طاہر القادری کے انقلابی دهرنے کا اختتام، سنی سیاست نے کیا حاصل کیا – خالد نورانی

10606437_784589801600419_2898782748866890419_n

انگریزی اخبار روزنامہ ڈان نے 21 اکتوبر 21014ء کی اشاعت میں اپنے رپورٹر سے ایک خبر شایع کی ، جس کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے اسلام آباد سے دهرنے کو ختم کرنے کے اعلان کو مسلم لیگ قائداعظم نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکها ہے اور اس جماعت کے سینٹر کامل علی آغا نے اخبار کے رپورٹر کو اس کی تصدیق بهی کی


اس طرح کی خبریں اور بهی اخبارات میں شایع ہوئی ہیں اور ایسے لگتا ہے جیسے دهرنے کے اختتام پر مسلم لیگ نواز اور اس کی پشت پر کهڑی دیوبندی وهابی لابی اس دهرنے کے مجموعی فیصلے میں شریک جماعتوں کے درمیان اختلاف و انتشار کی خواہش مند ہیں اور دوسری طرف ان کی خواہش ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے سنی اتحاد کونسل اور پاکستان عوامی تحریک کے درمیان جو اشتراک اور تعاون مثالی طور پر اہلسنت کی سیاست میں پہلی بار دیکهنے کو ملا ہے ،اس کو ختم کروایا جاسکے


ہم اس نازک اور اہم موقعہ پر سنی اتحاد کونسل اور پاکستان عوامی تحریک کی جملہ قیادت کو کہتے ہیں کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکهیں اور سنی سیاست کا پہلی مرتبہ جو آزادانہ اور انتہائی موثر ، اپنی شناخت کے ساته جو امیج بنا ہے ،اس کو زائل مت ہونے دیں


اس موقعہ پر ہم یہ بهی یاد کرانا اپنے سنی رہنماوں کو اپنا فرض خیال کرتے ہیں کہ ان کو پی این اے کی تحریک کے دوران اس سازش کو یاد کرنا چاہئیے جو جمعیت العلمائے پاکستان کے خلاف جماعت اسلامی نے کی تهی کہ رفیق باجوہ جوکہ جے یوپی کے جنرل سیکرٹری تهے اور انتہائی فعال اور عضب کے مقرر تهے کو حکومت سے مل جانے کا الزام دیا گیا اور ان کی جعلی تصاویر بناکر تقسیم کی گئیں اور مولانا شاہ احمد نورانی نے ان خبروں پر ردعمل دیتے ہوئے رفیق باجوہ کو پارٹی سے نکال دیا اور اس سے جے یو پی کی پنجاب میں مقبولیت میں کمی واقع ہوئی اور پهر جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو یہ ضیاء الحق تها جس نے جے یوپی کو توڑا اور سنی سیاست کو سیاسی اکهاڑے سے باہر کرنے کے لئے سنی رہنماوں کے درمیان غلط فہمیاں پهیلائیں اور کئی گروہ میں اس جماعت کو بانٹ دیا


سنی سیاست پوسٹ ضیاء دور میں رفتہ رفتہ دیوبندی وهابی سیاست کا ضمیمہ بن گئی یا پهر یہ نواز شریف کے مفادات کے گرد گهومنے لگی تهی اور سنی سیاست میں اتنی سکت نظر نہیں آتی تهی کہ یہ پاکستان کے اندر سعودی و ریاستی اسٹبلشمنٹ کے اندر بیٹهی دیوبندی وهابی لابی کی سرپرستی میں مسلسل غالب آتی دیوبندی ، وهابی ، جماعتی سیاست کا مقابلہ کرسکے اور سنی سیاست کے تشخص کو بحال کراسکے اور متحدہ مجلس عمل کے تجربے نے تو سنی سیاست کو دیوار سے لگانے کا کام کیا اور دیوبندی و مودودی سیاست کو پہلی مرتبہ پاور پالیٹکس میں خاصا ان کرڈالا اور خیبرپختون خوا میں دیوبندی چیف منسٹر ہونے کی وجہ سے پورا خیبرپختون خوا اور قبائلی ایجنسیاں سنی عوام کے لئے عذاب بن گئیں اور اس دور میں 900 سے زائد مزارات پر بم دهماکے ہوئے اور خیبرپختون خوا اور خیبر ایجنسی میں لشکر اسلام ، سپاہ صحابہ پاکستان سمیت دیوبندی دہشت گرد ، تکفیریوں نے سنی اسلام کی روح تصوف کو دفن کرنے کی سازش کی


