استاد مندو خان کا 189 سال قدیمی تعزیہ جوکہ سنّی تھے
شاگرد سلیمان علی سنّی کا 166 سال پرانا تعزیہ
نوٹ : یہ مضمون عامر حسینی کی فیس بک وال سے لیا گيا ہے اور ان کے مطابق یہ روزنامہ خبریں ملتان کے رپورٹر شفقت رضا بھٹہ کی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے جو ان کے شکریہ کے ساتھ یہاں پوسٹ کیا جارہا ہے
برصغیر میں تعزیہ سازی کی روائیت کا جائزہ لیا جائے تو پتہ جلتا ہے کہ اس کی اول روائت مغل بادشاہ تیمور نے اپنے دور حکمرانی 1370ء – 1405ء میں رکھی تھی
کہا جاتا ہے کہ چودھویں صدی میں امیر تیمور نے کربلا عراق کا دورہ کیا اور وہاں سے حضرت امام حسین کی شبیہ دہلی لیکر آئے اور اس شبیہ پر خاک کربلا سے پلاسٹر کیا گيا اور اس شبیہ کو مغلیہ طرز تعمیر کے مطابق بعد میں تعمیر کیا گیا تھا اور اسی شبیہ کے ساتھ مغلیہ طرز تعمیر کے ساتھ 50 فٹ سے بھی زیادہ اونچے تعزئے تعمیر کئے جاتے رہے اور یوں امیر تیمور کی پیروی میں ہندوستان بھر میں تعزیوں کی تعمیر کی روائت پڑگئی اور لکڑی کے ساتھ ساتھ کھجور کے تنے ، گتوّں اور پلاسٹک کین کے ساتھ بھی تعزئے بنائے جانے لگے جن کو عاشور کے دن دریا برد کردیا جاتا تھا اور اسے تعزیہ ٹھنڈا کرنے کی رسم بھی کہتے ہیں
امیر تیمور عاشورہ محرم میں حضرت امام حسین کی یاد میں ہر سال کربلاجاتے اور وہاں پر چالیس روز تک قیام کرتے تھے ، ایک مرتبہ جب وہ اپنی بیماری کے سبب کربلا نہ جاسکے تو انھوں نے شبیہ مزار امام حسین پر مبنی تعزیہ تیار کروایا اور اس تعزیہ اور کالے ، سفید ، سرخ جھنڈوں اور علم عباس کے ساتھ دھلی میں شہادت امام حسین کی یاد میں جلوس نکالا اور اس جلوس میں شیعہ و سنّی سب شریک ہوئے اور اس طرح سے مغلیہ دور میں تعزیوں کے ساتھ جلوس کی روائت پڑگئی جبکہ امیر تیمور کے دور میں تعزیہ میں نیچے امام حسین کے روضے کی شبیہ کا جو رواج پڑا تھا وہ آج تک قائم ہے
امیر تیمور کے دور کے بعد مغلیہ دور کے تمام تر عرصہ اور پھر نوآبادیاتی دور میں اور آج تادم تحریر تک تعزیہ سازی کی یہ رسم جاری و ساری ہے اور اسی طرح محرم الحرام میں تعزیوں کا جلوس برآمد ہوتا ہے
تعزیہ سازی کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر تعزیے مغلیہ دور سے ہی شیعہ کی بجآئے سنّی حضرات کی جانب سے بنائے جاتے ہيں اور آج بھی ہندوپاک میں اکثر قدیم ترین تعزیوں کے لائسنس دار سنّی بریلوی حضرات ہی ہیں لیکن اس سے ہٹ کر تعزیہ سازی ميں ہندؤں ، سکھوں نے بھی اپنا حصّہ ڈالا
تعزیہ سازی میں رام پور ، حیدآباد دکن ، لکھنؤ اور ملتان نے عالمگیر شہرت حاصل کی -ملتان میں استاد اور شاگرد کے تعزیے برصغیر کے قدیم ترین تعزیوں میں شمار ہوتے ہیں
برطانوی حکومت نے برصغیر میں تعزیہ کا پہلا لائسنس 1860ء میں جاری کیا اور یہ لائسنس ملتان میں استاد کے تعزیے کو جاری ہوا تھا – استاد مندو خان جوکہ سنّی تھا نے یہ تعزیہ 1812ء میں بنانا شروع کیا اور اس کی تکمیل 1825ء میں مکمل ہوئی اور استاد مندو خان نے یہ تعزیہ اپنے 22 ساتھیوں کی مدد سے تیار کیا تھا
اس دوران استاد مندو خان کا شاگرد سلمان علی جو خود بھی سنّی تھا نے چپکے سے اپنا تعزیہ بنانا شروع کردیا اور بالآخر 1854ء میں اسے مکمل کرنے میں کامیاب ہوگیا
