مذھبی جنونیت اور لیفٹ – پہلا حصّہ – عامر حسینی
نوٹ : فکاہیہ جریدہ شارلی ایبڈو کے دفتر جو پیرس میں واقع ہے پر القائدہ سے تعلق رکھنے دو یمنی نژاد فرانسیسی مسلمانوں حملے میں 12 افراد کی جانیں جانے کے بعد مسلم جنونیت کے بارے میں مغرب کے اندر بحث تیز ہو گئی ہے اور مغرب کے بائیں بازو کے حلقوں میں مسلم جنونیت اور اس جنونیت کی بنیاد بارے جو بحث سامنے آرہی ہے ، اس میں ایک کیمپ کو پرو اسلامسٹ لیفٹ کا نام دیا جارہا ہے اور لیفٹ کا ایک سیکشن اس پرو اسلامسٹ لیفٹ کے بارے میں یہ الزام عائد کرتا ہے کہ یہ اسلامسٹ جنونیت کے حوالے سے معذرت خواہانہ موقف اپنائے ہوئے اور اس کیمپ کے بعض حصّوں پر مسلم بنیاد پرستی کے حامی ہونے ، اس بنیاد پرستی سے ابھرنے والی دھشت گردی ، تشدد کو سامراجیت مخالف مزاحمت قرار دینے کا الزام بھی عائد کیا جارہا ہے ،
اس طرح کے لیفٹ کو کہا جاتا ہے کہ وہ مسلم مذھبی جنونیت کا جو تجزیہ کرتا ہے ، وہ اصل میں اس جنونیت کے جواز تک لیجانے والا تجزیہ ہے اور اس طرح کے بائیں بازو کے بعض سیکشنز کے ناقدوں کا کہنا ہے کہ لیفٹ نے اپنے اوپر ایک ناروا خوف طاری کرلیا ہے اور اس کے لاشعور میں یہ بات جاگزیں ہے کہ اگر وہ مسلم جنونیت ، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کوئی تنقیدی موقف اختیار کرے گا تو اس پر اسلاموفوبک ہونے کا الزام لگ جائے گآ اور لیفٹ کا ایسا سیکشن وہ ہے جو مسلم جنونیوں کی دھشت گردی ، تشدد اور ان کی انتہا پسندی کو سامراج کے خلاف مزاحمت کے زمرے میں لیتا ہے اور اس کو گلوبل لیفٹ کی سائیڈ پر لیتا ہے ، ڈیسنٹ میگزین کے معاون مدیر مائیکل والزر کا مضمون ” اسلام ازم اور لیفٹ ” اسی طرح کی تنقید پر شامل ہے جس کا ترجمہ اور تلخیص آگے آپ پڑھنے جارہے ہیں
مغرب کے لیفٹ سرکل میں اصل میں یہ کافی پرانی بحث ہے اور اس کا آغاز مڈل ایسٹ ، شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیا میں مسلم بنیاد پرست تحریکوں کے اینٹی امریکن ازم ، اینٹی اسرائیل پوزیشنوں سے ہوا تھا ، کئی ایک لیفٹسٹ دانشور ایسے تھے جنھوں نے حماس اور حزب اللہ کو گلوبل لیفٹ کا حصّہ قرار دے دیااور ان کو ترقی پسند مزاحمت کار تنظیموں کی شکل قرار دے ڈالا ، اگرچہ ان دانشوروں نے ان تںظیموں کے عورتوں ، گے ، لسبین ، ملحدوں کے حوالے سے رجعت پسند خیالات پر تنقید کی لیکن ان کے اینٹی امریکن ازم اور اینٹی صہیونزم کو ترقی پسند رجحان قرار دیا – اس بحث میں ایک اور اہم موڑ امریکہ میں جڑواں ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر حملوں اور جواب میں امریکہ کے افغانستان اور عراق پر حملے اور دھشت گردی کے خلاف جنگ کے وقت آیا اور اس وقت جنگ مخالف اتحاد بناتے وقت لیفٹ نے اس کولیشن میں ایسے اسلامسٹوں کو بھی شامل کرلیا جو خلافت کے داعی تھے ، گے ، لسبین ، مرتدوں کے حقوق کے مخالف تھے اور عورتوں کے حوالے سے کافی رجعت پسندانہ خیالات کے حامل تھے
اور مذھب پر تنقید کے حق کے منکر تھے اور پھر اس میں ایسے لیفٹ گروپ بھی سامنے آئے جنھوں نے افغان طالبان ، القائدہ ، عراق میں شیعہ ملیشیا اور وہابی سلفی دھشت گرد گروپوں کی امریکہ کے خلاف لڑائی کو سامراجی قبضے کے خلاف مزاحمت قرار دیا اور اسے نیو لبرل جنگوں کے خلاف لیفٹ سینس میں مزاحمت کا نام دے دیا اور انھوں نے سیاسی اسلام ، ریڈیکل اسلام کے نام سے سامنے آنے والے رجحانات کی توجیح اپالوجسٹ انداز میں کی اور ان کا سارا تجزیہ یہ تھا کہ القائدہ ، تحریک طالبان افغانستان ، تحریک طالبان پاکستان ، داعش ، جنداللہ ، لشکر جھنگوی سمیت جتنے دیوبندی ، سلفی وہابی دھشت گرد گروپ ہیں وہ امریکی سامراجیت اور سرمایہ داری نیولبرل معاشی پالیسیوں سے جنم لینے والی غربت ، مایوسی کا نتیجہ ہے اور اس میں بعض نے تو ان تںظیموں کو سامراجیت اور نیولبرل مارکیٹ ماڈل کے خلاف مزاحمت تک قرار دے ڈالا
اور اس طرح کا تجزیہ مرتب کرنے والے پوسٹ ماڈرنسٹ بھی ہیں ، جنھوں نے پہلے ایرانی ملائیت کی قیادت میں آنے والے انقلاب کو سرمایہ داری منڈی کے ماڈل کی پہلی پوسٹ ماڈرنسٹ مخالفت قرار دیا اور پھر عراق ، شام ، لیبیا اور شمالی افریقہ ، پاکستان و افغانستان میں ابھرنے والی مذھبی دھشت گرد تنظیموں کی ایسی ہی پوسٹ ماڈرنسٹ فلاسفی کا سہارا لیتے ہوئے تعریف کی برطانیہ میں پاکستانی نژاد لیفٹسٹ دانشور ، ادیب ، صحافی طارق علی ایسے ہی ایک نمایاں دانشور ہیں ، اسی طرح طارق فتح ہیں جوکہ عراق ، شام ، لیبیا کے سلفی وہابی دھشت گردوں کے اپالوجسٹ بنکر ابھرے ہیں اور ان کی جنونیت کی کھل کر مذمت کرنے کی بجائے اسے صرف و صرف مغربی سامراجیت اور امریکی اور اس کے اتحادیوں کی جنگوں کا پروڈکٹ قرار دیتے ہیں –
میں جب مائیکل والزر کا مذکورہ مضمون جب ترجمہ کررہا تھا تو ” آوٹ لک انڈیا ” میں طارق علی کا ایک انٹرویو بھی شارلی ایبڈو کے دفتر پر ہوئے حملے کے حوالے سے پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں طارق علی نے اسی طرح کا معذرت خواہانہ موقف مسلم جنونیت کے سوال پر اختیار کیا طارق علی سے انٹرویو کرتے ہوئے جب سوال کیا گیا کہ گذشتہ دنوں فرانسیسی میگزین شارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے کے دوران جو قتل ہوئے اس کی پوری دنیا میں مذمت ہورہی ہے اور فرانس اور دوسری مغربی جمہوریتوں ” ریڈیکل اسلام ” کو بہت بڑا خطرہ قرار دیا جارہا ہے ، اس حوالے سے وہاں بہت خوف ہے ، آپ اس خوف کو کس حد تک جائز خیال کرتے ہیں ؟ تو طارق علی نے جواب دیا یہ سب 9/11 سے ہورہا ہے –
مغرب اس طرح کے واقعات کے اصل اسباب کو جاننے اور اس کا حل نکالنے سے انکاری ہے – اور جو کوئی اس طرح کے واقعات پر “کیوں ” کی تشریح کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی مذمت کی جاتی ہے – اور اس طرح سے اس سب کو برائی اور نیکی ، آزادی اظہار اور بربریت کے درمیان مقابلہ بنادیا جاتا ہے ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مغرب نے عرب دنیا پر قبضہ کررکھا ہے ، اس نے عراق ، شام ، لیبیا میں تباہی پھیلائی ہے اور وہاں پر حالات سابقہ آمر حکومتوں سے بھی بدتر ہوچکے ہیں اور اسی وجہ سے مسلم نوجوانوں ميں ریڈیکلائزیشن پیدا ہوئی ہے –
