جاوید چوہدری کی شعبدہ بازی ۔۔۔ از نور درویش

آپ جب جاوید چوہدری صاحب کا یہ کالم پڑھنا شروع کریں گے تو آخری پیراگراف تک پہنچنے سے پہلے پہلے آپ دل ھی دل میں چوہدری صاحب کو بھرپور داد دیں گے اور حیرت سے سوچتے رھیں گے کہ آج تو چوہدری صاحب نے بھی حق بات کہہ دی اور مرد مومن ضیاء الحق کے متبرک جھاد کی حقیقت پر کھل کر بات کر دی۔ لیکن تسلی رکھیئے آپ جیسے ھی آخری پیراگراف پڑھنا شروع کریں گے، آپ کا تمام حسن ظن جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا اور آپ کو بے اختیار پنجابی کی وہ مشہور مثال یاد آجائے گی کہ چوہدری صاحب نے سجا وکھا کہ کھبا مار دتا مطلب سیدھا ھاتھ دکھا کر الٹے ھاتھ سے تھپڑ مار دیا۔ ابھی تو ھم سے چوہدری صاحب کے مجوزہ دہشت گردی سے بچاو کے وہ طریقے ھی ہضم نہیں ھوئے تھے جن کے مطابق پاکستونیوں کو اپنے ناموں سے نقوی،، جعفری، کاظمیِ فاروقی اور بریلوی جیسے تخلص ھٹا دینے چاہیں، کہ چوہدری صاحب نے چند اور مفید مشورے عطا کر دیے۔

موصوف نے نہایت خوبصورتی سے ایک منجھے ھوئے کالم نویس کی طرح پہلے دہشت گردی سے متاثرہ طبقے کی ھمدردی جیتنے کیلیئے اور غالبا پشاور  سانحے کے بعد پیدا ھونے والے شدید عوامی رد عمل  کی وجہ سے پہلے پاکستان کے گذرے ھوئے سنہرے دنوں کا ذکر کیا، جوش ملیح آبادی اور فیض جیسے ترقی پسند شاعروں کا ذکر کیا، صادقین و گل جی کی بات کی، ثقافتی رنگوں کا ذکر کیا، میلوں، فلموں، مصوری اور فنون کا ذکر کیا۔ پھر ھمیں بتایا کہ کس طرح ۸۰ کے بعد جنرل ضیاء کے افغان جھاد کی بدولت پاکستانی معاشرے میں انتہا پنسدی پروان چڑھنا شروع ھوئی۔ انہوں نے یہ تک بتا دیا کہ اس جہاد میں علماء کا بہت بڑا کردار رھا۔ ان کے خیال میں امریکہ اور جنرل ضیاء نے مل کر تحقیق کی کہ یہ جھاد مولویوں کے بغیر ممکن نہیں۔ 

چوھدری صاحب نے یہاں ایک اور بھی دلچسپ نتیجہ پیش کیا کہ مولویوں کی خدمات حاصل کرنے کی دو وجوھات تھیں۔ پہلی وجہ یہ کہ بر صغیر کے مسلمان مذھبی طور پر کنفیوزڈ ھیں اور دوسری وجہ یہ کہ یہ لوگ صدیوں سے زندگی سے زیادہ موت کو پسند کرتے ھیں، اس کی مثال ستی کی ھندوانہ رسم کے ذریعے پیش کی گئی (معلوم نہیں کیوں)۔  ھم ان دونوں وجوہات کو نہیں مانتے۔ بر صغیر یا پوری دنیا کے مسلمان، سب کو یہ ھی زعم ھے کہ بس وہ حق پر ھیں اور باقی سب کافر، مشرک، بدعتی اور گمراہ ھیں۔ اور یہ روش  ھر جگہ موجود ھے۔ غالبا چوہدری صاحب یہ کہنا چاہ رھے ھیں کہ بر صغیر کے مسلمان مذھب سے جذباتی لگاو رکھتے ھیں جس کا فائدہ مولوی کے ذریعے اٹھایا گیا۔ دوسری وجہ تو تبصرے کے قابل ھی نہیں۔ ستی کی رسم اور غیر ضروری مثالیں دینے سے بہتر تھا کہ موصوف دیوبندی تکفیری مولویوں کے برین واشنگ کے طریقوں کا ذکر کر دیتے جو وہ مدرسے کے طالب علم کو خود کش حملے پر آمادہ کرنے کیلیئے اختیار کرتے ھیں۔ اگر بر صغیر کے لوگ موت کو اتنا ھی پسند کرتے تو پاکستان میں تکفیری خارجیوں کی دہشت گردی کا نشانہ بننے والا بڑا طبقہ سراپا احتجاج ھونے کی بجائے ان دہشت گردوں کا شکریہ ادا کر رھا ھوتا۔ منفرد اور سب سے جدا نظر آنے کی خواہش چوہدری صاحب سے پتہ نہیں کیا کیا سرزد کرواتی رہتی ھے۔

