زبان تبلیغیوں کی چلتی پھرتی جماعتیں سب سے اچھا مصنون غلاف ہیں۔ وزیرستان، وزیرستان سے ملحقہ کلاچی، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان کے دیہی علاقوں، باجوڑ، مہمند، گلگت، دیامر، چلاس، اندرون بلوچستان، اندرون سندھ، پنجاب کے دور دراز سرحدی علاقے، جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں، جیسے ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، چولستان، وہاڑی، عارف والا، رحیم یار خان، خانپور، حاصل پور، چشتیاں، بہاولنگر، کبیر والا، جھنگ، راجن پور، فاضل پور، دریائے سندھ کے بیٹ والے علاقوں سمیت، پوٹھوہار اور ہزارہ کے خشک اور منجمد ذہن والے دور افتادہ بستیوں سے نو عمر بچوں اور جوانوں کو دہشت گردی کے نیٹ ورک میں لانا اور بھرتی کرکے ٹریننگ سنٹرون تک لے جانا، اکیلے سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، انصار الامہ، جیش محمد، جند اللہ، تحریک غلبہ اسلام اور حرکت المجاہدین کے بس میں نہیں۔ 

مذکورہ دہشت گرد گروپ نئے افراد کو مقامی ایجنٹوں کے ذریعے بہلا پھسلا کر لے آتے ہیں، لیکن نئے آنے والے افراد اسوقت تک مطمئن نہیں ہوتے، جب تک دیوبندی مدارس کے بڑے مولوی اور تبلیغی جماعت کے مبلغین سے واضح طور پر انہیں اس کام کے لیے تائید اور حوصلہ افزائی نہیں ملتی۔ نئے آنے والے افراد کے سامنے تبلیغی جماعت، دیوبندی مدارس کے فضلا اور نامور مولوی سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، سمیت تمام مذکورہ اور غیر مذکورہ دیوبندی دہشت گروپوں کی تعریف، توصیف، دعا اور انکی کارکردگی پر خوشی کے اظہار کے ذریعے انکی تائید کرتے ہیں، اسکے بعد نئے آنے والے افراد ان گروپوں پر یقین کرتے ہیں کہ انکا نیٹ ورک انکو جہاں بھی، جس طرح بھی استعمال کرے گا، وہ انکے فرقے اور گروہ کے مذہب کے عین مطابق ہے۔ اگر باریک بینی سے دہشت گردوں کو ملنے والی عوامی حمایت، غریب، پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں دہشت گردوں کے اثر و رسوخ کا جائزہ لیا جائے تو تبلیغی جماعت اور دیوبندی مدارس کا بھیانک کردار سامنے آتا ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے یونیورسٹیوں، کالجز اور دینی مدارس میں دہشت گرد گروپوں نے نئے خون کی تلاش اور نوجوانوں کو پاکستان کیخلاف تیار کرنے کے لیے، مسلم اسٹودنٹس آرگنائزیشن کے نام سے طالب علموں کا نیا نیٹ ورک بھی کھڑا کیا ہے۔ یہ گروہ حربے کے طور پر مین اسٹریم صحافیوں، غیر ملکی سفارتکاروں اور مذہبی اسکالرز کو یوم پاکستان، یوم دفاع اور یوم آزادی کے مواقع پر اپنی تقریبات میں بلاتا اور انکے فوٹو سیشن بھی کرواتا ہے۔

جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام جیسی جماعتیں انتخابی سیاست میں وارد ہونے کی وجہ سے اپنے سیاسی مفادات اور ووٹ بینک بڑھانے کے لئے دہشت گرد گروپوں کی درپردہ حمایت اور سرکاری ایوانوں میں انکی حمایت کرنے کیساتھ ساتھ میڈیا میں انکی وکالت کرتے ہیں۔ انکا وطیرہ یہ ہے کہ یہ جماعتیں اور انکے قائدین رائے عامہ کو دہشت گردوں سے متعلق گمراہ کرنے میں پوری مہارت استعمال کرتے ہیں۔ ان کے اس طرز عمل سے تمام دیوبندی دہشت گرد دھڑوں کے حوصلے بلند رہتے ہیں، یہ انہیں قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں سپورٹ فراہم کرتے ہیں، جسکے بدلے میں دہشت گرد انہیں نشانہ نہیں بناتے۔ دہشت گردوں کو دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انکی آواز عسکری اور سیاسی حکمران اشرافیہ کے درمیان گونجتی رہتی ہے۔ ایک طرف بارود اور دھماکوں کی گھن گرج پاکستان کے در و دیوار لرزاتی ہے، اور دوسری طرف اسی ملک کے حساس اور طاقتور ایوانوں میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کے جواز بیان کئے جا رہے ہوتے ہیں۔

معاشرے میں دہشت گرد گروپوں کے رابطوں کی موجودگی کی طرح انکی مالیات بھی اہم ہے۔ بیرونی اور اندرونی امداد تین واسطوں سے دہشت گردوں تک پہنچتی ہے۔ پہلا ہے، چندہ سسٹم، جسے مدارس، مساجد اور خیراتی اداروں کے نام پہ چلایا جا رہا ہے، اس چندہ سسٹم میں مقامی تاجر سب سے زیادہ پیسہ دے رہے ہیں، چندہ کے نام سرمایہ جمع کرنے کے لیے گلی گلی، بازار بازار، گھر گھر صندوقیچیاں رکھی گئی ہیں، قربانی کے موقع پہ جانوروں کی کھالیں بھی اکٹھی کی جاتی ہیں۔ گندم، چنا، چاول، جیسی فصلوں کی کٹائی کے وقت اجناس بھی جمع ہوتی ہیں۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ دیوبندیوں کا ہر مدرسہ دہشت گردوں کا بھرتی مرکز، پناہ گاہ یا امدادی بازو تو نہیں، لیکن ہر مدرسے میں دہشت گرد گروپوں کا اثر و رسوخ موجود ہے۔ ڈبہ سسٹم جیسے آمدنی کے مذکورہ ذرائع فقط پاکستانیوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہیں، تاکہ عام آدمی یہی سمجھے کہ ان گروپوں کے آمدنی کا فقط یہی ذریعہ ہیں۔ دوسرے یہ کہ عوام انہیں اپنی طرح مفلوک الحال تصور کرتے ہوئے، لاشعوری طور استحصالی طبقات کیخلاف انکو اپنا نمائندہ سمجھتے رہیں اور رائے عامہ اگر مکمل طور پر ان کے حق میں نہ ہی ہو، تو کم از کم، اس معاملے میں کنفیوز ہی رہے۔

دہشت گرد گروپوں کی مالیات کا دوسرا ذریعہ غیر ملکی حکومتیں، این جی اوز اور غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں، جو مختلف ایجنٹوں کے ذریعے دہشت گردوں کو مال فراہم کرتی ہیں۔ این جی اوز اور پاکستان دشمن انٹیلی جنس ایجنسیاں غیر ملکی سفارتکاروں اور نام نہاد مذہبی اسکالرز کے ذریعے دہشت گردوں تک رقوم پہنچاتی ہیں۔ یہ سفارتکار مذہبی اسکالرز مختلف بہانوں سے پاکستان کے ہر کونے کھدرے میں پہنچ جاتے ہیں۔ این جی اوز، جنہیں یہ غلاف کے طور پر استعمال کرتے ہیں، کی تعداد پاکستان کے ہر علاقے میں، یونین کونسل کی سطح تک، سینکڑوں میں ہے۔ صحت، ہنر، زراعت، قرضے، ترقی اور خواتین کے حقوق کے نام پہ کام کرنے والی این جی اوز پاکستان کے چپے چپے میں موجود ہیں۔ انکی تعداد اتنی زیادہ، انداز اتنے جچے تلے، طریقہ کار اتنا گہرا اور نیٹ ورک اتنا مخفی ہے کہ پاکستانی حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیاں پورے طور پر ان سے واقفیت نہیں رکھتی ہیں۔ این جی اوز کا سب سے خطرناک نیٹ ورک چھوٹی چھوٹی تنظیموں پر مشتمل ہے، جو مقامی سطح پہ کام کرتی ہیں، یہ پورے ملک میں ہیں لیکن انکا نیٹ ورک غیر مرتکز ہے۔ عوام میڈیا اور سرکاری ایجنسیوں کے سامنے صرف چند این جی اوز ہیں، جو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کام کرتی ہیں۔