لیفٹ کی حالت پتلی ہے ، اس وجہ سے مسلم نوجوان لیفٹ کا رخ کرنے کی بجائے مسجد کا رخ کرتے ہیں اور سخت گیر حل تلاش کرتے ہیں اور شوق سے جہادیوں کے ہاتھوں استعمال ہوجاتے ہیں طارق علی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ پیرس کلنگ کو کس تناظر میں دیکھنا چاہئیے ؟ تو ان کا جواب تھا میں اسے اسی تناظر میں دیکھتا ہوں ،جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ، فرانس کے تناظر میں یہ لڑکے خالص فرانسیسی معاشرے کی پیداوار تھے ، بے روزگار ، لمبے بال ، منشیات کے عادی ، الگ تھلگ کردئے گئے یہاں تک انھوں نے امریکیوں کے عراق پر حملے کے مناظر دیکھے اور وہاں پر ٹارچر کے تو انھوں نے یہ سب کردیا طارق علی سے انٹرویو کرنے والی نے اگلا سوال کیا کہ تو کیا آپ مغرب کی عرب اور مسلم دنیا میں مداخلتوں کی پالیسیوں کو یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کی ريدیکلائزیشن کا سبب خیال کرتے ہیں ؟
تو طارق علی نے کہا کہ سو فیصدی یورپ اور امریکہ میں مسلمانوں کی ریڈیکلائزیشن کا سبب یہی ہے طارق علی سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ” اسلامو فوبیا مغرب اور فرانس میں کس قدر سنجیدہ ایشو ہے ؟ تو طارق علی نے اس کا جواب کچھ یوں دیا فرانس یورپ میں اپنی سیاست کی بدتر شکل کو سیکولر ازم کا غازہ لگاکر پیش کررہا ہے اور فرانسیسی سیکولر ازم کا اسلام کے سوا کوئی بھی مطلب ہوسکتا ہے ، اور فرانسیسی سیکولر اقدار کی اسلام سے کوئی مطابقت نہیں ہے اور جب سٹریکل میگزین اسلام پر طنز کرتا ہے تو ایسا ردعمل آتا ہے ، بس یہی بات ہے اس انٹرویو میں طارق علی نے یہ ماننے سے انکار کیا مغرب کی لبرل اقدار کا قدامت پرستی اور بنیاد پرستی سے کوئی حقیقی ٹکراؤ موجود ہے ،
بلکہ اس کے خیال میں مغرب میں لبرل ڈیموکریسی زوال پذیر ہے اور اس کا مطلب مغرب میں نیولبرل ازم اور باہر جنگیں ہین اور اس کے خلاف جو ہورہا ہے وہ مایوسی اور ناامیدی سے ظہور پذیر ہورہا ہے ، طارق علی کا یہ بھی خیال ہے کہ فرانسیسی سیکولر ازم کا مطلب صرف اسلام پر حملہ ہے ، کیونکہ ان کی نظر میں اس کا ارتکاز بھی اسی پر ہے اور ان کی نظر مین اس کا تھوڑا سا رخ کتھولک کی جانب ہے جبکہ یہودیت کی طرف تو بالکل بھی نہیں ہے اور طارق علی اسلامو فوبیا کو غالب اور تارکین وطن کے خلاف ظاہر ہونے والی عمومی جارحیت سے الگ کرکے دیکھنے پر زور دیتے ہیں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں طارق علی نے ” اسلامی جنونیت ” کے اسباب کا جائزہ کسی ایک جگہ بھی وہابیت اور اس کے علمبردار سعودی عرب کی اس فنڈنگ کو زیادہ جگہ نہیں دی جس کی وجہ سے یہ پوری مسلم دنیا میں بھی شیعہ ، صوفی سنّی سمیت غیر وہابی و دیوبندی مذھبی برادریوں ، کرد ، بلوچ ، ہزارہ کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کا سبب بن گئی ہے ،
میں نے اس سے پہلے طارق علی کا برطانوی صحافی پیرک کوک برن سے ایک مکالمہ بھی درج کیا تھا ،جس ميں طارق علی اسی طرح کا اپالوجسٹ موقف ” مسلم جنونیت ” کے حوالے سے اپناتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے ميں ہمیں پیٹرک کوک برن اور رابرٹ فسک جیسے صحافیوں کا تجزیہ زیادہ متوازن لگتا ہے مائيکل والزر نے اپنے مضمون میں طارق علی کی طرح کے خیالات رکھنے والے لیفٹسٹوں کے نکتہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے بحث کی ہے اس موضوع پر نکولس کوزوف کے مضمون کو بھی دیکھنا چاہئیے جس کو مائیکل والزر نے بھی اپنے مضمون میں ڈسکس کیا ہے جسے اس لنک سے لیکر پڑھا جاسکتا ہے
http://www.huffingtonpost.com/nikolas-kozloff/a-tale-of-brandeis-islam_b_5194430.html
طارق علی نے تنقید کے جس ڈسکورس کو اپنایا ہے، اس پر کافی حد تک جاندار تحقیق ایک اور برطانوی لیفٹسٹ جیمز بلڈورتھ نے بھی اپنے بلاگ اور ڈیلی انڈی پینڈنٹ میں کی ہے اور اس سوال کو ڈسکس کیا ہے کہ لیفٹ کیوں اسلامی انتہا پسندی کے بارے میں اسقدر لاپرواہ یا جانتے بوجھتے بے پرواہ کیوں بنا ہوا ہے اور اس نے ایک مضمون میں لیفٹ کے ایک حصّے کے ” جنگ ژحالف محاذ ” میں اسلامی انتہا پسندوں کو ساتھ ملانے کی فاش غلطیوں کا زکر بھی کیا ہے اور شارلی ایبڈو میگزین کے دفتر پر حملے پر لیفٹ کے اپالوجسٹ رويے پر تنقید کرتے ہوئے لیفٹ کی مسلم جنونیت پر اپالوجی پر تنقید کی ہے اور اس کا عنوان ” شارلی ایبڈو ۔۔۔۔۔ کوئی اعتذار نہیں ، بس مرڈر ” رکھا ہے اور یہ دونوں مضمون ہی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں
https://leftfootforward.org/2015/01/charlie-hebdo-no-excuses-just-murder/ http://www.independent.co.uk/voices/comment/why-is-the-left-so-blinkered-to-islamic-extremism-8679265.html
اس بحث کی ایک فلسفیانہ ، علمی فکری جہت بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا لیفٹ کو ” فرد کی آزادی ” ، ” جمہوریت ” اور “مذھبی تکثریت ” جیسی اقدار جو خرد افروز تحریک کا ماحصل ہیں کے لیے جدوجہد نہیں کرنی چاہئیے ؟ کیا یہ لیفٹ آدرش نہیں ہیں اور خرد افروز تحریک کے سرمایہ دارانہ نیولبرل تشریح کے غالب رجحان کو دیکھتے کلیتا فرد کی آزادی ، جمہوریت اور مذھبی تکثریت جیسی اقدار سے ہی دست بردار ہوجانا چاہئیے اور ان کے خلاف جو سلفی ،دیوبندی وہابیت اور مسلم جنونیت بشمول جماعت اسلامی ، اخوان سمیت اسلامی تںظیموں کا جو موقف ہے اس کے خلاف علمی ، نظریاتی اور فکری جدوجہد نہیں کرنا چاہئيے ، لیفٹ کا ایک حصّہ اس طرح کی آئیڈیالوجیکل جنگ لڑنے کو تیار نہیں ہے اور مائیکل والزر سمیت بہت سے مغربی لیفسٹسٹ دانشوروں کا یہ اصرار ہے کہ فرد کی آزادی ، جمہوریت ، مذھبی تکثریت یہ مغربی لبرل ازم کی اقدار نہیں ہیں
بلکہ یہ عالمگیر اقدار ہیں اور یہ سرمایہ دار مغربی دائیں بازو سے کہیں زیادہ لیفٹ کی اقدار ہیں اور اس کے لیے مذھبی جنونیت واقعی ایک حقیقی خطرہ بن چکی ہے اور اس جنونیت کی قوت محرکہ محض امریکی سامراجیت ، نیولبرل مارکیٹ ماڈل ، ، غربت اور جبر ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے پوسٹ سیکولر دور کی مذھبی احیائیت ہے جس میں تمام قسم کے سماجی طبقات کی سپورٹ شامل ہے اگر دیکھا جائے تو ہمارےہاں عبدل نیشاپوری ، راقم ، علی عباس تاج ، نسیم چودھری ، سید ریاض الملک حجاجی ، حیدر جاوید سید پاکستانی لیفٹسٹوں اور مارکسسٹوں کے اندر بعض لوگوں کے دیوبندی وہابی ، سلفی وہابی بنیاد پرستی اور دھشت گردی کے حوالے سے ریلیکٹنٹ ، اپالوجسٹ رویوں کی جو نشاندھی کی ہے اور ان کے موقف پر جو سوالات اٹھائے ہیں ان کا تعلق بھی اسی بحث سے بنتا ہے جسے بدقسمتی سے سوائے چند ایک کے کسی نے بھی سنجیدہ اور علمی انداز سے ڈیل کرنے سے انکار کیا ہے اس قدر محنت سے اس ساری بحث کو سامنے لانے کا مقصد کسی کو نیچا دکھانا یا کسی کو زچ کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ انتہائی سنجیدہ بحث کا آغاز کرنا ہے ، اگلے حصّے ميں مائیکل والزر کے اس مضمون پر ہونے والی تنقید ، ابو الخلیل لبنانی کے مضمون سمیت کئی اور جوابی آرٹیکل اور خود والزر کی تنقید کو بھی سامنے لایا جآئے گا ، میری خواہش ہے پاکستانی لیفٹ میں اس معاملے پر کم از کم کنفیوژن باقی رہے -اسلام ازم اور لیفٹ مائیکل والزر
