ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید نے ایک دہشت گرد مسلک کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا

sn

اپنی شہادت سے چند روز قبل جامعہ نعیمیہ میں اپنے ایک خطہے میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید نے ایک دہشتگرد مسلک کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا

ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی ناظم اعلی جامعہ نعیمیہ و تنظیم المدارس پاکستان نے اپنے خطاب میں کہا آج پاکستان میں چند انتہاء پسند دہشت گرد اپنی شریعت نافذ کر رہے ہیں، اولیا الله کے مزاروں، درباروں اور مشائخ کو شہید کرنے کے بعد بے حرمتی کی جا رہی ہے، یہ اہلسنت سواد اعظم کی غلطی ہے کہ سنی کے نام پر دھوکہ دینے والے تکفیری، خارجی گروہ کی روک تھام نہیں کی ہم نے مزارات کو مالی مفادات کا ذریعہ بنا رکھا ہے اگر نظریاتی کام کرتے تو ایسی صورتحال پیش نہ آتی۔ ہر سنی عالم دین کام کرنا شروع کر دے تو ہم پھر اس ملک میں سواد اعظم بن سکتے ہیں۔

http://www.pat.com.pk

سانحہ جامعہ نعیمیہ وطن عزیز میں تکفیری دیوبندی و وہابی دہشت گردی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جب 12جون2009بروز جمعہ کو نماز جمعہ کے فورا بعد جامعہ نعیمیہ میں ایک انتہا پسند دیوبندی خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑ ا دیاجس کے نتیجے میں جامعہ نعیمیہ کے سربراہ اور ملک عزیز کی معروف مذہبی، دینی اور سیاسی شخصیت ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی سمیت پانچ قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں ۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب انتہائی صلح جو، معتدل المزاج اورمتوازن شخصیت کے مالک تھے ، آپ اختلافی مسائل میں شدت پسندی کی بجائے رواداری اور اعتدال پسندی کے قائل وفاعل تھے ، انہوں نے مملکت خدادا د پاکستان میں جاری طالبان اور سپاہ صحابہ کی دہشت گردی کی مخالفت میں 21جماعتوں پر مشتمل ایک اتحاد تشکیل دیا تھا.جس پر ان کو قتل کی دھمکیاں بھی مل رہی تھیں

ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کی برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئےعلامہ راغب نعیمی نے کہا کہ عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر اہم دینی شخصیت ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کے اہم معاملے پر مٹی ڈال دی گئی ہے تو ہمار ے حکومتی ادارے عام لوگوں کے دکھوں کا کیا درمان کرتے ہونگے،انہوں نے پروگرام میں موجود پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا یہ معاملہ آپ کی حکومت کیلئے تین سال بعد بھی ایک چیلنج کے طور پر موجود ہے، مسئلہ صرف ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے قاتلوں کو پکڑنے کا نہیں، بلکہ اسلام کے نام پر بدمعاشی کرنے والے اس ٹولے اور دیوبندی مدارس میں موجود انکے فکری سرپرستوں کو بے نقاب کرنیکا ہے۔ علامہ راغب نعیمی نے کہا اگر آج ہم نے دلیل کی بجائے بندوق کے زور پر اسلام کی تعبیر کا حق قبول کر لیا تو پھر شر کا راستہ روکنا ممکن نہ ہو سکے گا۔ امت کی سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ بندوق کے زور پر مرضی کا اسلام مسلط کرنے والے یہ گروہ خوارج کا تسلسل ہیں، ان کو پنپنے کا موقعہ دینا اسلام کے خوبصورت چہرے کو مسخ کرنے اور قوم کو تباہی سے دوچار کرنے کے مترادف ہے یاد رہے ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کو تین سال پہلے سپاہ صحابہ کے تکفیری دہشت گردوں نے قتل کیا تھا

————-

12 جون، 2013
فجر کی نماز جامعہ اشرفیہ میں پڑھی اور جامعہ نعیمیہ میں بم دھماکہ کیا

از یاداشت :عبدالرزاق قادری

ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کی شہاد ت سے ظالموں کی عدم گرفتاری تک

جون 13، 2009 ہفتےکے دن میں نے میکلوڈ روڈ پر لاہور ہوٹل کے چوک میں یہ نعرہ لگتے سنا تھا ۔ “نعیمی تیرے خون سے انکلاب آ ئےگا”۔ 12 جون 2009 کو نماز جمعہ کے بعد ایک کمسن دیوبندی لڑکے نے جامعہ نعیمیہ میں ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کے دفتر کے پاس خودکش دھماکہ کیا ۔ اور ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی شہادت کے بلند رتبہ پر سرفراز ہوئے۔ میں ان دنوں میکلوڈ روڈ پر نوبل لائن میں ملازم تھا۔ میں نے نماز جمعہ کے بعد ٹی وی پر یہ خبر سنی۔

14جون کو ہمارے جامعہ اسلامیہ رضویہ میں ماہانہ اجتما ع تھا ۔ میں نے سوچا تھا کہ اب ہمارا وہ اجتماع بھی دہشت گردی کے خدشے کے پیش نطر کینسل ہو جاے گا۔ لیکن علامہ محمدارشدالقادری کی اس دن والی تقریر سننے سے تعلق رکھتی ہے۔اس دن میرے ساتھ حسنین شاہ بھی جامعہ اسلامیہ رضویہ میں گئے تھے۔ اور تقریر کا موضوع “تھام لو دامن مصطفیٰ” تھا۔ اجتماع والے دن ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کی شہادت پر علامہ ارشد القادری نے فرمایا تھا۔

لوگو! جہاد اور فساد میں فرق ہوتا ہے ۔ صحابہ نے جو کیا وہ جہاد تھا۔ اور جو کچھ ایک عرصہ پہلے ہوتا رہا اور جوکچھ لوگ آج صحابہ کے نام پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ جہاد نہیں فساد ہے

ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی ،مفتی محمد حسین نعیمی کے بیٹے تھے۔ جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور ان کی زیر نگرانی و سرپرستی میں چلتا رہا ۔ جامعہ نعیمیہ آج کل مفتی صاحب کے بیٹے علامہ راغب حسین نعیمی کی سر پرستی میں اپنا علمی مشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم روزانہ استحکام پاکستان، پاکستا ن بچاؤ کانفرسز کے اشتہارات دیکھتے تھے۔لیکن صد افسوس کہ اسی پاکستان میں آج تک ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کے قاتلوں کو کٹہرے میں نہ لایا جا سکا۔
انھوں نے طالبان، سپاہ صحابہ کے تکفیری خوارج کے خلاف آواز بلند کی

میں نے اشفاق احمد کے پروگرام زاویہ کی ریکاڈنگ کی کمپوزڈ کتاب جلد اول میں پڑھا تھا کہ اشفاق احمد ماڈل ٹاؤن پولیس سٹیشن میں عید ملنے گئےتھے۔ مجھے بھی اشفاق احمد کی یاد تازہ کرنے کاموقعہ ملا۔ میں اس پچھلی عید پر پولیس سٹیشن جا کر سپاہیوں سے عید ملتا رہا تھا۔آپ کو ایک حیران کن خبر بتاتا ہوں۔ گامےشاہ کے سامنےاردو بازار والی گلی میں تھانہ لوئر مال کے چھوٹے دروازےپر جو سپاہی عیدالفطر 1433 ہجری کے دن موجود تھا ۔ اس سپاہی کے بقول خودکش حملہ آور بچے نے ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کو شہید کرنے سے قبل فجر کی نمازلاہور کے دیوبندی مدرسہ جامعہ اشرفیہ میں پڑھی تھی۔ اور وہ سپاہی خود اس کیس کی انویسٹی گیشن ٹیم کا حصہ تھا جامعہ اشرفیہ فیروزپور روڈ لاہور پر واقع ہے۔ کیا یہاں بھی لال مسجد کی طرز پر “سائیلنس اپریشن” کی ضرورت ہے؟

مفتی محمد حسین نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید، موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے قریبی دوست تھے۔ مارچ 23، 2013 کو ان کے عرس کی تقریب میں میاں صاحب نےوہاں خطاب بھی کیا تھا۔ اب یہ ذمہ داری لازمی طور پر میاں صاحب پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اصل حقائق تک پہنچیں اوردیوبندی نوجوانوں کی برین واشنگ کر کے اس طرح کے گھناؤنے کردار ادا کرنے والے عناصر کو قرار واقعی سزا دلوائیں

http://afkaremuslim.blogspot.co.uk/2013/06/blog-post_12.html

……….

لاہور میں جامعہ نعیمیہ میں خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کا شمار ملک کے اعتدال پسند سوچ رکھنے والے مذہبی رہنماؤں میں ہوتا تھا اور انہوں نےگزشتہ دنوں ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے اکیس مذہبی جماعتوں کا ایک طالبان مخالف اتحاد قائم کیا تھا۔

مئی ٢٠١١ میں برطانوی اخبار ’دی ٹائمز‘ کو انٹرویو میں انہوں نے طالبان کو اسلام کے نام پر ایک دھبہ قرار دیتے ہوئے حکومت کی جانب سے انہیں تباہ کرنے کی ہر کوشش کی حمایت کا اعلان بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ’پاکستان کو بچائیں گے‘۔ مرحوم لال مسجد کے مہتم غازی عبدالرشید کی مخالفت کرنے والے علماء میں بھی شامل رہے اور ساتھ ساتھ وہ امریکی و سعودی پالیسیوں کے بھی ناقد تھے۔

پچپن سالہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی پاکستان میں اہلِ سنت والجماعت کے تقریباً چھ ہزار مدارس کی تنظیم کے گزشتہ دس برس سے ناظم اعلٰی تھے۔ وہ اپنے والد علامہ مفتی محمد نعیمی کے انتقال کے بعد جامعہ نعیمیہ کے مہتمم بن گئے تھے۔ اس مدرسے میں اس وقت چودہ سو کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں اور اس کی پانچ شاخیں بھی ہیں۔

ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ انہیں سپاہ صحابہ کی طرف سے کافی عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں جنہیں جمعہ کو عملی جامہ پہنا دیا گیا۔ مرحوم نے سوگواران میں ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں چھوڑی ہیں۔

ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے ابتدائی تعلیم اسی مدرسے نعیمیہ میں ہی حاصل کی جہاں انہیں دھماکے میں ہلاک کیا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے معروف اسلامی درس گاہ جامعہ الازہر مصر سے بھی ایک کورس کر رکھا تھا۔

مفتی پاکستان مفتی منیب الرحمان مرحوم ڈاکٹر سرفراز کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔ ان کے مطابق مرحوم کی قائدانہ صلاحیتیوں اور ان کی حق گوئی ان کے دشمنوں کو قبول نہیں تھیں لہذا انہیں قتل کیا گیا۔مفتی منیب کے مطابق ’مرحوم سادہ مزاج، سادہ لباس اور سادہ وضع قطع کے انسان تھے۔ وہ موٹر سائیکل پر بھی گھومتے پھرتے تھے اور پروٹوکول میں یقین نہیں رکھتے تھے‘۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی سنی اتحاد کونسل معتدل سنی بریلوی اسلام کی نمائندگی کرتی ہے جو صوفیوں، موسیقی اور مزاروں پر عقیدت مندوں کے جانے کی حامی ہے۔ یہ اتحاد طالبان کے خلاف جاری فوجی کارروائی کی حمایت کر رہا ہے۔ اس اتحاد نے طالبان مخالف احتجاجی ریلیاں بھی منعقد کی تھیں۔

بی بی سی اردو

……..

لاہور کی معروف درس گاہ جامع نعمیہ میں ہونے والے خود کش بم دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد 5 ہے۔ ہونے والے اس خود کش بم دھماکے میں جامع نعمیہ کے سر براہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ س سانحے میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 8 کے قریب بتائی جا رہی ہے۔ لاہور کے ضلعی رابطہ افسر سجاد بھٹہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ شہر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے اور جامع نعیمیہ میں بھی حفاظتی انتظامات کے تحت پولیس اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ ان کے مطابق نماز جمعہ کے بعد ڈاکٹر سرفراز نعیمی اپنے آفس کے جس کمرے میں لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے اس کا ایک دروازہ باہر گلی میں بھی کھلتا ہے۔ اس دروازے کی سیکیورٹی جامع نعیمیہ کے لوگ خود ہی سر انجام دیتے ہیں۔ ان کے مطابق خود کش بمبار ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے عقید ت مندوں کے ہمراہ لائن میں لگ کر اسی دروازے سے مسجد میں داخل ہونے میں کامیاب ہوسکا۔ دھماکے کے فوراً بعد جائے حادثہ پر پہنچے والے ریسکیو سروس 1122 کے ایمرجنسی آفیسر ڈاکٹر رضوان نے بتایا کہ دھماکہ درمیانے درجے کی طاقت والا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ دھماکہ مسجد کے صحن میں ہوتا تو اس سے بہت زیادہ نقصان ہو سکتا تھا۔
جامع نعیمیہ اور اس کے گردو نواح کے تمام علاقوں میں سوگ کا سماں ہے۔ دوکانیں بند ہو چکی ہیں۔جائے واردات پر خون کے چھینٹے اور تباہی کے اثرات اب بھی موجود ہیں۔ مختلف علاقوں سے ڈاکٹر نعیمی کے عقید ت مند جمع ہو رہے ہیں۔ مسجد کے ٹوٹے ہوئے شیشے بھی جگہ جگہ بکھرے دکھائی دے رہے ہیں۔ دھماکے کے فوراً بعد پولیس اور فوج کے دستوں نے اس علاقے کو گھیرے میں لے لیا تھا اور عام لوگوں کو مسجد کی طرف جانے سے روک دیا گیا تھا۔
اس موقع پر پولیس اور وہاں جمع ہونے والے لوگوں میں ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ بعض لوگوں کی طرف سے پولیس کی جانب سے جامع نعیمیہ کے لئے کئے جانے والے حفاظتی انتظامات پر بھی شدید اعتراضات کئے جا رہے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں سے پاکستان میں لوگوں کی بڑی اکثریت طالبان کے خلاف ہوئی ہے – پنجاب کے مختلف علاقوں میں اس سانحے کے بعد احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ لاہور کی مال روڈ پر جامع نعیمیہ کے طلبہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور طالبان و سپاہ صحابہ کے خلاف زبردست نعرے بازی کی۔ جبکہ داتا دربار کے سامنے بھی دینی مدرسوں کے طلبہ نے احتجاجی مظاہرے کئے۔ لاہور کے تاجروں نے اس واقعے کے خلاف ہفتے کے روز شہر بھر میں مکمل ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی طالبان کے خلاف تھے اور وہ مالا کنڈ آپریشن کے حوالے سے پاک فوج کی حمایت کر رہے تھے اور انہوں نے خود کش حملوں کے غیر اسلامی ہونے کا فتویٰ بھی جار ی کیا تھا۔

http://www.dw.de

….

5 مارچ 2011

ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی برسی پر سیمینار، رانا ثنا ء کو برطرف کرنے کی قرارداد
جنگ نیوز – لاہور…جامعہ نعیمیہ کے سربراہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کی پہلی برسی کے موقع پر ہونے والے سیمینار کے شرکا نے کالعدم تنظیموں کی سرپرستیکے الزام میں صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے ? مدرسہ جامعہ نعیمیہ کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کی پہلی برسی کے موقعہ پر شرکانے ایک سال گزر جانے کے باوجود ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہیدکے قاتلوں کو گرفتار نہ کئے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا – وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات سید صمصام علی بخاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے قاتلوں کی گرفتاری صوبائی حکومت کامعاملہ ہے اس لئے پنجاب حکومت کو اس پر غور کرنا چاہئے – ان کاکہناتھا کہ پنجاب کے ایک علاقے میں ضمنی انتخاب کے دوران کالعدم تنظیموں کے بعض عہدیدار پنجاب حکومت کے وزرا کی گاڑیوں میں گھومتے رہے ہین جن کی وجہ سے پنجاب حکومت اور صوبائی وزیر قانون پر دہشت گردوں اورکالعدم تنظیموں سے روابط کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں اس موقعے پر دیگر دینی اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے درجات کی بلندی کی دعائیں کیں

http://urdu.co/news/taza-tareen/90523/

……………

نعیمی کا مختصر سوانحی خاکہ
6/12/2009

لاہور… لاہور میں خود کش حملے میں شہادت پانے والے عظیم دینی اسکالرڈاکٹر سرفراز نعیمی کی عمر 60سال تھی وہ طالبان اور سپاہ صحابہ کے خود کش حملوں کے شدید خلاف تھے اور ہرفورم پر ان کی مخالفت کرتے تھے انہوں نے آخری وقت تک خود کش حملوں اور دہشت گردی کے خلاف احتجاج جاری رکھا۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی گڑھی شاہو لاہور میں جامعہ نعیمیہ کے بانی مفتی محمد حسین نعیمیہ مرحوم کے صاحبزادے تھے جنہوں نے 1950 جامع نعیمیہ کی بنیاد رکھی تھی۔ ڈاکٹرسرفراز نعیمی سہارن پور میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ وه چوک دالگراں کی ایک مسجد کے خطیب مقرر ہوئے لیکن پانچ سال قبل خود ہی انہوں نے استعفی دے دیاتھا اور آج کل وه اہلسنت کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ڈاکٹر سرفراز نعیمی رویت ہلال کمیٹی کے اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی ره چکے ہیں۔انہوں نے جامعہ نعیمیہ کو کمیپوٹر جیسی جدید تعلیم سے آراستہ کیا۔ وه متحرک مذہبی رہنما تھے ۔انہوں نے ماضی میں چلنے والی بہت سی تحریکوں میں حصہ لیا اور کئی بار جیل بھی گئے ڈاکٹر سرفراز نعیمی ہمیشہ دین کی خدمت کو ترجیج دیتے تھے اس لیے انہوں نے حکومت کی طرف سے کوئی عہده قبول نہ کیا۔مفتی سرفراز انعیمی کے جامعہ نعیمہ میں اس وقت ایک ہزار طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔جامع نعیمیہ میں ابتک اہل سنت کے تقریباً پانچ ہزار اجلاس ہوچکے ہیں۔ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے آخری خطاب10جون کو ایوان اقبال لاہور میں کیا ۔ پاکستان بچاؤ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کا کہناتھا کہ علما نے پاکستان بنایا تھا اور اب مل کر اسے بچائیں گے اورضمن میں کسی قربانی
سے دریغ نہیں کرینگے

……..

ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی سے گفتگو
in Tahaffuz, May 2009,

جدید و قدیم علوم کا حسین امتزاج‘ ذہین آنکھیں‘ متین چہرہ‘ اجلا‘ سادہ لباس‘ سر پر سیاہ قراقلی ٹوپی‘ تصنع بناوٹ سے پاک ‘ مراد آباد (ہندوستان) کے مشہور علمی خانوادے سے تعلق ہے۔ علمی میدان میں ڈگریوں اور سندوں کی ایک لمبی قطار ہے جوکہ ان کے تعارف میں نظر آتی ہے۔ کلمہ حق بلند کرنے کے جرم میں کئی بار پابند سلاسل ہوئے۔ گفتگو شریفانہ‘ تقریر جارحانہ اسی لئے وقتا فوقتا حکمرانوں کی آنکھ میں کھٹکتے رہتے ہیں۔ مزاج میں لطافت و انکسار‘ نرم کے لئے نرم‘ سخت کے لئے سخت‘ اتحاد اہلسنت کے لئے ہمہ وقت سرگرم‘ گوکہ ابھی تک اس میں کوئی نتیجہ خیزی پیدا نہیں ہوسکی۔ مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ۔ یہ ہیں تنظیم المدارس اہلسنت کے ناظم اعلیٰ‘ اتحاد تنظیمات المدارس کے جنرل سیکریٹری ‘ اہلسنت کی مشہور دینی درسگاہ ’’جامعہ نعیمیہ‘‘ گڑھی شاہو‘ لاہور کے سربراہ ممتاز دینی اسکالر جناب ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی الازہری‘ ڈاکٹر صاحب کی پیدائش 1948ء میں حضرت مفتی محمد حسین نعیمی کے گھر لاہور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم اور حفظ قرآن کے بعد میٹرک تک تعلیم مقامی اسکول میں حاصل کی۔ اس کے بعد زینت القراء جناب قاری غلام رسول سے تجوید و قرأت کا کورس کیا۔ 1967ء میں درس نظامی کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اپنے والد گرامی مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد حسین نعیمی‘ مولانا عطاء اﷲ بندیالوی‘ علامہ محمد اشرف نعیمی اور اپنے برادر اکبر جناب علامہ محفوظ الرحمن نعیمی سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ اپنے تمام اساتذہ میں سے اپنے والد ماجد مفتی محمد حسین نعیمی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ درس نظامی کی تکمیل کے بعد آپ عصری تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور 1971ء سے 1982ء تک بی اے (فاضل عربی)‘ ایم اے (عربی) ایم اے (اسلامیات) اور ایل ایل بی کیا۔ 1986ء میں جامعہ الازہر مصر تشریف لے گئے اور دورۃ التدریب کے بعد الازہری کے لقب سے ملقب ہوئے۔ 1988ء میں ایم او ایل کیا۔ 1989ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور علامہ سے ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی بن گئے۔ ڈاکٹر صاحب سلسلہ اشرفیہ میں پیر طریقت ‘ ڈاکٹر مختار اشرف کچھوچھوی سے بیعت ہیں۔ اس اعتبار سے ہم آپ کو اشرفی بھی کہہ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر صاحب نے 1973ء میں درس نظامی کی تدریس کا آغاز کیا اور اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ایک زمانے میں ڈاکٹرصاحب جنگ لاہور میں مستقل کالم لکھا کرتے تھے۔ اس کے بارے میں جب ہم نے ان سے استفسار کیا کہ یہ سلسلہ اب بند کیوں ہوگیاہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ میرے لئے دن میں 26 گھنٹے کردیں‘ میں یہ سلسلہ دوبارہ شروع کردوں گا۔ قدیم و عصری علوم کے ماہر ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی نے بتایا کہ وہ گھر کے ماحول کی وجہ سے اس دینی ماحول میں شامل نہیں ہوئے بلکہ شعوری طور پر انہوں نے اس ماحول کا انتخاب کیا۔

سوال: کچھ جامعہ نعیمیہ کے بارے میں بتائیں اور اس وقت جامعہ میں کتنے غیر ملکی طلباء زیر تعلیم ہیں۔
جواب: جامعہ نعیمیہ کی بنیاد میرے والد گرامی مفتی محمد حسین نعیمی رحمتہ اﷲ علیہ نے 1953ء میں چوک دال گراں لاہور میں رکھی تھی۔ اس وقت یہ ایک چھوٹا سا ادارہ تھا جوکہ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے آج آپ کے سامنے ہے۔ یہ ادارہ امام احمد رضا فاضل بریلوی کے خلیفہ اجل صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی کی یاد میں قائم کیا گیا اور جامعہ نعیمیہ مراد آباد کا ایک تسلسل تھا جوکہ آج جامعہ نعیمیہ لاہور کی صورت میں آپ کے سامنے موجود ہے۔ اس ادارہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے طلباء نے علوم نبوت سے فیض اٹھایا ہے۔ 1973ء سے لے کر 2003ء تک جامعہ نعیمیہ میں غیر ملکی طلباء حصول تعلیم کے لئے آتے رہے‘ جنوبی افریقہ‘ امریکہ‘ برطانیہ اور دیگر ممالک کے طلباء دارالعلوم سے فراغت کی سند لے کر اپنے اپنے ممالک میں دین کی ترویج و اشاعت کے لئے مصروف عمل رہے۔ دینی تعلیم کے متمنی طلباء غیر سرکاری سفیروں کا کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن 2003ء میں پرویز مشرف کی اسلام دشمن پالیسیوں کی بناء پر ہمیں غیر ملکی طلباء کا باامر مجبوری‘ ابھی ان کا کورس بھی مکمل نہیں ہوا تھا‘ واپس بھیجنا پڑا۔ پاکستان دنیا بھر میں دینی علوم کا مرکز و محور تھا‘ اس بناء پر غیر ملکی طلباء یہاں آیا کرتے تھے۔ پرویز مشرف کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان اپنی مرکزیت کھو بیٹھا۔ ان طلباء کی بے دخلی کی وجہ سے مالی طور پاکستان کو نقصان پہنچا‘ ہماری حکومت نے جن غیر ملکی طلباء کو بے دخل کیا وہ ہندوستان چلے گئے اور دنیا کے اندر ہندوستان کو علوم دینیہ کے حوالے سے مرکزیت حاصل ہوگئی اور اس کا انتہا پسند ہندو ازم پس پردہ چلا گیا اور بیرون ممالک میں پاکستان کا مذہبی تشخص مجروح ہوا۔

سوال: قیام پاکستان کے بعد پاکستان بنانے والے علماء و مشائخ اہلسنت کیوں منظر عام سے ہٹ گئے؟
جواب: پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ پاکستان بننے کے فورا بعد علماء و مشائخ اہلسنت حجرہ نشین ہوگئے۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ پاکستان بنانے کے بعد ہم نے اپنی منزل پالی جبکہ قیام پاکستان اس منزل کی جانب پہلا قدم تھا جس کے حصول کے لئے پاکستان کو بنایا گیا تھا۔ وہ منزل تھی پاکستان میں نظام مصطفی کا نفاذ‘ تحریک پاکستان میں علماء و مشائخ اہلسنت کے کردار کی واضح دلیل ’’سنی کانفرنس پٹنہ‘‘ اور ’’سنی کانفرنس بنارس‘‘ کا انعقاد ہے۔ جب تکمیل پاکستان کا مرحلہ آیا‘ پاکستان بنانے والے علماء و مشائخ یا تو اپنے خلوص کی بناء پر یا اس وقت کے سیاستدانوں کے کردار یا طرز عمل سے مایوس ہوکر گوشہ نشین ہوگئے جس کے نتیجے میں اہلسنت کا سیاسی و مذہبی کردار ایک خواب بن گیا۔ پاکستان میں اہلسنت و جماعت کو نفاذ اسلام کی تحریک سے دور کرنے میں ایک کردار پیشہ ور خطباء اور روحانی فیوضات سے محروم نام نہاد سجادہ نشینوں کا بھی ہے۔ ان کے بے عملیوں کی وجہ سے اہلسنت کے متحرک ‘ فعال اور کچھ کر جانے والے نوجوان دوسری گھاٹ پر چلے گئے۔ آج ہم جس صورتحال سے دوچار ہیں‘ اس کے تناظر میں ان رہنمائوں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس بے عملی کے نتیجے میں پاکستان کے دو صوبے اقتدار کے حوالے سے ہم ان کے حوالے کر بیٹھے جو پاکستان کی پ سے بھی واقف نہیں تھے۔ ان علاقوں میں بڑی بڑی گدیاں چلانے والے چاہے وہ پیر مانکی کے مسند نشین ہوں یا زکوڑی شریف کے مسند نشین کی شکل میں‘ انہوں نے اپنے بزرگوں کی لازوال خدمات کو طشتری میں رکھ کر غیروں کے حوالے کردیا۔

سوال: 1970ء میں جمعیت علمائے پاکستان ایک واضح اکثریت لے کر اسمبلی میں پہنچی۔ کیا وجہ ہے کہ علماء و مشائخ اہلسنت نے JUP کی سرپرستی نہیں کی ؟
جواب: 1970ء میں اہلسنت نے ایک انگڑائی لی۔ قومی اور صوبائی اسمبلی میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی لیکن کچھ وجوہات کے باعث وہ کردار ادا نہ کر پائے جس کی اہلسنت کو ضرورت تھی۔ 1970ء کے انتخابات میں کچھ احباب اتفاقیہ طور پر منتخب ہوئے تھے۔ بعض افراد جے یو پی کے ٹکٹ سے منتخب ہونے کے باوجود صاحبان اقتدار کے آگے سرنگوں ہوگئے جن کے نتیجے میں عوام اہلسنت میں ان سے نفرت کا جذبہ پیدا ہوا لیکن یہ ایک بین حقیقت ہے کہ علامہ الشاہ احمد نورانی‘ علامہ عبدالمصطفی الازہری اور مولانا ذاکر صاحب جیسے زعماء نے اسمبلی فلور پر کلیدی کردار ادا کیا۔ میری رائے کے مطابق 1985 ء کے غیر جماعتی الیکشن میں جے یو پی کا حصہ نہ لینا ایک جذباتی فیصلہ تھا اور جے یو پی کو اس بائیکاٹ کی وجہ سے بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ جے یو پی کے ووٹر ناگہانی صورتحال کی وجہ سے تتر بتر ہوگئے۔ ایک ایسی سیاسی جماعت جس نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی‘ اس نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لے کر اپنے آپ کو اتنا مضبوط کیا جس کا توڑ آج تک نہیں کیا جاسکتا۔ 1985ء کے الیکشن میں جے یو پی کی مزید تقسیم کروائی گئی اور نظریات پر قائم دائم رہنے کے نعرے نے اہلسنت کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ ایجنسیاں کبھی بھی کھل کر سامنے نہیں آیا کرتی‘ چنانچہ ان ایجنسیوں نے نظریاتی اور غیر نظریاتی ہر دو فریق کو چالاکی کے ساتھ اپنے جال میں پھنسایا۔

سوال: مذہبی طور پر ضیاء الحق کے نظریات سے علماء و مشائخ اہلسنت خوب واقف تھے‘ اس کے باوجود بعض حضرات ضیاء کی مجلس شوریٰ میں شامل ہوگئے۔ بعض نے مختلف سرکاری اداروں کی چیئرمین شپ اور رکنیت حاصل کرلی۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ضیاء الحق نے جے یو پی کے ان اکابرین کے ذریعے چھرا گھونپا؟
جواب: ضیاء الحق کے ظاہری اعلانات پر اگرچہ کچھ احباب نے اعتماد کیا اور شوریٰ میں چلے گئے اور بعد میں اس کا اصل چہرہ جب سامنے آیا تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا لیکن سوال یہ ہے کہ اس نعرے کو ایسے حضرات نے خوب استعمال کیا جو تحریک پاکستان میں منفی کردار ادا کرتے رہے۔ مرض کے علاج کا سبب تلاش کرنا‘ اس وقت کے اہلسنت کے قائدین کا فرض بنتا تھا‘ سوال یہ نہیں کہ ضیاء صاحب اور میاں صاحب نے شب خون مارا‘ سوال یہ ہے کہ ان کی سازشوں کے نرغے میں کون کون آیا اور نظریات پر قائم رہنے کا نعرہ بہت اچھا اور خلوص پر مبنی نعرہ ہے لیکن بعض اوقات مصلحت پسند پالیسی کی وجہ سے اگر فوائد حاصل کئے جاسکیں۔ ایسے فوائد جو ملک و ملت اور مسلک کے لئے سودمند ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: ڈاکٹر صاحب کیا وجہ ہے کہ جمعیت علماء پاکستان کے ہر باغی گروپ کو جامعہ نعیمیہ میں سائبان فراہم کیا جاتا ہے اور وہ یہاں سے اپنی سازشوں کا آغاز کرتے ہیں؟
جواب: جامعہ نعیمیہ کا پلیٹ فارم تمام اہلسنت کا پلیٹ فارم ہے۔ جامعہ نعیمیہکے پلیٹ فارم کو کسی ایک گروپ کے ساتھ خاص کرنا ہماری پالیسی میں شامل نہیں ہے۔ ہمارے دروازے جمعیت علماء پاکستان نورانی کے لئے بھی کھلے ہیں۔ ہم نے کبھی بھی طلبا کو کسی ایک گروپ کے ساتھ خاص رہنے کی تلقین نہیں کی۔ وہ قائدین اہلسنت کی ہمت ہے کہ کون سا گروپ طلباء اور عوام اہلسنت کو متاثر کرتا ہے۔ ہم نے کبھی بھی کسی طالب علم کو اس بنیاد پر ادارے سے خارج نہیں کیا کہ اس کا تعلق فلاں گروپ سے ہے۔ 2002ء کے انتخابات میں جب جامعہ نعیمیہ کی طرف سے پریس میں‘ میں نے یہ بیان جاری کیا کہ انتخابات میں پہلی ترجیح متحدہ مجلس عمل کو حاصل ہے اور اس کے بعد مسلم لیگ (ن) باوجود اس کے ہمارے میاں صاحب سے تعلقات تھے۔

سوال: ڈاکٹر صاحب آپ اتحاد اہلسنت کے لئے کافی عرصے سے کوشاں ہیں۔ آپ کو اس میں کتنی کامیابی ملی یا کامیابی کے امکانات محسوس کئے؟
جواب: اتحاد اہلسنت ہر درد دل رکھنے والے سنی کی اولین خواہش ہے ۔ کیونکہ متاع کارواں لٹ رہا ہے۔ موجودہ انتخابات سے پہلے اہلسنت کے تمام سیاسی دھڑوں کی مشاورت سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی کے سربراہ جناب صاحبزادہ امین الحسنات تھے۔ ارکان میں مفتی محمد خان قادری‘ میاں خالد حبیب الٰہی ایڈوکیٹ اور میں شامل تھا۔ اس کمیٹی نے مسلسل دو سال تک اتحاد کی کوششیں کی۔ کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد پھر حسن ابدال میں جو آخری میٹنگ ہوئی اس میں فیصلہ کیا گیا کہ جمعیت علمائے پاکستان نورانی‘ فضل کریم گروپ اور نظام مصطفی پارٹی کے ذمہ دار اپنے اپنے استعفی اگلے دن کمیٹی کو پہنچا دیں گے تاکہ مشترکہ جے یو پی کے لئے ایک ایڈہاک کمیٹی بنے۔ سوائے صاحبزادہ حاجی فضل کریم کے کسی گروپ کی طرف سے ہمیں استعفیٰ موصول نہیں ہوا۔ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ فی الوقت اتحاد کی کوششوں کو روک لیا جائے تاکہ یہ جماعتیں انتخابات میں اپنے اپنے طور پر حصہ لے لیں اور بعد میں از سرنو کوششیں جاری رکھی جائیں۔ اہلسنت کی دو سیاسی جماعتوں کے کلیدی عہدوں پر فائز افراد کی طفیلی کامیابی نے ان کے ذہنوں میں اس امر کو پختہ کرلیا چونکہ میں کامیاب ہوگیا۔ اس لئے میری ساری جماعت کامیاب ہوگی اور اب اتحاد کی کیا ضرورت ہے۔ آیا ایک شخص کی کامیابی کو پوری سنی قوم کی کامیابی قرار دینا درست ہے۔ اس کا فیصلہ آنے والا مستقبل کرے گا لیکن خالق کائنات کا فرمان ہے کہ اﷲ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں۔ اتحاد کمیٹی انشاء اﷲ ایک نئے جذبے کے ساتھ اتحاد کے لئے مصروف عمل ہے۔ الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے‘ ماضی میں اہلسنت کو فائدہ پہنچا ہے اور نہ ہی مستقبل میں پہنچے گا۔

سوال: آپ تنظیم المدارس اہلسنت کے ناظم اعلیٰ کے منصب پر فائز ہیں۔ کچھ اپنی کارکردگی کے بارے میں بتایئے؟
جواب: غالبا 2002ء میں مجھے تنظیم المدارس اہلسنت کے ناظم اعلیٰ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ میری اولین ترجیحات میں مدارس اہلسنت کی ایک لڑی میں پرونا تھا۔ اس وقت 6000 ہزار سے زائد مدارس تنظیم سے ملحق ہیں جبکہ ابھی بھی مختلف مدارس کے ملحق ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ باقی تمام طبقات کا صرف ایک تعلیمی بورڈ ہے جبکہ مدارس اہلسنت کے تعلیمی نیٹ ورک کا جال بچھا ہوا ہے۔ جامعہ محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف سے ملحق مدارس کی تعداد 1000 کے قریب ہے اور دعوت اسلامی سے ملحق مدارس کی تعداد 1500 سے زائد ہے۔ اس تقسیم کی بناء پر تنظیم المدارس سے ملحق مدارس کی تعداد کم نظر آتی ہے۔ دیوبندی مکتبہ فکر کے وفاق کا دعویٰ ہے کہ ان کے وفاق سے ملحق مدارس کی تعداد دس ہزار ہے اور طلباء کی تعداد 10 لاکھ کے قریب ہے۔ یہ بات پیش نظر ہونی چاہئے کہ ہماری کئی مدارس پنجاب‘ سرحد‘ سندھ‘ بلوچستان اور کشمیر کے دورافتادہ‘ دیہاتوں میں موجود ہیں جہاں حفظ‘ تجوید اور بعض جگہوں پر درس نظامی کی کلاسیں بھی موجود ہیں۔ جن کا الحاق ابھی تک تنظیم سے نہیں ہوا۔ وفاق مدارس کے پاس بے پناہ وسائل بھی موجود ہیں۔ ان کے تمام متعلقین کافنڈ ان میں جمع ہوتا ہے۔ اہلسنت کے مخیر حضرات کا اکثر فنڈ نعت خوانوں‘ عرسوں‘ میلوں اورغیر شرعی رسومات پر خرچ ہوتا ہے اور وسائل کی کمی کے باوجود ہم تنظیم المدارس اہلسنت کی ترقی کے لئے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔

سوال: ڈاکٹر صاحب! کیا وجہ ہے کہ سرکاری محکموں میں وفاق المدارس کو سند کی تو اہمیت دی جاتی ہے جبکہ تنظیم المدارس کو سند کی کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے؟
جواب: حکومت پاکستان کے وزارت تعلیم کے شعبے ہائر ایجوکیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق پانچوں وفاقوں کی ڈگریاں یکساں ہیںلیکن المیہ یہ ہے کہ ان محکموں میں موجود بعض اہلکار جو نظریاتی طور پر ان لوگوں کے ہم مسلک ہوتے ہیں وہ صرف تعصب کی بناء پر تنظیم کی سند کو اہمیت نہیں دیتے اور وفاق کی سند کو ترجیح دیتے ہیں۔ میری قارئین سے گزارش ہے کہ اگر کہیں بھی ایسا ہو کہ اس بنیاد پر حق تلفی کی جائے کہ اس کا تعلق تنظیم المدارس سے ہے وہ تنظیم کے مرکزی دفتر سے رابطہ کرے‘ انشاء اﷲ اس کا ازالہ کیا جائے گا۔

سوال: ڈاکٹر صاحب!مدارس دینیہ سے فارغ التحصیل طلباء اگر سرکاری ملازمت اختیار کرنا چاہیں تو اس کے لئے اسکول کی تعلیم کا ہونا ضروری ہے؟ کیا آپ نے اس سلسلے میں کوئی کوشش کی ہے کہ مدارس دینیہ کی اسناد کو تمام سرکاری محکموں میں تسلیم کیا جائے؟
جواب: یاد رہے کہ تنظیم کا ایک تعلیمی امتحانی ادارہ ہے جو کل پاکستان درجہ عامہ (میٹرک)‘ درجہ خاصہ (ایف اے) درجہ عالمیہ (بی اے) اور درجہ عالمیہ (ایم اے) اسلامیات پر طلباء اور طالبات کے امتحانات لیتا ہے اور یہ فروغ تعلیم کے لئے ماضی کی طرف اب بھی کوشاں رہے گا۔ گزشتہ حکومت نے اپنے دور کے آخری سال میں اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ سے نصاب اور سندوں کے حوالے سے مذاکرات کئے تھے اور باہمی طور پر طے پایا تھا کہ جامعہ عامہ سے انگریزی‘ جنرل ریاضی‘ جنرل سائنس اور مطالعہ پاکستان کے مضامین شامل کریں۔ تمام تنظیمات نے ان مضامین کو شامل کرلیا ہے‘ اب گیند حکومت کے کورٹ میں ہے۔ ان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ایفائے عہد کریں اور وعدے کے مطابق اسناد کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا جائے۔ گزشتہ ماہ حکومت نے دوبارہ رابطہ کیا ہے کہ جہاں سے مذاکرات کا تعطل ہوگیا تھا وہاں سے ازسرنو دوبارہ مذاکرات کئے جائیں۔ ابھی تک اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ نے فیصلہ نہیں کیا کہ مذاکرات کرنا چاہئیں یا کہ نہیں۔اگر حکومت مخلص ہے تو اسے چاہئے کہ وہ ایک مسلمان کا کردار ادا کرے۔ حکومت مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر صرف یہی کہتی ہے کہ کتنے غیر ملکی طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں کہ ان کے کوائف کیا ہیں۔ کیا کہیں مدارس میں جہادی کیمپ تو نہیں۔ ہمارے پاس رپورٹس آرہی ہیںکہ مدارس میں جہادی کیمپس موجود ہیں۔ یہ رپورٹس کہاں سے آتی ہیں‘ اس سے آپ بھی تو آگاہ ہیں۔ اگر حکومت نیک نیتی کا مظاہرہ کرے اور اصل مسائل پر مذاکرات کرے تو اس بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔

سوال: ڈاکٹر صاحب! ہر سال شہادۃ العالمیۃ میں طلباء کے انتہائی دقیق اور موجودہ دور کے تناظر میں جدید مسائل اور حالات حاضرہ پر مقالات لکھوائے جاتے ہیں‘ تنظیم کی طرف سے ان مقالات کی اشاعت کا کوئی انتظام ہے؟
جواب: ایسے مقالات جو اہمیت کے حامل ہیں ان کو شائع کرنے کی کوشش جاری ہیں اور مختلف اشاعتی اداروں سے رابطہ بھی کیا جارہا ہے۔ اگر کوئی مقالہ نگار اپنے مقالے کو خود شائع کرنا چاہے تو وہ تنظیم سے NOC لے کر شائع کروا سکتا ہے؟