موساد اور بھارتی ایجنسی را کے اشتراک سے بننے والے نیٹ ورک کا دائرہ پاکستان کے تمام پسماندہ علاقوں تک پھیلا ہوا ہے، تبلیغی جماعت کے بھیانک کردار کی طرح ان امدادی، ترقیاتی اور خدمت کے نام پہ موجود این جی اوز کا کردار بھی غلاف در غلاف لپٹا ہوا ہے۔ انکا کام غیر ملکی ایجنسیوں کو پاکستان کی عسکری، جغرافیائی، آبادیاتی، زرعی، توانائی کے ذرائع، قدرتی ذخائر، مذہبی اختلافات جیسی حساس معلومات فراہم کرنا ہے۔ دہشت گرد گروپوں کی فعالیت کو مانیٹر کرکے انکی کارکردگی، انہیں درپیش مشکلات، حائل رکاوٹوں، انکے لیے موجود نئے نئے امکانات سے متعلق رپورٹس ان غیر ملکی طاقتوں کو فراہم کرنا، جو پاکستانی معاشرے کو سیکولرازم، انسانی حقوق اور مذہبی تشدد کو روکنے کے نام پر نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

وہ تمام مغربی، اسرائیلی، ترکش اور بھارتی ایجنسیاں جو ایک طرف پاکستان میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک چلا رہی ہیں، دہشت گردی کروا رہی ہیں، وہی دوسری طرف پاکستان میں تعلیم، تعمیر نو، ترقی، ہنر، مالی امداد اور فلاح و بہبود کے نام پر کام کرنے والے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ایک طرف دنیا کے سامنے پاکستان کی بھیانک تصویر پیش کر رہی ہیں اور دوسری طرف پاکستانی نسلوں کو غیر محسوس طریقے سے پاکستان اور اسلام سے متنفر کرنے میں مشغول ہیں۔ جو طاقتیں بالواسطہ طور پر دہشت گردوں کو فنڈنگ، ٹریننگ جیسی سپورٹ فراہم کر رہی ہیں، وہی طاقتیں پاکستانی میڈیا، بالخصوص ٹی وی چینلز میں روشن خیالی اور لادینیت کے نعرے بلند کر رہی ہیں۔ دیوبندی سیاسی جماعتیں، ذرائع ابلاغ میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کے جواز بیان کرتی ہیں، این جی اوز سے منسلک لوگ اسی کو جواز بنا کر اسلام کو دہشت گردی سے جوڑتے ہیں اور یوں معاشرے میں لادینیت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ غیر ملکی طاقتیں دراصل ایک تیر سے دو شکار کرتی ہیں، ایک تو دہشت گردی کے ذریعے پاکستانی ریاست کو غیر مستحکم کر رہی ہیں اور دوسرے دین اسلام کو بدنام کرنے میں انہیں آسانی ہو رہی ہے۔