www.dissentmagazine.org/article/islamism-and-left-exchange
ایرانی انقلاب کو آئے 35 سال کا عرصہ گزر چکا ہے ، میں ان تین اور نصف عشروں سے لیفٹ سے تعلق رکھنے والے اپنے دوستوں ، دور و ںزدیک کے ہمسایوں کی جانب سے ” مذھب کے احیاء ” کو سمجھنے یا ” نہ سمجھنے ” کی جدوجہد میں مصروف دیکھ رہا ہوں ، مذھب کے احیاء کے دور کو اب ” پوسٹ سیکولر دور ” یعنی مابعد سیکولر دور بھی کہا جارہا ہے ایک دور تھا جب ہم آگے کی طرف دیکھ رہے تھے ، دنیا توہمات کے دور سے آگے نکل گئی تھی ایسا ہم سمجھ رہے تھے اور ہمارا یقین تھا جدیدیت میں سائنس اور سیکولر ازم کی فتح ناگزیر ہے اور ایسا کرتے ہوئے ہم بھول گئے تھے اس بات کو جو خرد افروزی سے مملو تمام مردوخواتیں جانتے تھے جیسا کہ نک کوہن نے لکھا تھا کہ تمام مذاہب میں ان کی انتہائی شکل میں ایک ظلم و جبر کے دور کا امکان ضرور ہوتا ہے آج ہر ایک بڑا مذھب ایک خاص قسم کے احیاء کے تجربے سے گزر رہا ہے
اور مذھب کی یہ احیائی شکل افیونی نہیں ہے بلکہ یہ تو اکسانے والی ، ترغیبی طاقتور عامل کی ہے ، یہ عمل انگیز اور ترغیبی شکل رکھنے والی احیایئت انیس سو ستر کے آخری عشرے ميں اسلامی دنیا کے اندر بہت طاقت کے ساتھ سامنے آئی ہے ، پاکستان سے سے لیکر الجزائے تک اور یورپ کے کئی حصوں میں بہت سے مرد و عورت ایسے ہیں جو اس خاص قسم کے احیائی اسلام – وہابیت کی خاطر جان لینے اور دینے کے لیے تیار ہیں اور یہ احیاء لیفٹ کے لیے سخت آزمائشی لمحہ کا سبب بنا ہے کیا ہم وہابیت کی شکل میں ابھرنے والی اس دھشت پسندی و بربریت کو شناخت کرسکتے ہیں اور کیا ہم اس کے خلاف مزاحمت کرسکتے ہیں ؟ ہم ميں سے بعض تو اس آزمائش پر پورا اترنے کی کوشش کررہے ہیں
لیکن ہم سے بہت سے لوگ ایسے کرنے میں ناکام ہیں اور اس ناکامی کی ایک وجہ تو ہم پر طاری وہ خوف ہے کہ کہيں اس کی مزاحمت کرنے پر ہمیں اسلامو فوبک نہ کہہ ریا جائے ، وہابیت سے ابھرنے والے ظلم و تشدد اور بربریت کے خلاف مزاحمت نہ کرنے کی دوسری وجوہات اینٹی امریکن ازم اور ثقافتی اثباتیت کی ريڈیکل انقلابی تعبیر بھی ہے ، لیکن یہ پرانی باتیں ہيں ، اب تو یہآں ہم ایک نئی چیز دیکھ رہے ہیں : بہت سے بائیں بازو کے لزگوں کے ہاں غیر معقول طور پر اسلام کا خوف ہے اور وہ اس قابل نہیں ہيں کہ وہ اسلام پسند جنونیوں سے خوفزدہ ہوں جس کے لیے معقول وجوہ موجود ہیں —– یہی وہ مشکل ہے جو دنیا میں ہورہا ہے اس کی تشریح کرنے کے آڑے آرہی ہے میں نے جو دعوی کیا ہے
اس کا بنیادی ثبوت وہ خیران کردینے والے لنکس ہيں جو آپ گوگول سرچ انجن ميں لفظ ” اسلاموفوبیا ” فیڈ کرکے حاصل کرتے ہو ، ان ميں بہت سے لنکس تو فوبک ہیں ؛ میں اینٹی فوبک لنکس پر فوکس کرتا ہوں ، اور اس طرح سے میں لیفٹ کی ایک آن لائن دنیا ميں داخل ہوچکا ہوں – یہ بہت بڑی اور پرجوش دنیا ہے ، بلند تر تنوع کے ساتھ یہآں بہت سے لوگ مرے لیے نئے ہيں اور کسی حد تک یہ دل برادشتگی بھی ہے کہ غیر معمولی انٹر نیٹ لیفٹ کے اندر پرانے امراض ابھی تک موجود ہیں – ظاہر ہے کہ لیفٹ اجتماعی شکل میں انٹرنیٹ سے باہر کہیں موجود نہیں ہے اور جن لوگوں کے بارے ميں لکھ رہا ہوں وہ ایک ایسا گروہ لیفٹ ہے جو معاصر مذھبی کی سیاست یا ریڈیکل اسلامسٹ پالیٹکس کے بارے میں زیادہ پریشان نہیں ہے جہاں تک مری اپنی زات کا تعلق ہے تو میں مذھبی عسکریت پسندی کی ہر ایک شکل سے خوفزدہ ہوں –
ميں ہندوتوا جنونیت جو ہندوستان میں ہے ، مشنری صہیونیت جو اسرائيل ميں ہے اور میانمار یں جو بدھست جنونی ہیں ان سب سے خوفزدہ ہوں – لیکن میں یہ تسلیم کرتا ہوں مرا زیادہ خوف اسلامی جنونیوں سے ہے ، کیونکہ اسلامی دنیا اس وقت نہ کہ ہمیشہ سے خاص قسم کے بخآر اور جنون میں مبتلاء ہے اور اصل میں آج کے سیاسی اسلام پسند جنونیوں کو آج کے کروسیڈرز کہا جاسکتا ہے کیا یہ کوئی اینٹی مسلم پوزیشن ہے ، کیا یہ خوف کی بجآئے ایک فوبیا ہے ———– اور کیا یہ ایک ایسا فوبیا ہے جو تعصب اور جارحیت سے جنم لیتا ہے ؟
ایک خام سی اینالوجی کا جائزہ لیتے ہیں ( تمام اینالوجی خام ہوتی ہیں ) : اگر ميں کہوں کہ عیسائی 11 ویں صدی میں ایک کروسیڈنگ مذھب رکھتے تھے اور وہ یہودیون اور مسلمانوں کے لیے خطرہ تھا ۔ جو جاغز طور پر خوفزدہ تھے اور ان میں سے کچھ فوبک بھی تھے تو کیا اس کا مطلب مرا عیسائی مخالف ہونا ہوگا ؟ میں جانتا ہوں کہ کرسچن مذھب کے لیے کروسیڈنگ بخار و سرسام ضروری نہیں ہے ، یہ تاریخی اعتبار سے ایک مرحلہ تھا اور کرسچن تاریخ میں ایک کروسیڈنگ لحمہ آيا تھا ، اور دو سو سال بعد ؛یا اس سے زیادہ دیر بعد یہ گزر گیا ، صلاح الدین ایوبی نے اس سرسام کو ختم کرنے میں مدد دی ، لیکن یہ اپنے آپ ہی ختم ہوگیا میں جانتا ہوں کہ بہت سے عیسائی ایسے تھے جنھوں نے کروسیڈز کی ژحالفت کی ؛ ان کو آج اعتدال پسند عیسائی کہہ سکتے ہیں اور بہرحال اکثر عیسائی 11 ویں صدی کے کروسیڈنگ جنگوں ميں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے ؛
وہ یروشلم کی جانب مارچ کرنے کے خطبے سنتے اور گھروں کو چلے جاتے ، لیکن یہ کسی شک کے بنا سچ ہے کہ 11 ویں صدی میں عیسائيت کے جسمانی ، مادی اور دانشوری کے زرایع کروسیڈز پر فوکس کئے ہوئے تھے مغرب کی تاریخ میں عیسائی کروسیڈز کو اسلاموفوبیا کی بعض اوقات اولین مثال کے طور پر بھی پیش کیا گيا – کروسیڈرز اسلام کے غیر عقلی خوف کی وجہ سے سامنے آئے – اور میں فرض کرتا ہوں کہ یہ بھی درست ہے کہ ان کا کروسیڈر ہونا یہودیت کے غیر عقلی خوف کی وجہ سے بھی تھا – وہ خوفناک اور ڈرادینے والے مذھبی انتہا پسند تھے اور یہ بات کسی بھی لحاظ سے اینٹی کرسچن نہیں ہے کوئی یہی بات اور ایسے خیالات کا اظہار آج کے اسلام پسندوں کے بارے ميں بھی کرسکتا ہے اور ایسا کہنا بھی چاہئيے —-