سنی سیاست کو سب سے بڑا چیلنج نواز شریف کی سعودی نواز پالیسی اور اس کے پاکستان کی دیوبندی ، وهابی سیاسی لابی سے اشتراک تها اور ہے ،جس کی پہلی پہلی شناخت حاجی صاحبزادہ فضل کریم نے کی اور پهر اس معاملے کی تہہ تک ڈاکٹر طاہر القادری پہنچے اور سنی سیاست کا نیا ڈسکورس ہمارے سامنے ابهرا


انقلابی مارچ کے 69 دن سنی سیاست کے ایک آزاد ، خود مختار اور اپنی شناخت کو مین سٹریم دهارے میں داخل کرنے والے ڈسکورس سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہیں ہوگا انقلابی دهرنے میں ڈاکٹر طاہر القادری اور صاحبزادہ حامد رضا کی قیادت نے سنی سیاست کی امن پسندی اور دیوبندی ایوانوں سے اٹهنے والے فتنہ تکفیر و خارجیت کے خلاف موثر قوت ہونے کو بہت اچهی طرح واضح کیا اور تمام متاثرین تکفیریت و خارجیت کو ایک مرکز پر جمع ہونے کا موقعہ فراہم کیا اور اس سے اتحاد بین المسلمین کی فضا ہموار ہوئی


پوری دنیا کو یہ پیغام ملا کہ سنی اسلام کا دہشت گردی ، فرقہ وارانہ بنیادوں پر شیعہ کے قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے انقلابی دهرنے کی وجہ سے مسلم لیگ نواز اور زیادہ بے نقاب ہوئی ، عوام اہل سنت کو پتہ چل گیا کہ کیسے نواز شریف اور ان کا بهائی شہباز شریف نے پورے ملک میں مسلم لیگ کی سیاست کو دیوبندی سیاست کے ماتحت کرڈالا ہے اور اب نواز شریف کا ساته دینے کا مطلب سنی اسلام کی شناخت کو دیوبندی وهابی شناخت میں غرق کردینے کے مترادف ہے


اس دهرنے کی وجہ سے دیوبندی سیاست پوری طرح سے بے نقاب ہوگئی اور ساری عوام نے دیکه لیا کہ نام نہاد اعتدال پسند دیوبندی سیاسی جماعتیں جیسے جمعیت العلمائے اسلام ف ہے میں اور سپاہ صحابہ پاکستان ، لشکر جهنگوی ، طالبان میں کوئی فرق سنی دشمنی کے حوالے سے نہیں ہے


اس دهرنے نے نام نیاد سیکولر ، لبرل جمہوری قوم پرست جماعتوں کی اول اور دوم قیادت کے دیوبندی ازم سے لگاو اور سنیوں سے نفرت کو بهی واضح کردیا اور وہ کهل کر سامنے آگئے
دهرنے نام جہاد لبرل اور سیکولر سول سوسائٹی کے جغادریوں کو بهی بے نقاب کیا جیسے عاصمہ جہانگیر ، ماروی سرمد وغیرہ ایکسپوز ہوگئے اس دوران سلیم صافی ، حامد میر ، انصار عباسی ،اوریا جان مقبول کی دیوبندیت کا پول تو کهلا ہی ساته ہی نجم سیٹهی ، نصرت جاوید ، ابصار عالم سمیت کئی ایک لبرل صحافیوں کے دیوبندی تکفیری ملائیت سے اتحاد بهی واضح ہوکر سامنے آگیا