سوال: پاکستان کی سیاسی صورتحال پر آپ کا کیا تبصرہ ہے؟
جواب: پاکستان اس وقت پانچ مجیبوںکے نرغے میں ہے۔ صوبہ سرحد میں اے این پی جس کے بانی باچا خان نے ڈٹ کر پاکستان کی مخالفت کی‘ حکومتی اتحاد کی ایک اہم جماعت ہے۔ جے یو آئی کے سابق سربراہ مفتی محمود نے سانحہ مشرقی پاکستان کے موقع پر جب پاکستانی قوم آنسو بہا رہی تھی کہا تھا کہ شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہوئے۔ صوبہ بلوچستان میں اختر مینگل ان لوگوں کی پشت پناہی کررہے ہیں جو پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ لیکن اصل کردار اختر مینگل کا ہی ہے۔ سندھ میں کئی جماعتیں تعصب کا بیج بو رہی ہیں لیکن یہاں اصل کردار الطاف حسین کا ہے۔ کراچی میں ساحل سمندر ہونے کی بناء پر الطاف حسین بھی مجیب ہی کی ایک شکل ہے۔ آصف زرداری کا تمام تر زور جمع کرنے میں ہے‘ انہوں نے پاکستان کا دارالحکومت دبئی کو بنایا ہے۔ عوام ان پانچ مجیبوںسے ہوشیار رہے۔ ایسا نہ ہوکہ ہمیں ایک اور سقوط ڈھاکہ جیسے سانحہ سے دوچار ہونا پڑے۔

سوال: علامہ شاہ احمدنورانی کی شخصیت و کردار کے بارے میں آپ کیا فرمائیں گے؟
جواب: صدر ایوب کے دور میں جمعیت علماء پاکستان کی تشکیل نو کی گئی۔ جے یو پی کا پہلا انتخابی اجلاس دارالعلوم نعیمیہ لاہور میں انعقاد پذیر ہوا۔ شیخ القرآن علامہ عبدالغفور ہزاروی کو بطور صدر منتخب کیا گیا۔ اس اجلاس میں مولانا الشاہ احمد نورانی بطور خاص شریک ہوئے اور یہ ان کا پہلا سیاسی تعارف تھا۔ اگرچہ اس سے پہلے اور بعد میں حضرت زیادہ تر تبلیغی مصروفیات کی وجہ سے ملک سے باہر رہا کرتے تھے پھر 1970ء میں حضرت کی قیادت میں جے یوپی قومی اسمبلی کے فلور پر پہنچی اور آپ کی جہد مسلسل نے جے یو پی کو اوج ثریا پر پہنچایا۔ آپ کا شمار ان قائدین میں کیا جاسکتا ہے جو دیگر قائدین سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ آپ نے پورے سیاسی دورانئے میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا کہ ان کی شخصیت‘ کردار پر بال برابر انگلی اٹھائی جاسکے۔ پالیسیوں سے اختلاف الگ بات ہے‘ سیاسی کردار‘ شخصی استغنائ‘ ذاتی سیرت و کردار‘ قابل فخر انداز‘ سیاسی سمجھ بوجھ کا ملکہ‘ حق گوئی‘ بے باکی کا مردانہ اظہار‘ اپنے موقف پر ڈٹ جانے کی صلاحیت سے معمور حق گو‘ حق اور باطل کو باطل کہنے کی جرات یہ وہ اوصاف حمیدہ ہیں جو ماضی قریب میں علامہ شاہ احمد نورانی کے علاوہ اہلسنت کی کسی قیادت میں نظر نہیں آتے۔

سوال: نواز شریف سے یارانہ کب تک چلتا رہے گا؟
جواب: بہت سے افراد کو یہ غلط فہمی ہے کہ جامعہ نعیمیہ کا تعلق نواز شریف صاحب سے ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف فیملی سے تعلق بانی جامعہ مفتی محمد حسین نعیمی رحمتہ اﷲ علیہ کا 1942ء سے ہے جس وقت حضرت مفتی صاحب قبلہ چوک دال گراں کی مسجد میں خطابت کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ اس محلے میں شریف فیملی مقیم تھی۔ یہ تعلق تقریبا 47 سال سے قائم ہے چونکہ یہ فیملی جامعہ نعیمیہ کی بنیادی ممبران میں سے ہے‘ اس طرح یہ تعلق ماضی کی طرح آج بھی قائم و دائم ہے اور اسی طرح قائم رہے گا۔ شریف فیملی کا ایک نہ ایک فرد جامعہ نعیمیہ کی مجلس عاملہ کا ممبر ہوتا ہے۔ یہ تعلق اس وقت کا ہے جب میاں صاحب کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی چونکہ یہ تعلق بزرگوں نے قائم کیا تھا‘ اس لئے یہ تعلق قائم و دائم ہے۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مفادات حاصل کرنے کے بعد پھر جاتے ہیں جبکہ جامعہ نعیمیہ نے ایسا کیا ہے اور نہ کرے گا۔ بے شک ہمیں الزامات کا سامنا کرنا پڑے۔ حضرت مولانا شاہ احمد نورانی کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ ہمارا تعلق نواز شریف سے ہے۔ لیکن اس کے باوجود حضرت جامعہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت فرماتے رہے اور وصال تک اس سلسلے کو جاری رکھا۔ شاید یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ جب میاں نواز شریف کی فیملی نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا‘ ان کا سب سے پہلا رابطہ جے یو پی سے کرایا گیا لیکن افسوس کہ اس رابطے کو غلط رنگ میں دیکھا گیا اور بعد میں میاں صاحب نے تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کرلی اور وہاں سے میاں صاحب آگے ہی آگے بڑھتے رہے۔

سوال: ڈاکٹر صاحب آپ کا مستقبل میں سیاست میں آنے کا ارادہ ہے؟
جواب: مستقبل میں سیاست میں آنے کا یا نہ آنے کا انحصار حالات پر منحصر ہوتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ ۔ آپ نے اپنے قیمتی اوقات میں سے ہمیں وقت دیا۔ (بشکریہ ماہنامہ افق)

http://tahaffuz.com/2633/#.VGIjk_msWSo

………..

خود کش حملہ حرام:فتویٰ

علی سلمان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام لاہور

متحدہ علماء کونسل کی جانب سے خود کش حملوں کو ناجائز اور حرام قرار دینے پر اگرچہ مختلف حلقوں نے مختلف ردعمل کا اظہار کیا ہے اور وفاقی مشیر داخلہ رحمان ملک اس کا خیر مقدم کرچکے ہیں۔ بعض حلقے اسے تاخیر سے اٹھایا گیا قدم قرار دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خودکش حملوں کے بارے میں جاری کیے گئے حالیہ اعلامیہ کے دستخط کنندگان مذہبی حلقوں میں مقتدر حیثیت کے حامل ہیں۔ خود اعلامیہ پڑھ کر سنانے والے ڈاکٹر سرفراز نعیمی سنی اکثریت کے ایک بڑے عالم ہیں چار برس پہلے اسی مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے مفتی منیب الرحمان نے خود کش حملہ کو حرام قرار دیا تھا

جامعہ نعیمیہ میں مختلف مکاتب فکر کے حالیہ اجتماع کے روح رواں جماعتہ الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید تھے۔ حافظ محمد سعید پاکستان میں کالعدم قرار دی جانے والی لشکر طیبہ کے بانی ہیں۔

حالیہ مشترکہ اعلامیہ سے پہلے حافظ محمد سعید نے پاکستان میں ہونے والی پرتشدد کارروائیوں کو جہاد ماننے سے انکار کر دیا تھا اور انہیں فتنہ قرار دیا تھا۔ خودکش حملوں اور پرتشدد کارروائیوں کے خلاف یہ اسلامی بیانات ایک ایسے موقع پر آرہے ہیں جب پاکستان کی حکومت، انتظامیہ اور فوج قبائلی علاقوں کے شدت پسندوں کے خلاف نئے سرے سے صف آرا ہونے جا رہی ہے۔

ایک دوسرے سے متضاد مسالک کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرلینا یقینی طور پر ایک بڑی کاوش ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ فتویٰ شدت پسندوں کو خود کش حملوں سے باز رکھ سکیں گے؟

پاکستان کے مقامی طالبان پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ خود کش نہیں بلکہ فدائی حملے کر رہے ہیں لیکن یہ وضاحت سامنے نہیں آئی کہ فدائی حملہ آور سے ان کی کیا مراد ہے؟ ایک بات واضح ہے کہ مقامی طالبان متحدہ علماء کونسل کے حالیہ اعلامیہ کےبعد اپنی حکمت عملی میں قابل ذکر تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہیں۔

جہادی تنظیموں سے لمبے عرصے تک رابطے میں رہنے والے سی ایم فاروق کا کہنا ہے کہ یہ فتویٰ قبائلی علاقوں میں کچھ زیادہ موثر ثابت نہیں ہوسکے گا۔

انہوں نے کہا کہ مذہبی شدت پسندوں کے ذہن بن چکے ہیں۔ ان کےبقول وہ لوگ پاکستان کے قومی دھارے میں شامل اور سیاسی پالیسی رکھنے والے علماء سے ویسے ہی مایوس ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں خود کش حملوں کو شروع ہوئے ویسے تو کئی برس ہوگئے ہیں لیکن ان میں شدت لال مسجد آپریشن کے بعد آئی ہے۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/10/081016_fatwa_comment_rza.shtml

….

ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت پر ملک بھر میں سوگ،جنازے میں ہزاروں افراد کی شرکت، قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک

14 Jun 2009 10:11

جمعہ کو خودکش حملے میں شہید ہونے والے ممتاز عالم دین، مفکر اور جامعہ نعیمیہ کے مہتمم ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کی المناک شہادت پر لاہور سمیت کئی شہروں میں سوگ منایا گیا، ہڑتال کی

لاہور : جمعہ کو خودکش حملے میں شہید ہونے والے ممتاز عالم دین، مفکر اور جامعہ نعیمیہ کے مہتمم ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کی المناک شہادت پر لاہور سمیت کئی شہروں میں سوگ منایا گیا، ہڑتال کی گئی۔ اس موقع پر کاروبار زندگی معطل رہا اور احتجاجی جلوس نکالے گئے جبکہ ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کے قتل کا مقدمہ بیت اللہ محسود اور ان کے 3 ساتھیوں کے خلاف مفتی نعیمی کے صاحبزادے راغب نعیمی کی درخواست پر درج کر لیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق جامعہ نعیمیہ کے مہتمم اور ممتاز عالم دین ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کو گذشتہ روز ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں جامعہ نعیمیہ کے احاطے میں ان کے والد مفتی محمد حسین نعیمی کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس سے قبل سکیورٹی وجوہات کی بناء پر ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے جسد خاکی کو ڈیڈ ہاؤس سے غسل دینے کے بعد تابوت میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے ناصر باغ سے ملحقہ جی سی گراؤنڈ لایا گیا اور پھر ایمبولینس میں ناصر باغ کے سامنے لایا گیا‘ پولیس کے چاق و چوبند دستے نے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی میت کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔ مفتی ڈ اکٹر سرفراز نعیمی شہید کے صاحبزادے راغب نعیمی نے اپنے والد کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں مفتی منیب الرحمن، ثروت اعجاز قادری، صاحبزادہ فضل کریم،رانا ثناء اللہ سمیت مختلف مذہبی، سیاسی رہنماؤں اور ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ مفتی سرفراز نعیمی کے شاگرد ان کے تابوت سے لپٹ کر روتے رہے،نماز جنازہ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے صاحبزادہ فضل کریم اور دیگر مقررین نے کہا کہ آج پورا ملک ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے غم میں ڈوبا ہوا ہے،حکومت ان کی شہادت میں ملوث طالبان گروہ کو بے نقاب کر کے قرارواقعی سزا دے، جنازے میں شرکت کے بعد مذہبی جماعتوں کے سینکڑوں افراد نے مال روڈ پر دھرنا دیا اور طالبانائزیشن کے خلاف شدید نعرے بازی کی، اس موقع پر سنی اتحاد کونسل کے رہنماؤں نے مفتی سرفراز نعیمی کی شہادت کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا اور صاحبزادہ فضل کریم کو احتجاجی تحریک کا کنوینئر مقرر کیا ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر سرفراز نعیمی اور ان کے 5 ساتھیوں کے قتل پر قلعہ گجر سنگھ پولیس نے ڈاکٹر نعیمی کے صاحبزادے راغب نعیمی کی مدعیت میں کالعدم طالبان تحریک کے سربراہ بیت اللہ محسود اور ان کے 3 ساتھیوں کے خلاف دہشت گردی، قتل، دھماکہ خیز مواد اور دیگر دفعات پر مقدمہ نمبر 688/09 درج کر لیا ہے۔ راغب نعیمی نے ایف آئی آر میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے والد ڈاکٹر سرفراز نعیمی اڑھائی ماہ سے سوات میں پاک فوج کے آپریشن راہِ راست کی حمایت میں رائے عامہ ہموار کر رہے تھے،اس دوران انہیں دھمکیاں ملتی رہیں،ڈاکٹر سرفراز نعیمی کالعدم تحریک طالبان کی وطن دشمن اور ملکی سلامتی کے منافی سرگرمیوں پر تنقید کرتے تھے۔ انہوں نے خودکش حملوں کو حرام قرار دینے کا فتویٰ دیا جس پر طالبان ان سے سخت نالاں تھے۔ ایف آئی آر کے مطابق ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو کالعدم طالبان تحریک کے بیت اللہ محسود اور ان کے ساتھیوں کی ایماء پر شہید کیا گیا۔ دریں اثناء وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی ہدایت پر جامعہ نعیمیہ خودکش دھماکہ کی تحقیقات کے لئے ایڈیشنل آئی جی سی آئی ڈی ملک محمد اقبال کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے جس نے جامعہ نعیمیہ کا دورہ کیا اور سانحہ کی جگہ کا جائزہ لے کر شواہد اکٹھے کئے اور جامعہ کی انتظامیہ سے بھی معلومات حاصل کیں۔ اس کے علاوہ خودکش حملہ آور کا سر اور دیگر اعضا شناخت اور ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے بھجوا دئیے گئے ہیں۔ ابتدائی تحقیقات میں خودکش حملہ کی شناخت نہیں ہو سکی تھی جبکہ جامعہ نعیمیہ سے گرفتار ہونے والے دو مشکو ک افراد سے پولیس نے پوچھ گچھ جاری رکھی۔ اس کے علاوہ پولیس نے ناصر باغ کے باہر نماز جنازہ کے شرکاء میں موجود 3 مشکوک افراد کو لوگوں کی نشاندہی پر گرفتار کر کے تفتیش کے لئے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ اس سے قبل ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت کے سوگ میں لاہور سمیت کئی شہروں میں سوگ اور مکمل ہڑتال، مارکیٹیں اور کاروبار مراکز بند رہے،لاہور ہائیکورٹ اور کچہریوں میں وکلا نے بھی سانحہ کے سوگ میں ہڑتال کی اور عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے۔ لاہور میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت کے سوگ میں حکومت پنجاب کی طرف سے اعلان پر مقامی تعطیل تھی جبکہ علامہ نعیمی کی تدفین کے موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے، پولیس نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے اور ناکے لگا کر لاہور کو عملاً سیل کر دیا۔ گڑھی شاہو سے مال روڈ ناصر باغ تک شہریوں کو سخت چیکنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ شہر کی سڑکوں پر ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر رہی جبکہ کراچی کے اکثر علاقوں میں سانحہ جامعہ نعیمیہ کے سوگ میں ہڑتال رہی، ہنگامہ آرائی کے مختلف واقعات میں 12 زخمی ہو گئے۔ گوجرانوالہ میں بار ایسوسی ایشن نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جبکہ بازار اور کاروباری مراکز مکمل طور پر بند رہے، شیخوپورہ میں سنی تحریک کارکنوں نے سانحہ جامعہ نعیمیہ پر شدید احتچاج کرتے ہوئے لاہور روڈ بلاک کر دیا۔

لاہور :جامعہ نعیمیہ کے مہتمم اور ممتاز مفکر دین، ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کی جمعہ کو خودکش حملے میں شہادت پر مختلف مکاتب فکرکے علمائ، مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ جامعہ نعیمیہ میں گذشتہ روز سیاسی مذہبی رہنماؤں شہریوں کی بڑی تعداد کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ جو ڈاکٹر نعیمی کی المناک موت پر ان کے صاحبزادے سے تعزیت کرتے رہے۔ رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین اور معروف سکالر مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت امت مسلمہ کا نقصان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ میں بھی کچھ ایسے عناصر ہیں جو ڈاکٹر سرفراز نعیمی جیسی شخصیات کے قتل کی گھناؤنی سازش کا حصہ ہیں جبکہ حکومت علماء کرام کو تحفظ فراہم کرنے میں بالکل سنجیدہ نہیں۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے صاحبزادے راغب نعیمی نے کہا کہ ان کے والد کی شہادت کی وجہ وطن عزیز سے بے پناہ محبت اور سوات میں فوجی آپریشن کی حمایت تھی وہ پاک فوج کے آپریشن کو درست سمجھتے تھے۔ ہم بھی علامہ سرفراز نعیمی کا مشن جاری رکھیں گے۔ جماعت اہلسنت کے مرکزی ناظم اعلیٰ علامہ سید ریاض حسین نے کہا کہ اہلسنت و الجماعت کے کارکن پرامن رہیں گے اور آئندہ کا لائحہ عمل سنی اتحاد کونسل کے اجلاس میں طے کیا جائے گا۔ جمعیت علماء اسلام ’’س‘‘ کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ڈاکٹر سرفراز نعیمی ایک معتدل مزاج صاحب بصیرت شخصیت تھے۔ ان کی شہادت کے پیچھے اصل میں بڑی طاقتوں کی سازش کارفرما ہے جو پاکستان میں عراق کی طرح دیوبندی، بریلوی فساد پھیلانا چاہتی ہیں چنانچہ دونوں مکاتب فکر اور تمام مسالک کے علماء کو ملکر یہ سازش ناکام بنانی چاہئے۔ ۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے جامعہ نعیمیہ کے دورے کے موقع پر راغب نعیمی سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت بڑا قومی سانحہ ہے دہشت گردی کی ان وارداتوں سے مرعوب ہو کر سوات آپریشن بند نہیں کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں لاہور بار ایسوسی ایشن کا اجلاس رانا ضیاء الرحمان کی زیر صدارت ہوا جس میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے قتل کی شدید مذمت کی گئی۔ تحریک منہاج القرآن کے سینئر نائب ناظم شیخ زاہد فیاض نے 3 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ جامعہ اشرفیہ لاہور میں مہتمم مولانا عبیداللہ کی زیر صدارت تعزیتی اجلاس ہوا جس میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی المناک شہادت پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی مذموم سازش ہے۔ جماعت اہلحدیث کے امیر علامہ عبدالغفار روپڑی نے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت کو المناک سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اہل پاکستان ایک ممتاز سکالر سے محروم ہوگئے، ان کو شہید کرنا فرقہ واریت کو ہوا دینے کی بھیانک سازش ہے جسے تمام مذہبی جماعتوں کو مل کر ناکام بنانا ہوگا.
علماء اپنے اتحاد کے ذریعے فرقہ وارانہ فسادات کی چال ناکام بنا دیں

کراچی: مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے ملک کے ممتاز اور جید علمائے کرام نے ممتاز عالم دین ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت کو اجتماعی نقصان قرار دیتے ہوئے عو ام سے اپیل کی ہے کہ وہ در پردہ خوفناک سازش کو سمجھیں اور کسی بھی حالت میں مشتعل ہو کر عیار و مکار دشمن کے مکروہ عزائم کو کامیاب نہ ہو نے دیں اور اپنے اتحاد کو برقرار رکھتے ہوئے گھناؤنا کھیل کھیلنے والوں کو واضح پیغام دیں کہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی کوئی بھی چال کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوگی۔ جیو کے مقبول ترین پروگرام ”عالم آن لائن“ کی ایک خصوصی نشست میں جو ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے نشر کی گئی ۔مفتی محمد رفیع عثمانی، پروفیسر مفتی منیب الرحمن، علامہ سید شاہ تراب الحق قادری،مفتی محمد نعیم اور مولانا محمد اسلم شیخوپوری نے ممتاز اسکالر ڈاکٹر عا مر لیاقت حسین سے گفتگو کرتے ہوئے سرفراز نعیمی کی شہادت کی پر زور مذمت کی اور اجتماعی طور پر پوری قوم سے تعزیت کی۔ پروگرام میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کی وہ گفتگو بھی نشر کی گئی جو انہوں نے 27مارچ 2009ء کو جمرود کی ایک مسجد میں خودکش حملے میں شہادتوں کے بعد ڈاکٹر عامر لیاقت حسین سے کی تھی اور جس میں انہوں نے اپنے نظریات اور موقف کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”طالبان کے نام پر دہشتگردانہ کاررو ائیاں کرنے والوں کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں“ مفتی محمد رفیع عثمانی نے گفتگو کرتے ہو ئے واضح الفاظ میں کہا کہ اب حالات اس نہج پر جا پہنچے ہیں کہ جو علماء کے بس سے بھی باہر ہیں ہم بھی اب ان مشتعل نوجوانوں کو قابو میں نہیں کرسکتے جن کے ماں باپ، بہن بھائیوں اور رشتے داروں کو ڈرون حملوں اور فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں قتل کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے یقینا غلط اور قابل مذمت ہے مگر یہ بھی تو دیکھا جائے کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔ مفتی منیب الرحمن نے مولانا سرفراز نعیمی شہید کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہو ئے واشگاف الفاظ میں کہا کہ شہید کا مشن جاری رہیگا انہوں نے کہا کہ اٹھائی گیروں اور دہشت کے نام پر اپنی رٹ قائم کرنے والوں کو تو حفاظتی حصار میں رکھا جاتا ہے لیکن کلمہ حق بلند کرنے والے علمائے کرام اور آپریشن کی حمایت کرنے والوں کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہے مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ مو لانا سرفراز نعیمی کی شہادت اور خودکش حملوں میں مسلسل تیزی کے بعد اب حکومت کے اقتدار میں رہنے کا کوئی شرعی، قانو نی اور اخلاقی جواز باقی نہیں ہے۔ علامہ سید شاہ تراب الحق قادری کا کہنا تھا کہ خاموش تماشائی بن کر آج حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے اگر پہلے ہی ان دہشت گردوں کا سدباب کرلیا جاتا اور ان سے معاہدے نہ کئے جاتے تو آج صورتحال قدرے مختلف ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ صرف مکتبہ اہل سنت ہی نہیں بلکہ پورا ملک آج سرفراز نعیمی شہید کے بہیمانہ قتل پر سراپا احتجاج ہے۔

راغب حسین نعیمی ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے جانشین
لاہور: ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہید کا جانشین ان کے صاحبزادے ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کو بنا دیا گیا۔ جس کا باقاعدہ اعلان آج کیا جائے گا۔ پہلے بتایا گیا تھا کہ نماز جنازہ راولپنڈی کے سید حسین الدین شاہ پڑھائیں گے اس کے بعد کہا گیا کہ نماز جنازہ پیر عبدالعلیم سیالوی پڑھائیں گے جبکہ پیر عبدالعلیم سیالوی نے کہا کہ میں حکم دیتا ہوں کہ نماز جنازہ شہید کے صاحبزادے راغب حسین نعیمی پڑھائیں گے۔ راغب حسین نعیمی بھی مذہبی اسکالر اور پی ایچ ڈی ہیں۔

http://www.islamtimes.org/vdci.qaqct1aqy7s2t.txt

….