اگرچہ جہادی دھشت گردی کے لیے اسلامی تھیالوجی درکار نہیں ہے ، اگرچہ بہت سے مسلمان ماڈریٹ ہیں جوکہ مذھبی تشدد اور انتہا پسندی کی مخالفت کرتے ہیں اور اگڑچہ بہت سے سارے مسلمان کافروں ، مشرکوں کے ساتھ رہنے میں قطعی راضی ہیں اگرچہ ان کے نزدیک کافروں اور مشرکوں کا آخرت میں انجام برا ہوگا – میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ایک جہاد بالنفس بھی ہوتا ہے اور یہ جہاد بالسیف سے الگ ہے – او ر محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے جہاد بالنفس کو جہاد بالسیف سے بلند تر قرار دیا – اور مجھے معلوم ہے کہ اسلامی دنیا یک رخی نہیں ہے اور نہ ہی یہ نوعی ہے اور روزانہ اخبار پڑھنے سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلامی جنونیت ( یہاں وہابیت کہیں تو بہتر ہے ) کوئی ایک ہی چیز کا نام نہیں ہے القائدہ ، طالبان ، داعش ، حزب اللہ ، حماس ، باکو حرام یہ چند نمایاں مثالیں ہیں یہ ایک نہیں ہیں ؛
ان کے درمیان چند اہم قسم کے اختلافات ہوں گے اور مجھے یہ بھی نوٹ کرنا چاہئيے کہ انڈویشیا اور ہندوستان میں کئی لاکھ مسلمان ہیں اور وہ مذھبی جنونیت سے آلودہ نہیں ہيں اگرچہ جماعہ الاسلامیہ ایک جنوبی ایشیائی اسلامسٹ نیٹ ورک ہے ، اس کے پیروکار انڈویشیا میں موجود ہیں اور کئی اہم بڑے دھشت گرد حملوں کا الزام اس پر ہے ان تمام اوصاف کے باوجود ، یہ بات کسی شک کے بنا سچ ہے کہ آج ” جہاد بالسیف ” بہت زیادہ مضبوط ہوچکا ہے ، اور یہ بے دینوں ، کافروں ، سیکولر لبرل ، سوشل ڈیموکریٹ اور آزاد ہونے والی عورتوں کو مسلم دنیا میں ڈرا رہا ہے اور یہ ڈر بالکل معقول ہے لیکن میں ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ میں اکثر ایسے لیفٹ سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملتا ہوں جو کہ اسلامسٹ جنونیوں کی مذمت کرنے سے اس لیے گريز کرتے ہیں کہ کہیں ان پر اسلاموفوبک ہونے کا الزام نہ لگ جائے –
یہ ایک تضاد سے بھرا ، نامناسب موقف ہے جو آج کی مسلم دنیا کے حوالے سے اپنایا جاتا ہے ، لیکن اس کی ایک سینس امریکہ اور یورپ میں بنتی ہے مسلمان ابھی تارکین وطن ہیں ، جہاں ان کو امتیازی سلوک ، پولیس کی غیر معمولی نگرانی اور بعض صورتوں میں پولیس کے ظالمانہ سلوک اور مقبول جارحانہ سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے میں نے مسلمانوں کو ” نئے یہودی ” بتلائے جاتے سنا ہے – لیکن یہ کوئی مدرگار اینالوجی نہیں ہے ، کیونکہ آج کے غربی یورپ میں جب سے مسلم آئے ہیں ان پر عیسائی کروسیڈرز نے حملہ نہیں کیا ، نہ ہی وہ ایک ملک سے دوسرے ملک نکالے گئے ، نہ ان کو مخصوص لباس پہننے پر مجبور کیا گیا ، ان پر کئی ایک پیشوں کو اختیار کرنے پر بھی پابندی نہیں لگائی گئی اور نہ ہی وہ ںازی کے ہاتھوں زبح کئے گئے –
بلکہ بعض مسلم عسکریت پسند یورپ میں سامی مخالف بڑے کرداروں میں شامل ہیں ( ان کو فرانس اور جرمنی کے نو فسطائیوں اور دیگر ملکوں کے نو فسطاغيوں سے بڑی مدد ملتی ہے ) امریکہ میں ” نئے یہودی ” کا لیبل تو قطعی کام نہیں کرتا ، کیونکہ ایف بی آئی کے 2002ء اور 2011ء کے درمیان اکٹھے کئے گئے اعداد شمار کے مطابق امریکی مسلمانوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب جو ہوا ان کی تعداد 1،388 تھی جبکہ امریکن یہودیوں کے خلاف جراغژ کی تعداد 9،198 تھی جبکہ سیاہ فام امریکیوں کے خلاف تعداد 25،130 تھی ، ہمیں نفرت کا نشانہ بننے والے سبھی لوگوں کا دفاع کرنا چاہئيے ، لیکن یہ کوئی غلط بات نہیں ہے کہ ہم جو زیادہ خطرے کا شکار ہوں ان کی شناخت کریں یہ سچ ہے کہ یورپ کے مسلمان اور زرا کم حد تک امریکہ میں بھی ایک ہراساں اقلیت ہیں ؛ ان کو لیفٹ کی طرف سے درست ہمدردی اور حمائت ملتی ہے ، اور اس سے یہ درست امید بھی ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ ان کو شہریت ملی تو لیفٹ کے ووٹر بنیں گے – کئی ایک دائیں بازو کے گروپ ہیں جو اسلام کے حلا مہم چلاتے ہیں _
فرنگی ڈیفنس ليگ یوکے اور پرو ڈچ لینڈ جرمن پارٹی ہی نہیں بلکہ پاپولسٹ پارٹیاں جن کی الیکٹرول حمائیت بھی کافی ہے جیسے فرانس کا نیشنل فرنٹ اور ہالینڈ کی فریڈم پارٹی بھی اس طرح کی کمپئن چلاتی ہیں ، ان سیاسی جماعتوں اور گروپوں کے رہنما یورپ میں ” اسلام کے ابھار ” کا خوف پھیلاتے ہیں ، اسلامو فوبیا لیفٹ کی سیات کرنے والے ہر شخص کے ہآں غلط ہے ؛ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ اخلاقی طور پر بھی غلط ہے اسلامو فوبیا مذھبی عدم برداشت کی ایک قسم ہے ، بلکہ یہ مذھبی منافرت کی شکل ہے ، اور کسی بھی لیفٹسٹ کے لیے یورپ اور امریکہ میں ایسے متعصب لوگوں کی حمائت کرنا غلط ہوگا جو معاصر مسلمانوں کے بارے میں غلط خیال رکھتے ہیں اور ان کا غلط امیج پیش کرتے ہیں – وہ تاریخی مذھب اور آج کے جنونیوں ميں کوئی فرق نہیں کرتے اور ہر ایک مسلمان کو جو یورپ میں تارک وظن کی حثیت سے رہ رہا ہے پوٹینشل دھشت گرد خیال کرتے ہیں ؛ اور وہ مسلم فلسفیوں ، شاعروں اور فنکاروں کے کئی صدیوں پر محیط کارناموں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں –
مثال کے طور پر ، ڈچ نیشنلسٹ گیرٹ ویلڈر ، لیڈر آف فریڈم پارٹی ، جو قرآن کو نعوذ باللہ ایک فاشسٹ کتاب کہتا ہے اور اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتا ہے ہالینڈ میں – یا ہانس جرگن ارمر ، ڈپٹی فلور لیڈر آف کرسچن ڈیموکریٹک یونین ان ہسی جرمنی وغیرہ ہيں جو اسلام کو عالمی غلبہ و قبضہ کرنے والا ایک مذھب قرار دینے کا دعوی کرتا ہے عالمی عزائم رکھنے والے اسلامسٹ موجود ہیں ( یہاں تک کہ جرمنی میں بھی —- یاد رکھیں جیسے محمد عطا تھا ) ، لیکن تمام مسلمانوں کو اس اسلامی جنونیت کا زمہ دار ٹھہرانا غلط ہے ،
جس کو مسلمانوں کی اکثریت رد کرتی ہے جیسے جرمن ترک رد کرتے ہیں ، گیرٹ و ارمر جیسے لوگ لیفٹ کے اسلامو فوبیا کا شکار ہونے سے بچنے کے حوالے کافی باتیں کرتے ہیں لیکن یہاں ہمیں بہت محتاط ہونا پڑتا ہے – بہت سی تنقید ہے جو نہ صرف اسلامی جنونیوں پر کی جاسکتی ہے بلکہ اسلام پر کی جاسکتی ہے ، جیسا کہ دوسرے مذاہب پر ہوتی ہے – پاسکل برکنر کا استدلال یہ ہے کہ ” اسلامو فوبیا ” کی اصطلاح چالاکی سے وضع کی گئی ہے جو اسلام کو ایسا مقام دے کہ اس پر تنقید کرنے والے پر نسل پرستی کا الزام لگے ہی لگے – اس کا استدلال ہے پہلی مرتبہ یہ الزام کیٹ ملت پر لگا جب اس نے ایرانی خواتیں کو چادریں اتارنے کو کہا – میں نہیں جالتا کہ اسلامو فوبیا کی اصطلاج پہلی مرتبہ کس نے ایجاد کی تھی ،
