سوشلزم کی آڑ میں تکفیری دیوبندیت کی ترویج – از عامر حسینی

24 22 23

پاکستان میں ترقی پسند ، روشن خیالی اور اشتراکیت کے لئے کام کرنا کبهی آسان نہیں رہا اور یہ راہ پهولوں کی سیج بهی کبهی نہیں رہی ، کانٹوں اور ببول سے بهری اس راہ پر سفر کرنا خود کو لہو لہان کرنے کے ساته لازم ہے

آج یہ راہ اس لئے بهی اور مشکل ہوچکی ہے اب مقابلہ صرف کهلے دشمن جیسے دائیں بازو کی جہادی ، تکفیری اور تکفیریوں کی حامی جماعتوں اور ان کے نظریہ سازوں کے ساته ہی نہیں ہے بلکہ ایسے افراد اور گروہوں کے ساته بهی ہے جنهوں نے هاته میں درانتی ، ہتهوڑے والا سرخ پرچم ، چہرے پر گلال مل رکها ہے ، سینے پر کارل مارکس ، فریڈرک اینگلس اور ولادیمر لینن کی تصویر کے بیجز لگائے ہوئے اور اپنے فیس بک پر سوشلزم فار پاکستان کے پیج بناکر اپنے دلوں کے اندر تکفیری ملائیت اور رجعت پسندوں کی محبت بسارکهی ہے اور بغلوں میں نام نہاد اکابرین دیوبند کے بت چهپا رکهے ہیں اور زبردستی رجعت پرستوں اور تاریکی کے پجاریوں کو ترقی پسند تحریک کا سرخیل بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور ہندوستان میں تاریک خیالی کا درس دینے والے ، تکفیری آندهیوں کے پیامبر مدارس کو وہ زبردستی اشتراکی سامراج مخالف تحریک کے ساته نتهی کرنے میں مشغول ہیں

میں سوچ رہا ہوں کہ کیا فیض احمد ، سبط حسن ، سردار جعفری ، کیفی اعظمی ، مخدوم محی الدین ، فیروزالدین منصور ، احسان اللہی ، دادا امیر حیدر ، حسن ناصر ، اعزاز نذیر ، امام نازش ، سردار مظہر علی ، ظہیر کاشمیری ، کامریڈ ڈانگے ، پی سی جوشی کو خبر تهی کہ ان کی سیاسی ، فکری ، علمی میراث کے ساته یہ حشر ہوگا کہ ان کی میراث کو تاریک خیالی کے کنویں میں پهینک دیا جائے گا

ان لوگوں کے وہم و گمان میں بهی نہیں ہوگا کہ ان کی فکر کے سرچشموں کی تلاش سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی تحریک جہاد والتکفیر میں تلاش کئے جائیں گے اور ان کی فکر کی اصل کو 1857 ء کے بعد رجعت پرستی اور جدیدیت کے مخالفوں بلکہ دشمنوں کے مدرسوں میں تلاش کیا جائے گا اور دارالعلوم دیوبند کے اکابر ان کے اکابرین بنادئے جائیں گے

ایک طرف تو وہ ہیں جنهوں نے ترقی پسند تحریک کو سامراجی سرمایہ داری کا برانڈ بنا ڈالا ہے اور فیض سے لیکر منٹو تک سب کے سب نیولبرل کاموڈیٹی بنادئے گئے ہیں تو دوسری طرف وہ ہیں جو ترقی پسند تحریک کو سامراج ، ریاست کی مخالفت کے نام پر زبردستی دارالعلوم دیوبند میں بند کرنا چاہتے ہیں اور رجعت پرستوں کی جانب سے شروع کی جانے والی تحریک جہاد ، تحریک خلافت و ہجرت و موالات کو ترقی پسند تحریک کے ساته جوڑنے کے خواہاں نظر آتے ہیں