علامہ محمد حسین آزاد الازہری

(ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی شہید کے چہلم کے موقع پر خصوصی تحریر)

مورخہ 12 جون 2009ء بروز جمعۃ المبارک بعد نماز جمعہ پاکستان کے دل اور پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی معروف دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور کے دفتر میں ایک دیوبندی خودکش دہشت گرد نے ملک عزیز کی ممتاز دینی شخصیت اور معروف عالم دین حضرت علامہ مفتی ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمیؒ سے ملاقات کے بہانے خود کو بم سے اڑا کر موصوف سمیت جامعہ کے دیگر چار طلباء کو شہید کردیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

شہید پاکستان حضرت علامہ مفتی ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمیؒ کو شہید کرنے والے دہشت گرد شاید امت مسلمہ کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کی انتہا پسندانہ غیر انسانی دہشت گردی کے اقدامات کی مذمت نہ کی جائے کیونکہ موصوف وہ بے باک اور نڈر شخصیت تھے جنہوں نے خودکش حملوں کے حرام ہونے کا نہ صرف فتویٰ دیا بلکہ پاکستان میں انتہا پسندی کے سخت مخالف تھے اور کہا کرتے تھے کہ پاکستان کو انتہا پسندی سے بچانا پوری قوم کا فریضہ ہے جسے ادا کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے سوات اور مالا کنڈ کے فوجی آپریشن ’’راہ راست‘‘ کی کھل کر حمایت کی اور ملک میں جاری شدت پسندی کی لہر کے خلاف متحرک رہے۔ انہوںنے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے فتنہ کا قلع قمع کرنے کے لئے 22 دینی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جسکا نام تحفظ ناموس رسالت محاذ رکھا اور موجودہ حالات میں انہوں نے اسی پلیٹ فارم سے لاہور کے مال روڈ پر پاکستان بچاؤ ریلی کا اہتمام کیا اور اس کے کچھ دنوں بعد ایوان اقبال میں پاکستان بچاؤ کنونشن کا انعقاد بھی کیا جس میں ملک بھر سے مشائخ و علماء کرام نے بھرپور شرکت کی جس کے کچھ ہی دنوں بعد شہادت کا یہ عظیم سانحہ رونما ہوا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ موصوف دین کی سربلندی اور وطن کے استحکام کے لئے جہاد کرتے ہوئے شہادت کی عظیم نعمت سے سرفراز ہوئے۔ مگر انتہائی افسوس ہے کہ حکومت کی طرف سے حفاظتی انتظامات اور عسکریت پسندوں کا نیٹ ورک توڑنے کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود ملک بھر میں دہشت گردی کی کاروائیاں اور خود کش حملے تسلسل سے جاری ہیں۔ اگر فوجی آپریشن کا فیصلہ کرتے وقت ممکنہ رد عمل کو پیش نظر رکھا جاتا اور اہم اداروں، اہم مقامات اور اہم شخصیات کی حفاظت کے لئے ضروری اقدامات کرلئے جاتے جو فوجی آپریشن کے ردعمل کا یقینی ہدف ہوسکتے تھے یا جن کو قتل کرنے کی دھمکی آمیز خطوط وصول ہوچکے تھے تو کسی حد تک ایسے عظیم سانحہ سے بچا جاسکتا تھا۔ موجودہ اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وقت مذہبی منافرت اور مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کے لئے بھی اسلام دشمن قوتیں اور ہمسایہ ملک سرگرم عمل ہیں جس کا عملی ثبوت ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک خاص مسلک کی عبادت گاہ کو نشانہ بنانا اور لاہور میں ملک کے سواد اعظم سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے عالم دین اور دینی سکالر کو نشانہ بنانا ہے جو اپنے عظیم والد حضرت علامہ مفتی محمد حسین نعیمیؒ کی طرح زندگی بھر اتحاد بین المسلمین اور مختلف مسالک کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دیتے رہے۔۔

شہید پاکستان ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمیؒ کا تحریک منہاج القرآن اور قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ساتھ نہایت دیرینہ اور گہرا تعلق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سانحہ عظیم کی خبر سنتے ہی شیخ الاسلام مدظلہ نے فوری طور پر بیرون ملک سے بذریعہ فون شہید پاکستان کے فرزند ارجمند علامہ پروفیسر راغب حسین نعیمی صاحب سے اظہار تعزیت کیا اور بڑ ے بھائی کی طرح اپنے ہر ممکن تعاون اور سرپرستی کا یقین دلایا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہدایت پر تحریک منہاج القرآن کے اعلیٰ سطحی وفد نے مرکزی امیر تحریک سمیت تمام قائدین، رفقاء واراکین اور علماء کونسل نے مرحوم و مغفور کے جنازے میں شرکت کی اور اگلے دن جامعہ نعیمیہ میں منعقدہ رسم قل کی خصوصی تقریب میں بھی بھرپور شرکت کی۔ بعد ازاں مورخہ 23 جون بروز منگل 11 بجے دن مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن کے کانفرنس ہال میں منہاج القرآن علماء کونسل کے زیر اہتمام شہید پاکستان اور اسیر ناموس رسالت محترم ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمیؒ کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں بطور خاص جانشین شہید پاکستان علامہ پروفیسر راغب حسین نعیمی صاحب مہمان خصوصی تھے۔

http://www.minhaj.org

…………..

میرے والد نے اسلام اور وطن کے لیے جان قربان کی وہ جب تک زندہ رہے اسلام مخالف قوتوں سے لڑتے رہے ان کی شہادت رائیگاں نہیں جائے گی۔ دہشت گردی اور خود کش حملے حرام ہیں، شہید پاکستان ڈاکٹر سرفراز نعیمی کا مشن جاری رہے گا۔ ان باتوں کا اظہار پروفیسر راغب نعیمی نے تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں اپنے والد ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہیدکو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے افوج پاکستان کے ساتھ ہیں۔ میرے والد گرامی قدرکی زندگی بڑی سادہ اور بے باک گزری ہے انھوں نے عشق مصطفےٰ (صلی اللہ وعلیہ و آلہ و سلم) اور وطن عزیز کی محبت کو اپنی زندگی کا مشن بنا رکھا تھا۔ انھوں نے نام نہاد طالبان کے بارے میں کہا کہ وہ سعودی نواز لوگ ہیں اسلام سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسکین فیض الرحمن درانی مرکزی امیرتحریک منہاج القرآن نے کہا کہ شہید پاکستان عاجزی اور انکساری کا پہاڑ تھے ان کی زندگی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ انھوں نے باطل قوتوں کے خلاف حق کا پرچم بلند کیا وہ سچے مسلمان اور محب وطن مجاہد تھے۔ انھوں نے ان باتوں کو ثابت کرنے کے لیے شہادت کو بطور دلیل پیش کیا۔

پیر خلیل الرحمن چشتی نے اپنے خطاب میں کہا کہ شہید پاکستان ڈاکٹر سرفراز نعیمی ان علماء مشائخ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے پاکستان بنانے کے لیے قائد اعظم کا ساتھ دیا۔ انھوں نے کہا کہ جنہوں نے پاکستان بنایا اب وہی علماء مشائخ پاکستان کو بچانے کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔

http://www.welfare.org.pk/ur.php?tid=8605

…………

کٹر مفتی سرفراز احمد نعیمی کی شہادت
Khurshid Nadeem July 1 2009

جامعہ نعیمیہ کے مہتمم،ممتاز عالمِ دین ڈاکٹر مفتی سرفراز احمدنعیمی کا قتل،ایک ایسی دل گیر خبر تھی جس نے ہر صاحب دل کورنجیدہ کر دیا۔ان کا تعلق بریلوی مکتبِ فکر سے تھا لیکن ان کے غم کو مسلکی وابستگی سے ماورا ہو کر محسوس کیا گیا۔یہ ان کے اس طرزِ عمل کا نتیجہ ہے جسے انھوں نے فقہی و گروہی اختلافات میں با لعموم اختیار کیے رکھا۔اس معا ملے میں وہ صحیح معنوں میں اپنے والد مو لانا مفتی محمد حسین نعیمی مر حوم کے جا نشین تھے جن کی وسعتِ قلبی، اختلاف کے باب میں ،ہمارے اسلا ف کی روایت کا تسلسل تھی۔مفتی سرفراز نعیمی صاحب علما کی ہر اس مجلس کا حصہ رہے جوکسی قومی یا ملی مسئلے پر غیر فرقہ دارانہ بنیاد پر وجود میں آئی۔ان کی طبعی سادگی اور اخلاص کا بھی انھیں ہر دل عزیز بنا نے میں ایک کر دار تھا۔ان کی شہادت نے اس قومی المیے کو ایک بار پھر پو ری شدت کے ساتھ واضح کیا ہے کہ دینی مسائل میں فہم کے اختلاف کے معا ملے میں تشدد ہمارے ہاں اس سطح تک سرایت کر چکا ہے کہ بعض گروہوں نے قتل جیسے جرم کو بھی اس باب میں روا رکھا ہے جس کی سزا قرآن مجید نے دائمی جہنم بیان کی ہے۔ بلا شبہ دین میں تحریف کی اس سے بد ترین صورت ممکن نہیں۔نصوص کے فہم اور ان سے استنباطِ احکام کے معاملے میں اختلاف ہماری تا ریخ کے صدرِ اول سے جا ری ہے اور اہلِ علم نے اسے کبھی ممنوع نہیں کہا۔یہ اختلاف کس نو عیت کا رہا ہے ،اس کا اندازہ حضرت ربیعہ بن عبدالر حمٰن مدنی کے ایک قول سے کیا جا سکتا ہے۔یہ مدینہ کے ایک جید عالم اور امام مالک کے شیوخ میں سے تھے۔انھیں عباسی خلیفہ عباس نے عراق میں اپنا مشیر بنا یا۔انھوں نے کچھ دن عراق میں گزارے اور وا پس مد ینہ آگئے۔اہلِ مدینہ نے ان سے پو چھا کہ ا نھوں نے اہلِ عراق کو کیسا پا یا تو ان کا کہنا تھا:” جو ہمارے ہاں حلال ہے وہ ان کے نزدیک حرام ہے اور جسے ہم حرام کہتے ہیں وہ اسے حلال سمجھتے ہیں”۔ان سے یہ قول بھی منسوب ہے:”معلوم ہو تا ہے ہمارے ہاں اور ان کے ہاں اور نبی مبعوث ہو ئے ہیں”۔(ڈاکٹر طہٰ جابر العلوانی،ادب الاختلاف فی الاسلام)۔اس سے اہل مدینہ اور اہلِ عراق کے ما بین فہمِ دین کے اختلاف کی شدت کو سمجھا جا سکتاہے۔ اس کے باوجوددامت دونوں گروہوں کا احترام کر تی اور ان کی عظمت کی معترف ہے۔ہماری بد قسمتی یہ رہی کہ ہم اسلاف کی فقہی آراء کے مقلد تو بنے، لیکن اختلاف کے باب میں ان کے رویے کی تقلید نہ کر سکے۔ڈاکٹر سر فرا زنعیمی جیسے لو گوں کے ساتھ یہ سلو ک ہمیں متوجہ کر رہا کہ ہمارے اہلِ علم کو صرف اس مقصد کے لیے ایک اتحاد بنا نا چا ہیے کہ وہ ہر اس گروہ سے قطع تعلق کریں گے جو اس نو عیت کے اختلافات میں تشدد کا قائل ہے اور اسے معا شرتی سطح پر کبھی گوارا نہیں کریں گے۔ہم اپنا نقطہء نظر لوگوں کے سامنے رکھ دیں گے۔اب یہ ان کا کام ہے کہ وہ کس راے کو قبول کر تے ہیں۔اُمّت کے اجتماعی ضمیر نے آراء کے رد و قبول میں پہلے کو ئی غلطی کی ہے نہ آیندہ کرے گی۔حکومت کے لیے شاید یہ ممکن نہ ہو کہ وہ ہر عالمِ دین کو حفاظتی حصار فراہم کر سکے۔یہ اہتمام علما کو خود ہی کر نا ہوگا۔
یہ حادثہ ہمیں اس جانب بھی متوجہ کر رہا ہے کہ جب ہم نے (اسلاف کی راے کے بر خلاف) دورِ حاضر میں نجی جہاد کو جائز قرار دے دیا تو اس کے بعد ایسے گروہوں کا پیدا ہو نا نا گزیر ہے جو فہمِ دین کے اختلاف کو جہاد قرار دیں اور پھر” دشمنوں” کو تہ تیغ کر نا شروع کردیں۔اب ان کا دشمن وہی ہو گا جو ان سے اختلاف کر رہا ہے۔ جب ہم نے ان کا حقِِ جہاد قبول کر لیا تو ہدف کے تعین کے باب میں ان کے حق کی نفی کیسے کر سکتے ہیں ؟ہمارے نزدیک یہ مسئلہ اس وقت علما کی توجہ کا سب سے زیا دہ مستحق ہے۔اس کو نظر انداز کر نے کا مطلب ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی جیسے افراد کے قتل کو روا رکھنا ہے۔ہم دعا گو ہیں کہ اﷲ تعالیٰ مفتی صاحب کو اپنی مغفرت سے نوازے اور مسلمان معا شروں کو فساد سے محفوظ رکھے۔

http://www.javedahmadghamidi.com/ishraq/view/Dr-Sarfraz-Naeemi-Ki-Shahdat

………..

برس گزر گئے لیکن ڈاکٹر سرفراز نعیمی پر خودکش حملے کے ملزم پکڑے نہ جاسکے
شہباز انور خان اتوار 27 اپريل 2014

12جون 2009 کونماز جمعہ کے بعد جامعہ نعیمیہ میں بمبار نے مہتمم کے کمرے میں گھس کرخود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا فوٹو: فائل
لاہور: قریباً5 سال ہونے کو آئے ملک کے ایک درویش منش انسان، ہرطبقہ فکر میں مقبول اور اعتدال پسند عالم دین ڈاکٹرسرفراز احمد نعیمی اپنے ہی مدرسہ جامعہ نعیمیہ میں دہشت گردی کانشانہ بنا دیے گئے لیکن وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور پولیس حکام کے اعلانات اور یقین دہانیوں کے باوجود آج تک نہ تو ملزموں کا کوئی نشان ملا اور نہ ہی اس جانب کوئی پیش رفت دکھائی دیتی ہے۔
12جون 2009 کو نماز جمعہ کے بعد2 بجکر43 منٹ پر ایک خود کش حملہ آور ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے دفتر میں بیرونی دروازے سے داخل ہوا اور اس نے سلام کیلیے ہاتھ بڑھاتے ہی اپنے آپ کوخود کش دھماکے سے اڑا لیا، کمرے میں اس وقت7 سے8افراد موجود تھے، ڈاکٹر سرفراز نعیمی سمیت5 افراد زخموں کی تاب نہ لاکردم توڑ گئے جبکہ باقی شدید زخمی ہوگئے۔ دھماکے کے بعد خود کش حملہ آور کے سرسمیت جسم کے دیگر اعضا اکھٹے کیے گئے، پولیس نے جامعہ نعیمیہ کے قریب سے 2 مشکوک افراد کو گرفتار بھی کیا، پولیس ذرائع کے مطابق خود کش حملہ آور جنوبی پنجاب کا رہائشی لگتا تھا۔
اس وقت کے سی سی پی او لاہور محمد پرویز راٹھورکا کہنا تھا کہ جامعہ نعیمیہ میں خود کش حملہ آور نے دیگر نمازیوں کیساتھ نماز جمعہ بھی ادا کی تھی، خود کش حملہ آور کا سر اور جسم کے بعض حصے بھی قبضہ میں لے لیے گئے جوقابل شناخت ہیں اور حملہ آور کی جلد شناخت ہوجائے گی، پھر آئی جی پولیس طارق سلیم ڈوگرکا بھی کہنا تھا کہ حملہ آور کے بارے میں بعض شواہد ملے ہیں اس کی شناخت بھی جلد کرلی جائے گی۔ حکومت پنجاب نے جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہولاہور میں ہونے والے خود کش بم دھماکے کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل سی آئی ڈی پولیس پنجاب کی سربراہی میں ایک 3 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی جس کے ارکان میں ڈی آئی جی آپریشنز لاہور اور ڈی آئی جی انویسٹیگیشن لاہور بھی شامل تھے۔
آج اس سانحے کو5 سال کا عرصہ ہوگیا لیکن نہ تو ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے قاتلوں کا کوئی سراغ ملا اور نہ ہی تشکیل دی گئی کمیٹی کی کوئی رپورٹ عوام کے سامنے آسکی۔ سی سی پی او اور آئی جی پنجاب کے ملزموں کو پکڑنے کے تمام دعوے اور یقین دہانیاں ہوا ہوگئیں۔ اس حوالے سے جامعہ کے موجودہ مہتمم اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے صاحبزادے ڈاکٹر راغب نعیمی کا کہنا ہے کہ انھیں ابھی تک اس سانحے کی تحقیقات کے حوالے سے سرکاری طورپر ہونے والی کسی پیش رفت کا علم ہے نہ ہی اس حوالے سے کسی ادارے یا ایجنسی نے ان سے رابطہ کیا

http://www.express.pk/story/249297/

….

