کرکٹ زوال پزیر یا سارے کھیل؟ وجوہات اور اسباب – ایک اور زاویہ — عمار کاظمی
پاکستان ہندوستان سے ایک بار پھر کرکٹ میچ ہار گیا۔ پاکستان میں کرکٹ زوال پزیر ہے۔ نہیں معذرت چاہتا ہوں پاکستان کے تقریبا تمام بڑے کھیل زوال پزیر ہیں۔ قوم اس معاملے کو لے کر دکھی نظر آتی ہے مگر اسباب پر غور کرنے کو تیار نہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان کی کبڈی ٹیم بھی ہندوستان سے ہار گئی تھی۔ گزشتہ برس گجرانوالہ میں ہونے والے دنگل میں پاکستانی پہلوان ہندوستانی پہلوانوں ہار گئے۔ ہاکی میں بھی ہم ان سے متعدد بار ہار چکے ہیں۔ ویسے تو ملک میں کھیلوں کی ابتری کی اور بھی بہت سی وجوحات ہیں۔ مثال کے طور پر سیاسی مداخلت اور تقرریاں، غیر متعلقہ افراد کا سربراہ بنایا جانا، ریاست کی کھیلوں اور صحت مند سرگرمیوں سے لا تعلقی اور ان کا ترجیحات میں شامل نہ ہونا، یعنی سڑکوں اور پارکوں پر کھربوں روپے خرچ کرنا مگر کھیل کے میدانوں میں کمی وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام وجوہات کا پہلے بھی کئی بار زکر کر چکا ہوں لہذا اس بار ہمارے زمینی حقائق اور معروضی حالات کے مطابق چند مزید قابل غور زمینی اور عمرانی وجوہات پیش خدمت ہیں۔
محض چار پانچ شہروں سے لڑکے لیے جاتے ہیں۔ باقی پاکستان کے چھوٹے شہروں کے آدھے سے زیادہ نوجوان تبلیغیوں اور جہادیوں نے پیچھے لگا رکھے ہیں۔ ہاں مدرسوں کے بچے روزانہ کرکٹ اور فٹبال کھیلتے ہیں لیکن انھیں ورلڈ کپ یا انٹرنیشنل کرکٹ میں بھیجنے کا خطرہ کون مول لے گا؟ یعنی اگر میچ ہار گئے تو مخالف ٹیم کی سکیورٹی کا ذمہ کون لے گا؟ دوسری طرف صرف ضلع قصور میں حافظ سعید صاحب کے ایک لاکھ رجسٹرڈ ممبر ہیں۔ تبلیغی اور دیگر جہادی اس کے علاوہ ہیں۔ تو جب نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ ان کی طرف نکل جائے گا تو اچھا اور بڑا ٹیلنٹ ہنٹ کیسے ممکن ہوگا؟ مجھے اچھے طرح یاد ہے کہ ہمارے دور کی کلب کرکٹ میں آج کی نیشنل سائیڈ کے اکثر لڑکوں سے بہتر کھلاڑی ہوتے تھے۔ کچھ لڑکے جو ہمارے ساتھ کھیلا کرتے تھے اب انھوں نے لمبی لمبی داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں۔
تبلیغ اور قاتل جہاد نے پاکستان کو مکمل طور پر ہر شعبے میں برباد کر رکھا ہے۔ اس بربادی کے اثرات پورے معاشرے پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ جب تبلیغی اور جہادی نہیں تھے، مدرسے کم تھے اس وقت کا پاکستان آج کے پاکستان سے کروڑ درجہ بہتر تھا۔ نفرتیں کم تھیں، بھائی چارہ تھا، مختلف مکاتب فکر کے لوگ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے تھے، خوشیاں بانٹی جاتی تھیں، اب کیا ہے؟ ویسے تو تبلیغی بھائی ہر گلی محلے میں دروازے کھٹکھٹاتے پھرتے ہیں مگر میں نے آج تک انھیں دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے کے لواحقین کے دکھ درد میں شریک ہوتے نہیں دیکھا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان جہادیوں، تبلیغیوں اور مدرسوں کی وجہ سے پاکستان میں انسانیت کا معیار گر چکا ہے۔
