جوش ملیح آبادی – تادیر اس آواز کو دیکھا ہے میں نے – عامر حسینی
کل پریس کلب خانیوال میں ایک صاحب ہیں پروفیسر احمد ساقی ان کی کتاب ” کھنکتی خاک ” کی تقریب رونمائی تھی اور مجھے ایک دوست نے یہ کتاب پڑھنے اور پھر اس پر کوئی مضمون پڑھنے کو کہا تھا لیکن میں نے اس کتاب کو گھر لاکر اوطاق میں سجادیا اور مرے نزدیک یہ کتاب بس یونہی سی تھی جس نے مرے اندر موجود لکھاری کو کچھ لکھنے کی کوئی ترغیب نہیں دی ، اب تقریب رونمائی کا وقت ہوا چاہتا تھا اور میں نے بہت چاھا کہ اس کتاب کے چند اشعار کو یاد کرلوں تو نجانے میں کون سی قبض حفظ کا شکار تھا کہ مجھے کوئی ایک شعر بھی یاد نہ ہوسکا اور میں پریس کلب ہال میں خالی زھن کے ساتھ اپنی نشست پر بیٹھا ہوا
ڈاکٹر دلاور ہیں ہمارے شہر کے ، بہت اعلی ادبی زوق کے مالک ہیں اور ان کا حافظہ کمال کا ہے اور محفل کو اپنی حس مزاح سے کشت و زعفران بنانے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے ، مجھے کہنے لگے
میاں ! مضمون گھر تو نہیں بھول آئے
میں نے ان کی تسلی کے لئے اپنی جیکٹ سے دو کاغذ دور سے دکھادئے جو کہ دوسری طرف سے بھی ویسے ہی خالی تھے جیسے اس طرف سے خالی نظر آرہے تھے جو میں نے ان کو دکھائی ، وہ مطمئن ہوگئے ، اور تقریب کے شروع میں ہی انہوں نے مجھے بلالیا اور میں جب میں ڈائس کے سامنے کھڑا ہوا تو یقین کریں کہ میں پروفیسر احمد ساقی کی بجائے باقی بولنے لگا تو سامنے لگے بینر پر لکھے ان کے نام نے مجھے شرمندہ ہونے سے بچالیا لیکن اس کے بعد چند سیکنڈ کے لئے جیسے مرا دماغ بلینک ہوگیا ہو مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا بولوں ، اب سوچا کہ جس دوست نے یہ پروگرام رکھا ہے وہ ناراض ہوجائے گا تو اس کی دلجوئی کے لئے تھوڑی سی ادبی بدیانتی کا فیصلہ کرہی ڈالا اور میں نے آغاز ہی میں ترکیب ” کھنکتی خاک ” کی نامانوسیت کا اظہار کیا اور پھر ان کی شاعری کو وحدت الوجودی شاعری قرار دے ڈالا اور صاحب کلام کو تصوف کا شناور اور نہ جانے کیا کچھ دو سے تین منٹ میں بناڈالا اور اس بددیانتی کے بعد میں کچھ گھٹن کا شکار ہوا میں ھال سے باہر آیا اور نہ جانے مجھے کیا ہوا اور زور کی مجھے ابکائی آئی اور میں نے قے کردی ( جن کے دل اس کیفیت کے بیان سے خراب ہوں ان سے معذرت )
کچھ دیر بعد پھر ھال میں آیا تو صاحب تقریب خطاب شروع کرچکے تھے اور انہوں نے اپنے خطاب کے آغاز ہی میں یہ کہا کہ وحدت الوجودی وہ ہرگز نہیں ہیں ، ان صاحب کو مغالطہ ہوا ، اور بعد میں مجھے ان کے ایک دوست نے بتایا کہ وہ تو پکے اہلحدیث ہیں تو یہ سنکر مری ہنسی روکنے میں نہ آئی اور سوچا کہ زندگی میں پہلی مرتبہ مسلک حسن عسکری سے انحراف کیا اور اس میں بھی اندازے کی غلطی نے کیا ستم ڈھادیا
بہرحال آج حضرت شبیر حسن خان المعروف جوش ملیح آبادی کا یوم وفات ہے اور مرا مقصد جوش کے فن ، ان کے کلام کے محاسن بیان کرنا نہیں ہے بلکہ جوش ملیح آبادی کے حوالے سے گذشتہ دنوں لاہور میں فرنٹئیر پوسٹ کے دفتر واقع 10 کوئینز روڈ میں روزنامہ میدان کے ایڈیٹر حیدر جاوید سید ، پنجابی کے ماہر ادیب و شاعر اکرم شیخ کے کمرے میں نزو علی فرتاش کی زبانی سنا ایک قصہ بیان کرنا مقصود ہے ، ویسے تو اس نشست میں شورش کاشمیری ، مجید نظامی ، نسیم حجازی ، مفتی محمود کے قصے بھی سنائے گئے جن کا احوال پھر سہی
نزو علی فرتاش کراچی سے اس وقت لاہور آئے تھے جب دور ایوبی میں ان کی کتاب پریس لاز برانچ کے انچارج نے ضبط کرلی اور ان کو اپنے پاس پیش ہونے کا حکم جاری کیا اور یہ رہئس امروہوی کے پاس آئے تو انھوں نے ان کو شورش کے نام ایک رقعہ لکھ کر دے دیا ، خیر جب یہ پریس لاز برانچ پہنچے تو پتہ متعلقہ افسر سید اختر علی شاہ بخاری ہیں اور انہوں نے کہا کہ
