قیام بنگلہ دیش اور تاریخ کے جھوٹے درشن – عامر حسینی

 

Sunday-Times-Genocide-Bangladesh 3

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سماجی علوم نے حال ہی میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ڈھاکہ یونورسٹی کے سنٹر فار ڈیٹا اباؤٹ جینوسائیڈ ان 1971ء سے وابستہ پروفیسر امتیاز احمد کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن آخری لمحات میں ان کو کانفرنس میں شرکت سے اس لیے روک دیا گیا کہ جماعت اسلامی کی طلباء تنظیم اسلامی جمعیت طلباء نے وی سی یونورسٹی پر دباؤ ڈالا کہ مذکورہ پروفیسر کو کانفرنس میں اپنا مقالہ نہ پڑھنے دیا جائے اور یونورسٹی انتظامیہ اس تنظیم کے آگے سرنڈر کرگئی ، جبکہ شعبہ سماجی علوم کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر پر بھی اس دباؤ کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر امتیاز احمد واقعی ایک متنازعہ پروفیسر ہیں اور ان کے بلاگ پر بنگالیوں کی تحریک آزادی کے بارے میں ایسا مواد موجود ہے جوپاکستان کے قومی مفادات کے خلاف ہے

اس ایک واقعہ سے ہم یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پاکستان کی جامعات کے اندر کس قدر آزادی پر قدغن ہے ، ڈاکٹر عبدالکریم سروش جوکہ ایرانی سکالر ہیں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کسی بھی سماج میں آزادی کا بیرومیٹر اس کی جامعات ہوا کرتی ہیں اور یہاں سماجی علوم کے شعبے میں خالص علمی و تاریخی بنیادوں کی کھوج کرنے والی ایک کانفرنس میں ایک بنگالی پروفیسر کو اپنا مقالہ پیش کرنے کی اجازت اس لئے نہیں ملی کہ وہ ” بنگالی تحریک اور اس دوران ہونے والے واقعات ” پر پاکستان کے مذھبی قدامت پرستوں اور دائیں بازوں کے بیانیہ سے اتفاق نہیں کرتا یہ صورت حال صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے بلکہ ان دنوں بنگلہ دیش میں ہم بائیں جانب سے نمودار ہونے والے فاشزم کا مشاہدہ کررہے ہیں اور حال ہی میں وہاں ایک برطانوی نژاد صحافی کو بنگالی قوم پرستوں کی جانب سے پاکستانی فوج اور اس کے حامی مسلح گروپوں کی طرف سے 15 لاکھ بنگالیوں کو قتل کرنے کے دعوے کو مبنی برحقیقت نہ قرار دینے کی وجہ سے سزا سنائی گئی ہے

اور سرمیلا بوس نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بنگالی قوم پرستوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی پر پاکستانی فوجی آپریشن سے مارے جانے والوں کی ٹھیک تعداد بارے کوئی سائنسی اور منظم سروے نہیں کیا اور اس طرح سے حقیقت اور افسانہ گڈمڈ ہوگئے لیکن دونوں یہ ضرور کہتے ہیں مارے جانے والوں کی تعداد اگر لاکھوں میں نہیں تھی تو ہزاروں میں ضرور تھی اور یہ تعداد بھی جرم کی سنگینی کو کم نہیں کرتی ہے جماعت اسلامی اس زمانے میں بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن کی حامی ہی نہیں تھی بلکہ اس نے اس جنگ میں پاکستانی فوج کی پراکسی کے طور پر اسلامی جمعیت طلباء سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کو البدر و الشمس بناکر بنگالیوں کے خلاف جھونک دیا اور اس طرح سے بنگالی نسل کشی میں حصّہ بھی ڈالا ہمارے ہاں ابتک یہ سوال نہیں اٹھایا گیا کہ پاکستان کی فوج نے مشرقی بنگال کے اندر جو فوجی آپریشن کیا کیا وہ واقعی بنگالیوں کے حق میں تھا ؟ کیونکہ یہ آپریشن بہت واضح طور پر بنگالیوں کے خلاف تھا ، ان کو حق حکمرانی سے روکنے کے لیے تھا ، ان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کی علامت تھا اور اقتدار کی منتقلی میں روکاوٹ ڈالنے کے مترادف تھا اور مغربی پاکستان کی بالعموم اور پنجاب کی بالخصوص بالادست حکمرانی کو برقرار رکھنے کی کوشش تھا