دوستوں کا ماننا ہے کہ کرکٹ پر بڑے شہروں کی اجارہ داری کسی حد تک کم ہوئی ہے۔ ہاں کچھ لڑکے بڑے شہروں سے ہٹ کر آئے ہیں مگر ان کے پیچھے بھی چند مخصوس کلب ہیں یا پھر سیالکوٹ کی سپورٹس انڈسٹری ہے۔ یہ کوئی نئی پیش رفت نہیں ہے۔ ہمارے دور میں بھی منظور الہی، ظہور الہی اور مشتاق احمد بسکٹ فیکٹری کے مالک بشارت اور اس کے ذریعے پاکستان ٹوبیکیو کمپنی کی وجہ سے ٹیم میں آئے تھے۔ تاہم وسیم اکرم کے علاوہ کوئی بھی سفارشی بڑا نام نہیں بن سکا۔ باقی سو لوگوں میں سے ٹیم سلیکشن اور بیس لاکھ میں سے سلیکٹ کرنے میں فرق تو بہت بڑا ہوتا ہے۔ ہندوستان میں ان کے شہروں کی ٹیمیں ہیں۔ کلب کرکٹ بہتر ہے۔ نوجوانوں کا ذہن مذہب کی بجائے ترقی پسندی میں ہے۔ صحت مند مقابلوں کا رجحان ہے۔ زندگی ناچتی گاتی ہے اور یہاں زندگی شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنے میں مصروف ہے، مذہب کے نام پر قتل کر کے جلد از جلد جنت میں جانے کے لیے بے قرار ہے۔
کچھ دوست تبلیغی بھائیوں پر تنقید کو بے جا تنقید خیال کرتے ہیں لیکن میرے خیال میں یہ بے جا تنقید نہیں ہے۔ مشتاق، یوصف، انضمام، ثقلین مشتاق، سعید انور ان سب کی کرکٹ تبلیغی سرگرمیوں کے بعد ہی متاثر ہوئی۔ غیر ملکی دوروں پر جاتے کرکٹ کھیلنے تھے مگر وہاں تبلیغی سرگرمیاں۔ باب ولمر کی پراسرار موت کے لیے مشتاق احمد کو آج بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
دوستوں کو چاہیے کہ وہ اسے عمرانیات کے حوالے سے دیکھیں۔ جہادیوں کے پاس اکثریت نو عمروں اور نو جوانوں کی ہے۔ اسی طرح سے مدرسوں میں بھی نو عمر زیادہ ہیں۔ آجکل مدرسوں نے کھیلوں پر توجہ دینی شروع کی ہے جو اچھی بات ہے۔ اس سے یقینا کچھ نہ کچھ بہتری ہوگی لیکن جب تک ان کا جہاد فی سبیل اللہ کا تصور ختم نہیں ہوتا اور تکفیر کے نظریات یعنی دوسروں کو کافر اور کافر کو واجب القتل سمجھنے کی سوچ نہیں بدلتی اس وقت تک ان سے اچھے شہری پیدا کرنے کی توقع بیکار ہے۔ باقی سماجیات اور عمرانیات کے حوالے سے اچھے کھلاڑیوں کی اکثریت عمومی طور پر متوسط طبقات میں ہی پیدا ہوتی ہے۔ اگر متوسط اور نچلے طبقات محض مذہب، جہاد یا فساد میں الجھا دیے جائیں تو معاشرے زوال پزیر ہو جاتے ہیں۔ لاہور یا پنجاب کا نوجوان اتنا بنیاد پرست اور متعصب کبھی نہیں تھا جتنا تبلیغیوں کے قدم رکھنے کے بعد ہوا ہے۔ اچھے بھلے فن سے پیار کرنے والے لوگ اب داڑھیاں رکھے، اونچی شلواریں پہنے تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جبکہ ان کی امن کی تبلیغ کے فوائد و نتائج اس کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتے کہ ایک خاص فکر کے لوگ ہر سال ایک بڑی تجارتی گیدرنگ کرتے ہیں۔ الٹا جیسے جیسے یہ تبلیغی بڑھ رہے ہیں معاشرے میں بد امنی اور دہشت گردی بڑھتی جا رہی ہے۔ شاید کچھ ایسے عوامل ہی پاکستانی نوجوان کو ترقی پسندی سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ جب تک پنجاب میں یہ تجارتی اجتماع نہیں ہوتا تھا تو ہم ہر کھیل میں اچھے تھے۔ باقی معاشرے میں رونما ہونے والی منفی یا مثبت تبدیلیوں پر سوچنا، غور کرنا اور مشاہدے کی بنیاد پر سوال اُٹھانا گناہ نہیں۔ دوست بھی غور کر کے دیکھ لیں شاید انھیں بھی اس سوچ سے اتفاق ہو جائے۔
تبلیغیی بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ میری باتوں کا بُرا مت مانیں۔ تنقید ہمیشہ اصلاح کے لیے ہوتی ہے۔ میری ان باتوں میں سے اگر کوئی ایک بات بھی انھیں درست لگے تو اس کے علاج پر غور ضرور کریں۔ باقی یہ میرے مشاہدے پر مبنی میری زاتی رائے ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے۔