نزو تم سے ملے بہت عرصہ ہوگیا تھا ، تم سے ملنے کو من کررہا تھا ، سوچا ایسے تو تم آنے والے ہو نہیں تو کتاب ضبط کرلی ، معلوم تھا بھاگے آو گے
یہ اختر صاحب بھی کمال طبعیت رکھتے تھے ، مجلس احرار والوں کے معتقد تھے اور پابند صوم و صلوات تھے لیکن مغرب کی نماز پڑھتے اور ابھی مصلے سے اٹھتے نہ تھے کہ ملازم کو ” بوتل ” لانے کا کہتے اور ملازم بوتل لاتا ، کارک کھولتے ، سونگھ کر اسے میز پر بمعہ دیگر سامان سجانے کا حکم دے دیتے تھے اور آخری سانس لینے تک یہی دستور رہا ، انہی کا خط لیکر نزو ” نقوش ” والے طفیل صاحب کے پاس پہنچے ، ان دنوں نقوش کا خطوط نمبر شایع کرنے کی تیاریاں ہورہی تھیں ، طفیل صاحب نے ان کے زمے نقوش کے خطوط نمبر کی تدوین کردی اور انہوں نے اردو ادب کے عظیم مشاہیر کے خطوط تدوین کی سعادت حاصل کی اور ان میں جوش ملیح آبادی کے خطوط بھی تھے ، یہ خطوط جوش ملیح آبادی نے اپنے معاصرین کے نام لکھے تھے ، نزو علی کہنے لگے کہ میں نے جب ان خطوط کو دیکھا تو ہر خط کے نیچے جوش صاحب خط کا اختتمام اس طرح سے کرتے
جوش تعالی یا جوش ا….ہ تعالی
میں نے ان کو جوں کا توں کتابت کے لئے جانے دیا ، جب مسودہ طفیل صاحب کے پاس پہنچا تو وہ گھبرا گئے
نزو میاں یہ غضب کیا ، لوگ مرے دفتر کو جلادیں گے
میں نے کہا کہ جناب اگر اس کو کاٹا گیا تو ایک تو جوش کی طبعیت پر یہ گراں گزرے گا اور دوسرا یہ علمی بددیانتی بھی ہوگی ، میں نے ایسا کرنے سے انکار کیا لیکن بہت زور دینے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ جوش ا……ہ تعالی کی بجائے جوش تعالی رہنے دیا جائے گا اور یہ ایسے ہی یہ نقوش میں شایع ہوئے
نزو علی فرتاش نے بتایا کہ جوش ملیح آبادی جب بھی لاہور آتے تھے تو وہ یا تو میر عترت حسین کے گھر واقع کرشن نگر ٹھہرتے تھے یا پھر شوکت رضوی مرحوم کے ہاں ٹھہرتے تھے
جوش صاحب کی ” یادوں کی بارات ” اس لحاظ سے اہم سوانح عمری تھی جس نے جو بیت گیا اسے سچ سچ بیان کرنے کی طرح ڈالی اور ایک نیک پاکباز ماضی کی تخلیق کرنے کی روائت کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور جوش اس معاملے میں اپنے سے پہلے ، معاصرین اور بعد میں آنے والوں پر سبقت لے گئے
میں جب یہ تحریر لکھنے لگا تو جوش کی بہت غزلیں مجھے یاد آنے لگیں اور کئی ایک رباعیات نے بھی آگھیرا ، ان کی قرات میں آپ کو شریک کرنے کو دل کررہا ہے
زرا اسے دیکھئے
اے دل! جنونِ عشق کے ساماں کو کیا ہوا؟
ہوتا نہیں ہے چاک، گریباں کو کیا ہوا؟
فکرِ سُخن کا نور کہاں جا کے چھپ گیا؟
تخئیل کے تبسمِ پنہاں کو کیا ہوا؟
رسمِ وفا کی کاہشِ پیہم کدھر گئی؟
ذوقِ نظر کی کاوشِ پنہاں کو کیا ہوا؟
گلشن ہیں زرد، پھول کہاں جا کے بس گئے؟
کانیں ہیں سرد، لعلِ بدخشاں کو کیا ہوا؟
ہے خاکِ نجد برف میں گویا جھلی ہوئی
اے قیس عامری! دلِ سوزاں کو کیا ہوا؟
چھائی ہوئی ہے چہرۂ ہستی پہ مُردنی
الطافِ خضر و چشمۂ حیواں کو کیا ہوا؟
وہ جوہری رہے، نہ وہ گوہر نظر فریب
بازارِ مصر و یوسف کنعاں کو کیا ہوا؟
شاخوں میں وہ لچک ہے، نہ غنچوں میں تازگی
طبعِ نسیم و فطرتِ بستاں کو کیا ہوا؟
اگلی سی وہ چمک نہیں اب آشیاں کے گِرد
کُنج قفس میں مرغ پرافشاں کو کیا ہوا؟
کب سے ہیں بے نواؤں کے دستِ طلب دراز
اے روحِ فیض! ہمتِ سلطاں کو کیا ہوا؟
ہر اک صدف ہے آنکھ میں آنسو بھرے ہوئے
یارب! نُزولِ قطرۂ نیساں کو کیا ہوا؟
آنکھیں ہیں بند، دید کی حسرت پہ کیا بنی!
