کرد گوریلا خواتین کی جدوجہد ۔ سامراجیت اور جنگجو مزاحمت کار عورتوں کی فیٹشائزیشن
آج کل مغربی میڈیا ، سوشل میڈیا میں کرد عورتوں کی عسکری تنظیم پی وائی جے کی داعش کے خلاف جدوجہد بارے بہت کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے اور فیشن انڈسٹری بھی پیچھے نہیں رہی ، اس نے کرد گوریلا خواتین جو خاکی گرین جمپ سوٹ پہنتی ہیں ،ان کو فیشن کے طور پر متعارف کرایا ہے ، ایک سویڈش فیشن ٹیلر کمپنی ایچ اینڈ ایم نے جب اس کو بطور ماڈرن فیشن کے متعارف کرایا تو اس پر کردوں کی جانب سے تو سخت تنقید ہوئی بلکہ فیمنسٹ حلقوں نے بھی اس پر سوال اٹھائے
فیمنسٹ حلقوں کو پی وائی جے کی گوریلا خواتین کی مغربی پروجیکشن اور اس حوالے سے ہونے والی میڈیا رپورٹنگ اور سرخیوں وغیرہ پر تشویش ہے اور وہ اسے عورت مخالف پدرسری طاقت کی تجسید قرار دے رہے ہیں
رقیہ شمس الدین لبنانی نژاد امریکی فیمنسٹ سکالر خاتون ہیں ، اور ” لیٹرز فرام انڈر گراؤنڈ ” کے عنوان سے کالم لکھتی ہیں ، ان کے اکثر آرٹیکل عرب ملکوں کے اخبارات اور جرائد میں شایع ہوتے رہتے ہیں ، ابھی کچھ دن پہلے انہوں نے کرد گوریلاجنگجوؤں میں خواتین گوریلا فائٹرز کا معروف یونٹ پی وائی جے کی داعش کے خلاف شام میں جنگ کے حوالے سے ایک آرٹیکل لکھا جس کا عنوان تھا
Women as tools: on the selective fetishization of female resistance fighters.
یہ آرٹیکل کرخواتین گوریلا فائٹرز خواتین کی داعش کے خلاف عین العرب – کوبانی میں لڑائی کو مغربی میڈیا کی جانب سے ایک انوکھی اور فیسی نیٹ جدوجہد کے طور پر پیش کرنے اور ان گوریلا خواتین کے مخصوص جمپ سوٹ کو ان سے ہی حاص کرنے پر فیمنسٹ تنقید پر مشتمل ہے اور میں نے کم از کم پاکستانی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا و سوشل میڈیا میں اس حوالے سے ابتک کوئی نوٹ یا پوسٹ ، آرٹیکل ، فیچر نہیں دیکھا
رقیہ شمس الدین نے اپنے ارٹیکل کے آغاز ہی میں ایک زبردست آئيڈیالوجیکل رجحان کی طرف اشارہ کیا ہے جوکہ اس کے خیال میں جنگ کے دنوں میں عام طور پر اور جنگ میں شریک ہوجانے والی عورتوں کے حوالے سے پدر سری معاشروں میں دیکھنے کو ملتا ہے
رقیہ اس کو فیٹشائزیشن آف ویمن کہہ کر پکارتی ہے اور وہ اسے جنگ میں مصروف عورتوں کی فیٹشائزیشن کا نام دیتی ہے اور اس کے خیال میں یہ پدر سری تجریدی طاقت کی ٹھوس مادی و تجسیمی شکل کا اظہار ہوتا ہے ، وہ لکھتی ہے کہ
The fetishization of women during times of war, especially women in combat, can be argued as being a reification of patriarchal power; the patriarchal view of female violence as being a demonstration of chaos reimagined as tolerable and even acceptable so long as this violence serves patriarchy, militant or otherwise. Despite the female identity being granted space for violent expression, the sexualization of these spaces and the bodies which take up these spaces, has become normalized.