اور جماعت اسلامی نے اس فوجی آپریشن میں عملی طور پر اس لیے شرکت کی کہ وہ ایک طرف تو بنگالیوں کی قومی شناخت ، ان کی زبان ، ان کے مخصوص کلچر اور ان کے قومیتی بنیادوں پر حقوق کی انکاری تھی اور وہ ان مذکورہ بالا بنیادوں پر سیاست کو ارتداد کے مترادف خیال کرتی تھی ، دوسرا اس نے فوجی اسٹبلشمنٹ سے اپنی قربت کو اور زیادہ مضبوط بنانے کا بہترین موقعہ خیال کیا ،جماعت اسلامی کو 70ءکے الیکشن میں بدترین شکست ہوئی اور اس کے امیدواروں کی ضمانتیں تک ضبط ہوگئیں تھیں ، جماعت اسلامی اپنی شکست کا بدلہ ان بنگالی دانشوروں ، ادیبوں ، شاعروں ، سیاسی کارکنوں ، طالب علم رہنماؤں سے لینے کے لیے بے تاب تھی جنھوں نے عوامی لیگ کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا جماعت اسلامی نے تو مغربی پاکستان میں مذھبی اشتعال دلاکر پی پی پی اور نیپ کے لوگوں کا قتل عام کرانے کا منصوبہ بنالیا تھا جب جماعت اسلامی لاہور کے دفتر پر آگ لگائی گئی اور قرآن پاک جلانے کا الزام پیپلزپارٹی کے سرمنڈھ دیا گیا تھا اور شوکت اسلام نامی جلوس نکالا گیا تھا ،

سید مودودی نے پاکستان میں سوشلزم کی بات کرنے والی زبانوں کو گدی سے کھینچ لینے کی دھمکی دی تھی اور اس سے پہلے پی پی پی کے خلاف 113 مولویوں کے فتوی کفر کی اشاعت بھی جماعت اسلامی کے پریس سے ہوئی تھی ، اس مختصر کی تفصیل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جماعت اسلامی کس قدر خار کھائے بیٹھی تھی اپنے منشور سے اتفاق نہ کرنے والوں سے اور ان کو مرتد ، کافر ، واجب القتل قرار دیکر صفحہ ہستی سے مٹانے کو تیار تھی جب پاکستان ملٹری نے مشرقی بنگال میں فوجی آپریشن شروع کیا پاکستان کی فوجی جنتا ، اردو و پنجابی بولنے والی حکمران کلاس اور بے وردی نوکر شاہی میں اردو و پنجابی بولنے والی افسر شاہی نے مسلم قومیت کے نام پر جب بنگالیوں کو محکوم اور ان کے علاقے کو اپنی کالونی خیال کیا اور ان کے حقوق اور شناخت تک کو تسلیم کرنے سے انکار کرڈالا تو ایک طرح سے اس معاہدہ عمرانی کو توڑ ڈالا جس کی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا اور اس معاہدہ شکنی کو مذھبی تقدیس کا لبادہ پہنانے میں سب سے زیادہ کردار جماعت اسلامی کے جعلی دانشوروں اور خود سید مودودی نے کیا بنگلہ دیش میں مارچ کے آخری ہفتے میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن میں شریک ایک پاکستانی فوجی نے بتایا کہ ان کو لنگی سے ختنے چیک کرنے کے بعد جس کی ختنے نہ ہوں اسے موقعہ پر ہی ماردینے جبکہ دوسری صورت میں گرفتار کرنے کا حکم تھا اور یہ شاید اس لیے کہ مسلم بنگالیوں میں سے عوامی لیگ کے حامیوں اور غیر حامیوں کی تمیز مقصود تھی لیکن وہآں تو صورت یہ تھی کہ ہزاروں مسلم بنگالی بغیر ختنوں کے تھے اور ہر دوسرا بنگالی قوم پرست تھا سو کیا ہندؤ ، کیا مسلم سب بنگالی اس آپریشن کا نشانہ بن گئے

“ we were told to kill the Hindus and Kafirs. One day in June, we cordoned a village and were ordered to kill the Kafirs in that area. We found all the village women reciting from the Holy Quran, and the men holding special congregational prayers seeking God’s mercy. But they were unlucky. Our commanding officer ordered us not to waste any time.” “In what became province-wide acts of genocide, Hindus were sought out and killed on the spot. As a matter of course, soldiers would check males for the obligated circumcision among Moslems. If circumcised, they might live; if not, sure death.”