دل ہے خجل، تصور جاناں کو کیا ہوا؟
موجِ صبا میں اب نہیں انفاسِ عیسوی
گوہر فشانیِ لَبِ خوباں کو کیا ہوا؟
سُونی ہیں ایک عمر سے راتیں شباب کی
بزم آفرینیِ مَہِ تاباں کو کیا ہوا؟
ناخن سے اپنے چھیڑ رہا ہے کوئی نگار
اس پر بھی سُن پڑی ہے، رگِ جاں کو کیا ہوا؟
کعبے میں یار پا گئے اصنام آذری
کاشانۂ خلیل کے درباں کو کیا ہوا؟
اب آستانِ کفر پہ ہیں سجدہ ریزیاں
اے کردگار، مرد مسلماں کو کیا ہوا؟
سینے میں اس گروہ کے کیوں اُڑ رہی ہے خاک
کنج حدیث و دولتِ قرآں کو کیا ہوا؟
قبضوں پہ ہاتھ ہیں، نہ جبینیں ہیں خاک پر
ذوقِ جہاد و جذبۂ عرفاں کو کیا ہوا؟
شانِ دغائے حمزہ و حیدر کدھر گئی
رُوح دُعائے بوذر و سلماں کو کیا ہوا؟
عزمِ حسین ہے، نہ ثباتِ ابو تراب
صبرِ جمیل و ضبطِ فراواں کو کیا ہوا؟
ڈنکے بجا رہے ہیں شجاعت کے گوسفند
کوئی بتاؤ، شیرِ نیستاں کو کیا ہوا؟
تن کر مقامِ صدر پہ بیٹھے ہیں زِشت رُو
اے بزم ناز! خسرو خوباں کو کیا ہوا؟
پھر ابرِ سامری سے برستے ہیں اژدہے
یارو! عصائے موسیِ عمراں کو کیا ہوا؟
آنکھیں دکھا رہے ہیں ستارے خدا
اے آسمان! مہرِ درخشاں کو کیا ہوا؟
اے جوش! دیکھ منہ تو گریباں میں ڈال کر
کیا پوچھتا ہے، “مردِ مُسلماں کو کیا ہوا؟
جوش کی چند رباعیات دیکھیں
ماضی کے ہر انداز کو دیکھا میں نے
کل نام ترا لیا جو بُوئے گُل نے
تا دیر اُس آواز کو دیکھا میں نے
زَردَار کا خَنّاس نہیں جاتا ہے
ہر آن کا وَسواس نہیں جاتا ہے
ہوتا ہے جو شدّتِ ہَوَس پر مَبنی
تا مَرگ وہ افلاس نہیں جاتا ہے
کیا صرف مُسلمان کے پیارے ہیں حُسین
چرخِ نوعِ بَشَر کے تارے ہیں حُسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسین
اوہام کو ہر اک قَدَم پہ ٹھکراتے ہیں
اَدیان سے ہر گام پہ ٹکراتے ہیں
لیکن جس وقت کوئی کہتا ہے حُسین
ہم اہلِ خَرابات بھی جُھک جاتے ہیں
سینے پہ مرے نقشِ قَدَم کس کا ہے
رندی میں یہ اَجلال و حَشَم کس کا ہے
زاہد، مرے اس ہات کے ساغر کو نہ دیکھ
یہ دیکھ کہ اس سر پر عَلَم کس کا ہے
اِس وقت سَبُک بات نہیں ہو سکتی
توہینِ خرابات نہیں ہو سکتی
جبریلِ امیں آئے ہیں ……………….کے لیے
کہہ دو کہ ملاقات نہیں ہو سکتی
لفظِ “اقوام” میں کوئی جان نہیں
اک نوع میں ہو دوئی، یہ امکان نہیں
جو مشرکِ یزداں ہے وہ ناداں ہے فَقَط
جو مشرکِ انساں ہے وہ انسان نہیں