عورتوں کی جانب سے تشدد تشدد کئے جانے بارے جو تصور پدر سریت کے حامی دانشوروں میں پایا جاتا ہے اس کی دوبارہ سے ایسے تشکیل کہ اس کا جواز فراہم کیا جائے رقیہ کے بقول جنگ کے دنوں میں اس وقت کیا جاتا ہے جب عورتوں کا یہ تشدد پدر سریت کی خدمت کررہا ہو اور پدر سری عسکریت پسندی کا خادم ہو تو نسائی شناخت کے حامل اس تشدد کے اظہار کے لیے جگہ اور ان جگہوں میں نسائی اجسام کے آنے کو قول کیا جاتا ہے اور اسے نارملائزڈ بھی کیا جاتا ہے
رقیہ اسی تناظر میں یہ بھی بتاتی ہے کہ “عورتوں کے تشدد اور ان کی عسکریت پسندی یا سیاسی وآئلنس کی فیٹشائزیشن ” کا اسی طریقہ کار اور ٹون کے ساتھ ہر اطلاق نہیں کیا جاتا ، بلکہ کئی ایسے گروپ جو اسی طرح کی فیٹشائزیشن کا کریکٹر رکھتے ہیں ان کو اس سے خارج کردیا جاتا ہے
رقیہ ایک 21 سالہ آرٹسٹ عاور حسینی کا حوالہ دیتی ہیں جوکہ کہتی ہے کہ یہ جو کردش ویمن پی وائی جے گوریلا یونٹ ہے اس کے بارے میں مغرب کے اندر ہم جو فیسی نیشن دیکھ رہے ہیں اس کی جڑیں سرمایہ داری کے ڈھانچے میں پیوست ہیں ، یہ سرمایہ داری کسی بھی شئے سے پیسے بنانے کے بارے میں سوچتی ہے تو میڈیا عورتوں کی جدوجہد کو مردوں کی طرح سے پیش کرے گا تو جنگ کے حوالے سے اس کی میڈیا پروڈکشن ویسے نہیں بکے گی جیسے کرد گوریلا عورتوں کی لڑائی کو ایک خاص الخاص انوکھا عمل بناکر دکھانے کی وجہ سے بک رہی ہے
مغربی میڈیا کرد گوریلا عورتوں کا داعش کے خلاف لڑنا ، ایسے دکھارہا ہے جیسے کرد عورتیں صرف داعش سے ہی لڑنے باہر آگئی ہیں اور اس سے پہلے تو وہ میدان کارزار میں تھیں ہی نہیں
عاور حسینی کہتی ہیں کہ
کر د گوریلوں چاہے وہ مرد ہوں کہ عورتیں ، ان کی جدوجہد کا حسن یہ ہے کہ وہ ہر عورت اور مرد کے حق کے لیے لڑرہے ہیں جو داعش کے ظلم کا نشانہ بنے ہیں ،چاہے ان مردوں اور عورتوں کی نسل اور مذھب کچھ ہی ہے ، اور میرے خیال میں مغربی میڈیا اس جدوجہد کی اس خوبصورتی کو پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ وہ اس خوبصورتی کو ہضم نہیں کرپاتے
وائی پے جے کرد عورتوں کی صرف ایک عسکری گوریلا ملیشیا ہی نہیں ہے بلکہ یہ مردوں اور عورتوں کی برابری کی تحریک ہے جو کرد سماج کے اندر عورتوں کے لیے مخصوص قسم کے نام نہاد نسائی کردار اور کام کی ادائیگی پر اصرار کرنے والے سماجی تصورات اور رواجوں کے خلاف جدوجہد کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے اور آج وائی پی جے کی جدوجہد کو پیش کرتے ہوئے مغربی میڈیا اس پہلو کو پیش کرنے سے قاصر رہا ہے
رقیہ کہتی ہے کہ مغربی میڈیا پی وائی جے میں شامل کرد گوریلا عورتوں کی جانب سے داعش کے ممبران کو مارنے اور ان کے خلاف عسکری جنگ لڑنے کو سرخیوں میں ایسے پیش کرتی ہے جیسے کرد گوریلا عورتوں کی یہ جدوجہد داعش کے خلاف شروع ہوئی ہو اور اس سے پہلے یہ کرد خواتین گھریلو عورتیں ہوں ، یہ تصویر شرمناک ، حقائق چھپانے والی ہے
