پاکستان میں شیعہ نسل کشی پر شیعہ مسلمانوں کی افسوس ناک خاموشی – از پنجابی بابا
شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا ہے جب پاکستان میں کوئی شیعہ قتل نہ ہوتا ہو ، شاید اسی وجہ سے علامہ طالب جوہری نے کہا تھا کہ “اردو لغت میں ‘امن’ کا مطلب نجانے کیا ہے لیکن میرے ملک میں ایک شیعہ لاش سے دوسری شیعہ لاش گرنے کے درمیان کا وقفہ امن کہلاتا ہے”،سپاہ صحابہ لشکرجھنگوی طالبان اپنے جلسوں میں فخریہ شیعوں کو قتل کرنے کا اعتراف کرتے ہیں ، بلکہ اب تو باقاعدہ ترانوں میں شیعوں کے قتل کرنے کو گا کر سناتے ہیں، لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ طالبان کہیں بسوں سے اتار کر قتل کرتی ہے اور کہیں پوری کی پوری بس کو تباہ کر دیتی ہے اور تو اور اب بچے بھی تکفیری درندوں کے شر سے محفوظ نہیں ہیں
پاکستان میں شیعہ نسل کشی پر مجھے سب سے زیادہ تکلیف شیعوں کی خاموشی پر ہوتی ہے ۔ اخبارات اور ٹی وی تو ویسے بھی کھبی دیوبندی دہشتگردی کے خلاف کھل کر بات نہ کی ہے اور نہ ہی کریں گے لیکن دکھ کی بات یہ ہے سوشل میڈیا پر موجود شیعوں کی اکثریت شیعہ نسل کشی کو نظر انداز کر رہے ہیں ، اگر کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے تو ایک ادھ گھنٹے کے واسطے کسی جلوس میں شرکت کی اور یہ سمجھ لیا کہ ان کی ’ڈیوٹی’ پوری ہو گئی ،
وقتی شیعہ ہونا آسان کام ہے یعنی محرم میں چند روز کے واسطے مجلس میں شرکت کرنا اور بات ، لیکن جہاں پر ضرورت ہو وہاں حق بات بلند کرنا اور ہے ۔ اہل تشیع پاکستان کی دوسری بڑی اکثریت ہیں اور ایک منظم طریقے سے انہیں اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن سازشوں کے کوفے میں اہل تشیع کی اکثریت خاموش تماشائی ہے ۔
ملک بھر کے تمام اور پنجاب میں بسنے والے شعیہ حضرات سے خصوصی گزارش ہے کہ شیعہ نسل کشی پر پُر امن طریقے سے اپنی آواز بلند کریں ،پارلیمنٹ میں موجود نمائندوں سے جا کر ملیں ، جب بھی کوئی احتجاجی جلسہ ہو اس میں باقاعدگی سے شرکت کریں اور کچھ نہیں کر سکتے تو سوشل میڈیا پر اس مسئلے کو اجاگر کریں ۔ کچھ حضرات ایسے بھی ہی جو صرف اس وجہ سے شیعہ نسل کشی پر بات نہیں کرتے کہ کہیں ان کے فالوورز نہ کم ہو جائیں ۔ سوشل میڈیا پر موجود شیعہ حضرات اپنی سیاسی پارٹیوں کے دفاع کے بارے میں دن رات مصروف رہتے ہیں لیکن جہاں شیعہ نسل کشی یا اہل تشیع کو دوسرے مسائل کا سامنا ہے وہاں چپ سادھ لیتے ہیں ۔ ویسے سارا دن اپنے وقتی دوستوں سے بات ہوتی رہتی ہے، بے شمار پوسٹس ، شعر ، گانے نغمے سیاسی و غیر سیاسی تصاویر شئیر ہوتی رہتی ہیں لیکن جیسے ہی کسی نہ ’شیعہ جینو سائیڈ ’ پر بات کی اسے نظر انداز کر دیا ۔ براہ کرم جب بھی ’ شیعہ جینو سائیڈ ’ کی کوئی خبر آپ کی نظر سے گزرے اسے نظر انداز نہ کریں ۔ اور کچھ نہیں کر سکتے تو تکفیری دیوبندیوں کی مذمت ہی کر دیں ۔
چلیں ایک عالم تو دین کی تبلیغ کرتا ہے یا مذہب کی بات کرتا ہے شاید کوئی ایسی بات کردے جو کسی کو ناگوار گزرے تو اس کے قتل پر آپ نے کہہ دیا کہ مولوی قتل ہوا چھوڑو لیکن ڈاکٹرز کے پاس کونسا تبلیغ کا وقت ہوتا ہے وہ نہ تو مجالس میں شرکت کرتے ہیں اور نہ ان کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ مریضوں کو تبلیغ کریں ان کو کیوں قتل کیا جاتا ہے ؟ صرف ان کا قصور شیعہ ہونا ہے۔ ملک میں پہلے ہی شیعہ ’برین ڈرین ’ شروع ہو چکا ہے ، ڈاکٹرز ،انجینرز اور دوسرے پروفشینلز ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں اگر ہماری خاموشی اسی طرح جاری رہی تو سازشی تکفیری عناصر اپنی مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے اور ایک دن یہ دہشتگرد آپ کے گھر کے باہر بھی پہنچ سکتے ہیں ۔ اب حالات ایسے ہیں کہ شاید جو خاموش ہے وہ بھی مجرم ہے
استاد سبط جعفر شہید کو بھی شاید اہل تشیع کی اکثریت کا خاموش تماشائی رہنے کا اندازہ تھا اسی واسطے کہا کہ
شہید ہوگئے، کچھ اور تیرے لال حسین
جو رہ گئے ہیں انہیں اب تو ہی سنبھال حسین
ہیں پھر سے گھیرے ہوئے ہم کو شامی و کوفی
دے عزم حضرتِ مسلم سا بے مثال حسین
Good write up