شہید سرفراز نعیمی کی سرفرازی

in Tahaffuz, August 2009, شخصیات, علی مسعود سید

ڈاکٹر علامہ سرفراز احمد نعیمی شہید نے خودکش حملے کو حرام قرار دیا تھا۔ پاکستان میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کے لئے آپ کے فتوے کی بہت اہمیت تھی۔ قاتل اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو ختم کرکے ان کا نظریہ ختم کردیا ہے تو وہ جان لیں کہ اس فتوے کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ اب اس پر ڈاکٹر صاحب کے خون کی مہر بھی ثبت ہوچکی۔ ظالموں نے ایک ایسے جلیل القدر درویش صفت جید عالم کو شہید کردیا جس کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ پردے کے پیچھے چھپا قاتل اب رسوا ہوکر رہے گا مگر افسوس کہ آلہ کار اندھا قاتل نہیں جانتا کہ وہ کیا کررہا ہے۔ راہ چلتے بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔ جید علماء کو شہید کرنا کہاں اسلام کی خیر خواہی ہے۔ مسجدوں کو شہید کرنا اور پھر اس میں موجود قرآن پاک کی بے حرمتی ہونا کس مسلمان کو گوارا ہے؟ ان سوالوں کا جواب بہت واضح ہے کہ قاتل سوچ چاہتی ہے کہ مسجدیں ویران ہوجائیں اور پاکستان کو کئی حصوں میں کاٹ دیا جائے۔ یہی وہ سوچ ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں پر حملہ آور ہے جو کبھی بھی ایک مضبوط اسلامی ریاست کو برداشت نہیں کرسکتے۔ اپنی جنگ دوسروں کے گھر چھیڑ کر تباہی کا تماشا دیکھنے والا یہ دشمن درحقیقت تیسرا مقصد حاصل کرنے کے ایجنڈے پر کام کرنے کا ماہر ہے۔ دوسری قاتل سوچ وہی سوچ ہے جس نے پاکستان کے وجود کوپہلے دن سے ہی تسلیم نہیں کیا۔ ۔ ہم کیسے بھول سکتے ہیں ایسے دشمن کو۔ دشمن کے آلہ کاروں کو کہاں سے کمک ملتی ہے‘ پیسہ‘ اسلحہ اور وافر مقدار میں بارود کہاں سے آتا ہے جب تک اس کی ترسیل ختم نہیں کی جائے گی ہم اس جنگ کو سمیٹ نہیں سکتے۔ جب تک ہم مین سپلائی لائن نہیں کاٹی جائے گی اور جب تک آلہ کاروں اور حقیقی دشمنوں کے رابطے کو ختم نہیں کیا جائے گا۔ یہ جنگ ختم نہیں ہوگی۔ قاتل ہاتھ کو مروڑ کر اسے ایسی اذیت میں مبتلا کرنا ہوگا کہ جس کی وجہ سے اس کی توجہ بٹ جائے۔ یہ پوری پاکستانی قوم کی آواز ہے۔  ہم تمہاری ناپاک ارادے خاک میں ملادیں گے۔ پاکستان کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ہم خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے اور خدا کی قسم ہمارے خون کے آخری قطرے تک تم پاکستان کے وجود کو ختم نہیں کرسکتے۔ شہیدوں کا خون ضرور رنگ لائے گا۔ وطن کے عظیم سپوت شہید مفتی سرفراز نعیمی رحمتہ اﷲ علیہ نے بلاشبہ وطن کی حفاظت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ شہادت مسلمانوں کے لئے بہت بڑی سرفرازی ہے۔ شہید سرفراز نعیمی کی سرفرازی پر پوری قوم انہیں سلام پیش کرتی ہے۔

http://tahaffuz.com/2795/#sthash.LnTqltAS.dpbs

……………

لاہور:جامعہ نعیمیہ میں خودکش دھماکہ، ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہید
جامعہ نعیمیہ لاہور میں خودکش حملے کے نتیجے میں ملک کے ممتاز عالم دین اور جامعہ نعیمیہ لاہور کے منتظم علامہ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی اور ان کے 3ساتھیوں سمیت 5 افراد جاں بحق ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق علامہ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں جامعہ
لاہور:جامعہ نعیمیہ میں خودکش دھماکہ، ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہید لاہور: جامعہ نعیمیہ لاہور میں خودکش حملے کے نتیجے میں ملک کے ممتاز عالم دین اور جامعہ نعیمیہ لاہور کے منتظم علامہ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی اور ان کے 3ساتھیوں سمیت 5 افراد جاں بحق ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق علامہ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں جامعہ نعیمیہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد معمول کے مطابق اپنے دفتر میں جامعہ کے طلبا اور لوگوں سے ملاقات کر رہے تھے کہ اسی اثناء میں خودکش حملہ آور اندر داخل ہوا اور ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی کے قریب پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ خودکش حملے میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی، ان کے معتمد ڈاکٹر خلیل، ان کے قریبی ساتھی عبدالرحمن، راشد اور ایک نامعلوم شخص جاں بحق ہوگیا جبکہ دفتر میں موجود دیگر افراد شدید زخمی ہو گئے، جنہیں فوری طور پر قریبی اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ دھماکے سے مسجد اور قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی کو کیرن اسپتال لے جایا جارہا تھا کہ وہ راستے میں ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ دھماکے کے وقت نمازیوں کی اکثریت نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مسجد سے جا چکی تھی۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت کی خبر ملتے ہی جامعہ کے طلباء، اساتذہ اور مولانا کے عقیدت مند، رفقاء، عزیز وا قارب اور رشتہ دار فوری طور پر مسجد پہنچ گئے اور انہوں نے ناقص سیکورٹی انتظامات پر احتجاج کیا۔ اس موقع پر بعض طلبا مشتعل ہوگئے اور ہنگامہ آرائی شروع کردی۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت پر عقیدت مند، طلباء اور یگر افراد دھاڑیں مار مار کر روتے رہے اور ہر آنکھ اشکبار تھی جبکہ شہر بھر میں سوگ کا سماں رہا۔ مظاہرین نے سیکورٹی کے ناقص انتظامات پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ مظاہرین نے اس موقع پر اسلام کے نام پر معصوم، بے گناہ اور نیک انسانوں کا نا حق قتل کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف بھی شدید نعرے بازی کی۔ مشتعل طلباء نے پولیس اہلکاروں اور میڈیا کے نمائندوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، پولیس ، رینجرز اور دیگر سیکورٹی اداروں کے اہلکار سوگواران کے احتجاج پر مدرسے سے باہر آگئے۔ تاہم ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے صاحبزادے راغب نعیمی،جامعہ نعیمیہ کے ذمہ داروں اور پولیس کے اعلیٰ حکام نے طلبا کو صبروتحمل کی تلقین اور پرامن رہنے کی اپیل کی۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے صاحبزادے نے اپنے بیان میں کہا کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے ملک کی حفاظت کیلئے اپنی جان کا نذرانہ دیا ہے، اس کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا، والد کی شہادت ملک کو محفوظ بنانے کیلئے ایک قربانی ہے جو کسی بھی صورت رائیگاں نہیں جائے گی۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی کی نماز جنازہ (آج) ہفتہ کو صبح 10بجے جامعہ نعیمیہ میں ادا کی جائے گی۔ جنازہ میں اہم سیاسی
” ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت پر ملک بھر میں سوگ، مظاہرے، آج ہڑتال اور مدارس بند رکھنے کا اعلان “
اور دینی شخصیات سمیت تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ شرکت کریں گے۔ اس موقع پر پولیس اور رینجرز کی جانب سے فول پروف سیکورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ حکومت پنجاب نے جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور میں جمعہ کے روز ہونیوالے خودکش بم دھماکے کی تحقیقات کیلئے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل سی آئی ڈی پولیس پنجاب کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، جس کے ارکان میں ڈی آئی جی آپریشنز لاہور اور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور شامل ہیں جو فوری طور پر مذکورہ افسوسناک واقعہ کی تحقیقات کرکے اس کی رپورٹ متعلقہ حکام کو پیش کریگی۔ یادر ہے کہ علامہ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی کا شمار ملک کے ممتاز علمائے کرام میں ہوتا تھا، وہ رویتِ ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین اور جامعہ نعیمیہ کے بانی مفتی محمد حسین نعیمی کے صاحب زادے تھے۔
ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت پر ملک بھر میں سوگ، مظاہرے، آج ہڑتال اور مدارس بند رکھنے کا اعلان
کراچی :لاہور میں جامعہ نعیمیہ میں خودکش حملہ اور علامہ مفتی سرفراز احمد نعیمی سمیت دیگر افراد کی شہادت کے واقعہ کے خلاف ملک بھر میں سوگ کا سماں تھا اور کراچی سمیت سندھ بھر میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور ملک بھر میں جلوس نکالے گئے ، جبکہ علماء اہلسنت، سنی رہبر کونسل اور سنی تحریک نے آج مدارس بند رکھنے اور ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے ،تفصیلات کے مطابق تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے صدر مفتی منیب الرحمن، سرپرست علامہ سید حسین الدین شاہ، ناظم امتحانات مولانا غلام محمد سیالوی، قائم مقام ناظم اعلیٰ صاحبزادہ عبدالمصطفیٰ ہزاروی، علامہ جمیل احمد نعیمی، مفتی محمد اطہر نعیمی، مفتی محمد رفیق حسنی، مولانا غلام دستگیر افغانی، مفتی محمد جان نعیمی، مفتی محمد الیاس رضوی، صاحبزادہ ریحان امجد نعمانی اور دیگر علماء اہلسنت نے ایک مشترکہ بیان میں ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی رحمتہ اللہ علیہ کی شہادت پر غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی شہادت اہلسنت و الجماعت کیلئے ایک عظیم سانحہ ہے اور ان کی شہادت سے ناقابل تلافی خلا پیدا ہو گیا ہے، جو مدتوں پر نہیں ہو سکے گا۔ وہ شہید اسلام، شہید تحفظ ناموس رسالت اور شہید پاکستان ہیں۔انہوں نے ڈاکٹر نعیمی کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک نڈر بیباک اور عظیم عالم دین تھے انہوں نے استحاکم پاکستان کیلئے بےمثال جدوجہد کی، تحفظ ناموس رسالت کیلئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔انہوں نے جرات اور استقامت اور قوت ایمانی کے ساتھ اپنے مشن کو جاری رکھا اور انتہائی مستعد ،متحرک اور فعال شخصیت کے مالک تھے، وہ اہلسنت و لجماعت کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ لاہور کے مہتمم و ناظم اعلی، اہلسنت و لجماعت کے چھ ہزار مدارس کی تنظیم ،تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کے ناظم اعلیٰ اور مختلف مسالک کے مدارس کی تنظیمات کی فیڈریشن ،اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ تھے، علماء
” ڈاکٹر نعیمی کی شہادت: کراچی میں شدید افواہوں سے خوف و ہراس، بازار جلدی بند ہوگئے “
نے ان کی دینی و ملی خدمات کو شاندار خراج تحسین پیش کیا ہے، وہ اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کی نگاہ میں کانٹے کی طرح کھٹکتے تھے اور بالآخر ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے جمعةالمبارک کے دن وہ شہادت کے منصب پر فائز ہو ئے ۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کے مشن کو جاری رکھا جائے گا۔ دشمنان دین و ملت نے ان کی ایک زندگی کا چراغ گل کیا ہے اس سے اور کئی پرعزم چراغ جلیں گے۔ علماء نے ملت اسلامیہ پاکستان سے آج بروز ہفتہ پرامن ہڑتال اور یوم سوگ کی اپیل کی ہے۔ تمام مدارس میں تدریس معطل رہے گی اور ان کے ایصال ثواب کی مجالس منعقد ہوں گی۔ انہوں نے تمام دینی قوتوں اور دردمند پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ اس سانحہ پر پرزور احتجاج کریں اور اہلسنت و لجماعت سے اپیل کی ہے کہ پرامن رہیں، ثابت قدم رہیں، حوصلہ مند رہیں اور ڈاکٹر صاحب کے مشن کو زندہ و تابندہ اور جاری و ساری رکھنے کیلئے پرامن جدوجہد کریں۔ علماء اہلسنت، سنی رہبر کونسل نے معروف عالم دین مولانا سرفراز احمد نعیمی اور ان کے رفقاء کے قتل کیخلاف ہفتہ کو پرامن ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ اس بات کا فیصلہ جمعہ کو دارالعلوم امجدیہ میں مقتدر اہلسنت علماء کے ہنگامی اجلاس کے دوران کیا گیا۔ اجلاس میں علامہ جمیل نعیمی، مفتی محمد جان نعیمی، صاحبزادہ ریحان امجدی، علامہ شاہ تراب الحق، علامہ اکرام مصطفی عظمی، شاہد غوری، حاجی حنیف طیب، صدیق راٹھور، مفتی حلیم ہزاروی، طارق محبوب اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تنظیم المدارس کے تحت آنے والے دینی مدارس میں تین روزہ سوگ کے طور پر تدریسی عمل معطل رہے گا۔ سربراہ سنی تحریک ثروت اعجاز قادری نے لاہور میں ممتاز عالم دین مفتی سرفراز نعیمی کی المناک شہادت کے خلاف آج ہفتہ (13/جون) ملک بھر میں عام ہڑتال اور تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ سربراہ سنی تحریک نے لاہور بم دھماکے کو ملک کے اعتدال پسند عوام اہلسنت کے خلاف گھناؤنی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں شیطانائزیشن کی یلغار کو روکنے کیلئے مفتی سرفراز نعیمی نے مرکزی کردار ادا کیا۔

” طالبان نے ڈاکٹر نعیمی کی شہادت اور پشاور دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی “
حملہ آور نے ریکی کی، ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو رکشے پر اسپتال لے جایا گیا، سیکورٹی کے ناقص انتظامات
لاہور: جامعہ نعیمیہ میں خودکش حملہ آور نے دھماکے سے قبل ریکی بھی کی تھی، جب زخمیوں کو میو اسپتال، سر گنگا رام اسپتال اور سروسز اسپتال منتقل کیا گیا تو جمعہ کو ہاف ڈے اور نماز جمعہ کے باعث سینئر ڈاکٹر اسپتالوں میں موجود نہ تھے۔ جامعہ نعیمیہ میں سیکورٹی کے فرائض سرانجام دینے والے تین پولیس اہلکار سگریٹ پیتے رہے اور خودکش حملہ آور اندر داخل ہو گیا۔ واقعے کے عینی شاہد نے بتایا کہ وہ دفتر کے بالکل سامنے برآمدے میں بیٹھا دیکھ رہا تھا کہ پولیس اہلکار اپنی گپوں میں مصروف اور سگریٹ پی رہے ہیں کہ اسی دوران سفید شلوار قمیض میں ملبوس خودکش حملہ آور اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا جس کے بعد شدید دھماکا ہوا۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی جو حملہ میں شدید زخمی ہو گئے تھے، کو اسپتال لے جانے کیلئے ایمبولینس میسر نہ آ سکی جس کے باعث انہیں رکشا میں ریلوے کیرن اسپتال پہنچایا گیا۔

طالبان نے ڈاکٹر نعیمی کی شہادت اور پشاور دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی
اسلام آباد:کالعدم تحریک طالبان نے پشاور اور لاہور کے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لی،تنظیم کے ترجمان مولوی عمر نے نامعلوم مقام سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ ہم نے پشاور کے ہوٹل پر حملہ کیا کیونکہ وہاں غیر ملکیوں کا آنا جانا تھا اور وہ طالبان اور اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے تھے،انہوں نے کہا کہ ہم سرفراز نعیمی پر ہونیوالے خودکش حملے کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ امریکوں کو خوش کرنے کیلئے جو کوئی بھی ہمارے خلاف اقدامات کرے گا اس کا یہی انجام ہو گا،امریکا کے حامی ہمارے دشمن ہیں انہوں مزید کہاکہ ہمارا مقصد ملک میں اسلامی قانون کا نفاذ ہے

http://www.islamtimes.org/vdcd.x092yt099346y.html

……………

سرفراز احمد نعیمی شہید

مفتی ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی شہید، (16 فروری 1948ء – 12 جون 2009ء) پاکستان میں ایک اہم اعتدال پسند سنی اسلامی عالم جو دہشت گردی اور تحریک طالبان کے مخالف تھے۔ انہیں 12 جون 2009ء کو جامعہ نعیمیہ لاہور، پاکستان میں ایک خود کش بم حملے میں ہلاک کر دیا گیا.

سرفراز احمد نعیمی، مفتی محمد حسین نعیمی کے بیٹے، 16 فروری 1948ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباؤ اجداد نے بھارت مراد آباد سے پاکستان ہجرت کی تھی. وہ نے لاہور، پاکستان میں جامعہ نعیمیہ لاہور میں سینئر عالم تھے. انہوں نے 1998ء میں ان کے والد کی موت کے بعد جامعہ نعیمیہ کے پرنسپل بن گئے. جو گڑھی شاہو کے پڑوس میں واقع ہے. جامعہ نعیمیہ سے ان کی ابتدائی تعلیم ہوا اور پنجاب یونیورسٹی کے بعد مزید تعلیم کے لیے الازہر یونیورسٹی، مصر میں سے ایک مختصر کورس کے علاوہ پی ایچ ڈی کی۔ وہ اردو، عربی اور فارسی زبانوں میں اچھی طرح عبور رکھتے تھے اور مذہبی امور پر اخبارات میں کالم بھی لکھے۔ وہ ماہانہ عرفات، لاہور کے مدیر رہے۔ ان کی موت کے بعد ان کے بیٹے راغب حسین نعیمی، جامعہ نعیمیہ لاہور کے پرنسپل بنے۔

http://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B1%D9%81%D8%B1%D8%A7%D8%B2_%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D9%86%D8%B9%DB%8C%D9%85%DB%8C_%D8%B4%DB%81%DB%8C%D8%AF

….

شہید پاکستان ڈاكٹر سرفراز نعیمی
بدھ, 29 اکتوبر 2014 07:10 تحریر محمد عبدالرحمن جلالپوری
تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی

پاکستان کے غیر متوازن مختصر تاریخ میں ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ جبر و استبداد کی اس بھیانک تاریخ میں اس دھرتی کے کچهو ہ عظیم سپوت شہید کیے گئے جن کی یادیں اور باتیں سدا بہار پھولوں کی طرح ہر سو خوشبو پھیلاتی شام جان کو معطرکیے ہوئے ہیں۔ ان چند عظیم ہستیوں میں میرے محسن و رہبر ،شہید پاکستان ، شہباز اہلسنت ، داعی اتحاد امت علامہ ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی نوراللہ مرقدہ ہیں۔اس مظلوم شہید کے خون ناحق کی وجہ سے اہل پاکستان ایسی پریشان کن کیفیت میں مبتلا ہوئے کہ آئے دن گلی محلے خون ناحق سے رنگین ہو رہے ہیں۔پاکستانیوں کو جنگل کے سوکھے درختوں کی طرح کاٹ کاٹ کر دہکتی آگ اور مہلک بارود کی نظر کیا جا رہا ہے ۔ جامعہ نعیمیہ لاہور کے چھوٹے سے دفتر میں سلگائی جانے والی آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔

اگر اس جانکاہ سانحہ کے اسباب و علل کا جائزہ لیا جاتا اور مجرموں کو پکڑ کر قرار واقعی سزا دی جاتی تو یقینا پاکستان آج ایسی کیفیت سے دوچار نہ ہوتا۔

ڈاکٹر صاحب ؒ کی شہادت پاکستانی تاریخ کا کوئی معمولی واقعہ نہ تھایہ پاکستانی تاریخ کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔مگر بد قسمتی سے صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے اس خون کے ساتھ انصاف نہ کیا۔اب ایک آگ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے جس میں کچھ جل چکے ہیں اور بہت سوں نے ابھی سمندربرد ہونا ہے۔آگ کا کام جلانا ہے یہ بلاتمیز خاص و عام اور بلاامتیاز حکام و عوام پر اپنا کام دکھاتی ہے۔البتہ ہر طبقہ کی باری کا وقت مقرر ہے۔ابھی عوام جل رہے ہیں تو کل حکام جلیں گے۔

شہید پاکستان کو ظلماً شہید کرنے کا سب سے بڑا مقصد وطن عزیز کو بدترین فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھانا تھا۔ اس شہادت کا مقصد ملک کے دو بڑے فرقوں کو ایک دوسرے کے دست و گریباں کر کے اساس دین و اساس ملک کو کمزور کرنا تھا۔اس گھناﺅنی سازش میں ملک دشمن اندرونی و بیرونی قوتیں ملوث تھیں ۔ وہ نان سٹیٹ ایکٹرز جو ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور جن کا مقصد دین متین کو بین الاقوامی برادری میں بدنام کرنا تھایہ سارا کھیل ان کا ہے۔یہ قوتیں فرقہ واریت کے حوالے سے اپنے مطلوبہ اہداف تک تو نہ پہنچ سکیںالبتہ انہوں نے اہل پاکستان کو ایک عظیم مذہبی راہنما ، ایک عظیم مصلح اور نامور عالم دین سے محروم کر دیا۔

آج پاکستان کومخدوش حالات میں ایسے داعی اتحاد امت کی اشد ضرورت ہے اور علامہ الشاہ احمد نورانی علیہ الرحمة کے بعد ڈاکٹر صاحب ایسی شخصیت تھے جو تمام مکاتب فکر کے لیے قابل قبول تھے اور تمام مکاتب فکر کے علماءان کی بات سنتے تھے۔وائے ناکامی!کہ ایسے معتدل مزاج شخص کو دشمنوں نے ہم سے چھین لیا۔ ملک کی مذہبی قیادت میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ایسی متحرک تھی کہ وہ ہمہ وقت اتحاد بین المسالک کی کوشش میں مصروف رہتے ۔ ان کی شبانہ روز جہد مسلسل کی وجہ سے ”تنظیم اتحاد مدارس عربیہ “کا قیام عمل میں آیا اور ڈاکٹر صاحب کو اس اتحاد کا ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیااس پلیٹ فارم سے تمام مکاتب فکر کے مدارس کی صحیح معنوں میں نمائندگی ہوئی اور حکومت کے سامنے مدارس کی طرف سے ایک مضبوط ، متحدہ اور متوازن مﺅقف پیش کیا گیا۔ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد اتحاد پرپثرمردگی چھا چکی ہے اور تحرک سامنے نہیں آرہا جو ڈاکٹر صاحب کے دم قدم سے تھا۔