کرد عورتیں کئی عشروں سے اپنے حقوق کی جنگ لڑرہی ہیں اور پی وائی جے یونٹ کرد عورتوں کی برابری کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ کردوں کی آزادی کی جنگ میں بھی کرد مردوں کے شانہ بشانہ لڑرہا ہے
رقیہ کہتی ہے کہ داعش کے خلاف کرد خواتین کی گوریلا لڑائی کو مغرب جس طرح سے پیش کررہا ہے ،وہ دنیا بھر میں چلنے والی مزاحمت و آزادی کی تحریکوں میں شریک عورتوں کی جدوجہد کو چھپانے کے مترادف بھی ہے
رقیہ مغربی فیشن انڈسٹری کی جانب سے پی وائی جے کی گوریلا خواتین کی یونیفارم کو بھی ایک فیشن پروڈکٹ بنانے اور اسے کرد عورتوں سے مخصوص کرنے کے بڑھتے رجحان پر بھی تنقید کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ کیسے کرد گوریلا عورتوں کے پہنے جانے والے جمپ سوٹ کو فیشن کے طور پر متعارف کرایا جارہا ہے
ایک سویڈش ریٹیل کلوتھنگ کمپنی آیچ اینڈ ایم نے حال ہی میں ایک جمپ سوٹ بطور کردش انسپائرڈ جمپ سوٹ کے طور پر مارکیٹ میں پیش کیا ، جس پر اسے سوشل میڈیا پر خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے اس پر معافی مانگ لی
اس معافی پر امریکی جریدے فارن پالیسی کے اسسٹنٹ ایڈیٹر الیس گرول نے یہ خیال ظاہر کیا کہ ایچ اینڈ ایم کمپنی کو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں تھی اور اس طرح کے کردش انسپائرڈ جمپ سوٹ سے کرد گوریلا عورتوں کو ژزید توجہ ملتی اور لوگوں کو پتہ چلتا کہ پی وائی جے کرد عورتوں کا یونٹ کتنا زبردست ہے جو داعش کے خلاف لڑرہا ہے
الیس گرول پہلا آدمی نہیں ہے جو اس خاص قسم کی ڈریس فیٹشائزیشن کو ، کرد گوریلا عورتوں کی جانب سے کیموفلاج عسکری ڈریس پہنے جانے کو ان سے خاص کرکے دکھانے کو ،اور اسے بطور کردش فیشن جمپ سوٹ کے طور پر پروموٹ کرنے کو ان کے لیے توجہ کا باعث قرار دے رہا ہے ، بلکہ اس طرح کی سوچ جوکہ ادارہ جاتی نسل پرستی کی شکل ہے رکھتی ہے
رقیہ کے خیال میں یہ کردوں کی ایک ہمہ جہت جدوجہد کو فلم کے ٹریلر میں بدلنے کے مترادف ہے جس کا نام
” کرد گوریلا عورتیں بمقابلہ داعش ” ہے
رقیہ فیشن انڈسٹری میں عورتوں کی عسکری جدوجہد کے دوران سامنے آنے والی بعض ثقافتی علامتوں کو فیشن میں ڈھالنے اور پیسہ کمانے کا زریعہ بنانے کے اس عمل بارے ٹھیک طور پر یہ کہتی ہیں کہ یہ عمل فیشن انڈسٹری میں نیا نہیں ہے ، فلسطینی عورتیں اسرائیل کے خلاف عسکری جدوجہد میں جو کفایہ استعمال کرتی رہیں ، وہ بطور فیشن مغرب اور مشرق میں یکساں مقبول رہے لیکن رقیہ کہتی ہیں کہ فلسطینی عربی کفایہ تو مغربی فیشن انڈسٹری میں مقبول ہوئے لیکن فلسطینوں کی جدوجہد اور ان کی عسکری بغاوت کو مغرب اور خاص طور پر امریکیوں کے ہاں وہ قبول عام نہیں ملا جو پی وائی جے کی کرد گوریلا عورتوں کی داعش کے خلاف جدوجہد اور مزاحمت کو لتا ںظر آتا ہے
اس کی وجہ امریکیوں کی اکثریت کا اسرائیل اور اسرائیلی حکومت نواز ہونا تھا ،اسی لیے لیلی خالد اور اس کی جدوجہد مغرب میں ایک فیسینیٹ عمل کے طور پر نہیں دیکھی گئی ، بلکہ اس کو دھشت گردی کے طور پر تعبیر کیا گیا