اب ذکر کرتے ھیں اس کالم کے اصل حصے کا۔ جسے چوہدری صاحب کا طریقہ واردات کہا جائے تو بہتر ھوگا۔ یہ کاری گری ھمیں حامد میر اور انصار عباسی کی کالموں میں بھی نظر آتی ھے۔ افغان جہاد کا ذکر کرتے ھوئے موصوف فرماتے ھیں کہ جب ھمارے ملک میں اسلام کے نام پر بندوق اٹھائی گئی تو اس کے رد عمل میں معتدل طبقے نے بھی جوابا بندوق اٹھا لی۔ یہ معتدل طبقے پہلے مختلف مافیا کے پیچھے چھپے، پھر سیاسسدانوں کے پیچھے اور اور بعد میں فرقوں کے پیچھے چھپ گئے۔ ھم یہ جاننا چاہیں گے کہ اسلام کے نام پر بندوق اٹھانے والے کون ھیں اور معتدل لوگ کون ھیں جو کبھی مافیا، کبھی سیاستدانوں اور آخر میں فرقوں کے پیچھے چھپ گئے؟اس سوال کا جواب چوہدری صاحب کا ضرور دینا چاہیئے۔

یہ ایک مجرمانہ توجیح ھے جو آج کل  تکفیری جماعتوں کے وکیل تجزیہ نگار پیش کر رھے ھیں۔ ان کی بات کا مطلب یہ ھوا کہ پاکستان میں اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے اور ان کے مخالف دونوں ایک دوسرے کو مار رھے ھیں؟ یعنی ایک طرف اسلام کا نام لیکر دہشت گردی کرنے والے بندوق برادر اور دوسری جانب معتدل سوچ رکھنے والے بندوق بردار جو آج کل فرقوں کے پیچھے چھپے ھوئے ھیں؟ اگر ان کی توجیح کا کوئی اور پہلو نکلتا ھے تو ھماری اصلاح کر دی جائے۔ حقیقت یہ ھے کہ اس وقت پورے پاکستان میں صرف مخصوص مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد شیعوں، بریلوی سنیوں اور اقلیتوں کے قتل عام میں ملوث ھیں۔ صرف اڑتالیس گھنٹوں کے اندر بیس کے قریب شیعہ ان تکفیری جماعتوں کی دہشت گردی کا شکار ھو چکے ھیں۔ کوئی مثال پیش کریں جب کسی شیعہ یا  سنی بریلوی یا کسی عیسائی یا احمدی نے جوابا ان تکفیریوں پر حملہ کیا ھو؟

اس تمام تمہید کے بعد جاوید چوہدری صاحب اصل مدعا بیان کرتے ھوئے فرماتے ھیں کہ چونکہ یہ حالات علماء کی ھی وجہ سے پیدا ھوئے ھیں تو ان کا حل بھی انہیں کے ذریعے نکالنا چاہیئے۔ ان کو اپنے ساتھ بٹھانا چاہیئے تاکہ یہ ھمیں مشورے دے سکیں۔ اگر ھم انہیں ھٹا کر مسئلے کا حل نکالیں گے تو ھم کامیاب نہیں ھونگے۔ حسب معمول چوہدری صاحب ایک عجیب منطق پیش کرتے ھوئے فرماتے ھیں کہ امریکہ نے ۲۰۰۱ میں افغانستان اور ۲۰۰۹ میں وزیرستان میں آپریشن سے پہلے برطانیہ میں موجود ان ماھرین سے مشورہ کیا تھا جو افغانستان اور قبائلی علاقوں میں خدمات انجاب دے چکے تھے اور ان ماھرین نے امریکہ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ زمین پر فوجیں مت اتاریں بلکہ فضائی جنگ کریں۔ ورنہ آپ کبھی نہیں جیت سکیں گے۔ امریکہ نے اس پر عمل کیا اور ڈرون کی صورت میں اب تک کر رھا ھے۔ لہذا ھمیں بھی چاہیئے کہ ھم علماء کو ساتھ بٹھایئں، کیونکہ وہ ھی ھمیں اس مسئلے کا حل بتا سکتے ھیں۔ 