ڈاکٹر صاحب کو تنظیم المدارس اہلسنت کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو آپ نے تنظیم کو نئی جہتوں سے متعارف کروایا ۔تنظیم المدارس کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے اور میڈیا میں تنظیم کو متعارف کرانے میں ڈاکٹر صاحب نے ہر فورم پر تنظیم کی بھرپور نمائندگی کی۔تنظیم المدارس کے بڑے بڑے نام جنہوں نے ذاتی تشہیر اور ذاتی پروجیکشن کیلئے تنظیم کو استعمال کر کے نام کمایا ۔ ڈاکٹر صاحب ؒ ہمیشہ ان آلائشوں سے دور رہے اور اپنے دامن کو ہمیشہ ان رذالتوں سے ابعد رکھا۔وہ خالصتاً دینی جذبے اور مسلک کی خدمت کے جذبے سے آگے بڑھتے رہے۔ڈاکٹر صاحب ؒجامعہ نعیمیہ اور تنظیم المدارس کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے بے شمار ذاتی مفادات اٹھا سکتے تھے۔ حکومت سے سیاسی فائدہ اٹھانا ان کیلئے کوئی مشکل نہ تھا۔ مشرف دور میں آپؒ نے پس زندان جانا پسند کر لیا مگر کسی قسم کی لالچ اور سیاسی مفاد کے مقابلے میں اپنے ضمیر کاسودا نہ فرمایا۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ اسیری کے دوران ڈاکٹر صاحبؒ کو وزارت اور دیگر پرکشش عہدوں کی آفر کی گئی اور اس کیلئے صرف اپنا مؤقف بدلنے کی قیمت تھی مگر ڈاکٹر صاحب ؒنے ان تمام پیش کشوں کی طرف نظر حقارت سے بھی نہ دیکھا۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن ثابت قدمی کے ساتھ۔ اسلام آباد تشریف آوری ہوئی تو راقم نے عرض کیا کہ اگر جناب سیاست میں آجائیں اور شریف برداران سے جو آپ کا تعلق ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایم این اے یا سینیٹر بننا تو کوئی مشکل کام نہیں ہے!دنیاوی آسائشوں سے کوسوں دور اس مست الست فقیر نے جواباً فرمایا”ہم سب بھائیوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ شریف برادران سے جو ہمارے تعلقات ہیں ان سے کوئی ذاتی منفعت نہیں اٹھائیں گے“ا

شہید پاکستان کا یہ اعزاز تھا کہ انہوں نے اپنے ضمیر کا سودا کبھی نہ فرمایا وگرنہ مذہب کو بیچنے والے اس وقت بھی موجود تھے آج بھی یہ سوداگر دین کی جنس کا بازار سیاست میں سودا کر رہے ہیں۔ لوگوں نے ڈاکٹر صاحب ؒ کو بھی بدنام کرنے کی کوشش بہت کی مگر لِلّٰہ الحمد وہ ہمیشہ ناکام رہے۔ اس فقیر روشن ضمیر کا عزم ہمالیہ سے بلند اور کردار بدر کامل کی خوشگوار چاندنی سے کہیں روشن تھا۔

سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل کے ساتھ ایک ملاقات میں راقم بھی موجود تھا چند اہم ترین لوگوں کی مجلس جنرل صاحب کے گھر بپا تھی ۔ جب شہید پاکستان ؒ اندر آئے تو جنرل صاحب نے کچھ ان الفاظ میں ڈاکٹر صاحب کا دوستوں سے تعارف کرایا”یہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی ہیں اور سواد اعظم اہلسنت کے حقیقی قائد ہیں “سوادا عظم اہلسنت کے اس حقیقی قائد نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اہلسنت کو ملک کے طول و عرض میں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ بغیر کسی سیکورٹی کے تنے تنہا ہر جگہ پہنچنا ، تمام رکاوٹوں کا عبور کرنا ۔ تمام مشکلات کا صبر سے مقابلہ کرنا اسی روشن ضمیر ہستی کا طررئہ تھا۔ اپنی شھادت سے تقریباً دو ہفتے قبل وفاقی وزیر مذہبی امور سے ملاقات طے تھی۔ اکیلے ملاقات کی۔ فراغت کے بعد مجھے فون کیا کہ میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں ۔ میں نے عرض کی”آپ وہیں تشریف فرما ہوں میں حاضر خدمت ہوتا ہوں “مجھے علم تھا کہ آپ ؒ کے پاس گاڑی نہیں ہوتی اور راقم کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ جب بھی آپ ؒ اسلام آباد تشریف لاتے شرف میزبانی سے مجھے مشرف فرماتے۔ مذہبی امور کے دفتر کے سامنے اکیلے تشریف فرما ہیں اور سانحہ لال مسجد کے بعد اسلام آباد کے حالات کتنے دگرگوں تھے یہ اسلام آباد کے باسی ہی جانتے ہیں ۔ عرض کیا ”حالا ت بڑے خراب ہیں میری گزارش ہے کہ جب آپ ؒاسلام آبادتشریف لائیں یا کہیں باہر تشریف لے جائیں تو حکومت سے سیکورٹی لے لیا کریں اہل پاکستان کو آپکی بہت ضرورت ہے“ایک دلنشیں مسکراہٹ کے ساتھ ارشاد ہوا”ہم اہل سنت ایک نعرہ لگاتے ہیں کہ غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے، کیاہم یہ نعرہ لگانے میں سچے ہیں یا جھوٹے؟“عرض کیا یہ نعرہ تو ہم اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں” فرمایا “جب یہ بات ہے تو ہم موت کو روکنے کیلئے سیکورٹی کا کسی سے کیوں مطالبہ کریں ۔ ہمیں رسول کی غلامی میں موت قبول ہے” اس مسکت جواب پر مجھے مزید دلائل دینے کا یارانہ رہااور میں خاموش ہو گیا کہ یہ شخص کسی اور دنیا کا ہے جس دنیا میں موت کو وصال محبوب کا ایک خوشگوار ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ میرے سینے میں حضور شہید پاکستان ڈاکٹر سرفراز نعیمی ؒ کی بے شمار یادیں ہیں وہ میرے عظیم استاد اور کروڑوں اہل وطن کی دلوں کی دھڑکن تھے۔ خدایا ! بے حدو حساب رحمتیں نچھاور فرما اس مزار پر جہاںمفتی اعظم ؒپاکستان اورشہید ؒپاکستان آسودئہ خاک ہیں۔(آمین)

http://naeemiaisb.com

…………….

نشانِ رَاہ “زندہ و جاوید تحریروں کا مجموعہ۔از۔احمد ترازی
04.07.2010,

‎‫شہید پاکستان ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کو ہم سے بچھڑے ایک سال کا عرصہ گزرگیا ہے،16فروری 1948ءکو سہارن پور میں پیدا ہونے والے ڈاکٹرسرفراز نعیمی” جامعہ نعیمیہ“ گڑھی شاہو لاہورکے بانی مفتی محمد حسین نعیمی( جنہوں نے 1950 جامع نعیمیہ کی بنیاد رکھی) کے صاحبزادے تھے،آپ نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی،ڈاکٹر صاحب نےایم،اے،ایل ایل بی اور پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی،ڈاکٹر سرفراز نعیمی رویت ہلال کمیٹی کے اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے جامعہ نعیمیہ کو کمیپوٹر جیسی جدید تعلیم سے آراستہ کیا،وہ ایک متحرک مذہبی رہنما تھے،انہوں تحریک تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم اورتحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھرپور حصہ لیا اور کئی بار جیل گئے ،ڈاکٹر سرفراز نعیمی ہمیشہ دین کی خدمت کو ترجیج دیتے تھے،انہوں نے حکومت کی طرف سے کبھی کوئی عہدہ قبول نہیں کیا۔‬

‎‫ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے10جون 2009ءکو ایوان اقبال لاہور میںپاکستان بچاؤ کنونشن سے اپنے آخری خطاب میں فرمایا تھا کہ” علماءنے پاکستان بنایا تھا اور اب مل کر اسے بچائیں گے اورضمن میں وہ کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔“آپ کی شہادت آپ کے ارشاد کی آئینہ دار ہے،12 جون 2009ءکو جمعہ کے روزجامعہ نعیمیہ میں ایک خودکش حملے میں شہید ہونے والے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کا شمار ملک کے اعتدال پسند سوچ رکھنے والے مذہبی رہنماؤں میں ہوتا تھا،ڈاکٹر سرفراز نعیمی بے باک اور نڈر شخصیت کے مالک تھے،انہوں نے خودکش حملوں کے حرام ہونے کا نہ صرف فتویٰ دیا بلکہ وہ پاکستان میں انتہا پسندی کے بھی سخت مخالف تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ پاکستان کو انتہا پسندی سے بچانا پوری قوم کا اولین فریضہ ہے،جسے ادا کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے،انہوں نے سوات اور مالا کنڈ کے فوجی آپریشن کی کھل کر حمایت کی اور ملک میں جاری شدت پسندی کی لہر کے خلاف متحرک رہے ۔‬

‎‫ڈاکٹر سرفراز نعیمی بے لوث اور انتہائی سادہ شخصیت کے مالک تھے،آپ ایک سچے عاشق رسول تھے اور آپ نے اپنی ساری زندگی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گزاردی،ڈاکٹر سرفراز نعیمی وہ بزرگ شخصیت تھے جن کے رگ و پے میں وطن عزیز کی محبت اورقوم کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا،حق گوئی و بے باکی آپ کا طرہ امتیازاور ہردور میں باطل کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے رہنا آپ کا خاصہ تھا،درحقیقت ایمان ،حق گوئی اور عقیدہ کامل پر ڈٹ کر رہنے اور ”بلغو اعنی ولوایة“ پر عمل پیرا ہونے والے مجاہد شہید پاکستان ڈاکٹر سرفراز نعیمی ایک ایسے زندہ و جاوید کردار کا نام ہے جس کی زندگی نمود و نمائش،تصنع و بناوٹ اور دنیاداری سے پاک تھی،ایک بڑے دارالعلوم کے ناظم اعلیٰ،مفتی اور صدر مدرس کے باوجود عاجزی و انکساری اورسادہ لوحی آپ کی شخصیت کے نمایاں وصف تھے،ڈاکٹر سرفراز نعیمی ریڈیو،ٹی وی کے مقرر اور سرکاری و دینی حلقوں میں نمایاں پہچان رکھنے کے باوجودنہ عالموں جیسا رعب و دبدبہ رکھتے تھے اور نہ ہی دانشوروں جیسی تکلف و نزاکت،معاملہ فہمی،دور اندیشی اور تمام مذاہب و مسالک کے ساتھ رواداری آپ کی پہچان اور وجہ شناخت تھی،بلاشبہ آپ ایک ایسے مذہبی سکالر تھے،جن کو قرآن اور حدیث پر مکمل عبور حاصل تھا،آپ اتحاد بین المسلمین کے داعی اور فرقہ واریت کے سخت مخالف تھے،یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ڈاکٹر صاحب دین کی سربلندی اور وطن عزیزکے استحکام کے لئے جہاد کرتے ہوئے شہادت کی عظمیٰ کی نعمت سے سرفراز ہوئے ۔‬

‎‫اَمر واقعہ یہ ہے کہ مفتی محمد حسین نعیمی کے لائق اور قابل فخر فرزند کی زندگی کا اک اک لمحہ اسلام اور پاکستان کیلئے وقف تھا،جرات و استقامت کے پیکر ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید نے درس و تدریس کے ساتھ لکھنے پڑھنے پر بھی توجہ دی،آپ نے باقاعدگی سے 1996ءسے 1998کے دوران ”نشان راہ“ کے عنوان سے روزنامہ جنگ میں کالم لکھے،آپ کی انہی بکھری ہوئی تحریروں کو جمع کرکے ”نشان راہ “کے عنوان سے آپ کی زندگی میں شائع کیا گیا،زیر نظر کتاب ”نشان راہ دوم“ آپ کے انہی کالموں کا مجموعہ ہے جوکہ آپ کی شہادت کے بعد شائع ہوئی ہے،ڈاکٹر صاحب نے اپنے اِن مضامین میں قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اصلاح کار کا آغاز سب سے پہلے اپنی ذات سے کرنا چاہیے،آپ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم معاشرے میں اپنے اپنے کردار کی اصلاح کرنا شروع کردیں اور اپنے افعال و اعمال کو بہتر بنالیں تو معاشرے کے بہت سے مسائل از خود حل ہوسکتے ہیں۔‬

‎‫اس حوالے آپ اپنے ایک مضمون”قربانی مانگنے والے“ میں لکھتے ہیں کہ” ہمارے معاشرے میں عجیب طرح کی روایت قائم ہوتی چلی جارہی ہے،ہرایک بغیر امتیاز ، تفریق اور تحریر کے دوسروں سے قربانی دینے کی درخواست کرتا نظر آتا ہے،بڑے خلوص سے، درد دل سے،شعور کی اتھاہ گہرائیوں سے،ملک کے نام پر ،وطن کے نام پر،قوم کے نام پر،بگڑی ہوئی معیشت کے نام پر،دشمن طاقتوں کے حوالے سے،عالمی تناظر میں قربانی دینے کی اپیلیں ہورہی ہیں،بھکاریوں کی مانند ہاتھ پھیلاپھیلاکر،سائلانہ،ملتجانہ اور عاجزانہ انداز میں قربانی دینے کیلئے آمادہ کیا جارہا ہے۔“آگے چل کر ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں”آقائے دو جہاں حضورختمی مرتبت،رحمت دو عالم ،نور مجسم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہمیں یہی سبق سکھارہی ہے کہ جہاد کے موقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بطون مبارک پر اگر پتھر بندھا ہوا تھا تو آقائے دو جہاں کے بطن مبارک پر اس سے کہیں زیادہ پتھر بندھے ہوئے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ یہی تعلیم دے رہی ہے کہ قربانی طلب کرنے سے پہلے قربانی پیش کی جائے،ماضی کی عظیم المرتبت ہستیوں کے عظیم کارناموں کو بھول جانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ قوم کے قائدین اگر آج قربانی طلب کرنے سے پہلے قربانی دینے کی سنت پر عمل پیرا ہوں تو قوم آج بھی اپنے قائدین کو دل و جان سے زیادہ چاہتی ہے۔‬“
ڈاکٹر صاحب کے یہ کالم روز مرہ کے دینی معاملات،معاشرتی اور سماجی رویوں کے عکاس اور مقصدیت ،لطافت اور جاذبیت سے لبریز ہیں،زیر نظر کتاب میں آپ کے 43کالموں کا جناب محمد ضیاءالحق نقشبندی صاحب نے انتخاب پیش کیا ہے اور اسے ادارہ” نعیم المصنفین“ جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور،فون نمبر92426293289 نے شائع کیا ہے،بقول پیرزادہ اقبال احمد فاروقی صاحب ”ضیاءالحق نقشبندی نے بکھرے ہوئے پتوں کو اکٹھا کرکے پھولوں کے گلدستے بناکر قارئین کی محفل مطالعہ کو سجادیا ہے،انہوں نے ذروں کو سمیٹ کر آفتاب بنادیا ہے،قطروں کو اکٹھا کرکے دریا بہادیئے ہیں۔“برادرم محمد ضیاءالحق نقشبندی کی یہ گرانقدر کاوش قابل مبارکباد اور لائق مطالعہ ہے۔‬

محمد احمد ترازی

http://www.aalmiakhbar.com/index.php?mod=article&cat=intakhabailanat&article=15895&page_order=1&act=print

…………..

سپاہ صحابہ، مسلم لیگ ن کا عسکری ونگ
February 26, 2013

سنی اتحاد کونسل پاکستان کے مرکزی راہنماؤں پیر محمد اطہر القادری، پیر سیّد محمد اقبال شاہ، طارق محبوب، مفتی محمد سعید رضوی، صاحبزادہ عمار سعید سلیمانی، مفتی محمد حسیب قادری، رانا محمد عرفان، مولانا محمد اکبر نقشبندی، حاجی رانا شرافت علی قادری اور پیر طارق ولی چشتی نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ پنجاب حکومت فرقہ پرست دہشت گردوں کی سرپرستی ختم کرے کیونکہ دہشت گرد اسلام کو بدنام اور پاکستان کو کمزور کر رہے ہیں، ایک کالعدم تنظیم ( سپاہ صحابہ) مسلم لیگ ن کے عسکری ونگ کے طور پر کام کر رہی ہے، مسلم لیگ ن نے فرقہ پرست دہشت گردوں کے ساتھ انتخابی اتحاد کر کے قوم کو مایوس کیا ہے۔

رہنماؤں نے کہا کہ تخت لاہور کے شہزادوں کو کالعدم تنظیم کی سرپرستی کرنے کا خمیازہ الیکشن میں بھگتنا پڑے گا، قوم دہشت گردوں کے حامیوں کو ووٹ نہیں دے گی، پنجاب حکومت دہشت گردوں کی جعلی گرفتاری کا ڈرامہ رچا رہی ہے اور یہ عمل نورا کشتی کے سوا کچھ نہیں۔
راہنماؤں نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن امن پسند طبقات کی حمایت سے محروم ہو چکی ہے، ہم ہر حلقے میں ’’یا رسول اللہ(ص)‘‘ کہنے والوں سے سانحۂ داتا دربار کے ملزمان گرفتار نہ کرنے والوں کو مسترد کرنے کا حلف لیں گے، ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے قاتلوں کی عدم گرفتاری پنجاب حکومت پر قرض ہے۔

https://www.facebook.com/note.php?note_id=10151476063433407

…………..

پیر, 11 جون 2012 05:15
اسلام کے نام پر بدمعاشی کرنے والے ٹولے کو بے نقاب کیا جائے

ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کی تیسری برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئےعلامہ راغب نعیمی نے کہا کہ عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر اہم دینی شخصیت ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کے اہم معاملے پر مٹی ڈال دی گئی ہے تو ہمار ے حکومتی ادارے عام لوگوں کے دکھوں کا کیا درمان کرتے ہونگے،انہوں نے پروگرام میں موجود پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا یہ معاملہ آپ کی حکومت کیلئے تین سال بعد بھی ایک چیلنج کے طور پر موجود ہے، مسئلہ صرف ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے قاتلوں کو پکڑنے کا نہیں، بلکہ اسلام کے نام پر بدمعاشی کرنے والے اس ٹولے اور انکے فکری سرپرستوں کو بے نقاب کرنیکا ہے۔ علامہ راغب نعیمی نے کہا اگر آج ہم نے دلیل کی بجائے بندوق کے زور پر اسلام کی تعبیر کا حق قبول کر لیا تو پھر شر کا راستہ روکنا ممکن نہ ہو سکے گا۔ امت کی سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ بندوق کے زور پر مرضی کا اسلام مسلط کرنے والے یہ گروہ خوارج کا تسلسل ہیں، ان کو پنپنے کا موقعہ دینا اسلام کے خوبصورت چہرے کو مسخ کرنے اور قوم کو تباہی سے دوچار کرنے کے مترادف ہے یاد رہے ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کو تین سال پہلے سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں نے قتل کیا تھا

http://urdu.irib.ir/

…………

مباحث، ستمبر ۲۰۰۹ء (۴)

مباحث – قومی اُمور

ممتاز دینی شخصیت کا قتل

۱۲ جون۲۰۰۹ء کو جامعہ نعیمیہ گڑھی شا ہو لا ہور میںخود کش حملےکےنتیجےمیںبریلوی مکتب فکر کےمعروف ا سکالر علامہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی اپنےچار ساتھیوںسمیت جاںبحق ہوگئے۔ علامہ سرفراز نعیمی تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کےناظم اعلی اور تنظیم ہائےمدارس کے۔’’ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ کےصدر تھے۔اپنی معتدل مزاجی کےباعث اتحاد بین المسلمین اور بین المذاہب ہم آہنگی کےحوالےسےدیگر مکاتب فکر کےہاںبھی خاصےمقبول تھے۔تاہم موجودہ ملکی صورتحال اور بطور خاص قبائلی علاقوںمیںجاری آپریشن کےنہ صرف حق میںتھےبلکہ رائےعامہ کو حکومتی آپر یشن کےحق میںہموار کرنےکےلئےبھر پور کردار کےحامل تھے۔ حکومت کی طر ف سےانکےلئے’’تمغہ شجاعت‘‘ کا اعلان کیا گیا۔ تمام مسالک کےبیشتر دینی جرائد نےانکی شہادت کےواقعہ کو اپنےصفحات میںبھرپور جگہ دی جس میںخود کش حملےکی سخت الفاظ میںمذمت کی گئی ہے۔جرائد نےدین اسلام اور اتحاد امت کےحوالےسےجناب سرفراز نعیمی کی خدمات کو سراہتےہوئےانکےقتل کو پاکستان کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنےکی بیرونی سازشوںکا تسلسل قراردیا ہے۔ تاہم دیوبند کےبارےمیںنسبتاً سخت موقف کےحامل بعض بریلوی جرائد کی طرف سےاس ضمن میںطالبان کی حمایت کا الزام عائد کرتےہوئےدیوبند مکتب پر بھی تنقید کی گئی ہے۔جرائد کی آراء حسب ذیل ہیں۔