لیکن برکنر کے بیان کئے گئے نکتہ دوھرائے جانے کے قابل ہے : فیمنسٹوں کے لیے بھی جگہ ہونی چاہئیے جیسے ملت ہے اور تمام کھلے ملحدوں اور سیاسی متشککین کے لیے اسلام بارے کہنے کی جگہ ہونی چاہئیے اور عیسائيت اور یہودیت کے بارے میں بھی اور ان کو اپنے سامعین تلاش کرنے کی اجازت ہو ، ان کے برے کام پر ان کا محاکمہ بھی ہو لیکن ان کے تنقیدی کام کو ایک آزاد معاشرے میں خوش امدید کہنا چاہئے اسلام کے ناقد نہ صرف اپنے آپ کو اسلام فوبک کہلائے جانے سے ڈرتے ہیں بلکہ ان پر ” اورئنٹلزم ” کا خوف بھی طاری ہے –
ایڈورڈ سعید کی کتاب جو کہ گئی مقبول تحقیقی اور پاپولر دلائل فراہم کرتی ہے اسلام کے بارے میں تو معاصر لکھاری ان سے ٹھیک طور پر بچنا چاہتے ہیں لیکن اس کا اپنا استدلال اسلام کے مستقبل بارے اور عرب دنیا کے مستقبل بارے قابل زکر فاصلے سے اس نشان سے بچ کر نکلتا ہے اور یہ اس نے 1970ء کے آخر میں لکھی تھی -سعید کا خيال تھا کہ چند ایک معزز استثنی کے ساتھ مغرب ميں اورئنٹل ازم کی چیت ہوگئی ہے ؛ اس کو یقین تھہ کہ یہ مشرق کے اندر بھی جڑ پکڑ چکا ہے ، تو عرب اور دوسرے مسلم لکھاری اب مستشرق ہی پیدا کررہے ہیں _ یہ ایک تعصب اور سٹیروٹائپ ہے اور اسی طرح سے اپنی تاریخ کو بیان کرنے والے ہیں معاصر عرب دنیا ، سعید نے کہا کہ امریکہ کی دانشورانہ ، ثقافتی کہکشاں ہے –
سعید کی کتاب میں اسلامی احیائیت کہیں بھی سبقت نہیں لے جاتی ، بلکہ برنارڈ لیوس کی طرح معاصر مسلم دنیا کے معاملات میں مذھب کی اہمیت پر اصرار کو اورئنٹل ازم کی مثال خیال کرتا ہے – اور ایک سال بعد ” مسئلہ فلسطین ” میں وہ ” اسلام کی طرف پلٹنے کو ” ایک کلپنا ، خیالیہ کہتا ہے – کسی کے لیے یہ کہنا ابھی بھی مشکل ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ لیفٹ کے لکھاریوں کے سامنے جانے والی “کلپنا ” سے معاملہ کرنا بہت نایاب سی بات ہے تو لیفٹ کی طرف سے اسلام ازم پر تنقید ان دنوں بہت محدود کردی گئی ہے ؛ اسلامو فوبیا تاہم بڑھتا دکھائی دے رہا ہے ، اور یہ پاپولسٹ یا نیشنلسٹ رائٹ کی کی طرف سے ہی نہیں ہے – یہ کیوں ہورہا ہے ؟ نیو اسلاموفوبیا سٹڈیز جرنل جو سال میں دو مرتبہ چھپتا ہے برکلے سنٹر برائے ریس اینڈ جینڈر کی جانب سے ، اپنے دوسرے شمارے کے ایک اداریہ میں اس مسئلے کی جڑ کی نشاندھی کرتا ہے کچھ ماہرین کے نزدیک ، مسلم مخالف جذبات فوری طور پر مسلم دنیا میں ہوئے پرتشدد واقعات اور دھشت گردی کا فطری نتیجہ ہیں – تاہم ہمارا کہنا یہ ہے کہ منفی جذبات کا ابھار بہت ہی منظم اور بہت زیادہ فنڈڈ اسلاموفوبک انڈسٹری کی موجودگی کی وجہ سے ہے ،
جس کا انتظام سول سوسائٹی پر قبضہ کرنے اور پبلک ڈسکورس پر غلبہ بغیر کسی زیادہ مقابلے اور مزاحمت کے لیے کیا جارہا ہے – اسی وجہ سے ابتک نسل پرستانہ مخالف اور ترقی پسند آوازیں اس انڈسٹری کو چیلنج کرنے میں موثر ثابت نہیں ہورہیں ، نہ ہی علاقائی اور قومی رسپانس کو زیادہ کرنے کے لیے درکار وسائل کی فراہمی کے قابل ہیں اگر زیادہ وسائل جرنل کے لیے مہیا ہوں تو یہ اس کے لیے اسلاموفوبک انڈسٹری کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑی مدد ہوگی لیکن معاملہ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں بہت سے پرتشدد واقعات اس کے لیے روکاوٹ بن جاتے ہیں جولائی 2012ء کے نیشن کے شمارے میں اسی طرح کی معذوریوں کا اظہار کئی ایک مضامین میں کیا گیا ہے ،ویسے وہ مضامیں بہت اچھے ہیں – جیک شاہین کا مضمون ” میڈیا نے کیسے مسلم مونسٹر متھ پیدا کی ؟’ اسی طرح کے استدلال کی ایک اور مثال ہے جیسی اسلامو فوبیا اسٹڈیز جرنل کے ایڈیٹرز نے کیا ہے – ناول نگار لیلی ” اسلامو فوبیا اور اس کے بے صبرے ” مضمون میں تسلیم کرتی ہے کہ رجعت پرستانہ بلاسفیمی لاءز اور ناجائز قوانین طلاق اسلام کی جانب جارحیت کا کسی حد تک سبب ہوسکتے ہیں
لیکن وہ ٹھیک طور پر ان وجوہات کو اس ہراساں گئے جانے والے اقدامات کے جواز کے طور پر ماننے سے انکار کرتی ہے جس کے ساتھ وہ یہاں امریکہ میں رہ رہی ہے – نہ ہی مسلم دنیا میں ہوئے پرتشدد واقعات ایسے کوئی حیلے فراہم کرتے ہیں اسلامسٹ جنونیت کو کبھی بھی یوروپ؛ اور امریکی تعصبات کا جواز یا اس کی تشریح کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہئیے – لیکن تعصب سے بچنے کے لیے اس تمام تر جائز خواہش کے باوجود ان پرتشدد واقعات بارے خاموش رہنے کی وجہ نہیں ہونی چاہئیے – مرا مقصد یہاں صرف نیشن کی نشاندھی کرنا نہیں ہے ،
جن کے ایڈیٹرز نے اس خاص شمارے کو ترتیب دیا ، میں تو یہ بتا سکتا ہوں کہ اب لیفٹ کے کسی میگزین یا ویب سائٹ نے اسلامسٹ جنونیت بارے کوئی سنجیدہ انگیجمنٹ نہیں دکھائی اکثر بائیں بازو والوں نے ، ان کی مذھب کو سمجھنے میں جو بھی مسائل درپیش رہے ہزں ، کبھی ہندؤ نیشنلسٹوں ، جنونی بدھوں اور مشنری صہیونیوں کی آبادکاری کی تحریک کی مخالفت میں کوئی مشکل محسوس نہیں کی ( اگرچہ صہیونیوں کی آبادکاری کے معاملے پر ” کوئی مشکل نہ پیش آنے کا فقرہ زرا اندازے کی غلطی ہے ) اور بہرحال ، لیفٹ ميں کوئی ایک بھی اسلامسٹ عسکریت پسندوں کے ساتھ مشترکہ کاز نہیں بناتا جوکہ اسکول کی بچیوں کو اغواء کرتے ہيں ، یا کافروں کو قتل کرتے ہیں اور حریف تہذیت کی تاریخی عمارتوں توڑ ڈالتے ہیں – اس جیسے اقدامات کا جہاں تک تعلق ہے
جہاں تک ان کا نوٹس لیا جاتا ہے تو پھر ان کی مذمت بھی روٹین سے کی جاتی ہے – لیکن نکولوس کوزوف اپنے شاندار آرٹیکل میں ایسے شواہد پیش کرتا ہے جس میں کئي ایک بائیں بازز کے لکھاریوں کی الجزائری اسکول کی بچیوں کے اغواء کا الزام مسلم جنونیوں پر دھرنے میں عدم رضامندی نظر آتی ہے کم بروفروختہ مگر کافی بری ہے بہت سے لیفٹ دانشوروں کی ایسی عدم رضامندی جوکہ ایسے جرائم کی شناخت کرتے ہیں اور اس کا تجزیہ عمومی کرتے ہوئے وہ اسلامی جنونیت کی تنقید سے پرے رہتے ہیں – تجزیہ اور تنقید میں یہ کہاں کھڑے ہوتے ہیں ؟ دیپا کمار کی کتاب ، اسلامو فوبیا اور ایمپائر کی سیاست ، اس سوال کا ایک ممکنہ جواب دیتی ہے : اس راستے میں ایک موقف یہ ہے کہ آج اسلامسٹ “مغرب ” کے مخالف ہیں اور وہ اصل میں مغربی ، حقیقت میں امریکی ” سامراجیت ” کی مخالفت ہے _