http://dharmaveer.blogspot.com/2009/01/bangladesh-1971-forgotten-genocide.html

آج بھی پاکستان کی ریاست کیسب سے طاقتور اسٹبلشمنٹ یعنی فوجی اسٹبلشمنٹ اور پاکستان کی تاریخ کے بیانیہ کو کنٹرول کرنے والی ملائیت مشرقی بنگال کی آزادی اور بنگلہ دیش کے قیام کی معروضی بنیادوں پر تحقیق کو اس لیے مشکل بنانے پر تلی بیٹھی ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کی حقیقت بے نقاب ہوجائے گی پاکستان کے درباری و سرکاری مورخ ہوں کہ ملائیت جس میں جماعت اسلامی کے جدید ملّا سب سے آگے ہیں ” بنگالی قومی تحریک ” کو ایک اصلی اور حقیقی قومی تحریک کی بجائے ایک سازش کے طور پر دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا ہے کہ بنگالیوں کے ہاں ” قومی زبان کی تحریک ” مالیاتی ایشوز ، استحصال اور احساس محرومی ، نوکریوں کا تناست اور ترقی وغیرہ کے سب ایشوز جعلی تھے اور بنگالی ہندؤں اور بھارت نے پیدا کئے تھے اور ان کی اپنی کوئی حقیقی سماجی ، مادی بنیاد نہیں تھی ،

جیسے آج کل بلوچستان ، سندھ ، خیبرپختون خوا اور سرائیکستان میں قومیتی تضاد ، قومی تحریک کی حقیقی سماجی بنیادوں کو ماننے سے انکار ایک معمول بن گیا ہے آل انڈیا مسلم لیگ نے مسلم قومیت کا مقدمہ خالص سیاسی بنیادوں پر برٹش اور کانگریس سے جیتا تھا اور یہ بنیادیں سیاسی ہی تھیں اسی وجہ سے جناح سے اس وقت کی ساری کانگریسی ملائیت اور جماعت اسلامی اختلاف کررہی تھی بلکہ وہ تو قائد اعظم محمد علی جناح کو کافر اعظم قرار دینے تک چلی گئی تھی اور قومیت کو ایک خلاف اسلام تصور کے طور پر پیش کرکے سید مودودی نے اسے طاغوت تک قرار دیا تھا اور اس وقت ایک مضمون میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مقتدی سے لیکر بڑے امام تک کی ذھنیت کو غیر اسلامی قرار دے دیا تھا اور مسلم قومیت کے اس تصور میں بنگالی ، سندھی ، پنجابی ، پشتون ، سب کو اپنی حقیقی آزادی نظر آرہی تھی کم از کم مسلم لیگ کے حامی سندھی ، اردو ، پنجابی ، راجھستانی ، سرائیکی ، بلوچی ، کشمیری بنگالی ، بہاری بولنے والوں کو ایسا ہی لگ رہا تھا

اور ان کو یہ گمان تک نہ تھا کہ آنے والے دنوں میں اسی مسلم قومیت کے نام پر ان کے بنیادی حقوق کو سلب کرلیا جائے گا اور ان کی لسانی ، قومیتی ، ثقافتی شناخت کو اسلام کے ہی منافی قرار دے دیا جائے گا مسلم قومیت کا یہ سلبی تصور اور حقوق کی نفی کرنے والا نام نہاد ٹرانس نیشنل تصور جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، ملّاؤں ، فوجی جرنیلوں ، بے وردی نوکر شاہی کے گٹھ جوڑ سے سامنے آیا اور جماعت اسلامی اس تصور کے عین اسلام ہونے پر مہر لگانے والی سب سے آگے کی جماعت تھی اور یہ سب کام بقول صفدر میر جناح و اقبال کے نام پر کیا گیا ، گویا جناح کی جدوجہد اور خیالات کی نفی خود جناح کے نام پر کی جانے لگی اور پوری تاریخ کو مسخ کردیا گیا یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے ، خاص طور پر پنجابی اور اردو بولنے والی نئی نسل ابھی تک تاریخ کے جھوٹے درشن کررہی ہے اور انھی کے زیر اثر ہے جتنی گمراہ کن تاریخ کا تصور پنجابی اور اردو بولنے والی آبادی کے پڑھے لکھے نوجوانوں میں ہے اتنا گمراہ کن تصور بلوچ ، سندھی ، پشتون آبادی کے نوجوانوں میں نہیں پایا جاتا اور سرائیکی نوجوانوں کے ہاں کم از کم پاکستان کی حکمران کلاس بارے اور ریاست کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کےبارے ابھی بہت سی خوش فہمیاں برقرار ہیں جو بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جائيں گی پاکستان ایک وفاق کے طور پر مسلم قومیت کے سلبی تصور کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتا اور اور اس کی سلامتی بارے پیدا ہونے والے خطرات کا تدارک نہیں ہوسکتا

Source:

Comments

comments