بارودی دیوبندی کا نزلہ درودی سنی صوفی اور بریلوی پر؟

150216222516_festival_bahwalpur_640x360_bbc_nocredit

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں یہ احساس تقویت پا رہا ہے کہ حال ہی میں نافذ کیا گیا ساؤنڈ سسٹم آرڈیننس شدت پسندوں کی بجائے اعتدال پسندوں کی آزادیِ اظہار کے گردگھیرا تنگ کر رہا ہے۔ البتہ حُکام کے اقدامات سے تاثر ملتا ہے کہ ملک میں پہلی مرتبہ مذہب کے ساتھ ساتھ خوشیاں منانے اور روزی کمانے کے نام پر ہونے والی ’شور‘ سے بھی نمٹا جا رہا ہے۔

پشاور میں سولہ دسمبر کو آرمی پبلک سکول پر حملے کے ردعمل میں دہشتگردی کے خلاف اپنائے گئے قومی لائحہ عمل کے تحت، حکومتِ پنجاب نے جنوری میں پانچ آرڈیننس نافذ کیے جن میں سے ایک پنجاب ساؤنڈ سسٹم آرڈیننس ہے۔

جنوبی پنجاب میں ’خواجہ فرید امن میلہ‘ کے عنوان سے ثقافتی شامیں منعقد کرانے والی غیر سرکاری تنظیم پنجاب لوک سُجاگ بھی اِس قانون کے شکنجے میں آئی۔ تنظیم کے رکن کے اطہر لاشاری بتاتے ہیں کہ ’بہاولپور میں ہم نے ضلعی انتظامیہ سے اجازت لی تھی۔ اُس کے باوجود ساؤنڈ سسٹم آرڈیننس کے تحت ہمیں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے گرفتار کیا گیا۔ ساؤنڈ کے دوستوں کو گرفتار کیا گیا۔ ہمارا ساؤنڈ سسٹم پولیس نے قبضے میں لے لیا۔ ہم نے جرمانے ادا کیے اور رہا ہوئے۔‘

بعد میں پنجاب لوک سُجاگ کو لودھراں میں میلے کی اجازت اِس یقین دہانی پر ملی کہ ساؤنڈ سسٹم کی گونج پنڈال سے باہر جائے گی نہ شکایت آئے گی۔ کوئی دو ہزار لوگوں کے لیے اِتنے کم سپیکر لگائے گئے کہ آواز آخری صفوں میں بیٹھے شرکاء کو بمشکل پہنچ رہی تھی۔

اطہر لاشاری مایوس ہیں کہ وہ صوفیانہ کلام، شدت پسندی کے خلاف سٹیج ڈراموں اور ثقافتی موسیقی کے ذریعے ’امن اور ہم آہنگی‘ کا پرچار کر رہے تھے جب اُن کے خلاف قانونی کارروائی ہوئی۔

صوبے بھر میں اِس آرڈیننس کے تحت ایک ماہ میں تقریباً ڈھائی ہزار مقدمات درج ہوئے ہیں۔ ’شور‘ کی شکایات میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ آرڈیننس کے نفاذ کے بعد سے بہاولپور میں پولیس کی ہیلپ لائن ون فائیو پر 55 شکایات موصول ہوئیں جن پر ’شور‘ کے زُمرے میں آنے کے تحت عمل درآمد ہوا۔ حُکام کے مطابق، ماضی میں ایک ماہ میں ایسی اِکا دُکا شکایات آتی تھیں اور دوٹوک قانون کی عدم موجودگی کے سبب پولیس کے لیے اِن کا ازالہ کرنا بھی مشکل تھا۔

عمومی تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں شدت پسندی، فرقہ واریت اور منافرت پر مبنی تبلیغ پر قابو پانے کے لیے صرف مساجد میں سپیکروں کے استعمال پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ لیکن پنجاب میں، میلے، مساجد، مدرسے، شادیاں اور کاروبار، سپیکر لگانے والے اور بجانے والے، سبھی ساؤنڈ سسٹم آرڈیننس کی گرفت میں آئے ہیں۔ زیادہ تر مقدمات اور جُرمانے مساجد کے خطیبوں پر ہوئے۔

بہاولپور کی جامعہ مسجد سیرانی کے خطیب صاحبزادہ ریاض احمد اویسی صفِ اول کے علماء میں سے ہیں جنہیں پچیس ہزار روپے جُرمانہ ہوا۔ وہ اِس آرڈیننس کو ’امتیازی‘ قرار دیتے ہیں۔

’جن لوگوں نے تخریب کاری کی بات کرنی ہے، وہ آج بھی کر رہے ہیں مسجد میں۔ قانون بنا ہے بارود والوں کے لیے، یہ درود والوں پر استعمال کر رہے ہیں۔ قانون بنا ہے بم والوں کے لیے، یہ دم والوں پر استعمال کر رہے ہیں۔ قانون بنا ہے فساد والوں کے لیے، یہ میلاد پر کر رہے ہیں۔ تو آپ امتیاز پیدا کر رہے ہیں۔‘

کئی مساجد میں اردو اور عربی درودوسلام بیرونی سپیکروں پر عام پڑھا جاتا ہے۔ حسبِ ضرورت اعلانات، نعت خوانی، حمد و ثناء اور چندے کے لیے بھی مساجد کے بیرونی سپیکر استعمال کیے جاتے ہیں۔ جبکہ ساؤنڈ سسٹم آرڈیننس کے تحت صرف مخصوص مقاصد کے لیے ہی مساجد کے بیرونی سپیکروں کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

صاحبزادہ ریاض اویسی کے مطابق، حُکام نے مساجد کے میناروں پر نصب سپیکروں کی تعداد چار سے کم کرکے ایک کرنے کی ہدایت کی ہے جس سے اُن کے بقول مذہبی فرائص کی ادائیگی متاثر ہورہی ہے۔

’نمازیوں کی تعداد کم ہو گی۔ مقصد ہے اذان دینا۔ اذان جب چاروں طرف جائے گی۔ حدیث پاک کی رُو سے اذان دینے سے شیطان بھی چھتیس میل دور بھاگ جاتا ہے۔ یہ حکمران کیا چاہتے ہیں کہ ایک طرف اذان جائے، باقی شیطان بیٹھا رہے۔ باقی لوگ نماز پڑھنے کے لیے نہ آئیں؟‘

بہاولپور کے ریجنل پولیس افسر ڈی آئی جی احسان صادق کا موقف ہے کہ مذہب، ثقافت یا کاروبار، ہر مقصد کے لیے سپیکر کے استعمال کو کسی قانون کے دائرے میں آنا ہے۔

’گلی محلوں میں، دکانوں میں، ریڑھیوں پر، کاروں پر کوئی چیز فروخت کرنے کے لیے، حتیٰ کہ مساجد میں بھی۔ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کے لیے قابلِ اعتراض تھا۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں۔ جیسے وال چاکنگ ہے۔ نفرت انگیز مواد کی تقسیم ہے یا لاؤڈ سپیکر کا استعمال ہے۔ اِن چیزوں نے گزشتہ سالوں میں ایسے معاشرے میں کردار ادا کیا ہے جہاں آج بدقسمتی سے ہم ہیں۔”

 

Comments

comments