انقلابی دهرنے نے ایک اور کام بهی بالواسطہ کیا اور وہ کام تها پاکستان تحریک انصاف کے طالبان نواز امیج کے بتدریج کم یونے اور دهندلے پڑجانے کا اور خود عمران خان کا اپنی سیاسی سرگرمیوں میں صوفی سنی اسلام کی طرف جهکاو کا تاثر دینے کا


نعرہ رسالت و نعرہ حیدری کی پی ٹی آئی کے جلسوں میں گونج انقلابی دهرنے سے اشتراک کا نتیجہ تهی ابتک ڈاکٹر طاہر القادری اور حامد رضا کی باہمی تعاون کی سیاست نے سنی کاز کو مضبوط کیا ہے اور مجموعی سنی سیاست پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اگر اس دوران پاکستان سنی تحریک ، نظام مصطفی پارٹی ، جمعیت العلمائے پاکستان کے قائدین اور رہنماوں کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ اگرچہ انہوں نے دهرنے اور ایجی ٹیشن سے خود کو فاصلے پر رکها لیکن ان جماعتوں کی جانب سے تکفیریت ، سعودی نواز سیاست کے خلاف تنقید میں شدت آگئی اور حال ہی میں ان تنظیموں نے کراچی سے تحفظ مزارات تحریک چلانے کا اعلان کیا اور بہت واضح طور پر خود کو دیوبندی وهابی سیاست سے دور رکها


یہ بات باعث اطمینان ہے کہ آج علامہ ثروت قادری ، علامہ حامد سعید کاظمی ، صاحبزادہ مظہر سعید کاظمی ، حاجی حنیف طیب سمیت تمام سنی سیاسی قیادت نواز شریف کیمپ سے دور ہے اور ان میں سے کوئی ایک بهی پی این اے یا ایم ایم اے ٹائپ کی سیاسی اتحادوں کی سیاست کرنے پر تیار نہیں ہے سنی سیاست میں یہ تبدیلی بہت خوش آئیند ہے اور اس دهرنے نے اس کو پر لگائے ہیں
سنی سیاسی قیادت اس بات پر متفق ہوتی نظر آتی ہے کہ پاکستان کے اندر اسلام کی تعبیر کا ٹهیکہ سعودی عرب اور اس کے گماشتوں دیوبندی وهابی لابی کو نہیں دیا جائے گا اور خارجی و تکفیری دہشت گردی کو جہاد ثابت کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی


سنی سیاست نے عاشور اور عیدمیلادالنبی کے جلوسوں کو بند کرانے اور سنی اسلام کو وهابیانے کی اجازت دینے سے انکار کیا اور اس کے خلاف مزاحمت کی ہے اور مرکزی سیاست کے دهارے میں واپسی ہوئی ہے ، یہ اتنے بڑے حاصلات ہیں کہ جن کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے ہم سنی اتحاد کونسل کے چئیرمین صاحبزادہ حامد رضا سے امید کرتے ہیں کہ وہ پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان سنی تحریک کے درمیان موجود فاصلوں کو مٹانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے کم از کم پاکستان میں پاکستان عوامی تحریک ، پاکستان سنی تحریک ، سنی اتحاد کونسل اور نطام مصطفی پارٹی کے درمیان اتحاد کے لئے کوششیں ہموار کریں گے اور ہم صاحبزادہ ابوالخیر اور جگر گوشہ الشاہ احمد نورانی صدیقی مولانا انس نورانی سے بهی کہتے ہیں کہ اگر وہ دفاع اسلام کونسل میں جاسکتے ہیں تو طاہرالقادری ، صاحبزادہ حامد رضا کے ساته بیٹهنے میں کونسی روکاوٹ حائل ہے ؟ سنی کاز کے لئے اور پاکستان میں امن و آشتی کے لئے سب سنی تنظیموں کو مل بیٹهنے کی ضرورت ہے

Source:

https://www.facebook.com/783185035074229/photos/a.784566704936062.1073741828.783185035074229/784589801600419/?type=1&fref=nf

Comments

comments