مولانا عبد العزیز کی معافی، تکفیری دہشت گردی اور چودھری نثار کی منطق – وسعت الله خان

150220121300_nisar_ali_khan_640x360_bbc_nocredit

پاکستان کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک بار پھر اپنی وضع داری اور وسیع القلبی سے مجھ جیسے ناشکروں کا دل موہ لیا ہے۔

آپ نے کہیں اور نہیں واشنگٹن جا کر یہ انکشاف کیا کہ 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کا دفاع کرنے والے لال مسجد اسلام آباد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے تحریری معافی نامہ داخل کردیا ہے لہذا اب اگر انھیں گرفتار کیا گیا تو دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن سے توجہ بٹ کر ایک نیا شاخسانہ کھڑا ہوسکتا ہے جس کا فائدہ شدت پسندوں کو پہنچےگا۔

تاہم چوہدری صاحب نے یہ وضاحت نہیں کی کہ مولانا عبدالعزیز نے یہ معافی نامہ کب، کہاں اور کسے جمع کرایا؟ اس کی عبارت کیا ہے؟ اور اس معافی نامے کے بعد مولانا کے خلاف درج ایف آئی آر کا کیا ہوگا؟ جس کی بنیاد پر ایک سے زائد بار جاری ہونے والے عدالتی سمن کی بار بار عدم تعمیل ہوئی اور اگر کل کلاں مولانا صاحب نے کہہ دیا کہ انھوں نے ایسا کوئی بیان جمع نہیں کرایا تو چوہدری صاحب کی کیا رہ جائے گی؟

یہ بھی طے نہیں کہ سرکار کی جانب سے وسیع تر قومی مفاد میں عفو و درگزر کی یہ غیر اعلانیہ پالیسی محض مولانا عبدالعزیز جیسی ہستیوں کے لیے ہی مخصوص ہے یا پھر ہر پاکستانی شہری کسی بھی واقعہ پر کچھ بھی فرما کر تحریری معافی داخل کرنے کا اہل ہے؟

شکر ہے مولانا نے تحریری معافی مانگ کر بڑے پن کا ثبوت دے دیا۔ اگر وہ یہ کرم فرمائی نہ بھی کرتے تب بھی حکومت کیا اکھاڑ لیتی؟

اہلِ سنت والجماعت عرف سپاہِ صحابہ سمیت متعدد کالعدم تنظیمیں آج بھی کراچی، اسلام آباد اور راولپنڈی میں نام بدل کر دھڑلے سے کافر ساز بلا اجازت ریلیاں نکالتی ہیں اور حکومت ایسی با مروت کہ ان ریلیوں کو پولیس کا تحفظ فراہم کرتی ہے اور ان کے مٹھی بھر سول سوسائٹی ٹائپ مخالفین کو بھی اخلاقاً قابو میں رکھتی ہے تاکہ کشیدگی نہ پھیلے۔

چوہدری نثار صاحب کی یہ وضاحت خاصی اہم ہے کہ مولانا عبدالعزیز کو گرفتار کرنا حکومت کے لیے کوئی مسئلہ نہیں مگر اس کے نتیجے میں کوئی سنگین واقعہ ہو گیا تو اس کے نہایت منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔

اس منطقِ نثاریہ کی روشنی میں آپ دیکھیے کہ مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کو اب تک ٹالنے کے سبب ملک کیسے کیسے سنگین واقعات سے محفوظ رہا ہے۔ مثلاً شکار پور کی امام بارگاہ میں صرف 63 افراد ہلاک ہوئے اگر مولانا خدا نخواستہ گرفتار ہوجاتے تو 163 مرتے۔

لاہور پولیس لائنز دھماکے میں صرف آٹھ جانیں گئیں اگر مولانا کو گرفتار کر کے عدالت کے سامنے پیش کردیا جاتا تو یہی آٹھ، 80 بھی بن سکتے تھے

راولپنڈی میں چٹیاں ہٹیاں کے امام بارگاہ میں دھماکے سے صرف سات لوگ مارے گئے مولانا لاک اپ میں ہوتے تو یہی دھماکہ 70 لوگوں کی جان لے لیتا۔

کراچی میں روزانہ کی ہلاکتوں کا اوسط سات آٹھ صرف اس لیے ہے کہ حکومت نے مولانا عبدالعزیز پر اب تک ہاتھ نہیں ڈالا ورنہ تو کراچی کا ڈیتھ ریٹ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو درپیش رن ریٹ کا ریکارڈ بھی توڑ ڈالتا۔

مگر وزیرِ داخلہ صاحب کون سا ایسا سنگین واقعہ ہے جو اب تک نہیں ہوا لیکن اگر ریاست فلاں ابنِ فلاں پر ہاتھ ڈالے گی تو ہو جائے گا۔ یہ جو 50 ہزار سے زائد لوگ اب تک اپنی موت کی وجہ جانے بغیر مار دیے گئے کیا اس سے بھی زیادہ سنگین کوئی واقعہ منتظر ہے ؟ اس سے زیادہ سنگین تو اب ایک ہی واقعہ ہوسکتا ہے کہ کوئی ملک یا گروہ کسی شہر پر ایٹم بم گرا دے۔

لیکن ہاں ان سب سے بھی زیادہ سنگین واقعہ یہ ہے کہ آپ 16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول میں 150 بچوں اور اساتذہ کے قتلِ عام کے بعد سے لاہور کی پولیس لائنز پر ہونے والے خود کش حملے تک ہونے والے بیسیوں چھوٹے بڑے واقعات کے باوجود آج بھی وزیرِ داخلہ ہیں اور وہ بھی ایسی گھگھو گھوڑا حکومت کے علامتی وزیرِ داخلہ جس نے اختیارات کی آؤٹ سورسنگ صرف اس شرط پر دان کردی کہ جسے جو کرنا ہے کرو پر ہمارا نشہ مت توڑو۔

ایسا سستا تو جہانگیر نے خود کو نورجہاں کے ہاتھ بھی نہیں بیچا تھا۔

Source:

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2015/02/150222_baat_sy_baat_rwa

Comments

comments