جس کی بنیاد سعودی عرب ، دو عراقی جنگوں ، لیبیا میں مداخلت ، اسرائیل کی حمائت ، سومالیہ ميں ڈرون حملے ، وغیرہ وغیرہ ميں ہے میرا استدلال یہاں یہ ہے کہ یہ لسٹ اصل میں ایک مخصوص چنا ہوا رسپانس ہے : کچھ کیسز میں مخالفت ، یقینا لیکن دوسروں مين اتفاق – میں یہ کہنے کی ہمت کرتا ہوں کہ اسلامسٹ جنونیوں کی جانب سے مڈل ایسٹ آمر حکومتوں کا تختہ الٹائے جانے کی حمائت کی اور ان میں سے بعض کو برا کہا جانا اس خطے کے لوگوں کے لیے ہرگز مددگار نہیں ہے -لیکن سامراجیت کے بائيں بازو کے مخالفین عمومی طور پر سیلکٹو فیصلے نہیں دیتے اور نہ ہی اسلامسٹ ایسا کرتے ہیں – تو دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے – ہم نے یہ محاورہ گزشتہ اگست میں روبہ عمل لایا جاتا لندن میں ہونے والے اس مظاہرے میں دیکھا جس کو یو کے میں ” جنگ روکو اتحاد ” نے سپانسر کیا تھا ، جس میں حماس کے پرجوش حامیوں ، بشمول سیکولر لیفٹ اور مذھبی مسلمانوں ( جن ميں بعض بنیاد پرست بھی تھے اگر چہ سب نہیں ) نے بھی شرکت کی تھی ، سیکولر لیفٹسٹ اسلامو فوبیا کے سخت ترین مخالف تھے اگرچہ وہ دوسرے فوبیاز سے آزاد نہ تھے لیکن وہابی جنونیوں کے کرائم کی مذمت کرنے سے رک جانے کی ایک اور وجہ ہے ، اور وہ ہے مغرب کے جرائم کی مذمت کرنے کا عظیم شوق –
“مذھبی جنونیت کا بنیادی سبب وہابیت نہیں ہے بلکہ مغربی سامراجیت ، جبر اور غربت ہے جو مغربی سامراجیت کرتی ہے ” اس قسم کے بہت سے فقرے کئی ایک لیفٹسٹ کہتے اور لکھتے نظر آتے ہیں – مثال کے طور پر ڈیوڈ سوسن پہلے ” وار از کرائم ” ویب سائٹ پر ، پھر ٹی آئی کے کے یو این ویب سائٹ پر ( نروس ہوکر مگر ايڈیٹر کے اعلان لاتعلقی کے ساتھ ) سوال اٹھاتا ہے ” داعش کے بارے میں کیا کریں ؟ ” اور جواب ہے : ” اس سے شروع کریں کہ داعش آئی کہاں سے – امریکہ اور اس کے چھوٹے شراکت داروں نے عراق کو تباہ کردیا ۔” یہ درست ہے ؛ 2003ء کا امریکی حملہ نہ ہوتا تو عراق میں داعش نہ ہوتی ، اگرچہ صدام کا ۃحتہ اندر سے الٹا گيا ہوتا تو بھی یہی مذھبی جنگ شروع ہوجانی تھی -کیونکہ داعش امریکی حملے سے نہیں آتی ؛ بلکہ یہ تو عالمی سطح پر مذھبی احیائیت کے وہابی پروسس کا نتیجہ ہے ، اور اس طرح کی احیائی عسکریت پسندی کی اور بہت سی مثالیں موجود ہیں اور سوسن اس طرح کی توجیح ان سب کے لیے پیش کرسکتا تھا لیکن توجیح اس وقت اپنی ساکھ کھوبیٹھتی ہے جب مثالیں کافی ہوجاتی ہیں لیفٹ نے مذھب کی طاقت کو شناخت کرنے میں ہمیشہ مشکل کا سامنا کیا ہے – کیا تمام مذاہب حکمران طبقے کے لیے آلہ کار کی حثیت نہیں رکھتے ؟ کیا تمام ہزاریہ اور مشنری شورشیں مادی جبر کے مقابلے پر سب آلٹرن گروپوں کا مسخ شدہ ردعمل نہیں رہیں –
مذھبی جنونیت ایک سپر سٹرکچرل مظہر ہے اور اس کو معاشی بنیاد کے حوالے سے سمجھا جاسکتا ہے -یہ قدیم اعترافات آج خاص طور پر چھپائے جارہے ہیں پرویز احمد جوکہ کیلی فورنیا میں ایک پروفیسر ہے اور باکو حرام کی تباہ کاریوں بارے خوب جانتا ہے لیکن وہ اس بارے اپنے بلاگ میں وہی گھسی پٹی توجیح پیش کرتا ہے -وہ دلیل دیتا ہے کہ اسلام کے نام پر جو دھشت گردی اور تشدد کیا جاتا ہے اس میں مذھب کا محرک بہت کم ہوتا ہے بلکہ یہ غربت اور اس سے جنم لینے والی مایوسی ہے جو اصل محرک ہوتی ہے ، اسی طرح سے کتھلائن کیوناف جوکہ آئرلینڈ سے ہیں کہتی ہیں کہ داعش جیسی تنظیمیں تشدد اور دھشت گردی کا جو ارتکاب کرتی ہیں ، اس میں مادی مفادات کارفرما ہوتے ہیں نہ کہ مذھب – تو کیا یہ درست بات ہے ؟یہ غربت ، مایوسی اور مادی مفادات ایک لیفٹسٹ تحرک پیدا کیوں نہیں کرتے اور کیوں ایک اسلامسٹ /وہابی تحرک پیدا کرتے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ مذھبی اخیاء ، نہ صرف مسلمانوں میں ہے بلکہ یہ پوری دنیا میں عیسائيوں ، ہندؤں ، بدھسٹوں اور یہودیوں میں نظر آرہا ہے ، اور اس اخیاء نے تمام سماجی طبقات سے لوگوں کی حمائت حاصل کی ہے اور اس احیائی سرگرمی کی جو قوت متحرکہ ہے وہ مذھبی عقیدہ ہے
(فواز جرجیس کا سفر جہاد : مسلم عسکریت پسندی کے باطن کے مذھبی قوت ہونے بارے ٹھوس ثبوت پیش کرتا ہے ) لیفٹ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اسلامی جنورنیت کو مغربی سامراجیت کی پیداوار ہی خیال نہیں کرتے بلکہ وہ اس کے خلاف مزاحمت کی ایک شکل بھی خیال کرتے ہیں – ان گروپوں کو جو بات پرکشش علوم ہوت؛ی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اسے بنیادی طور پر مظلوموں کی آئیڈیالوجی خیال کرتے ہیں – ایک ایسا ورشن ہے جو لیفٹ کی پالیٹکس کے لیے قدرے اجنبی رہا ہے – زرا ان لیفٹسٹ رائٹرز کا خیال کریں جو امریکی قبضے کے خلاف لڑنے والے شیعہ اور وہابی سلفی عسکری گروپوں کی لڑآئی کو ” مزاحمت ” کہتے ہیں – اسے فرانس کی دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے خلاف مزاحمت سے تشبیہ دیتے ہیں لیکن امریکیوں کے خلاف لڑنے والے عسکریت پسندوں میں سوائے امریکہ سے لڑنے کے علاوہ اور کچھ بھی لیفٹسٹ جیسا نہیں ہے –
یہ مثال فریڈ ہالی ڈے نے ڈیسنٹ میگزین میں 2007ء کے شمارے میں اپنے ایک مضمون ” جہاد ازم آف فول ” میں دی – یہ ایک اچھا ٹیگ ہے لیکن یہ مقبول نہیں ہوا کیونکہ ہم نے سلوو زیزیک کے ہاں اسی سال دیکھا کہ اس نے اسلامی ریڈیکل ازم کو سرمایہ داری عالمگیریت کا ردعمل بتلایا – جوڈتھ بٹلر بھی اسی غلطی کا ارتکاب کرتی ہے جب وہ حماس اور حزب اللہ کی بطور سماجی تحریک کے تفہیم پر وزر دیتے ہوئے یہ اصرار کرتی ہے کہ وہ ترقی پسند ہیں اور لیفٹ تحریکیں ہیں اور عالمی لیفٹ کا حصّہ ہیں – یہ بات اس نے 2006ء میں کہا اور پھر 2012ء میں چند دلچسپ ترامیم کے دوھرایا – اس نے لکھا کہ حماس اور حزب اللہ سامراج مخالف ہیں ، اس لیے وہ گلوبل لیفٹ کا حصّہ ہیں-
لیکن وہ ہر ایک تنظیم کی حمائت نہیں کرتی جو کہ عالمی لیفٹ کا حصّہ ہے – اور خاص طور پر وہ ان دو تنظیموں کی جانب سے تشدد کے ہر طرح کے استعمال کی حمائت نہیں کرتی – میں اس آخری ترمیم کے لیے شکر گزار ہوں ، لیکن ان کو 2012ء ميں لیفٹ کی تنظیمیں کہنا اسی طرح سے غلط ہے جیسے یہ 2006ء میں غلط تھا -یہ توجیح ہمیں بتاتی ہے کہ بہت سارے بائيں بازو کے لوگ حزب اللہ اور حماس جیسی تنظیموں کی حمائت اس لیے کرتی ہیں کیونکہ یہ اسرائيل سے لڑرہی ہیں جوکہ سامراجی امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی ہے اسلام جنونیت کے بارے میں پوسٹ ماڈرنسٹ موقف بھی سامراج مخالفوں سے زیادہ بہتر نہیں ہے – مائیکل فوکالٹ کی ایرانی انفلاب کے لیے اپالوجی کو یاد کریں ؛ ایران ہماری طرح کے رجیم جیسا سچ رکھتا ہے ۔” ثقافتی اضافیت پسندی پر مبنی یہ ورژن ایک مشترکہ وصف بن چکا ہے ، جیساکہ ہم اظہر نفیسی کے کیس میں دیکھ سکتے ہیں –