استاد کا تعزیہ 27 فٹ لمبا تھا اور اس کی سات منزلییں تھیں اور یہ تمام تر ساگوان کی لکڑی سے تیار کیا گیا تھا جبکہ شاکرد کا تعزیہ استاد سے زیادہ لمبا یعنی 32 فٹ تھا -بعد میں شاکرد کا تعزیہ 1944ء میں آگ لگنے سے شہید ہوگیا جسے ملتان کے گردیزی خاندان نے مرمت کرایا جبکہ استاد کا تعزیہ 189 سال گزرنے کے بعد بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور ہر سال استاد و شاگرد کے تعزيے دس محرم الحرام کے جلوس میں نکالے جاتے ہیں ، استاد کے تعزیے کو 150 جبکہ شاگرد کے تعزیے کو 200 افراد اٹھاتے ہیں ، استاد کا تعزیہ جلوس کے آگے اور شاگرد کا تعزیہ جلوس کے پیچھے احترام کی وجہ سے رکھا جاتا ہے
استاد کا تعزیہ کا لائسنس خلیفہ الطاف حسین اور شاگرد کے تعزیہ کا لائسنس رئیس احمد کے پاس ہے اور یہ دونوں سنّی بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں
ہر سال تعزیوں کو تیار کرنے میں ایک لاکھ روپے کے قریب اخراجات لگتے ہیں جبکہ ان کو تیار کرنے میں آٹھ دن لگتے ہیں ، کیونکہ محرم الحرام کے بعد ان کو پانچ حصّوں میں کھول کر رکھ دیا جاتا ہے اور ہفتہ وار ان کی صفائی و ستھرائی کی جاتی ہے
استاد کا تعزیہ ملتان میں محلّہ پیر قاضی جلال اندرون پاک گیٹ سے برآمد ہوتا ہے جبکہ شاگرد کا تعزیہ یوم عاشور پر خونی برج ملتان سے برآمد ہوتا ہے
ملتان میں تعزیہ امیر شاہ والا بھی سو سال پرانا اور تعزیہ پیر شاہ 300 سال پرانا ہے ، تعزیہ کوڑے شاہ بھی قدامت کے اعتبار سے بہت قدیم ہے ، جبکہ تعزیہ کاشی گراں 150 سال پرانا ہے جس کو امام بارگاہ حسین آباد دولت گیٹ پر رکھا جاتا ہے – جبکہ تعزیہ حیدری کمیٹی ، امام بارگاہ جوادیہ ، وارث شاہ والا ، تعزیہ جان محمد ، تعزیہ خلاصی لاغن اور دیگر بھی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں
ملتان میں عاشور کے 20 قدیم ترین تعزیوں کے لائسنس ہیں جن میں 16 کے لائسنس ہولڈر سنّی بریلوی ہیں جن میں استاد ، شاکرد کے پاک و ہند مین مشہور تاریخی تعزیے بھی شامل ہیں جبکہ ملتان میں عاشور کے جتنے جلوس برآمد ہوتے ہیں جن کی تعداد 150 ہے ان میں سے 99 جلوس سنّی بریلوی نکالتے ہیں اور ان کے لائسنس بھی ان کے ہی پاس ہیں
ملتان میں محرم الحرام سے ہٹ کر 8 ربیع الاول کو امام حسن عسکری کی یاد میں چپ کا قدیمی تعزیہ کا جلوس بھی برآمد ہوتا ہے اور یہ ناصر آباد امام بارگاہ جھک ملتان سے نکلتا ہے ، امام حسن عسکری امام مہدی کے والد تھے جن کو 28 سال کی عمر میں زھر دے کر شہید کردیا گیا تھا اور وہ آٹھ ربیع الاول کا دن تھا اور اس دن کی مناسبت سے چپ کا تعزیہ سب سے پہلے لکھنؤ ميں نکلا تھا
اس تفصیل سے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ عاشور ميں تعزیہ سازی اور جلوس کا نکالنا شیعہ اور سنّی دونوں کی مشترکہ روائت ہے اور یہ دونوں محرم الحرام میں شیعہ – سنّی اتحاد اور اشتراک کی سب سے بڑی علامت ہیں اور دیوبندی وہابی ملّاؤں کے اس پروپیگنڈے میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ تعزیہ سازی اور جلوس عاشور محض شیعہ کی روائت ہے
Comments
comments