آپ کا دل یقینا موصوف کو ۲۱ توپوں کی سلامی دینے کا چاہ رھا ھو گا لیکن اس سے پہلے ھم یہ پوچھنا چاھیں گے کہ برطانیوی ماھرین سے مشورے کی مثال  کا علماء کو ساتھ بٹھانے سے کیا تعلق بنتا ھے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس معرفت انگیز دلیل کے ذریعے آپ نہ صرف پاک فوج کے اپیشن ضرب عضب پر اپنے تحفظات کا اظہار فرما رھے ھیں اور ساتھ ساتھ دیوبندی مولویوں کی حمایت بھی کر رھے ھیں جو مدرسوں کی مانیٹرنگ کو لیکر سیخ پا ھو رھے ھیں؟ جنہوں نے فوجی عدالتوں پر اعتراض کیا، مخصوص مکتب فکر کے مدرسوں کو ٹارگٹ کرنے کا شوشہ چھوڑا اور بار بار ناراض ھوتے رھے؟

 سوال تو یہ بھی پیدا ھوتا ھے کہ وہ کون سے علماء ھیں جن کے ذریعے یہ مسئلہ پیدا ھوا اور جن کو اب ساتھ بٹھانے کی ضرورت ھے؟ یقینا وہ دیوبندی اور سلفی نظریات کے حامل علماء ھیں۔۔ جب جاوید چوہدری صاحب نے اتنا مفصل تجزیہ کر دیا ھے تو خدارا یہ بھی بتا دیں کہ کیا ان علماء میں کالعدم تنظیموں کے رھنما بھی شامل ھیں جو کھلے عام شیعوں اور بریلوی سنیوں کا قتل عام کرنے کا پرچار کرتے ھیں؟ اور یہ بھی بتا دیں کہ ان کو ساتھ بٹھا کر مسئلے کا کیا حل نکالا جائے گا؟ کامیابی کی صورت میں کیا ھوگا اور ناکامی کی صورت میں کیا ھوگا؟ 

گفتگو کا اختتام موصوف اس بات پر کرتے ھیں کہ  علماءکو ساتھ بٹھائیں، ان سے مدد لیں۔ یہ آپ کو مشورہ بھی دیں گے اور مدد بھی کریں گے  (اس قدر پر اعتمادی؟؟؟)۔ کیونکہ دنیا میں وھی لوگ مسئلہ حل کر سکتے ھیں جنہوں نے پیدا کیا ھو۔ اس لیے اگر آپ نے انہیں سائڈ پر کیا تو آپ کامیاب نہیں ھونگے۔ الفاظ کی ھیرا پھیری کہیں یا ضمیر فروشی، ، جاوید چوہدری صاحب اگر یہ بھی بتا دیتے کہ جن علماء کو وہ مسئلے کی وجہ بتا رھے ھیں کیا وہ علماء خود اپنے آپ کو اس مسئلے کی وجہ مانتے ھیں؟ کیا یہ وہ ھی علماء نہیں جو ھماری جنگ اور امریکہ کی جنگ کا راگ الاپتے رھے ھیں، ملک میں دہشت گردی کے ھر واقعے کو ڈرون کا رد عمل کہتے رھے ھیں؟ طالبان سے مذاکرات کی حمایت اور ان کے خلاف اپریشن کی مخالفت کرتے رھے ھیں، فوجیوں کو ھلاک اور طالبان کو شہید کہتے رھے ھیں؟ جو پشاور سانحے کے بعد طالبان کا نام لیکر مذمت کرنے  پر آمادہ نہیں تھے، جو مدارس کی مانیٹرینگ کے مطالبے پر سراپا احتجاج ھیں، جن کی ھمدردیاں طالبان کے ساتھ رھی ھیں اور جن کی اپنی سرپرستی میں چلنے والے مدارس میں دہشت گرد اپنی منصوبہ بندی کرتے رھے ھیں؟  گویا وہ عوامل جو صریحا دہشت گردوں کی پشت پناہی کا ثبوت دیتے رھے ھیں، آپ ان سے دہشت گردی کے حل کی توقع کر رھے ھیں؟ ان کی جانب سے کس قسم کا حل متوقع ھے، اس کا ھمیں بخوبی اندازہ ھے۔  اور اس کی مثالیں ھم ماضی قریب میں طالبان کمیٹی اور حکومتی کمیٹی کے ٹوپی ڈرامے میں دیکھ چکے ھیں۔ لہذا آپ اپنے  مشورے سنبھال کر رکھیں اور اپنے محبوب، مربی و آقا علماء کرام کی وکالت کیلیئے مزید توجیحات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رھیں۔

http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1102622989&Issue=NP_LHE&Date=20150111

Comments

comments

Latest Comments
  1. Niaz Ahmed
    -
  2. Nasir
    -
  3. mohsin raza
    -
  4. Razzaq shahid kohler
    -
  5. Hasnain
    -