اس نے ایک کتاب ” ریڈنگ لولئٹا ان تہران ” اسلامی ریاست میں ثقافتی لہر کی پیار بھری کہانی ” لکھی ہے – امریکہ میں جلاوطن نفیسی نے بوسٹن میں ایک انٹرویو لینے والے کو بتایا کہ مجھے مغرب میں بہت غصہ آتا ہے جب لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ ” یہ ان کا کلچر ” چاہے ان کا ارادہ نیک ہو اور وہ ترقی پسندانہ نکتہ نظر سے بات کررہے ہوں – مجھے لگتا ہے جیسے وہ یہ کہہ رہے ہوں کہ میساچوسٹس کا کلچر وچز کو جلانا ہے ۔ یہ کچر کے وہ پہلو ہیں جو کہ واقعی غلط ہیں ۔ ہمیں ان کو قبول نہیں کرنا چاہئیں – وہ جن کی نیت ٹھیک ہو اور وہ ترقی پسند ہوں اور شاید وہ تکثیری ثقافت کے قآئل ہوں ، جوکہ برننگ آ ف وچز کی اجازت دیتی ہے جوکہ میساچوسٹس میں نہ ہوتا ہو –
اسلامی ریڈیکل ازم کا سب سے مضبوط پوسٹ ماڈرن دفاع مائیکل ہرڈت اور اینتنو نیگری کی جانب سے کیا گیا ، جو کہ اسلام ازم کو بذات خود ایک پوسٹ ماڈرن پروجیکٹ بتلاتے ہیں : بنیادپرستی کی مابعدجدیدیت کی پہچان ابتدائی طور پر اس کی جانب سے جدیدیت کا انکار ہے جوکہ مغربی – امریکی تسلط و غلبے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے – اور اس لحاظ سے اسلامی بنیاد پرستی ایک پراڈائمیٹک کیس ہے ، جہاں تک ایرانی انقلاب کا تعلق ہے تو وہ عالمی منڈی کا طاقتور رد تھا ، اور ہم اسے پہلا پوسٹ ماڈرن انقلاب خیال کرتے ہیں ” کیا مرے لیے یہ ایک بے رحمانہ بات ہوگی کہ میں ان کو یہ بتاؤں کہ کیسے آج ایرانی عالمی منڈی میں دوبارہ شریک ہونے کے لیے بے چین ہیں اسلامی جنونیت بارے یہ تمام لیفٹ رسپانس – لیفٹ سے مماثلت کی تلاش ، حمائت ، ہمدردی ، اپالوجی ، برداشت اور گریزپائی _
بہت عجیب نظر آتی ہے اگر ان کی اصل آئیڈیالوجی کے مشتملات کو دیکھیں – جہادیوں کی جانب سے ” مغرب ” کی مخالفت کسی دوسرے کے رسپانس سے پہلے لیفٹ کے لیے بڑی پریشانی کا سبب ہونی چاہئیے – باکو حرام نے مغربی اسٹائل کے اسکولوں پر حملوں سے اپنی تحریک شروع کی اور دوسرے اسلامی گروپوں نے بھی اسی سے ملتے جلتے حملوں سے کام شروع کیا ، خاص طور پر لڑکیوں کے اسکولوں پر حملے – جن اقدار کی جنونی مغربی کہہ کر مذمت کرتے ہیں وہ اپنے جوہر کے اعتبار سے فرد کی آزادی ، جمہوریت ، جنس کی برابری اور مذھبی تکثیریت ہیں – اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مغرب کے باشندے ان اقدار کے مطابق ہمیشہ نہیں رہتے ہیں اور اکثر ان کے دفاع میں ناکام رہ جاتے ہیں جب ان کے دفاعکی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن یہ اقدار وہ ہیں جس کو مغربی منافقت سلام کرتی ہے _
اور ان اقدار کو اپ ہولڈ کرنے کے لیے ہم سے بعض مغربی جدوجہد کرتے ہیں حالیہ سالوں میں ،روس اور چين نے بعض اوقات مغربی سامراجیت اور مغربی اقدار دونوں کا مخالف ہونے دعوی کیا ، لیکن ان دونوں ملکوں نے زیادہ حریف سامراجی سامراجی ملک ہونے کا ثبوت دیا نہ کہ سامراجیت کے مخالف ہونے کا – جبکہ ان کے رہنماؤں نے بعض اوقات متبادل اقدار بھی پیش کرنے کی کوشش کی ، جیسے چین کے حکمران کنفیوشش کے ” توازن و ہم آہنگی کے آدرش کا زکر کرتے ہیں – لیکن جن اقدار کے ہ دعوے دار ہیں ان سے ان کی وابستگی نظر نہیں آتی – لیکن اسلامی جنونی یقینی طور پر لگن کےپگے ہیں – ان کے اپنے بلند عزائم ہیں ، بلکہ یہ وہ بلند مثالی آدرش ہیں ، جوکہ مادی مفادات کے بہت تھوڑی جگہ چھوڑتے ہیں –
ان کی جنونیت ایک ویلیو جنونیت ہے ، تھیالوجیکل پس منظر سے جو برآمد ہوتی ہے اور یہی مغربی اقدار کے لیے حقیقی چیلنج ہے – لیکن فرد کی آزادی ، جمہوریت ، صنفی برابری اور مذھبی تکثیریت کوئی مغربی اقدار تو نہیں ہیں بلکہ یہ عالمی اقدار ہیں جوکہ زیادہ خوبصورت طریقے سے لیفٹ کی تعریف متعین کرتی ہیں ، جن کا آظہار زیادہ خوبصورت طریقے سے مغربی یورپ اور امریکہ میں ہوا ہے -لیفٹ اٹھارویں صدی کی ایجاد ہے ، سیکولر خرد افروزی کی ايجاد ہے – تمام بڑے مذاہب میں ایسے لوگ موجود تھے جنھوں نے بالقوہ طور پر لیفٹ پوزیشنیں لیں _
جیسے عدم تشدد کے حامی ، اشتمالی ، ماحولیات پسند ، غریبوں کے مسیحا ، یہاں تک کہ وہ لوگ بھی ، جن کا خدا کے ہاں سب کے برابر ہونے کا عقیدہ پایا جاتا ہے ( اور شاید اس سے مردوں کی برابری مراد ہے ) – لیکن کلاسیکل لیفٹ جیسی کوئی بھی چیز کبھی بھی ہندؤں ، یہودیوں ، بدھسٹوں ، مسلمانوں اور عیسائيوں میں نہیں پائی گئی اور لیفٹ کی اقدار وہ مغربی اقدار ہیں جس کو اس نے بہت سنجیدگی سے لیا – تو ان اقدار کی مخالفت ایک ایسا معاملہ ہے جس کا لیفٹ کو ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئيے – مضبوط اپوزیشن آج کل اسلامسٹ ریڈیکل سے آتی ہے اور اسی وجہ سے بہت سے لیفٹسٹ اسلامسٹ ریڈیکل سے مقابلہ کرنے سے گریزاں ہیں جبر اور غربت کے خلاف ایک حقیقی اور اصلی لیفٹسٹ تحریک کیسی ہوگی ؟
سب سے پہلے اس تحریک کو مظلوموں کی تحریک ہونا پڑے گا ، ان مرد و خواتین کو متحرک کرنے والی تحریک ، جو پہلے سست تھے ، غیر واضح تھے ، ڈرے ہوئے تھے ، اب وہ اپنے لیے بولنے کے قابل اور اپنے انسانی حقوق کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں – دوسرا ، اس کا مقصد آزادی ہوگا یا ، بہتر طور پر ان جیسے لوگوں کی نجات ہوگا – اور اس کی قوت متحرکہ ایک وژن ہوگا ، اس میں شک نہیں ہے کہ اس کی جزوی شکل مقامی کلچر سے بنے گی ، ایک نئی سوسائٹی ہوگی جس کے اراکین ایک جیسے مرد و عورت ہوں گے جو کہ زیادہ آزاد ، زیاد بربر ہوں گے اور ان کی حکومتیں زیادہ زمہ دار اور زیادہ جواب دہ ہوں گي -یہ لیفٹ کی آرزؤں کا غیر معمولی بیان نہیں ہے – تو اس آردرش کے حامل وژن کو دیکھتے ہوئے یہ ایک راز ہی ہے جو اب تک کھلا نہیں کہ لیفٹ کا کوئی آدمی کیسے اسلامسٹ گروپوں کو عالمی یا کسی اور لیفٹ کا حصّہ خیال کرسکتا ہے لیفٹ کو ان اسلامسٹ گروپوں کو کیسے جواب دینا چاہئیے –
جیسا کہ مرا یقین ہے کہ یہ جواب ناقدانہ ہونا چاہئیے ، یہاں میں عسکری رسپانس کی تجویز نہیں دے رہا -عراق اور شام میں اسلامی جنونیوں کا ایک بین الاقوامی بریگیڈ لڑ رہا ہے ، لیکن لیفٹسٹ کے اس طرح سے لڑاکوں کے بھرتی ہونے اور ایک انٹرنیشنل لفٹسٹ فائٹر بریگیڈ بننے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے -تو یہآں یہ تو معاملہ ہی نہيں ہے کہ ہم ان کو کہیں بھیج سکیں -تو لیفٹسٹوں کو ان یسکری کوششوں کو سپورٹ دینا ہوگی جو ان جنونیوں کے خون خرابے کو روکنے کے لیے کی جارہی ہیں -تو میں اسلام ازم کو محدود کرنے کی پالیسی پر فوکس کرنے کے حق میں ہوں نہ کہ ان کو مکمل تباہ کرنے کے لیے جنگوں کے ایک سلسلے کو شروع کرنے کے -یہ ایک بخار ہے جو اپنے آپ کو خود جلاڈالے گا –
