ہندو ذاکر کا رینجرز پر تشدد کا الزام، رینجرز کا انکار

 

141102115308_thar_umarkot_hindu_zakir_624x351_bbc_nocredit

ایڈیٹر نوٹ : پاکستانی ریاست کے سیکورٹی اداروں میں تکفیری فاشسٹ رجحان 80 ء کی دهائی سے جڑ پکڑتا جارہا تها لیکن اب اس رجحان کے عملی شواہد اور نظارے تیزی سے ہونے لگے ہیں ، پہلے ایک ایلیٹ فورس کے اہلکار ممتاز قادری نے سابق گورنر پنجاب کو قتل کیا ، پهر گجرات سے خبر آئی کہ ایک پولیس اہلکار نے ذهنی طور پر ایک ابنارمل آدمی ملنگ طفیل حیدر پر توهین کا الزام لگاکر مار کر هلاک کرڈالا اور اب سنده سے خبر آئی ہے کہ رینجر میں موجود ایک تکفیری فاشسٹ نے ہندو زاکر کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور تکفیری فاشزم ایک منظم آئیڈیالوجی کی شکل میں پاکستان کے اندر دیوبندی وهابی لابی کے اندر گہری جڑیں رکهتا ہے اور یہ ایک منظم شکل میں اسے ریاستی اداروں کے اہلکاروں میں سرایت کرانے میں باقاعدہ کام کررہا ہے ، سنده میں یہ عمل پنجاب سے کم نہیں ہے اور سنده حکومت کم از کم اس پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے-

سندھ میں ہندو ذاکر روی شنکر نے الزام عائد کیا ہے انھیں رینجرز نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور مجالس پڑھنے پر اعتراض کیا ہے۔ تاہم رینجرز کے ترجمان نے اس واقعے سے لاعلمی ظاہر کی ہے۔

ریٹائرڈ سرکاری ملازم روی شنکر کھتری گزشتہ چالیس برسوں سے سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خوا کے شہروں میں مجالس پڑھتے رہے ہیں، انھوں نے ڈائریکٹر جنرل رینجرز سندھ کو ایک تحریری شکایت بھیجی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ امام حسین کے پیروکار ہیں اور ان کی شان میں رباعیاں اور قصیدے پڑھتے ہیں اور اس کے علاوہ درگاہ حیدر شاہ چھاچھرو کے متولی بھی ہیں، جس کی انھوں نے اپنی پینشن سے تعمیر نو کرائی ہے ۔

سندھ کے ہندو ذاکر کی آخری خواہش

انھوں نے بیان کیا ہے کہ اکتیس اکتوبر کی دوپہر کو وہ درگاہ میں موجود تھے تو انہیں چھاچھرو پولیس نے ٹیلیفون پر تھانے بلایا جب وہاں پہنچا تو ڈیوٹی افسر نے بتایا کہ رینجرز حکام ان سے ملنا چاہتے ہیں۔

’تھوڑی دیر کے بعد رینجرز کے مقامی ڈی ایس پی چار دیگر اہلکاروں کے ساتھ وہاں پہنچے، انھوں نے آتے ہی بدکلامی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا اور کہتا رہا کہ ہندو ہوکر منبر پر بیٹھتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد تھانے سے جانے دیا گیا۔‘

روی شنکر نے بتایا ہے کہ عاشورہ کے دن فلیگ مارچ کے دوران دوپہر کو رینجرز اور پولیس کی گاڑیاں درگاہ کے باہر جمع ہوئیں اور انھیں طلب کیا گیا اور زبردستی پولیس موبائیل میں سوار کرکے پورے شہر میں تماشہ بنایا گیا جس کے بعد چھاچھرو تھانے پر لاکر دو گھنٹے تحویل میں رکھا گیا۔

انھوں نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام قانون کا احترام کرنے والے شہریوں کا تحفظ ہے نہ کہ انہیں ہراساں کرنا، وہ سمجھتے ہیں کہ ڈی ایس پی رینجرز نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے وہ ان سے اپنی زندگی کو خطرہ محسوس کرتے ہیں۔

روی شنکر کا کہنا ہے کہ وہ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کام کرتے ہیں، اس کارروائی سے ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور ان کا مشن بھی متاثر ہوا ہے، لہذا اس واقعے میں ملوث ملزمان کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ وہ صحرائے تھر میں مذہبی ہم آہنگی کا مشن جاری رکھ سکیں۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے مقامی مسجد کے مفتی نے بھی روی شنکر کے مجالس پڑھنے پر غیر اعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے۔ روی شنکر کا کہنا ہے کہ لوگوں کے اصرار پر انھوں نے کچھ رباعیاں پڑھی تھیں۔

Source:

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2014/11/141112_hindu_zakir_allegations_ra

Comments

comments