میں نے دو سکرین شاٹس اس نوٹ کے ساته لف کئے ہیں اور زرا ان کو پڑه لیں تو پتہ چل جائے گا کہ یہ کون سا سوشلزم ہے جس کو پاکستان کے اندر لانے کی بات کی جارہی ہے
میں انقلابی سوشلسٹ پاکستان سے وابستہ ہوں ، اور ہماری تنظیم امریکی نیو کانز اور ان کے اتحادیوں کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے عراق و افغانستان پر قبضوں کی شدید مخالف رہی اور ہم نے پاکستان کی ریاست کے سامراجی سرمایہ داری کی جنگوں میں شراکت کی سخت مخالفت کی اور عالمی سامراجی سرمایہ داری اور اس کی جنگوں کے بارے میں سب سے زیادہ مارکسی لٹریچر شایع کیا اور انقلابی سوشلسٹ وہ پاکستان کی واحد تنظیم ہے جس نے افغان وار ، اور اس کے آفٹر شاکس جیسے سوات ، فاٹا ، وزیرستان وغیرہ میں ملٹری آپریشنز اور وہاں طالبنائزیشن کے سوال پر بهی پے درپے مضامین اور کتابچے شایع کئے اور اس حوالے سے کافی مارکسی اسکول بهی منظم کئے لیکن انقلابی سوشلسٹ نے کسی ایک موقعہ پر بهی طالبان اور ان کی آئیڈیالوجی کی سپورٹ نہیں کی اور نہ ہی ان کی امریکی مخالفت کو حقیقی عالمی سامراج مخالفت سے تعبیر کیا اور نہ ہی دارالعلوم دیوبند یا ملائیت کے کسی اور انسٹی ٹیوٹ کے بانیوں میں جاکر ترقی پسندی ، روشن خیالی کی تلاش کی اور نہ ہی اشتراکی تحریک کے ڈانڈے دیوبند سے ملانے کی کوشش کی

یہی وجہ ہے کہ ہم بروقت شیعہ نسل کشی کے گهمبیر مسئلے کو شناخت کرگئے اور سوشلسٹ واحد رسالہ ہے جس نے اس ایشو کو مسلسل اپنے موضوعات کا مرکز بنایا ہے اور تازہ شمارے میں بهی شیعہ آبادی کے محصور کئے جانے پر مضمون اس تنظیم کے مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ریاض احمد نے لکها ہے

میں نے خود امریکی جنگوں اور عالمی سرمایہ داری سامراجیت پر بلامبالغہ کم و بیش ایک سو سے زیادہ مضامین لکهے ، درجنوں تراجم کئے اور ایک کتابچہ الیکس کالینکوس کی کتاب کے دیباچے اور باب اول کا ترجمہ و تلخیص شایع کی اور ساته ساته ہم نے بنیاد پرستی ، مذهبی فاشزم ، تکفیریت پر بهی بے پناہ اصل و تراجم پر مبنی تحریریں شایع کیں اور ہم نے روشن خیالی و ترقی پسندی کا نیولبرل ازم کے مارکیٹ ماڈل کے ساته نکاح کو مسترد کیا اور یہی وجہ ہے کہ کسی ایک موقعہ پر بهی فرقہ واریت ہمارے نزدیک نہیں پهٹک سکی

پاکستان کے اندر ترقی پسند ، روشن خیال سامراج مخالف سرمایہ داری مخالف فکری ماڈل کی تعمیر کے لئے رول ماڈل شاہ ولی اللہ ، سید احمد ، شاہ اسماعیل ، مفتی محمود ، حسین احمد مدنی ، ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوهاب ، مفتی نظام شامزئی ، ملا عمر ، اسامہ بن لادن ، عبداللہ عزام ، مقدیسی ، مصعب الزرقاوی ، ابی بکر البغدادی ، مقتدا الصدر ، حسن نصراللہ ، خالد مشعال ، منور حسن نہیں ہیں یہ رجعت پرست ، تاریک پرست اور ماضی کے پنجروں میں قید لوگ ہیں اور یہ سرمایہ داری سے تاریخ کا وهیل واپس ماقبل سرمایہ داری کے زمانے میں لیجانے کے خواہاں ہیں اور جو کوئی بهی ان کا خوشہ چین ہوگا وہ رجعت پرست اور تاریک پرست کہلائے گا روشن خیال نہیں ہوگا

Comments

comments

Latest Comments
  1. afroze
    -
  2. Faisal Ali
    -