سانحہ پشاور پر دیوبندی طالبان اور دیوبندی سوشلسٹوں کا ملتا جلتا موقف – عامر حسینی
ایک بیان تحریک طالبان مہمند ایجنسی کے سربراہ محمد خالد بلتی عرف خراسانی کا ہے اور دوسرا بیان سوشلزم فار پاکستان کا ہے دونوں پشاور آرمی پبلک اسکول میں 142 افرادکی شہادت کی اندوهناکی کو کم کرکے کے دکهانے اور اس کو افغناستان اور قبائلی علاقوں میں جاری اس تصادم کا نتیجہ و ردعمل بتاتے ہیں جو پاکستان اور افغانستان کے اندر ان بنیادی فریقوں اور ان کے وارثوں کے درمیان جاری ہے جو اسی کی دهائی میں اپنے اپنے مفاد اور نظریہ کے تحت ایک جهنڈے تلے سویت یونین اور افغانستان کی سوشلسٹ حکومت کے خلاف جمع ہوگئے تهے
اور یہ دنیا بهر بشمول پاکستان کے وهابی ،دیوبندی ، جماعتی ، اخوانی برانڈ کے جہادی تهے جنهوں نے افغانستان کو نام نہاد جہاد کے لئے تجرباتی سرزمین قرار دیا تها اور پهر یہ اتحاد جینیوا میں روس و سرمایہ داری بلاک کے درمیان ایک مجوزہ معاهدے اور سوویت یونین کے منهدم ہوجانے کے بعد شکست و ریخت کا شکار ہوا اور دیوبندی وهابی ازم کے جهنڈے تلے جمع ہونے والوں نے اپنے طور پر ہی پوری دنیا پر اپنی امارت کا جهنڈا لہرانے کا فیصلہ کرلیا اور ساته ساته ان کی خدمات علاقائی تنازعوں کے دوران مختلف ملکوں نے اپنی پراکسیز کے لئے حاصل کرنا شروع کیں ،
پاکستان کی اسٹبلشمنٹ نے ان کے کچه حصوں کو افغانستان و ہندوستان کے لئے هائر کرلیا ، کچه کو بلوچستان میں گوریلوں سے حساب کتاب بے باک کرنے کے لئے هائر کررکها ہے اور کئی ایک پاکستان میں ان کے ڈسکورس کے آڑے آنے والوں کو هائر کررکها ہے اور ان میں سے کچه کو پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ہائر کیا ہوا ہے اور تو اور ان کو پاکستان کے بہت سے مافیاز بهی هائر کررہے ہیں اور یہ سارے کا سارا دیوبندی تکفیری مافیا ہے جو ہر سمت ایک غدر مچائے ہوئے ہے اور یہی دیوبندی تکفیریت ہے جس کے آزاد اور منظم وجود کو مختلف پردوں میں چهپانے کی کوشش ہورہی ہے اور یہ کوشش صرف دائیں بازو کے دیوبندی پرست صحافی و دانشور ہی نہیں کررہے بلکہ یہ کوشش سرخ لبادے کے ساته بهی جاری و ساری ہے
سوشلزم فار پاکستان سمیت کئی ایک بائیں بازو کے فیس بک پر بنے پیجز ایسے ہیں جن کا سامراج ، سرمایہ داری ، قومی سوال جیسے سوالوں پر موقف اصل میں دہشت گردی کو جواز فراہم کرتا ہے اور بالواسطہ طور پر وہ دیوبندی تکفیری فاشزم کے ساته ہمدردی کا سبب بنتا ہے
سوشلزم فار پاکستان کے تصویر میں دئے گئے بیان کو زرا غور سے پڑهئے اور اس بیانیے کو ماننے کے بعد کیا یہ گنجائش نکلتی ہے کہ آپ پشاور کے ان 142 لوگوں کی شہادت پر آنسو بہائیں ، ان کے قاتلوں کی مذمت کریں اور کیا اس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کے لئے دیوبندی وهابی فاشزم بالزات طور پر موجود ہے اور یہ انسانیت کے لئے کوئی خطرہ ہے ، یہ دیوبندی وهابی فاشزم کو فاشزم ماننے اور ان کی جانب سے صوفی سنی ، شیعہ کی نسل کشی اور ان کی جانب سے ہندوں ، عیسائیوں ، احمدیوں کی مذهبی پراسیکوشن کے وجود کو ماننے سے انکاری ہیں
اور یہ ان کی نفسیاتی خلل سے جنم لینے والی فسطائیت کو ماننے سے انکاری ہیں اور اس کو ردعمل قرار دیتے ہیں اس ملٹری آپریشن کا جو وزیرستان اور خیبرایجنسی میں دس سال گول مول پوزیشن کے بعد اس ملٹری نے شروع کررکها ہے جس کا سابق چیف یہ کہہ کر اس آپریشن کو ملتوی کرتا رہا کہ اس کے بعد دیوبندی فاشزم اور خونخوار ہوجائے گا جبکہ ان کی خونخواریت آپریشن نہ کرنے سے کئی گنا اور بڑه گئی تهی اور آج جب اس عفریت کے ایک بڑے حصے کی کمر ٹوٹی تو دیوبندی تکفیریت کے حامی کہیں لبرل ازم کے نام پر ، کہیں سوشلزم کے نام پر اور کہیں مذهب کے نام پر دیوبندی تکفیری فاشزم کو بچانے کے لئے میدان میں نکلے ہوئے ہیں
سوشلسٹوں کو چاہئیے کہ وہ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے اندر جہاد کشمیر کے نام پر اور تحفظ بلوچستان کے نام پر دیوبندی وهابی جماعتی فاشزم کی سرپرستی کے فی الفور خاتمے کا مطالبہ کریں اور پاکستان میں اس فاشزم کے ہمدردوں کے خلاف منظم تحریک چلائیں نہ کہ وہ اس فاشزم کا جواز تلاش کرنا شروع کردیں اور یہ ثابت کرنے لگیں جسے ایک کیمپ مذهب پرست دیوبندی تکفیریوں کا ہے تو ایک کیمپ بائیں بازو کے اندر بیٹهے ملحد دیوبندی مارکسسٹوں کا ہے اور ان سب کا مقصد دیوبندی تکفیری فاشزم کو بچانا ہے