دہشت گرد گروپوں کی فنانسنگ کا تیسرا ذریعہ، لوٹ مار، چوری چکاری، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان جیسی وارداتیں ہیں۔ اس ضمن میں مذہبی سیاسی جماعتوں، مدارس اور این جی اوز کی بجائے دہشت گرد گروپوں کا ساتھ دینے والے پاکستان کے مانے ہوئے قبضہ گروپ، مافیاز، اسمگلرز، اور جرائم پیشہ گینگ شامل ہیں۔ عام آدمی کے نزدیک یہ مشکل راستہ ہے، لیکن سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروپوں کو سب سے زیادہ آمدن اسی ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ انکے لئے آسان، تیز ترین اور سستا طریقہ ہے۔ ایک تو دہشت گرد گروپوں کو فی الفور رقوم مل جاتی ہیں، دوسرے بڑی رقوم ہونے کی وجہ سے سہولت کاروں کو حصہ دینے میں نقصان نہیں ہوتا۔ مدرسوں، این جی اوز اور مولویوں کے ذریعے ملنے والی فنڈنگ میں اکثر دہشت گرد گروپوں کا پیسہ واسطہ بننے والا مولوی یا این جی او چوری سے کھا لیتے ہیں، لیکن جرائم پیشہ گینگ اپنے قول کے پکے اور پیشہ وارانہ معاملات میں دیانتدار ہوتے ہیں، یہ دوستوں کے دوست ثابت ہوتے ہیں۔

جن دیوبندی مولویوں کو طالبان دہشت گردی کا سامنا ہے، انہوں نے دہشت گردی کے نام سے حاصل ہونے والا پیسہ خود کھایا ہے، جسکی وجہ سے انکی اور ان سے منسلک دہشت گرد گروپوں میں دشمنی پیدا ہوئی ہے، ورنہ یہ اندر سے ایک ہیں، انکی فکر اور آئیڈیالوجی ایک ہی ہے۔ جرائم پیشہ گینگز کے ساتھ مل کر پیسہ اکٹھا کرنے میں دہشت گرد گروپوں کو اور بھی کئی فوائد حاصل ہوئے ہیں، جیسے کئی مفرور مجرموں کی کھیپ مل جاتی ہے، نئی نئی پناہ گاہیں ملی ہیں، چونکہ تمام قومی سیاسی جماعتیں ہر یونین کونسل، تحصیل، ضلع کے کاروباری مراکز، صنعتی علاقوں اور شہروں میں قبضہ گروپوں اور بھتہ خوروں کی پہلے ہی سرپرستی کر رہی ہوتی ہیں، انہی کے ذریعے دہشت گردوں کے تعلقات سیاسی رہنماوں، وڈیروں اور سیاسی حکمران اشرافیہ سے قائم ہوتے اور برقرار رہتے ہیں۔ یہی سب سے اہم نکتہ ہے جہاں دہشت گرد گروپوں اور غیر ملکی آقاوں کی سپورٹ سے کام کرنے والی حکومتی اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے مفادات ایک ہو جاتے ہیں۔

ضرورت پڑنے پر دہشت گروپ ان سیاسی جماعتوں کیساتھ، سیاسی جماعت کے عسکری ونگ کے توسط سے قائم ہونے بالواسطہ تعلقات کی بدولت سیاسی جماعت، یا سیاسی شخصیت کے لیے، انکے مخالفین کو کمزور کرنے، انہیں محدود کرنے، انہیں دباو میں رکھنے، حتیٰ کہ ٹھکانے لگانے جیسے کاموں کے لیے خدمات انجام دیتے ہیں۔ پہلے سیاسی جماعتوں یا سیاسی شخصیات جو کام کرائے کے قاتلوں سے کرواتی تھیں، جہاد افغانستان کے بعد سے یہ کام جہاد کے نام پہ منظم ہونے والے دہشت گردوں کے مختلف گروپ انجام دے رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر پاکستان دشنمن عناصر کی پہچان کے آغاز کے لیے اتنا کافی ہے، جوں جوں ہر شہری دقت کرتا جائے گا، سارے پردے اٹھتے جائیں گے، نیکی کی طرف بڑھیں گے تو اللہ کریم فرقان عطا کرے گا۔ ذہن کھلے رکھیں اور آگے بڑھیں، یاد رکھیں، اس بڑے سیناریو میں احمد لدھیانوی جیسے لوگ ایک چھوٹی سی پدی کے علاوہ کچھ نہیں۔ و ما علینا۔

Source:

http://www.islamtimes.org/ur/doc/article/444074

Comments

comments