مشترک نکات:
l علامہ سرفراز نعیمی ایک معتدل مزاج عالم دین ہونےکےساتھ ساتھ اتحاد امت کےداعی تھے۔پاکستان میںجاری خودکش حملوںکو نہ صرف ناجائز خیال کرتےتھےبلکہ کھلم کھلا انکی مخالفت بھی کرتےتھےاور ساتھ ہی ان حملوںکےخلاف باقاعدہ فتوی بھی دیا تھا ۔تحریک طالبان کی طر ف سےاس خود کش حملےکی زمہ داری کو قبول کرنا اس بات کی دلیل ہےکہ انہیںاسی پاداش میںنشانہ بنایا گیا ہے۔
[اداریہ ’’ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کی شہادت ‘‘،ماہنامہ’’الجامعہ ‘‘جولائی۲۰۰۹ء ،جھنگ (بریلوی )،اداریہ ’’ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کی المناک شہادت ‘‘ ماہنامہ ’’سوئےحجاز ‘‘،جولائی ۲۰۰۹ ء ،لا ہور (بریلوی )،اداریہ ’’افسوسناک ملکی صورتحال کا پس منظر ‘‘،ماہنامہ ’’بینات ‘‘جولائی،۲۰۰۹ء ،کراچی (دیوبندی)،اداریہ ’’مذہبی متحدہ پلیٹ فارم کی ضرورت ‘‘ ،ہفت روزہ ’’ختم نبوت‘‘ ،جون ۲۳ ۔۳۰ ،۲۰۰۹ء،لا ہور (دیوبندی)]
l ملک کو فرقہ واریت کی نئی دلدل میںدھکیلنےکی سازش ہے۔شیعہ سنی کےبعد دیوبندی بریلوی نزاع کھڑا کر کےفرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینےکی کوشش کی گئی ہے۔ اور ملک میںجاری اتحاد کی فضاء کو سبوتاژ کرنےکا گھناؤنا کھیل کھیلا گیا ہےاور ا سکےپس پر دہ وہی قوتیںکار فرما ہیںجو پاکستان کو غیر مستحکم کرنےکی تگ و دو میںلگی ہوئی ہیں۔
[اداریہ ’’قیامت خیز ہفتہ ‘‘، ہفت روزہ ’’ندائےخلافت ‘‘جون ۲۳ ۔۲۹،۲۰۰۹ء ،لا ہور (غیر مسلکی)اداریہ ’’افسوسناک ملکی صورتحال کا پس منظر ‘‘،ماہنامہ ’’بینات ‘جولائی،۲۰۰۹ء ،کراچی (دیوبندی)،اداریہ ’’ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت ملک میںفرقہ وارانہ فسادات بھڑکانےکی سازش‘‘ ،ماہنامہ ’’الحامد‘‘ ،جولائی ۲۰۰۹ء ،لا ہور (دیوبندی)]
متفرق نکات:
l ’’ضیائےحرم ‘‘ کےخیال میںروس کےخلاف لڑنےوالےافغانستا ن کےطالبان اور پاکستان میںدہشت گردی کرنےوالےنام نہاد طالبان میںکوئی بھی قدر مشترک نہیںطالبان کےروپ میںجرائم پیشہ افراد کی اس طر ح کی ظالمانہ کار وائیاںکر رہےہیں۔لیکن مخصوص مسلک (دیوبند) کےعلماء کی طرف سےانکی حمایت نہ صر ف اس مسلک بلکہ پاکستان اور اسلام دونوںکےلئےنقصان دہ ہیں۔
l صدر مملکت کی طر ف سےڈاکٹر سرفراز نعیمی کو ’’ہلال شجاعت ‘‘ کا تمغہ پوری دنیائےاہل سنت کیلئےقابل مبارکباد ہے۔
[ اداریہ ’’سردلبراں‘‘ ماہنامہ ’’ضیائےحرم‘‘جولائی،۲۰۰۹ء ،لا ہور (بریلوی)،اداریہ ’’علامہ مفتی محمد سرفراز نعیمی شہید کےلئےہلال شجاعت کا اعزاز‘‘ ماہنامہ ’’کاروان قمر ‘‘،جولائی ۲۰۰۹ ء ،کراچی (بریلوی)] ْْ ْ
l ’’ معارف رضا‘ ‘ دیوبند کےحوالےسےسخت موقف کا حامل ہےاس ضمن میںدیوبندی مکتب پر تنقید کرتےہوئےبرملا کہتا ہےکہ یہ گروہ اپنی مخصوص تشریح کردہ شریعت کو اس ملک میںنافذ کرنا چاہتا ہے۔جریدہ لکھتا ہےکہ سپاہ صحابہ ،لشکر جھنگوی ،جیش محمد ،لشکر طیبہ ،طالبان اور نفاذشریعت محمدی ان سب دہشتگرد ٹولیوںکا تعلق براہ راست دیوبندی وہابی یا غیر مقلد وہابیوںکےمدارس ،اداروںاور جماعتوںسےہے۔ یہی وجہ ہےکہ ان دیوبندیوںکےزعماء ان سےمذا کرات پر زور دےرہےہیںتاکہ انہیںکالعدم نہ قرار دیا جائے۔ حیرت کی بات ہےکہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت پر دیوبندیوںکےمفتی اعظم رفیع عثمانی یہکہہ کر ’’اگر یہ خودکش حملہ تھا تو حرام تھا ‘‘ دنیا کی آنکھوںمیںدھول جھونکنےکی کوشش کر رہےہیں۔
[ اداریہ ’’ علامہ مولانا ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کی شہادت ‘‘ ماہنامہ’’معارف رضا‘‘جولائی ۲۰۰۹ء ،کراچی (بریلوی )]
l ’’البلاغ ‘‘مولانا کی تعریف کرتےہوئےلکھتا ہے’’وہ ان لوگوںمیںسےنہیںتھےجو اپنی کم علمی اور تنگ نظر ی کےخول میںبند ہو کر عوام کو اسلام کی آفاقی اقدار اورہمہ گیر تعلیمات کےجادہ حق اور راہ سنت پر چلانےکےبجائےاپنی کم مائیگی اور بےبصیرتی سےبےاصل رسومات اور جاہلانہ خیالات کےتاریک کوچوںمیںچلاتےہوں‘‘۔جریدےنےمفتی رفیع عثمانی (صدر جامعہ دارالعلوم کراچی )کاڈاکٹر سرفراز نعیمی کےبیٹےمولانا راغب حسین نعیمی کےنا م تعزیتی خط بھی شائع کیا ہےجس میںاس سانحےپر دکھ کا اظہار کرتےہوئےاس کی مذمت کی گئی اور اسےظالمانہ کار روائی قرار دیا گیا اور ساتھ ہی مولانا کی خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا ۔اسی تناظرمیں’’الخیر ‘‘ اور ’’وفاق المدارس ‘‘ نےوزیر اعلی پنجاب کےساتھ علماء دیوبندکےوفد (جس نےمولانا قاری محمد حنیف جالندھری کی قیادت میںانکےساتھ ملاقات کی)کی ملاقات کی تفصیلات شائع کی ہے۔ اس ملاقات میںعلماء دیوبند کےوفدنےمولاناسرفراز نعیمی کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا اور اسےملک دشمن عناصر کی کار رروائی قرار دیا ۔
[اداریہ ’’ملک میںالمناک قتل وغارت گری اور علماء کی شہادتیں‘‘و’’ تعزیتی خط۔۔۔‘‘ ماہنامہ ’’البلاغ ‘‘ جولائی ۲۰۰۹ء ،کراچی (دیوبندی)،اداریہ ’’وزیراعلی پنجاب سےملاقات ا ور ہمارا موقف ‘‘ ماہنامہ ’’الخیر ‘‘ اگست ۲۰۰۹ء ،ملتان (دیوبندی)مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ’’وزیر اعلی پنجاب سےملاقات اور علماء دیوبند کا موقف ‘‘ ماہنامہ ’’وفاق المدارس ‘‘،اگست ۲۰۰۹ء ،ملتان (دیوبندی)]
l ’’اسوۃ حسنہ‘‘ نےاپنےمسلک (اہلحدیث)کےبڑےعالم دین علامہ احسان الہی ظہیر کی ۱۹۸۷ میںایک قاتلانہ حملےمیںہونےوالی شہادت کا حوالہ دیتےہوئےلکھا ہےکہ یہ بھی اسی طرح کا وا قعہ جو ملک میںمذہبی انتشار پیدا کرنےکےلئےبرپا کیا گیا ہےتاہم اگر اس وقت قاتلوںکو گرفتار کر لیا جاتا تو شاید ان واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکتی ۔ [اداریہ ’’سانحہ جامعہ نعیمہ۔۔۔۔ملک دشمن عناصرکی سازش‘‘،ماہنامہ ’’اسوہ حسنہ‘ ‘جولائی ۲۰۰۹ء ،کراچی (اہلحدیث)]

http://ipsurdu.com/index.php?option=com_zine&view=article&id=83:mumtaz%20deeni%20shakhsiyat%20ka%20qatal

……….

دہشت گرد فرقہ… صحافت کی نظر میں

in Tahaffuz, September 2010, عبدالمالک نقشبندی
متفرقا ت

علامہ اقبال علیہ الرحمہ فرماتے ہیں

مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

پاکستانی قوم اپنا 63 واں یوم آزادی منا رہی ہے اور جب بھی 14 اگست کا دن آتا ہے تو پوری قوم اپنے اکابرین کی شاندار قربانیوں کو یاد کرکے انہیں زبردست خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح تحریک پاکستان میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے حصہ لیا، بالکل اسی طرح محبان رسولﷺ و عشاقان رسولﷺ و محبان صحابہ و اہلبیت رضوان اﷲ علیہم اجمعین و محبان اولیاء اﷲ رحمہم اﷲ یعنی مشائخ و علمائے اہلسنت و جماعت نے اپنی پوری طاقت و قوت سے قائداعظم محمد علی جناح کا بھرپور ساتھ دیا اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اولیاء اﷲ کے ماننے والے ہی تحریک پاکستان میں سب سے آگے تھے اور سب سے زیادہ قربانیاں اور شہادتیں بھی انہی کے حصے میں آئیں اور یقینا پوری عالمی دنیا کی تاریخ میں ایسی لازوال قربانیاں و شہادتیں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مذہب کے نام پر بننے والی ریاستوں میں سے ایک سرفہرست پاکستان بھی ہے۔ 20 لاکھ نفوس نے اپنا لہو دے کر اس ریاست کو گل گلزار بنا ڈالا، جس کے سبب آج ہمیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔ ورنہ ہندوستان کے حالات تحریک پاکستان سے قبل کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ جہاں مسلمانوں کا ہر طرح سے استحصال ہورہا تھا۔ قابل فخر بات یہ ہے کہ ہمارے اکابرین نے وقت کی نزاکت اور حالات کا ادراک کرتے ہوئے ایک علیحدہ ریاست بنانے کا عزم مصمم اور اﷲ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے پاکستان بنا ہی ڈالا جوکہ الحمدﷲ آج تک قائم و دائم ہے بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور جس کا دفاع ایٹمی ٹیکنالوجی کے سبب ناقابل تسخیر ہے اور انشاء اﷲ قیامت تک ہمارا پیارا وطن قائم و دائم رہے گا لیکن ہمارے پیارے وطن کا قیام و دوام از اول تا انتہا کانگریس اور اس کے ایجنٹوں کو کبھی بھی ایک آنکھ نہ بھایا۔ شروع دن ہی سے ملک عزیز کے خلاف سازشوں اور اسے توڑنے کی بھرپور کوشش سب پر عیاں ہے۔ آج تک وطن عزیز کو دل سے تسلیم نہ کیا گیا اور کئی مرتبہ ہم پر جنگ کو مسلط کیا گیا۔ کئی مرتبہ جارحیت کا ارتکاب کرکے کبھی کشمیر پر قبضہ کیا گیا تو کبھی مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوا کر ملک کے دو ٹکڑے کروادیئے گئے اور اب ہندوئوں اور کانگریس کے ایجنٹوں کی سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ خارجی اور بیرونی سازشوں سے لے کر اندرونی و داخلی سطح پر انتہائی خطرناک سازشوں کا جال بن دیا گیا ہے۔ اگر صرف داخلی انتشار و افتراق ہی پر روشنی ڈالی جائے تو یہ بات سب پر عیاں ہے کہ شرق سے لے کر غرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک ہر طرف دہشت گردی کا راج ہے۔ ہندوئوں اور کانگریس کے وفادار ایجنٹوں نے ملک عزیز پاکستان میں کشت و خون کے بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں صوبائیت اور لسانیت کی آگ کو انتہائی سلگایا جارہا ہے۔ خیبرپختون خواہ (سابقہ صوبہ سرحد) اور صوبہ پنجاب میں خودکش حملوں کے ذریعے عامتہ المسلمین کا قتل عام جاری و ساری ہے اور صوبہ سندھ کے سب سے بڑے شہر اور پاکستان کا سابقہ دارالخلافہ شہر کراچی میں انہی ہندوئوں اور کانگریس کے وفاداروں نے آگ و خون کا بازار گرم کررکھا ہے۔ روزانہ لوگوں کا قتل عام جاری و ساری ہے۔ صرف اگست کے رواں ہفتے کے دوران 90 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ سینکڑوں گاڑیوں، دکانوں اور مارکیٹوں کو آگ لگادی گئی اور لسانیت و عصبیت کے اس خونی کھیل میں کراچی کے امن کو برباد کردیا۔ محترم قارئین! یقینا میری اس تمہید کے پیچھے چھپے مقاصد آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وطن عزیز پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہندوستان اور اس کے ’’وفادار ایجنٹ‘‘ ہیں۔ وطن عزیز میں کانگریس اور ہندوئوں کے وفادار ایجنٹ کا کردار کون ادا کررہا ہے اور وہ کون سا مکتبہ فکر ہے جو نہ تو کل پاکستان اور تحریک پاکستان کا حامی اور مددگار تھا اور نہ آج (جبکہ اس کے باوجود کہ وہ بظاہر مالی و سیاسی فوائد حاصل کرنے میں سب سے آگے آگے ہیں، لیکن عملا وہ کانگریس اور ہندوئوں کے ایجنٹ کا کردار ادا کررہے ہیں) کیونکہ ان کے بزرگوں نے قائداعظم علیہ الرحمہ کے مقابلے میں کانگریس کو ترجیح دی اور اس کی وجہ صرف اور صرف مالی منفعت کا حصول تھا اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کے پیچھے دلائل و حقائق نہ ہوں۔ تاریخ پاکستان کی مستند کتابوں سے لے کر تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے مجاہدوں تک، ہر ایک کی زبان پر عام ہے۔ ابھی صرف چند ماہ پہلے روزنامہ جنگ کے صف اول کے نامور صحابی اور جیو ٹی کے مشہور اینکر جناب حامد میر نے اپنے کالم (قلم کمان) میں یہ بات نقل کی کہ ’’قائداعظم محمد علی جناح نے جب تحریک پاکستان میں شامل ہونے کے لئے (دارالعلوم دیوبند) کے مہتمم مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا کفایت اﷲ سے رابطہ کیا تو انہوں نے تحریک پاکستان میں شامل ہونے کے لئے قائداعظم محمد علی جناح سے 50 ہزار روپے ماہانہ مانگ لئے، جس پر قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ ہم آپ کی یہ ڈیمانڈ پوری نہیں کرسکتے تو ان حضرات نے قائداعظم کا ساتھ دینے سے انکار کردیا اور کانگریس کے ساتھ مل کر تحریک پاکستان مہم کو ناکام بنانے کے لئے ہندوئوں کا ساتھ دیا‘‘(روزنامہ جنگ کراچی 26 مارچ 2009ء بروز جمعرات)

محترم قارئین! آپ کی دلچسپی کے لئے یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ جب حامد میر نے یہ تاریخی حقیقت اپنے کالم میں بیان کی تو پوری دیوبندیت نامور صحافی حامد میر کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ روزنامہ جنگ کے دفاتر پر توڑ پھوڑ کی گئی اور تحریر و تقریر کے میدان میں بھی حامد میر کے خلاف سخت زبان و رویہ اختیار کیا گیا۔ یہ بات آن دی ریکارڈ ہے۔ ایک اور حقیقت کی جانب آپ کی توجہ دلانا چاہوں گا اور یہ حقیقت تو آپ بھی اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ جب آپریشن ’’راہ نجات‘‘ شروع کرنے کا مرحلہ آیا چونکہ طالبان، صوفی محمد، فضل اﷲ، بیت اﷲ محسود وغیرہ بھی اسی مسلک و عقیدہ سے تعلق رکھتے ہیں اور سوات میں جو کچھ طالبان نے کیا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ درس و تدریس کے ادارے و جامعات، اسکول و کالج کو تباہ کر ڈالا، مزارات اولیاء اﷲ خاص کر رحمان بابا کا مزار اقدس تباہ کیا اور پیر بابا کے مزار پر قبضہ، علماء و مشائخ کی لاشوں کی بے حرمتی، ان کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر چوراہے پر لٹکایا گیا۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، سرعام عورتوں اور لڑکیوں کو کوڑوں سے مارنا، مارکیٹوں کو خودکش حملوں سے تباہ و برباد کیا گیا۔ لوگوں کی معاشی حالت کو تباہ وبرباد کردیا گیا۔ ہمارے وطن عزیز کے شاہینوں کو علم سے محروم کرنے کی سازش کی گئی تو اب یہ مرحلہ تھا کہ ان ظالموں، قاتلوں اور علم کے دشمنوں سے جہاد کیا جائے اور ان کے فہم اسلام سے جو نقصان پاکستان اور پورے عالم اسلام کو پہنچ رہا ہے اس سے انہیں بچایاجائے تو پوری پاکستانی عوام نے ان طالبان کے خلاف آپریشن ’’راہ نجات‘‘ کی تائید کی لیکن ہم سب نے دیکھا کہ دیوبندی، وہابی اور جماعت اسلامی نے اس آپریشن کی مخالفت کی اور آج تک وہ اسی موقف پر قائم ہیں۔ الحمدﷲ! آپریشن ’’راہ نجات‘‘ کامیاب ہوا اور سوات میں امن وامان بحال ہوگیا، اسکول و کالج دوبارہ کھل گئے، کاروباری سرگرمیوں کا آغاز ہوگیا۔

محترم قارئین! اس مرحلہ پر بھی جبکہ پاکستان کی سوئٹزر لینڈ وادی سوات میں امن قائم کرنے کا مرحلہ آیا تو پاک فوج کے شانہ بشانہ اولیاء اﷲ کے ماننے والے ہی ساتھ تھے۔ پاکستان کو بنانے والے بھی یہی تھے اور آج وطن عزیز کی بقاء و تحفظ کے لئے سرحدوں پر کفن باندھ کر میدان میں نکل آئے اور شہادتوں کی ایسی داستان رقم کردی جو قیامت تک آنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگی انشاء اﷲ، لیکن جو لوگ نہ تو تحریک پاکستان میں قائداعظم کا ساتھ دے سکے اور چند کھوٹے سکوں کی خاطر کانگریس اور ہندوئوں کے ایجنٹ بنے رہے، وہی آج وطن عزیز کے تحفظ و بقاء کے لئے پاک فوج کا ساتھ دینے کے بجائے طالبان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، اس پر بھی دلائل موجود ہیں۔ وطن عزیز کے نامور صحافی اور جنگ اخبار کے صف اول کے کالم نگار جناب ہارون الرشید نے اپنے کالم میں اس حقیقت کو آشکارا کیا ہے، فرماتے ہیں: ’’سوات میں آپریشن کا آغاز ہوا تو پاک فوج کو دوسروں کے علاوہ ’’حفصہ بریگیڈ‘‘ سے واسطہ پڑا۔ اس سے بھی زیادہ المناک بات یہ ہے کہ بونیر میں ’’جماعت اسلامی‘‘ اور ’’جمعیت علماء اسلام‘‘ کے چند لوگ جنگجوئوں میں شامل تھے‘‘

پھر آگے چل کر مزید فرماتے ہیں: ’’ایسا کیوں ہوا؟ اس لئے کہ اسی ’’مذہبی مکتب فکر‘‘ سے ان لوگوں کا تعلق ہے طالبان جس کی نمائندگی کرتے ہیں‘‘
(حوالہ:اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے)پیر 26 اکتوبر 2009ء روزنامہ جنگ (اداریہ والا صفحہ)