رقیہ کے یہ جملے قابل غور ہیں جو اس نے فلسطینی عورتوں کی مزاحمت اور کرد عورتوں کی مزاحمت بارے مغرب کے دوھرے ردعمل اور متضاد رويے کو بے نقاب کرنے کے لیے لکھے ہیں
critics have long associated female Palestinian resistance with subservience and sexual inhibition while, as we see recently, offering Kurdish women fighters a place of subservience to patriarchy without the disdain. Women are allowed to travel outside what society deems their natural status, that of beautified nurturers, and take part in the horrors of war so long as their targets are castigated by those in power, and in the case of Palestinian resistance this is a hard sell for Americans, for example, who remain unashamedly pro-Israel. Regardless, both associations are destructive as they identify women as tools in conquest or tools of conquest, and while presently Kurdish violence in the vacuum of resistance against ISIS is righteous we notice that Palestinian violence exerted in response to brutal settler-colonialism is reviled.
عورتوں کی برابری کا ایک طویل عرصے سے کام کی جگہ ، ٹریڈ یونین ، سیاسی جماعتیں ، اکیڈیمک انسٹی ٹیوشن وغیرہ میں انکار کیا جارہا ہے ، جہاں پر ان کے ساتھ برابر کے انسان کا سلوک روا نہیں رکھا جاتا ، کام کی جگہ پر ان سے ناانصافی جاری ہے ، لیکن جنگوں میں عورتوں کے ایک پیچیدہ اور تہہ دار موضوع کے طور پر جنگ کا حصّہ ہونے یا جنگ کا نشانہ ہونے کو معمول کی اشیاء کی تاریخ کے طور پر ویسے ہی پیش کیا جارہا ہے ،جیسے پیش کیا جاتا رہا ہے اور ان کو ایسے ماحول میں کاموڈوفائی کیا جارہا ہے جو زیادہ تر ، بہت زیادہ عورت مخالف اور ان کا سب سے زیادہ استحصال کرنے والا ہے
رقیہ شمس الدین جنگ اور تنازعوں میں عورتوں کی عسکریت پسندی اور ان کے جنگ کا نشانہ بن جانے پر مغربی میڈیا کی ڈیلنگ اور ان کی جدوجہد کو سرمایہ داری سٹرکچر میں دیکھے جانے کے عمل پر اس تنقید کے ساتھ سامنے آئی ہیں جو میڈیا اور سوشل میڈیا میں بہت کم دیکھنے کو ملی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں فیمنسٹ حلقے اس تنقید میں اپنی بصیرت کے ساتھ مزید اضافہ کریں گے
http://aamirfiction.blogspot.com/2014/10/blog-post_17.html
http://english.al-akhbar.com/content/women-tools-selective-fetishization-female-resistance-fighters
http://roqayah.co/about/
http://www.ibtimes.co.uk/fashion-house-hm-denies-khaki-green-jumpsuit-based-kurdish-female-fighters-uniform-1468782
https://www.yahoo.com/style/h-m-kurdish-fighters-apology-99412095013.html
Comments
Tags: Iraq, ISIS Daesh ISIL, Kurds, Syria & Syrian Civil War, Turkey