کیا یہی ہمارا قومی کرداراور تبدیلی ہے؟ – از عمار کاظمی

img_5281_bilawal-bhutto-zardari-full-speech-in-ppp-jalsa-karachi-18-october-2014

اتنا بلاول کے جلسے کی ناکامی یا کامیابی ہٹ کر مجھے انتہاءی معزرت سے کہنا پڑتا ہے کہ کل کے جلسے کے بعد پاکستان کے بعض نوجوانوں کے تاثرات انتہاءی مایوس کن تھے۔ کوءی سینا پھلاءے بیٹھا تھا کہ بلاول نے اپنے جلسے میں جنوبی پنجاب کا زکر کر کے جنوبی پنجاب کے غریب عوام پر بہت بڑا احسان کر دیا۔ تو کوءی اس بات پر پھولا نہیں سما رہا تھا کہ بلاول نے شیعہ ہزارہ، پارہ چنار کے لوگوں کی نسل کُشی کی بات کر دی۔ وہ طالبان کے خلاف بولا۔ یہ بولنا آج کے دور میں ایسا ہی ہے جیسے کل پرانی پیپلز پارٹی میں جیالے اپنے اپنے مقامی نبرداروں کے لیے یہ بات بہت فخر سے بتایا کرتے تھے کہ۔”بی بی نے اسے نام لے کر بلایا تھا

اس جدید دور میں جب انٹرنیٹ سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک ہر ہر جگہ حقاءق دکھاءے جا رہے ہیں اس سب کے بعد یہ ذہنیت انتہاءی مایوس کن غلامانہ فہم کی علامت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ کس لیڈر نے کسی کا نام لیا اور کس نے نہیں لیا اس سے زیادہ اہم بات اس کا عمل ہے۔ اس کی سیاسی جماعت کی پالیسی ہے۔ کیا پیپلز پارٹی نے گزشتہ سات برس میں فرقہ وایرت کے خلاف کوءی واضع پالیسی دی؟ کیا پیپلز پارٹی نے پانے پانچ سالہ دور اقتدار میں جنوبی پنجاب کے مساءل حل کیے؟ اگر کچھ کیا ہوتا تو بکسے سے چھ ہزار ووٹ نہ نکلتے۔ بہر حال میرا اس وقت کا موضوع نوجوان نسل کی وہ مایوس کن ذہنیت ہے جس میں آج بھی جمہوریت سے زیادہ غلامی یا نفرت کا عنصر نمایاں ہے۔

دوسری طرف جو نوجوان سل مایوس کن ہے اس کی تمام تر بنیادیں ہمیشہ کی طرح پیپلز پارٹی سے نفرت پر استوار ہیں۔ بلاول پر طرح طرح کے غیر اخلاقی الزامات جن کا اس کی سیاست کوءی تعلق نہیں۔ “بلاول گے ہے” بلاول لڑکی باز” “بلاول پونکا” جیسے گھٹیا القاب۔ یہ وہی پست ذہنیت ہے جو کبھی مسلم لیگ نواز اور جماعت اسلامی کے گندے ذہنوں میں نمایاں تھی۔ اور سوشل میڈیا پر یہ سب باتیں لکھنے والے اچھے بھلے پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔ پتا نہیں یہ ہمارے نظام تعلیم کا قصور ہے یا ان کے گھروں کی تعلیم و تربیت کا کہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان کے پاس مخالفت میں لکھنے کے لیے کوءی پڑھی لکھی دلیل یا مہذب تنقید نہیں ہوتی۔ اتنے برسوں میں زندگی کے ہر شعبے میں اتنی ترقی کے بعد ہم نے کیا سیکھا ہے؟

یہ بلاول کی کردار کُُشی کریں گے اور جواب مین وہ عمران یا نوازشریف کی کردار کُشی کریں گے۔ وہ جمہوریت کی بجاءے بلاول کی غلامی کریں گے اور یہ عمران، قادری یا نواز پالتو بدماشوں کی طرح بلاول کو گالیاں دیں گے۔ کیا یہی ہمارا پڑھا لکھا قومی قردار یا تبدیلی ہے؟ اگر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود نوجوانوں نے یہی کچھ کرنا ہے تو معذرت کے ساتھ پھر ان سے جعلی ڈگری والا جمشید دستی بہتر۔

Comments

comments