محترم قارئین! آپ نے خود نوٹ کیا ہوگا کہ آج تک طالبان نے جو کارروائیاں کی ہیں، ان کے خلاف نہ تو جمعیت علمائے اسلام اور پوری دیوبندیت نے اور نہ جماعت اسلامی نے کبھی احتجاج کیا ؟ کیوں؟ ایسا اس لئے ہے کہ ان سب کا مسلک ایک ہی ہے، ان سب کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ صرف اور صرف اندرونی اور بیرونی سطح پر پاکستان کو شدید نقصان پہنچانا ہے اور ہندوستان کو خوش کرنا ان سب کا مطمع نظر ہے۔ اس کے علاوہ آپ غور کیجئے کہ دیوبندیت کے سالانہ بڑے بڑے جو بھی پروگرام ہوں، وہ ہوجاتے ہیں۔ مثلا رائے ونڈ کے سہ روزہ تبلیغی جماعت کے اجتماع کو دیکھ لیں، وہ اجتماع بغیر کسی ڈر اور خوف کے منعقد ہوجاتا ہے اور کامیابی سے ہمکنار بھی ہوتا ہے جبکہ اس کے برعکس اہلسنت و جماعت کی تبلیغ و صلوٰۃ و سنت کی عالمگیر تحریک دعوت اسلامی کا تین روزہ سالانہ پروگرام ملتان میں عدم تحفظ کی وجہ سے منسوخ کردیا جاتا ہے، فرق بالکل واضح ہے۔ جس کا نتیجہ نکالنا کسی کے لئے بھی مشکل نہیں۔

محترم قارئین! اب آیئے طالبان کے بارے میں صحافی برادری کیا رائے رکھتی ہے ؟ مختصراً اشارے اور پیرائے حاضر خدمت ہیں۔ روزنامہ جنگ کے نامور اور بزرگ صحافی جناب عطاء الحق قاسمی طالبان کو نئے دور کا خارجی قرار دیتی ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ جو دہشت گرد عام مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کررہے ہیں اور اس پر نادم ہونے کے بجائے وہ خود کو جنت کا حقدار سمجھتے ہیں۔ وہ دراصل آج کے دور کے خارجی ہیں، جو اپنے علاوہ باقی سب مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں، ان (طالبان) کی اسی سوچ کو ہمارا دشمن (ہندوستان) ایکسپلائٹ کررہا ہے۔ چنانچہ انہیں مالی امداد اور اسلحہ انہی کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے، کچھ عرصے سے انہوں نے بزرگان دین کے مزارات پر بھی حملوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ جس کا کلائمکس حضرت داتا علی ہجویری گنج بخش علیہ الرحمہ کے مزار پر حملے کی صورت میں سامنے آیا ہے‘‘

آگے چل کر مزید فرماتے ہیں ’’ان (طالبان) کے نزدیک مزاروں سے ملحقہ مساجد میں نمازیں اور تہجد ادا کرنے والے بھی مشرک ہیں، چنانچہ وہ ’’جنت کمانے کے لئے‘‘ ان مقدس مقامات پر حملہ آور ہوتے ہیں‘‘ آگے چل کر مزید فرماتے ہیں ’’اس حقیقت سے بھی بہرحال انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ذہنوں میں یہ نفرت انگیز سوچ بہرحال مذہبی پیشوائوں ہی کی ہوئی ہوئی ہے‘‘ (روزنامہ جنگ کراچی کالم بعنوان (نئے دور کے خارجی) جمعرات 8 جولائی 2010ئ)
قارئین غور فرمائیں کہ موجودہ دور کے خارجیوں کو تحفظ فراہم کرنا، ان سے تعلقات رکھنا، انہیں اور ان کے عمل کو درست سمجھنے والوں پر کیا حکم لگنا چاہئے؟ تمام پاکستانیوں کو معلوم ہے کہ طالبان کو وطن عزیز میں کس کی سرپرستی حاصل ہے اور وہ کون سا مسلک اور عقیدہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں؟
روزنامہ جنگ کے نامور صحافی جناب حامد میر کا طالبان کے بارے میں نقطہ نظر پیش خدمت ہے، فرماتے ہیں۔ ’’ہوسکتا ہے کہ حضرت علی ہجویری علیہ الرحمہ کے مزار پر حملے کی منصوبہ بندی بھی کسی دشمن طاقت نے کی ہو، لیکن دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہونے والے ہمارے ’’اپنے‘‘ ہیں اور ہمیں اپنے آپ کو دھوکہ نہیں دینا چاہئے۔
کیا یہ سچ نہیں کہ پچھلے ایک ڈیڑھ سال کے دوران پشاور اور نوشہرہ میں رحمان بابا علیہ الرحمہ سمیت کئی بزرگوں کے مزاروں پر بم دھماکے کئے گئے اور ان دھماکوں میں ملوث جو بدبخت گرفتار ہوئے، ان کا تعلق خیبر ایجنسی سے تھا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ پچھلے کئی سالوں سے مساجد اور امام بارگاہوں کے علاوہ 12 ربیع الاول کے اجتماعات کو بھی خودکش حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور ان حملوں میں ملوث افراد نہ تو CIA اور ’’را‘‘ کے اہلکار تھے اور نہ ہی انہیںبلیک واٹر نے بھرتی کیا تھا، بلکہ یہ سب ہمارے اندر ہی سے تھے اور ان کا تعلق ایسی تنظیموں سے تھا، جو ایک دوسرے کے خلاف کافر کافر کے نعرے لگاتے ہیں۔

آگے چل کر مزید فرماتے ہیں ’’اصل بہادری یہ ہے کہ ہم ان آستین کے سانپوں کو تلاش کریں جو پاکستان کے بے گناہ اور نہتے مسلمانوں کا خون بہا کر اسلام دشمن طاقتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ حضرت علی ہجویری علیہ الرحمہ کے مزار پر حملہ کرنے والے وہی ہیںجنہوں نے جامعہ نعیمیہ میں گھس کر مفتی ڈاکٹر سرفراز نعیمی علیہ الرحمہ کو خودکش حملے میں شہید کیا۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے نشتر پارک کراچی میں سنی تحریک، جماعت اہل سنت اور جے یو پی کی قیادت کو نشانہ بنایا‘‘ (کالم بعنوان (انتقام مگر پیار سے) پیر 5 جولائی 2010ء

محترم قارئین! جناب حامد میر کے اس کالم کو بغور پڑھیں کیا آج تک گزشتہ چند برسوں سے جاری ہر دہشت گردی کی واردات کو بلیک واٹر، امریکہ یا ’’را‘‘ کے کھاتے میں ڈالنے والے طالبان اور اس کی سرپرستی کرنے والے گروہ مثلا جے یو آئی، جماعت اسلامی اور پوری دیوبندیت یہی کہتی نظر آتی ہے کہ یہ بلیک واٹر کی کارروائی ہے۔ یہ امریکہ کی دہشت گردی ہے؟ الحمدﷲ ملک عزیز کے انٹلکچوئیل صحافی اور غیر جانبدار مکتبہ فکر اب اچھی طرح یہ جان چکے ہیں کہ دہشت گرد صرف اور صرف طالبان ہیں اور ان کو مدد پہنچانے والے مسلک دیوبند سے تعلق رکھتے ہیں جن میں کالعدم سپاہ صحابہ، کالعدم جیش محمد، کالعدم لشکر جھنگوی ،جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور ان کے مدارس شامل ہیں۔

نامور صحافی اور ادیب جناب نذیر ناجی روزنامہ جنگ ہی کے کالم نگار ہیں، انہوں نے طالبان کے بارے میں زبردست و شاندار موقف اپناتے ہوئے فرمایا کہ طالبان ’’تکفیری گروہ‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’دہشت گردی کی جو لعنت اسلام کے پردے میں نمودار ہوئی ہے اس میں عربوں کے اندر پیدا ہونے والا ایک گروہ پاکستان میں گھس آیا، جسے تکفیری کہا جاتا ہے۔ اس گروہ کے لوگ اپنے سوا سب کو کافر سمجھتے ہیں اور انہیں قتل کرنا کار ثواب تصور کرتے ہیں جو بچے اور نوعمر لڑکے ان کے فریب میں آجاتے ہیں، یہ انہیں باقی دنیا سے کاٹ کر اس طرح الگ تھلگ کردیتے ہیں کہ وہ نہ کسی کو مل سکتے ہیں، نہ باہر کی دنیا میں کسی سے بات کرسکتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کے خیالات سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔ ان کی اس طرح برین واش کیا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی بڑے ہجوم میں خودکش حملہ کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ قاتلانہ حملہ کرکے وہ سیدھے’’جنت‘‘ میںجائیں گے۔ شمالی وزیرستان میں ’’تکفیریوں‘‘ کا ایک پورا نیٹ ورک کام کررہا ہے‘‘ (کالم بعنوان (دل میں دھماکہ) 3 جولائی 2010ئ)

محترم قارئین! ان تکفیری گروہ یعنی طالبان کے ساتھ کون کون سے گروہ وابستہ ہیں اور کون کون ان کی حمایت و مدد کررہا ہے، سب کو معلوم ہے۔ لہذا ان سازشوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو وطن عزیز کو ناکام ریاست قرار دلوانے کے لئے ہورہی ہے۔ چونکہ الحمدﷲ آج پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے اور ایٹمی صلاحیت کا ہونا دشمنان پاکستان کو ایک آنکھ نہیں بھاتا لہذا بیرونی جارحیت یا جنگ کے بارے میں انہیں کئی لاکھ مرتبہ سوچنا پڑے گا۔ اسی لئے انہوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہمیں اندرونی و داخلی انتشار و افتراق میں مبتلا کرنے کے لئے یہ سارا کھیل شروع کیا ہے۔

آخر میں آپ حضرات کے سامنے دارالعلوم دیوبند کے موجودہ مہتمم مولانا محمود احمد مدنی جوکہ حسین احمد مدنی کے پوتے ہیں، ان کی پاکستان اور قائداعظم کے بارے میںہرزہ سرائی پیش کررہا ہوں اور یہ بھی نامور صحافیوں جناب عطاء الحق قاسمی اور جناب ثروت جمال اصمعی کے کالمز کے بعض حصوں پر مشتمل ہے۔ روزنامہ جنگ کے نامور صحافی عطاء الحق قاسمی فرماتے ہیں ’’دارالعلوم دیوبند کے موجودہ مہتمم اور مولانا حسین احمد مدنی کے پوتے مولانا محمود مدنی نے ایک بار ’’پھر‘‘ اپنے بزرگوں کا موقف دہراتے ہوئے پاکستان کے بارے میں ’’گل افشانی‘‘ کی ہے۔ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’مولانا مدنی نے تاریخی حقائق کے خلاف جو باتیں کیں، ہمارے اینکر نے انہیں اس پر بہت کم ٹوکا‘‘ ایک اور مقام پر اگلے پیراگراف میں بہت اہم نکتہ پیش ہے ’’مولانا مدنی (مہتمم دارالعلوم دیوبند) تمام انٹرویو کے دوران بھارتی حکومت کے ترجمان کا فریضہ انجام دیتے رہے چنانچہ ہر مسئلہ پر ان کا نقطہ نظر وہی تھا جو بھارت کی وزارت خارجہ کا ہے‘‘

مولانا مدنی نے کشمیر کی آزادی کے خلاف بے بنیاد باتیں کیں، فرماتے ہیں عطاء الحق قاسمی صاحب کہ ’’حتی کہ عالم دین ہوتے ہوئے بھی انہوں نے کشمیر کے بارے میں بعض آزاد خیال ہندو دانش وروں جیسی حوصلہ مندی کا مظاہرہ ہی نہیں کیا بلکہ فرمایا تو یہ کہ کشمیر کی آزادی بھارتی مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے‘‘ اسی طرح مولانا مدنی کا یہ بیان کہ ’’برصغیر کی تقسیم مسلمانوں کی تقسیم تھی‘‘ قاسمی صاحب اس پر تبصرہ فرماتے ہیں کہ ’’دراصل برصغیر کے مسلمانوں کو گالی دینے کے مترادف ہے کیونکہ اس تقسیم کے مجرم برصغیر خصوصا مسلم اقلیتی علاقوں کے مسلمان خود تھے‘‘ اسی کالم کے دوسرے حصہ کے آخری پیرائے میں قاسمی صاحب نے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم کو مشورہ دیا کہ ’’ان کی جمعیت علمائے ہند نے 1947ء میں ہندو کانگریس سے اتحاد کرکے قیام پاکستان میں ہرممکن رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن برصغیر کے تمام مسلمان بیک آواز ہوکر قائداعظم کی مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہوگئے۔

یوں جمہوری بنیادوں پر کانگریس اور جمعیت علمائے ہند کے موقف کو برصغیر کے مسلمانوں نے رد کردیا۔ (کالم بعنوان: مولانا محمود احمدمدنی کا انٹرویو… 22، 23 جولائی 2010ء روزنامہ جنگ)

اسی انٹرویو پر ثروت جمال اصمعی نے بھی تبصرہ کیا ہے جوکہ پیش خدمت ہے، فرماتے ہیں ’’جمعیت علمائے ہند کے رہنما مولانا محمود احمد مدنی نے اپنے بزرگوں کے موقف کو دہراتے ہوئے نظریہ پاکستان کو غلط اور تقسیم ہند کو قائداعظم علیہ الرحمہ کی ضد کا نتیجہ قرار دے کر حقائق سے اپنی بے خبری ثابت کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا‘‘ مولانا مدنی نے قیام پاکستان کے لئے کی جانے والی ہجرت کو غلط کہا تو اس پر جناب اصمعی فرماتے ہیں ’’جہاں تک اسلام کے نفاذ کے لئے الگ خطہ زمین کے انتخاب کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے، تو نبی کریمﷺ اور ان کے ساتھیوں کا اس مقصد کے خاطر مکے سے مدینے جانا اس کی سب سے بڑی مثال ہے اور پاکستان اسی روشن مثال کی تقلید میں بنا ہے۔ہندوستان کے اقلیتی علاقوں کے مسلمانوں نے تحریک پاکستان کا اسی لئے ساتھ دیا اور ان کی ایک تعداد نے بالعموم اسی بناء پر پاکستان ہجرت کی تھی۔ اس لئے مولانا کو سوچنا چاہئے کہ اس ہجرت کو غلط ٹھہرانا کیونکر درست ہوسکتا ہے‘‘ (کالم بعنوان ’’ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت‘‘ 25 جولائی 2010ء روزنامہ جنگ)
محترم قارئین! خلاصہ یہ نکلا کہ دارالعلوم دیوبند یعنی دیوبندی مسلک نہ تو قیام پاکستان کا حامی تھا اور نہ آج تک اس انٹرویو کی روشنی میں وہ حامی بن سکا۔ یہ تو مختصراً چند کالمز سے اقتباس کیا گیا ہے ورنہ نظریہ پاکستان، قیام پاکستان اور تحریک پاکستان پر تاریخ ان کے پاکستان دشمنی کے مواد سے بھری پڑی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حالات میں دیوبندی مسلک کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لیا جائے ، ان کے مدارس، مساجد، تحریر، تقریر اور ان کے دہشت گردوں اور خودکش بمباروںسے تعلقات پر حکومت پاکستان کو سخت ایکشن لینا چاہئے اور پرامن مسلمانوں کو ان کی تخریبی دہشت گردی سے بچانے کے لئے ضرور بالضرور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے اس مضمون میں غیر جانبدار صحافیوں کے تاثرات پیش کرنے کی حقیر سی کوشش کی ہے جس کی روشنی میں عامتہ المسلمین کو اپنا لائحہ عمل بنانے کی کوشش ضرور کرنی چاہئے۔
ا
ﷲ تعالیٰ اپنے محبوبﷺ کے صدقے ہمارا حامی و ناصر ہو
(آمین بجاہ النبی الامینﷺ)

http://tahaffuz.com/2305/#.VGIsv_msWSo

…………..

عبدالرزاق قادری

۔ لال مسجد والے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو نعوذباللہ باغی کہتے تھے وہ تو امام عالی مقام کو صحابی ماننے سے انکار کرتے تھے اور یزید لعنتی ملعون کو معا ذاللہ رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں لیکن “سائیلنس آپریشن” کو انہوں نے سانحہ کربلا سے تشبیہ دی اور امام عالی مقام کے دامن میں پناہ لی۔ پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تعصب یہ نہیں کہ تو اپنی قوم سے محبت کرے تعصب یہ ہے کہ تو ظلم کرنے میں اپنی قوم کا ساتھ دے!!!

محقق العصر علامہ مفتی محمد خان صاحب قادری، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے قائل رہے ہیں کسی مائی کے لال نے ان پر گمراہ یا کافر ہونے کا فتویٰ سٹیج پر نشر کیا ہو تو آگاہ کیا جائے! یہ سستی شہرت حاصل کرنے کا سنہری موقع مُلّا نے کیش کیوں نہیں کروایا کیونکہ ایک تو دوسری جانب علم کا سمندر ہے اور دوسرے اس معاملے میں پشت پر تھپکی دینے والے نہ ہونے کے برابر ہیں قبلہ مفتی صاحب نے میڈیا پر فلاح انسانیت فاؤنڈیشن (حافظ سعید ) کے کام کو سراہا کسی نے کوئی فتویٰ دیا؟ آخر خود کو اُمّت کا مالِک سمجھنے والے مُلّا اس معاملے میں کیوں دُم دباتے نظر آتے ہیں بھئی یہ باتیں تو دوسرے فرقوں کے حق میں جاتی ہیں نکالو اپنا دائرہِ اسلام اور جتنے جی میں آئے لوگوں کو اُس میں سے خارج کر ڈالو۔

رانا ثناء اللہ صاحب! آپ نے داتا دربار پر حملے کروائے عوام برداشت کرگئے آپ نے ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کو شہید کروایا۔ اہلسنت وہ بھی برداشت کرگئےآپ نے جنوبی پنجاب کو پنجابی طالبان کا گڑھ بنا دیااس کا کوئی جواز ہے آپ کے پاس؟آپ وزیر قانون رہے ہیں یا وکیلِ دہشتگردی؟ اگر مسئلہ صرف بیرئیر اور نوگو ایریا کا ہے تو رانا صاحب! آئیے آپ کی آنکھوں پر لگی ہوئی پٹی اتاریں آپ کوشہرِ لاہور میں نون لیگ کے قبضے میں کوئی تجاوزات دکھائی نہ دے سکیں؟ آپ کو لیک روڈ لاہور پر حافظ سعید کا بکتر بند قلعہ نظر نہیں آتا جامعہ اشرفیہ اور منصورہ کے مراکز دیکھتے وقت آپ کی آنکھوں میں موتیا اتر آتا ہے؟ معروف قول ہے کہ جماعتِ اسلامی سے کارکن نکل جاتا ہے لیکن اس کارکن میں سے جماعتِ اسلامی کبھی نہیں نکلتی جس کا عملی مظاہرہ خواجہ سعد رفیق نے (جامعہ منہاج پر ظلم کرنے کے بعد) اپنا خبثِ باطن میڈیا کے سامنےبیان دے کر کِیا، ساری دنیا میں دہشت گردی کا نصف سے زیادہ کریڈٹ جماعتِ اسلامی (باقی دیگر دیوبندیوں،وہابیوں،سعودی ظالم حکومت، امریکہ بشمول اس کے اتحادیوں اور اخوان المسلمون)کو جاتا ہے۔ میاں شہباز اور میاں نواز کو یاد رہے کہ ظلم کی اخیر خدا کا بیر ہوتا (اَت خدا دا وَیر) ہے۔ آخر کب تک آپ فرعون کے نقش قدم پر عمل پیرا ہوکر نہتے عوام اور اہلسنت کا قتل عام کرواتے رہیں گےکیا قیامت والے دن آپ اللہ کی عدالت میں حاضر ہونے سے بچ جائیں گے؟

اہلسنت کے علماء اور پیر یہ بات ذہن نشین فرما لیں کہ اگر اب بھی اہلسنت اپنی اپنی تنظیموں کے تعصب کی وجہ سے انتشار کا شکار رہے تو آپ کی لاشوں پر نمازِ جنازہ ادا کرنے والا بھی کوئی زندہ نہیں بچے گامسلم لیگ( ن) کے حمایتی پیروں کیلئے بھی لمہ ءِ فکریہ ہے!!! سیاست میں ڈاکٹر طاہرالقادری سے یہ کارنامہ سرانجام ہوا ہے کہ وہ زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر انقلاب کے خواہشمند ہیں، انقلاب صرف دل کی کیفیت کی تبدیلی کا نام ہے جو عقائد اور اعمال کی اصلاح سے ممکن ہوتا ہےصرف نعرے اور دعوے کرنے سے انقلاب نہیں آتے! اور عقائد میں اجتہاد نہیں ہوتا ایک تو سات صدیوں سے اجتہاد کادروزہ بند ہے۔ اما م احمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مجتہد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ اجتہاد مسائل میں ہوتا تھا عقائد میں تو یہ ممکن ہی نہیں

اب اہلسنت کے مدارس کو دن رات سکیورٹی کا مسئلہ لاحق ہوچکا ہے۔کیونکہ خوارجی بھیڑئیے ہر وقت ظلم کا موقع ملنے کی تاک میں ہیں۔
اگر یہی حملہ منصورہ مرکز پر، جامعہ اشرفیہ یا مرکز قادسیہ پر ہوا ہوتا؟ اگر اسی طرز کا حملہ کسی شدت پسند فرقے کے کسی مرکز پر ہوتا تو ملک میں ایسی آگ لگتی جو بہت کچھ بھسم کر ڈالتی۔

http://www.oururdu.com

ati

deobandis1511012_973007302716104_1017431471227799828_n

Comments

comments