ان لوگوں کی کیسے مدد کی جائے جو کہ اسلامی جنونی دھشت گردوں کا نشانہ بن رہے ہیں ، یہ وہ سوال ہے جس سے بار بار ہم کو سابقہ پڑے گا – اور ہمیں اس سوال سے نبرد آزما ہونے کے لیے آئیڈیالوجیکل وار سے آغاز کرنا چاہئیے اس جنگ میں ہمیں سب سے پہلے اسلامسٹ جنونیت اور بذات خود اسلام میں فرق کرنے کی ضرورت ہے – مجھے شک ہے کہ ایسے کرنے سے ہمیں کوئی کریڈٹ مل پائے گا – پال برمان اور میرڈتھ ٹیکس اسلام ازم کے خلاف جو بھی لکھا گیا اس میں بڑی احتیاط سے چھان بین کی ہے – ، اور ان کے ناقدوں نے اس کا نوٹس نہ لینے کا انتظام بھی خوب کیا – اس کی کوئی پرواہ نہیں اہونی چاہئیے کہ کوئی پرواہ نہیں کرتا ، لیکن تمیز کرنا اور فرق کرنا اب بھی بہت اہم ہے –
ہمیں خاص طور پر حسن البناء ، سید قطب مصری اور مولانا مودودی ہندوستانی جیسے اسلامی جنونیوں اور ماضی کے عظیم مسلم فلسفیوں ، لبرل اصلاح پسندوں کے کام کے درمیان امتیاز کرنا ہوگا – یہ کام ہمیں ایسے ہی کرنا ہوگا جیسے ہم عیسائی کروسیڈرز کے خطبوں اور محققانہ تھیالوجی کے درمیان تمیز کرتے ہیں ہمیں مسلمانوں کے ساتھ بھی تعاون کرنا چاہئیے ، اور ان مسلمانوں پر تنقید سے گریز کرنا چاہئیے جو جنونیت کے مخالف ہیں – اور جب وہ مدد مانگیں ان کو مدد بھی دینی چاہئیے – مسلمانوں میں اس طرح کے بہت سے جنونیوں کے مخالف ہیں اور ان کا رجحان لیفٹ کی جانب تھا لیکن ان کو لیفٹ کے دوستوں سے مدد نہیں ملی تو وہ رائٹ کی طرف چلے گئے ، لیفٹ اور فیمنسٹوں کو سوچنا چاہئیے کہ امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ جیسے دائيں بازو کے ادارے جنونیت مخالف بہت سے مسلم دانشور مرد و خواتین کو جیتنے میں کیسے کامیاب ہوئے ایان ہرسی علی کی مثال اس حوالے سے قابل زکر ہے جو اسلامی جنونیوں کی سخت مخالف تھی اور اسی جنون کے خلاف وہ لیفٹ کے قریب ہوئی تھی ، لیکن لیفٹ میں اسے زیادہ حامی نہ ملے تو وہ رائٹ کے قریب ہوگئی اور اس کی تنقید اسلامی جنونیت پر مبنی اسلام ازم سے بذات خود اسلام تک آگئی –
ہمیں ہرسی علی کے شدید غصے سے ڈرنا نہیں چاہئیے ، جوکہ اسلام ازم سے اسلام تک پہنچ جاتا ہے اور وہ اس تجربے سے وہ اخذ کرتی ہے جو ہم میں سے کسی کے پاس نہیں ہے ، لیکن ہم اس کے سفر سے خاصا فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، لیفٹسٹ میں مسلم دنیا سے آنے والے ملحدوں کو خوش آمدید نہ کہنے کا عجیب رجحان پایا جاتا ہے ، جبکہ کرسچن ورلڈ سے آنے والے ملحدوں کا بہت جوش سے سواگت کیا جاتا ہے دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اکیڈمک تھیوری جوکہ لیفٹ کی تھیوری بھی ہے جس میں سائنس اور سیکولر ازم کی فتح کے ناگزیر اور لازمی ہونے کی پیشن گوئی کی جاتی ہے ٹھیک نہیں ہے _______ کم از کم ، اس وقت ٹھیک نہیں ہے –
بائیں بازو کو حکمت عملی بنانا ہوگی کہ پوسٹ سیکولر دور میں سیکولر ریاست کا دفاع کیسے ہوگا اور ملائیت و تھیوکریسی کی جانب سے مذھبی دلائل کے زریعے سے جو برابری اور جمہوریت کے خلاف کام کیا جارہا ہے اس کام کو رد کرتے ہوئے جمہوریت اور برابری جیسی اقدار کا دفاع کیسے کیا جائے – مذھبی ڈاکٹرائن اور عمل کی اپیل یقینی طور پر آج موجود ہے اور ہمیں اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے اگر لوگوں کو مذھبی جنونیت کے خوفناک ہونے کا یقین دلانا چاہتے ہیں ثالث ، ہمیں جنونیوں کی طاقت اور ان کی سیاسی رسائی کی حد کو پہچاننا چاہئیے – ہمیں صاف جنونیوں کو اپنا دشمن قرار دینا چاہیئے – اور ان کے خلاف ایک انٹلیکچوئل مہم چلانے کا عزم کرنا چاہئیے _
اور وہ مہم آزادی ، جمہوریت ، برابری اور تکثیریت کے دفاع کی ہونی چاہئیے – میں یہ نہیں کہہ رہا کہ بائیں بازو کو ” تہذیبوں کے تصادم ” کو مان لینا چاہئیے – تمام بڑی مذھبی تہذیبیں برابر متشدد جنونی پیدا کرنے کی اہل ہوتی ہیں اور وہ ایسے ہی امن سے پیار کرنے والے بزرگ _ اور ان کے درمیان ہر طرح کی چیز پیدا کرنے کے قابل ہوتی ہیں -تو ہمیں اسلامی جنونیوں کے خلاف جدوجہد کو تہذیبیاتی کی بجائے آئیڈیالوجیکل اصطلاحوں میں لڑنی چاہئيے – بہت سے مسلمان مغربی اقدار کو عالمگیر اقدار سمجھ کر اور مان کر حمائت کرتے ہیں اور لیفٹ کی حمائت کرتے ہیں ، اور وہ اسلامی ، ہندؤ اور یہودیوں اور عیسائی متون میں ان اقدار کو تقویت دینے دینے اور مزید مکھن لگاکر ایسی اقدار کی حمائت کرتے ہیں 1.
Cohen, What’s Left: How Liberals Lost Their Way (London: Fourth Estate, 2007), 361. 2. National Review Online, January 2013. I haven’t seen these figures on a leftist website. 3. The Telegraph (website), August 2007. 4. Euro-Islam Info, April 2010. 5. Bruckner, The Tyranny of Guilt: An Essay on Western Masochism (Princeton: Princeton University Press, 2010), 48. 6. Said, Orientalism (New York: Pantheon, 1978), 322, 318. 7. Said, The Question of Palestine (New York: Vintage Books, 1980), 184. 8. Huffington Post, May 2014. 9. Kumar, Islamophobia and the Politics of Empire (Chicago: Haymarket Books, 2012). 10. Tikkun website, September, 2014. 11. Huffington Post, July, 2014. 12. Dissent blog, September, 2014 13. Fawaz Gerges’s Journey of the Jihadist: Inside Muslim Militancy (Orlando: Harcourt, 2006) provides ample evidence of religion’s power. 14. Dissent, Winter, 2007. 15. Zizek, Violence: Six Sideways Reflections (New York: Picador, 2008), 187, 139. 16. Mondoweiss, August 2012. 17. Quoted in Janet Afary and Kevin B. Anderson, Foucault and the Iranian Revolution: Gender and the Seductions of Islamism (Chicago: University of Chicago Press, 2005), 125. 18. identitytheory.com, February 2004; I thank Nick Cohen for this reference. 19. Hardt and Negri, Empire (Cambridge, Mass.: Harvard University Press, 2000), 149. 20. Berman, Flight of the Intellectuals (New York: Melville House, 2010), chapter 8. 21. Quoted in Meredith Tax, Double Bind: The Muslim Right, the Anglo-American Left, and Universal Human Rights (New York: Center for Secular Space, 2012), 82.
Source:
http://lail-o-nihar.blogspot.com/2015/01/blog-post_19.html